Meri Kahani Meri Zubani
Episode 19
کچھ دیر بعد وہ میرے نیچے سے کھسکیں اور میرے اوپر آ کر مجھے دیوانوں کی طرح چومنے لگیں۔۔ میرے ماتھے میرے چہرے کو۔۔ اور مخمور لہجے میں بولیں مزہ آگیا قسمے۔۔ اور میرے اوپر لیٹ گئیں۔۔ شروع کے سالوں میں میرا میاں ایسے ہی جم کے چودتا تھا مجھے۔۔آج بہت سالوں بعد مزہ آیا۔۔ اسکے بعد وہ اٹھیں اور جھک کر پھنسے پاجامے سےپاوں نکالنے لگی۔۔ اففف انکی مٹکتی گانڈ کا نظارہ ۔۔ وہ واقعی پنجابی رن تھیں ۔۔پاجامہ نکال کر میرے پاس بیٹھیں اور کہا ظالما۔۔ سارے پاجامے کا ستیاناس کر دیا۔۔ میں نے ہنس کر کہا یہ تو پاجامہ ہے ابھی میں نے آپکا ستیاناس کر دینا۔ وہ ہنسیں اور بولیں۔۔۔ ہائے صدقے تو کر دے نا ستیاناس۔۔ وہ لبوں کو ہلکا دانتوں سے دبا کر بولیں۔۔ میں اوپر کوہوکر انہیں پکڑنے ہی لگا تھا تو بولیں لیکن ابھی دو منٹ سانس لینے دو۔۔ قسم سے اندر تک جا کے لگتا ہے۔۔ ویسےسواد آ گیا وہ اصیل گھوڑی تھیں۔۔تم بیٹھو میں آتی ہوں
تھوڑی دیر بعد وہ واپس آئیں۔۔ انہوں نے چھوٹے چھوٹے شیشوں اور کڑھائی والی بڑی گرم شال اوڑھی ہوئی تھی۔۔ ہاتھ میں کچھ کھانےکو تھا۔۔دروازہ بند کر کے انہوں نے گرم شال کو ایک ادا سے سرکایا۔۔۔ افففف جیسے بجلی چمکیں ۔۔ نیچے انہوں نے کچھ بھی نہیں پہن رکھا تھا۔۔
انکا گورالشکارے مارتا جسم ۔۔ تنےہوئےبوبز۔۔ وہ ایک ادا سے کھڑی ہوئیں اور بولیں ۔۔ کیسی ہوں میں۔۔میں نے انکے جسم کو تاڑتے ہوئے کہا بہہہت سیکسی۔ ۔۔ وہ بالوں کو جھٹک کر بولیں ۔۔ یسسس اور اس سیکسی کو تم بہت پسند آئے۔۔ اتنی سی عمر میں تمہارا ہتھیار اور انداز اچھا ہے ۔۔ میں نے مناسب موقع سمجھتے ہوئے کہا۔۔اگر اتنا راضی ہیں تو بتائیں نا انعام کیا ملنا۔۔وہ میرے تجسس پر ہنسیں اور بولا بتاتی ہو نا لیکن ایک شرط پر۔۔ یہ بات کبھی کسی سے ذکر نہیں کرنی۔۔اور جیسے میں کہا ویسے کرنا ہے۔۔ ورنہ سارا کام خراب ہو جانا۔۔ میں نےوعدہ کر لیا تب انہوں نے کہا تمہارا انعام ہے۔۔۔ رابعہ اور میرا منہ کھلےکا کھلا رہ گیا
کیوں لگا نا جھٹکا وہ اٹھلا کر بولیں۔۔ میں نے کہا ہاں بہت زیادہ جھٹکا لیکن کیسے ۔۔ وہ میرےپاس آ کر ساتھ لیٹ گئیں۔۔ دونوں ساتھ ساتھ اور رضائی لی۔ انکا ننگا گداز جسم ۔۔ بلکل میرے ساتھ پیوست تھا۔۔ وہ بولیں ۔ یہ جو رابعہ ہے نا بے چاری کے ساتھ بہت برا ہوا۔۔۔یہ ساتھ دو گھر چھوڑکر انکاگھر ہے۔۔۔اسکا خاوند مزدور تھا۔۔ کوئی دو چار مہینے ہی ساتھ رہے پھروہ ایک دن کام پر پٹھے سے نیچےگرا۔۔ سر پر گہری چوٹ لگ گئ بس بے چارےکا بہانہ بنا اور وہ کچھ دیر بعد دم توڑ گیا۔۔۔ بےچاری نے سمجھو کچھ دیکھا ای نہیں۔۔ بندہ بھی اسکا کمزورا سا تھا۔۔۔ لوگوں نے اسکے بارے باتیں کرنی شروع کر دیں کہ بندہ کھا گئی۔۔ غریب عورت آگے کون سنبھالتا۔۔ وہیں ساس سسرکے ساتھ رہتی ۔۔ میں اسکی بچپن کی سہیلی تھی مجھ سے ہر بات کرلیاکرتی ہے۔۔ میں جانتی کہ سمجھو اسکےساتھ ابھی تک ہوا ہی کچھ نہیں ۔۔۔ اسکا بندہ دن بھر کا تھکا ہارا بس چارمنٹ میں فارغ ہو کر سوجاتا۔۔ بہت شرمیلی اورمسکین ہے وہ۔۔ اندر آگ جل رہی ۔۔ بہت لوگوں نے کوشش بھی کی لیکن اسے بدنامی کاڈر۔کہتی بیوہ ہوں اوپر سے بندہ کھانے کا الزام اب اگر کچھ ایسا ویسا پتہ چلا تو سمجھو جینا مشکل۔ایکبار ہم میکے اکھٹے ہو گئے اتفاق سے۔۔ تب ہم اکھٹی رہیں۔۔ اوپر سے میرے میاں کا فون آ گیا۔۔ ہماری باتوں سے وہ تھوڑی گرم ہو گئ۔۔ اس رات میں نے تھوڑا سا اسے چھیڑا تھا۔۔ تم سوچ نہیں سکتے کتنی آگ اسکے اندر۔ اوپر سمجھو راکھ اندر بھڑکتی آگ۔۔میں نے اس دن اسے تھوڑا ٹھنڈا کرنے کے لیے پھدی میں انگلی سے پانی نکالنے کی کوشش کی یقین کرو میری انگلی بہت پھنس پھنس کر اندر گئی تھی اب تو اس بات کو بھی سال ہو گیا۔۔ تم اسکی لو گے تو سب بھول جاو گے۔۔ لیکن اس کے اوپر سےیہ راکھ طریقے سے اتارنی۔۔اس رات جب وہ اوپر سےآئی تو پہلے کافی غصہ کیا کہ میں نے رسک لیا اور جب بہت مشکل سے اسے سمجھایا کہ تم گھر کے بندے تو کچھ ایزی ہوئی۔۔ وہ منہ سے نہیں بولی لیکن میں سمجھ سکتی ۔۔ ہمارا سیکس دیکھ کر وہ اندر سے بھیگ گئی تھی۔۔ پتہ ہے کیا کہہ رہی تھی۔۔ میں نے بولا کیا۔۔ وہ سرگوشی سے بولی کہہ رہی تھی ہاے اللہ کتنا ٹائٹ اور بڑا ہتھیار ہے تمہارے دوست کا۔۔ تمہاری ہمت ہے میں ہوتی تو میری پھٹ جاتی پوری اسکے انداز میں ڈر کے ساتھ لالچ بھی تھا کہ پھٹ ہی جاے ۔۔۔کوئی عورت جب ایسے کہتی ہے نا کہ میں ہوتی تو۔۔ اسکا دل ہوتا ہے کہ کسی طریقہ سے وہ لیکر دیکھے ۔۔۔
اس نے خود تو کچھ کرنے کی ہمت نہیں کرنی۔۔ میں سیٹنگ بنا کر بتاونگی کیسے کرنا۔۔اورکرنا آرام سے۔۔ سمجھو تمہارے آدھے لن سے آگے وہ کنواری ہی ہیں تم تیار رہنا اس سے اپنا بھی فائدہ ہے بتانا اس نے پہلے بھی کسی کو نہیں لیکن پھر بھی اسے ساتھ ملا کر زیادہ ذہنی سکون
تب کیا علم تھا کہ رابعہ اور میری سیٹنگ کس ماحول میں اچانک ہونی جس میں انکاکوئی کردار نہیں ہونا تھا۔۔ انکی باتوں نے اور رابعہ میرے لن کو پھر سے جگا دیا۔۔ اوپر سے انکا ننگا جسم ۔۔ جانےوہ اور کتنی دیر رابعہ نامہ سناتی ۔۔
انکی باتوں سے رضائی کے اندر ہلچل مچ چکی تھی۔۔ لن نے سر اٹھا کر انکی رانوں پر دستک دیکر اپنی موجودگی کا احساس دلوایا کہ ہماری بھی سنو جی۔۔ لن کی ٹھوکر نےانہیں بھی احساس دلایا کہ رات گزر رہی باتوں میں۔۔ انہوں نے ہاتھ سے لن کو پکڑا اور مٹھی میں لیکر ہاتھ آگے پیچھے کرنے لگیں ۔۔اففف انکی نرم گرم مٹھی کی جکڑ سے لن مست پھنکارا۔۔۔ہم دونوں آمنے سامنے کروٹ لیے لیٹے تھے انہوں نے لن کو دو چار بار سہلایا اور اسے ٹانگوں میں پھدی کے بلکل نیچے رکھ کر ٹانگوں کو دبا لیا۔۔ اففف انکی موٹی رانوں کالمس ۔۔ اپنے سینے کومیرے سینے سے رگڑتیں۔۔ بے تابی سے لبوں کو چوستی وہ آگے پیچھے ہو رہیں تھیں۔ لن انکی پھدی سے رگڑ کھاتا ٹانگوں میں پھنس پھنس کر آگے پیچھے ہو رