بدھ، 1 ستمبر، 2021

Meri Kahani Meri Zubani Episode 20


   Meri Kahani Meri Zubani


Episode 20


جیسے رات کی رانی کی مہک کا سحر۔۔ ایسے ہی رضائی میں منہ دیے انکی سرگوشیوں کا دلکش احساس۔۔جادوئی طلسماتی لمحات۔۔ وہ کہنے لگیں۔۔ بلکہ یہ زیادہ اچھا ہے تم ادھر رہو۔۔ میرے بابا نے بہت شوق سے بنوایا تھا گھر۔۔ باقاعدہ انیکسی بنی ہوئی ۔۔ آپ وہاں رہنا۔۔ اندر والے کمرے تو مدت سے بند ہیں۔۔ انیکسی کبھی کبھی پھر بھی آباد ہو جاتی ۔۔ وہیں ہماری جو ماسی تھی نا وہ پچھلی طرف کوارٹرز میں رہتی ہے۔۔اس کا بتا دونگی میں بلکہ رقعہ لکھ دونگی ۔۔ وہ صفائی ستھرائی کر دے گی۔۔سمجھیں ماسی نہیں ۔۔ آیا تھی میری وہ۔۔ بچپن سے والدین کی وفات تک انکے ساتھ ہی رہی۔۔ اب بھی کبھی کبھی ملاقات ہو جاتی


انکی باتیں میری ہمت بندھا رہیں تھیں۔۔ یہ انکی دوستی کی عزت کا سوال تھا کہ میں یہاں سے کامیاب واپس جاتا۔۔ وہ کہہ رہیں تھیں کہ میری خوشی اسی میں کہ میں کامیاب ہوں تب ہی وہ میری دوست میری سہیلی ورنہ شکوہ انکا۔۔صبح اٹھ کر انکل اور آنٹی سے بہانہ بنا کر بہت مشکل سے اجازت ملی وہ اس شرط پر کہ چھٹی کا دن میں گھر گزاروں گا اور جیسے ہی مقابلے ختم ہوئے میں واپس آ جاوں گا۔انہیں اتنا پتہ تھا کہ میں سپورٹس کیمپ میں رہوں گا۔۔۔ضروری سامان کی پیکنگ کر لی۔۔ دل بہت اداس تھا۔۔جیسے کچھ کھو چکا ہو


بہت ضروری سامان لیکر میں بوجھل دل اور بہت ہمت جمع کرکے گھر سے نکل آیا۔۔۔ ابھی اتوار میں چار دن باقی تھے اور چار دن عمبرین سے جدائی۔۔ حالانکہ ابھی میں نے ان سے باقاعدہ اظہار محبت نہیں کیا تھا۔۔ اور شائد انہیں مجھ سے محبت نہیں بس لگاو تھا سب بس اشاروں میں باتوں کے انداز میں چھپا ہوا تھا۔۔ چھپی ہوئی محبت جیسے دل کی زمین کے اندر پنپتا شجر محبت ۔ جو ابھی زمین سے باہر نا نکلا تھا بس اندر ہی اندر ہلکی حرکت تھی دل کی زمین اندر سے نرم ہو چکی تھی ۔۔انہی سوچوں میں بیگ اٹھائے جا رہا تھا جب کسی نے یکدم مجھے آواز دی

میں نے مڑ کر دیکھا وہ ناصر تھا۔۔میں نے اسے بتایا کہ میں کچھ دنوں کے لیے ہاسٹل شفٹ ہو رہا ہوں گیمز کے لیے۔وہ بہت خوش ہوا اور رشک بھری نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔۔اور بولا قسمت ہے بھئی ۔۔ ہمیں کھیلنےپر ڈنڈے پڑتے آپکو سراہا جا رہا۔۔میں مسکرا دیا۔۔ کہتا آپ سے زیادہ بات نہیں ہو پائی لیکن بہت اچھا لگا ۔۔ دلاور بھائی کے برعکس وہ تو سمجھو ہر وقت عجیب موڈ میں رہتے دل نہیں کرتا تھا ۔۔ میں نے کہا اچھا یار مجھے نہیں علم ۔

میری ان سے بس سرسری سی ملاقات۔۔اچھا ہے نہیں ملاقات ۔۔ آپ یقین کریں عمبرین بھابھی جتنی اچھی جتنی نرم دل وہ اتنا ہی عجیب ۔ اسکا چہرہ عجیب سے تاثرات سے بھرا۔۔ جیسے کوئی تلخ یاد آ گئی ہو۔۔ پتہ ہے ایکبار میرے سامنے انہوں نے بھابھی کو سیڑھیوں سے دھکا دیا ۔۔شکر ہے بچت ہو گئی ورنہ چہرے کا کباڑہ ہو جانا تھا۔۔ وہ اپنی جھونک میں بولی جا رہا تھا اور عمبرین کے دھکے انکے گرنے کا سن کر میرا جیسے انگ انگ کٹ کر رہ گیا۔۔ مجھے لگا کہ ناصر کو اس معاملے میں کریدنا چاہیے اسکے لیے ضروری تھا کہ اس سے دوستی کو بڑھایا جاے۔۔میں نے ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اسے کہا ۔۔ اگر اسے بھی گیمز کا شوق تو جسے ہی واپس آتا ملکر کھیلیں گے۔۔ وہ بہت خوش ہوا۔۔


لاہوری بچہ تھا ۔۔ابھی انٹر میں تھا لیکن کافی ہوشیار تھا۔۔ ورنہ مجھے تو اصل چالاکیاں لاہور ہی آ کر پتہ چلیں

میں نے پوچھا اور سناو ٹرپ کیسا رہا۔۔ وہ خوشی سے جھوم اٹھا اور بولا کہ بہت مزہ آیا ۔ میں نے بےتکلفی کو بڑھانے کے لیے اگلا سوال کیا ۔۔ اور تمہاری گرل فرینڈ کیسی۔۔ وہ جھینپ کر بولا ٹھیک ہے اس سے ملنے کو دل کرتا ہے لیکن جگہ نہیں ملتی ۔۔ میرے ذہن میں اچانک بجلی کوندی اور میں نے بولا اگر جگہ کا ارینج ہو جاے تو۔۔ تو موجاں ہی موجاں اس نے چہکتے ہوے کہا۔۔ میں نے کہا اچھا ۔۔ چلو تم اس سے بات کرو میں جگہ بنا دوں گا۔۔ لیکن ۔۔ اسکا چہرہ جو خوشی سے جھلمل کر رہا تھا اچانک سنجیدہ ہوا اور بولا لیکن۔۔میں نے کہا لیکن یہ ہمارے درمیان پکا راز رہے گا۔۔

اس نےہاتھ ملا کرپکی دوستی کا وعدہ کیا۔۔۔ اور میں ذہن میں اگلے منصوبے بناتا کالج کو روانہ ہوگیا۔ شیڈول کے عین مطابق ایڈمن و سپورٹس انچار ج میڈم رفعت نے بارہ بجےکے بعد ہماری لیوو کنفرم کر دی۔۔ اور ہم دونوں کالج سے نکل کر کالج وین سے گلبرگ کو نکل پڑے۔۔ راستے میں اسے میں نے بتایا کہ میرا گلبرگ میں ہی قیام ہو گا۔۔وہ سن کر بہت خوش ہوئی اور پوچھا کہاں۔۔ میں نے جیب سے عمبرین کا دیا ایڈریس اسے دکھایا۔۔ واوو یہ تو قریب ہی ہے ہمارے گھر کے ۔۔ ہمارے گھر والے سگنل سے رائیٹ جاو تو تھوڑا آگے

گلبرگ فروس مارکیٹ اتر بیلا نے مشورہ دیا کہ ابھی دن کا وقت ہے جا کر ایک بار تمہاری قیام گاہ دیکھ لیتے ہیں۔۔ میں نے پہلی بار پورےدل سے اسکی حمایت کی ورنہ اکثر اسکی دھونس مجبوری بنتی تھی۔۔وہ گلبرگ کی پیداوار تھی تھوڑی دیر میں ہم عمبرین کے گھر کے سامنے کھڑے تھے۔۔ گھر کے باہر نیم پلیٹ پر آشیانہ لکھا ہوا تھا۔۔ یہ ایک چھوٹا سا بنگلہ ٹائپ گھر تھا جسکی بیرونی دیواروں کا عدم توجہ سے پینٹ اتر چکا تھا۔۔ ایک یاسیت تھی اس گھر کےدرو دیوار پر ۔۔ جیسے کسی کا آشیانہ آندھیوں میں بکھر چکا ہوا ویسی یاسیت۔۔۔ میں نے جیب سے چابی نکالی اور دروازہ کھول کر اندر چلے گئے۔۔ اندر وہ ہی حال تھا جو ایسے گھروں کا ہوتا۔۔ لان کی بڑھی ہوئی گھاس۔۔ سامنے گیراج اور چھوٹے سے برآمدے میں اڑتے پتے اور مٹی۔۔۔ ہم نے گھر کا اندرونی بیرونی جائزہ لیا۔۔۔۔ گھر بہت معیاری بنا ہوا تھا۔۔ مین دروازے کے آگے ہال و لاونج تھا۔۔۔سامنے ڈرائنگ روم ۔۔ہال سے اوپر کوسیڑھیاں جاتیں۔۔۔ اوپر رہائشی کمرے تھے۔۔۔ ہر طرف ہلکی گرد اور عرصہ بند رہنے والی باس تھی۔۔۔ ہاں یہ عمبرین کا گھر تھا۔۔۔ جہاں اس نے اپنے بہترین دن گزارے ۔۔ جہاں وہ زندگی کو انجوائے کیا۔۔ یہ گھر اسکی اچھی بری یادوں کا مسکن تھا۔۔۔ہم دونوں واپس باہر آ گئے۔۔ اور باہمی فیصلے سے سوچا کہ اوپر بہت سناٹا اور باس سی۔۔ اسکے برعکس ۔۔ گھر کا نچلا حصہ اور انیکسی کافی حد تک بہتر تھیں۔۔ جہاں بقول عمبرین کے کبھی کبھی صفائی ستھرائی ہو جاتی تھی۔۔اس دن مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بیلا میں کسی حد تک لڑکیوں والی روح موجود۔۔۔ اس نے انیکسی میں تھوڑی سی جھاڑ پونچھ کی۔۔۔ کھڑکیاں کھولیں۔۔ مجھے بھیج کر ائیر فریشنر منگوایا۔۔۔ گھر کی لائٹس وغیرہ چیک کیں۔۔ شکر ہے سب چالو تھا۔۔ یقینا عمبرین اس گھر کے بلوں سے غافل نا تھی۔۔ آخر اسکا میکا تھا یہ ۔۔ میکا جو مان ہوتا ہے سب لڑکیوں کا

اور جب بیلا سب کاموں سے فارغ ہوئی تو اسے دیکھ کر میری ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔ اسکا چہرہ باب کٹ بال سب گرد سے اٹے تھے۔۔۔ مجھے ہنستا دیکھ کر وہ ٹھٹھکی پھر سامنے شیشے میں دیکھ کر سمجھی اور رک نواب نا ہو تو۔۔ تیرے کام میں ذلیل ہوئی ورنہ میں کبھی گھر داری نہیں کی یہ کہتی میری طرف لپکی۔۔ میں باہر کو بھاگا۔۔ لان میں ادھر ادھر۔۔ لیکن وہ بیلا تھی ۔۔ اسے میں نے وہ جھکائیاں دیں جو دے سکتا تھا لیکن اس نے ہر جھکائی سے سنبھل کر مجھے اڑنگا لگایا اور میں سیدھا لان کی گھاس پر۔۔اور بنا سوچے سمجھے پہلوانوں کی طرح میرے اوپر آ بیٹھی اور گلا دباتے ہوئے بولی اب ہنسو۔۔ بولو۔۔ وہ بلکل عام لڑکیوں سے ہٹ کر مردانہ انداز والی لڑکی تھی۔۔ جب میرا گلا زیادہ دبنے لگا تو میں نے جوابی زور لگایا۔۔۔ جو بھی تھی آخر کو لڑکی تھی۔۔ میں اسے نیچے گرا کر اسکے اوپر ٹانگ رکھ دی جیسے پہلوان داو لگاتے۔۔ وہ زور سے چیخی اففف مر گئی۔۔ پرے مرو پینڈو توبہ کتنا وزن تمہارا میں شوخی میں تھوڑا اور اوپر آیا۔۔۔ اسکا چہرہ وزن سے لال ہو چکا تھا۔۔ تھی بھی تو نکو سی لڑکی

#fkniazi555.blogspot.com

ہم دونوں کو خبر نا تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔۔ میں تھوڑا جھکا اور کہا ہونہہ بڑی بنتی تھی پلئیر اب بولو۔۔ ایسے جھکنے سے میری گرم سانسیں اورمیرے کولون کی مہک یقینی اسے محسوس ہوئی ہوگی۔۔اچانک اسکا چہرہ جیسے گھبرایا جھجھکا۔۔اس نے آہستگی سے بازو چھڑانے چاہے۔۔ میرے اندر بلکل کسی طرح کی ہوس نا تھی اور نا ہی مجھے اس میں کبھی لڑکیوں والا کچھ فیل ہوا۔۔میں نے ویسے ہی مستی میں بازو ہلکے سے دبائے اور کہا نہیں چھوڑتا میرا آئیڈیا تھا کہ وہ کوشش کرے گی ۔۔ ہمت نہیں ہارے گی لیکن جانے کیوں اسے نے پھر کمزور سے انداز میں مزاحمت کی اور روہانسے انداز میں بولی نعیم چھوڑو نا۔۔اسکے چہرے ر گھبراہٹ نمایاں تھی جیسے رو پڑے گی۔ میں جلدی سے اترا اور کہا کیا ہوا یار۔۔اس نے کہا کچھ نہیں بہت بدتمیز ہو تم۔۔۔ میں نے منہ بناتے ہوئے کہا تمہی نے بنایا ۔۔گاوں سے تو سیدھا سادھا آیا تھا۔۔ وہ پھر بولی اسی لیے شریف بھی ہو اسی لیے دوست بھی۔۔ شریف اور دوست کہتے اسکے چہرے پرہلکی سی لالی اور اعتماد کہتے فخریہ مسکان ابھری۔۔اب اٹھو چلو اس نے کھڑا ہوتے ہوے کہا۔۔ تمہاری ساری مستی فٹ کرتی پریکٹس میں۔۔ میں نے بیٹھے بیٹھے نارمل ہاتھ بڑھایا اور کہا اٹھانا یار۔۔ اس نے کہا جی نہیں اٹھو مرو خود ہی خلاف توقع اس نے ہاتھ نہیں بڑھایا۔۔ جو اسکی عادت کے خلاف تھا۔۔ وہاں سے اسکے گھر پہنچ کر اس نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔۔ کچھ دیر بعد آنٹی نے جوس لا کر دیا اور کہا لنچ تیار ہے۔۔۔ تم لوگ لنچ کرلو پھر کرتے رہنا جو کرنا

کچھ دیر بعد انکل بھی آ گئے۔۔ انکل کا بچپن بھی گاوں میں گزرا تھا پڑھنے کا شوق تھا لیکن اس سے بڑھ کر کھیلوں کا شوق تھا۔محنت کی۔۔ اور آغاز میں عام سکول کوچ سے پہلی جاب کی ۔۔اور ہوتے ہوتے سپورٹس گورنمنٹ جاب میں چلے گئے اور سال بھر پہلے صوبائی لیول کے آفیسر کی پوسٹ سے ریٹائر ہوئے۔ انکے ساتھ گاوں کی گاوں کے میلوں ٹھیلوں کی کھیلوں کی۔۔ انہوں نے مجھےپوچھا تم کونسے کھیل کھیلتے رہےہو۔۔ میں نےسادگی سے بتایا جی کرکٹ پٹھو گول گرم ۔۔اور بنٹوں میں تو میرا کوئی ثانی ای نہیں۔۔ میرا نشانہ بہت پکا۔۔ وہ زور سے ہنسے اور بولے اچھا۔۔میں بھی بہت کھیلتا تھا بنٹے۔۔ کسی دن کھیلیں گے تمہارے ساتھ۔۔ کیا کھیلیں گے بھئی اوپر سے بیلا نازل ہوئی۔۔ اسنے چینج کر لیا تھا اور نارمل ٹراوز شرٹ میں ملبوس تھی

لنچ کےبعد انکل اورآنٹی اچھا بچو تم لوگ باتیں کرو کہتے نکل گئے۔۔میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔ اب وہ بلکل پرانے انداز میں تھی۔۔۔ اس نے گردن پر انگلی پھیرتے ہوئے اشارے سے قتل کرتے ہوئے کہا۔۔ اب تمہیں دوڑانا میں نے بس دیکھتے جاو تم تو گئے ۔۔ چلو۔۔ ہم دونوں نیچے بیسمنٹ میں آ گئے ۔۔ وہ مجھے لیے ایک سائیڈ پر پڑی سیٹس کی طرف لے کر آئی۔۔ اور بیٹھتے ہوئے بولی بدھو کھانے کے کچھ دیر بعد ریسٹ کرتے۔۔دوسرا تم سےایک بات بھی کرنی تھی۔۔

میں نے بولا جی ارشاد۔۔ وہ بولی لیکن یہ بات ایک راز ہے۔۔ آج تک کسی کو نہیں بتائی میں نے۔میں نےکہا تمہیں پتہ نا میں بہت ضدی ہوں۔۔ میں نے کہا جی آ کوئی شک۔۔ وہ بولی اور میں بہت عجیب سی بھی لگتی ہوں بقول تمہارے نون نبیلہ۔۔ نون نمونی ۔۔

یہ جو کاشی ہے نا اس نے میری انسلٹ کی تھی۔۔ بھرے میدان میں سب کےسامنے ۔۔ایسے الفاظ بولے تھے کہ میں آج تک بھول نہیں سکی۔۔ گیم ہے یار ۔۔ اپنے کھلاڑی کو سپورٹ کرو ہوٹ کرو لیکن انسلٹ نہیں۔۔ اسکی آنکھیں بھیگ سی گئیں۔۔ میں اس کے پاس کھسکا اور کہا مجھے بتاو کیا بولا تھا اس نے۔۔ وہ بولیں نہیں بس رہنےدو۔۔ میں نے کہا بتاو نا میں اسکا وہ حشر کرتا کہ دیکھنا۔۔۔ اس نے کہا نہیں نا۔۔ بس تم اس بات کو چھوڑو بس اب قسمت سے موقع ملا اسےہرانےکا اس پر توجہ دو۔۔ میں شائد اور ضد کرتا جب ہمیں آواز آئی اچھا تو یہ پریکٹس ہو رہی ہے ۔۔ ہم نے پلٹ کر دیکھا تو حیران رہ گئے۔۔ وہ میڈم رفعت تھیں۔۔ بیلا خوشی سے کدکڑے مارتی انہیں ویل کم کیا۔۔ وہ بتانے لگیں کہ سوچا پہلا دن ہے کچھ ٹپس بھی دے آوں ۔۔اور نعیم جب تک رننگ کرے گا تمہارے ساتھ ایک گیم بھی لگا لوں ۔۔ جب سےتم جیتی تب سے انتظار میں کہ بدلہ اتارنا۔۔ آج وہ مکمل فارم میں تھیں۔۔ ٹراوز شرٹ جیسا ہی شلوار کرتا۔۔ کرتےکا گلہ ہلکا سا کھلاتھا لیکن سیدھے کھڑی پوزیشن میں مناسب تھا۔۔ دوپٹے کی جگہ سٹالر۔۔ اور کھلے بالوں کو اس سٹالر کے نیچے مکمل کور کیا ہوا۔۔ میں تو انکی گریس ہی دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔وہ دونوں مجھے رننگ مشین پر لائیں اور بتایا کہ کیسے بھاگنا۔۔ یہ دو مشینیں تھیں آمنے سامنے۔۔ایک پر بیلا گئی اور دوسری پر مجھے آنے کا کہا گیا۔۔ جیسے ہی بیلا کے کہنے کے مطابق میں نے بٹن ایڈجسٹ کر کے مشین کو رن کیا۔۔ شائد سپیڈ زیادہ رکھ دی میں نے۔۔ یا یکدم مشین بیلٹ سرکنے سے میں لڑکھڑایا۔۔ اب میرے ساتھ وہ ہی ہوا جو گاڑی سے چھلانگ لگانے والوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔۔ نیچے بیلٹ چل رہی تھی اور میں قدم جما ہی نا سکا اور اپنی جھونک میں سیدھا آگے کو جا گرا۔۔ بیلا جب تک مشین کو روک کر اترتی ۔۔ میڈم رفعت بے ساختگی سے اوہو دیکھ کر کہتے مجھے اٹھانے جھکیں۔۔۔ افففف انکا اس ہلکے کھلے گلے والی شرٹ کے ساتھ جھکنا مجھے جو پہلے تارے نظر آ رہے تھے اب اور اڑ گئے۔۔ گلے کے اندر سے انکا سانولا مقناطیسی حسن۔۔ سنولاہٹ والی پوری کشش لیے ۔۔ بوبز سامنے تھے ۔۔ میں جیسےساکت۔۔ میڈم آخر میڈم تھیں زمانہ شناس انہیں اپنی پوزیشن کا فوری اندازہ ہوا اور وہ سیدھا ہو بولیں اٹھ بھی جاو۔۔ چہرے پر انہوں نے کمال مہارت سے سنجیدگی لائی۔۔ اور میں شرمندہ ہو کر دوبارہ سے مشین پر آنےکو تیار۔۔۔ ۔ کچھ بیس منٹ کی محنت اور راہنمائی کے بعد میں مشین پر بیلنس رکھنے میں کامیاب ہو گیا۔۔ تب بیلا نے مجھے ہینڈ فری کے ساتھ ایم پی تھری دیا اور کہا بس اس میوزک کے ساتھ بھاگتے رہو۔۔ میوزک تمہیں جوش دے گا۔ میں نے بھاگنا شروع کیا ۔ لیکن میوزک کی بجائے میرا دھیان میڈم کے جلوے کی طرف تھا تب مجھے ایک بلنڈر کا احساس ہوا۔۔ میں انڈر وئیر پہننا بھول گیا تھا۔۔۔ اور جب کسی بات کی طرف دھیان چلا جائے تب ادھر ہی رہتا۔۔ میرا ذہن شیطانی ہو چلا تھا سمجھیں میری آوارگی والی کیسٹ سٹارٹ۔۔لن نے ہلکی سی انگڑائی لی جسے میں نے سانس روک کر منت کی کہ بھئی بیٹھ جا۔۔ اور ساتھ الٹی گنتی پڑھتے ہوئے ذہن بدلا ۔۔ لیکن لا حاصل۔۔ کچھ دیر بعد میں نے نظر دوڑائی تو میڈم سامنے سیٹ پر بیٹھی میری ہی طرف دیکھ رہی تھیں۔۔ خدا خدا کر کے میرے تین کلومیٹر پورے ہوے اور میں ہانپتا نیچے اترا۔۔میرے سانس لینے جوس پینے کے دوران ۔۔ وہ دونوں بیڈ منٹن سٹارٹ کر دی۔۔۔ افففف جیسے ہی میری نظر دوبارہ میڈم پر پڑی۔۔ ٹائٹ شلوار قمیض کے اندر قید انکے بوبز ادھر ادھر مچل رہے تھے۔۔ جب وہ شاٹ کے لیے بھاگتی جھکتی۔ ہلکا ہلکا جلوہ ۔۔ جیسے انکی برا کا رنگ سیاہ تھا۔۔ میرے ہتھیار کو ستا رہے تھے اور میں اسے ٹانگوں میں دبائے بیٹھا۔۔ اس بار بھی گیم بیلا ہی جیتی تھی۔۔پریکٹس کے بعد ہم اوپر آئے ۔۔ اور میں نے بھی اجازت چاہی کہ میں جاتا ہوں ابھی کافی سیٹنگ کرنی دیکھنی۔۔ تب میڈم کو پتہ چلا ۔۔ اور وہ بولیں واہ۔۔ کیا قسمت ہے بھئی ۔۔۔ اسبار انکی اس دن والی پسینے کی مہک دوبارہ محسوس کرنے کے لیے ان سے ریکویسٹ کی مجھے بھی میں سگنل تک چھوڑ دیں گی۔۔ ہم نکلنے لگے تو بیلا کی ماما کہنے لگیں نعیم جب تک تم یہاں ہو باہر سے کچھ نا لینا۔۔ ڈنر تمہیں بھجوا دونگی اور میرے عذر کے باوجود انکی ماوں جیسی شفقت اپنی بات منوا گئی۔۔ واپس اسی کار میں وہی ہلکا اندھیرا اور انکی مہک ۔۔ میرا انگ انگ نشیلا ہو چلا تھا۔۔لیکن افسوس آج سگنل پر اترنا تھا۔۔ دو منٹ ہی خمار رہا۔۔ جب میں اترنے لگاتو میڈم بولیں نعیم رکو۔۔ ایک بات کہوں اگر برا نا مانو یا غلط نا سمجھو۔۔ میں بولا جی میڈم۔۔ وہ بولیں بطور سپورٹس انچارج تمہیں نصیحت کر رہی ہوں ۔۔بدھو لڑکے رننگ مشین پر آنے سے پہلے انڈر وئیر لازمی پہنتے ہیں۔۔۔ اور میں شرم سے لال ۔۔ وہ مسکرائیں اور کہا ڈونٹ وری ۔۔ اور گاڑی آگے چلا دی۔۔ میں انکی بات انکی نظر انکے جلووں پر غور کرتا جب عمبرین کے گھر کے پاس آیا تو باہر گیٹ کے پاس کوئی کھڑا تھا۔۔ کون یہاں آ سکتا ؟؟


جاری یے

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں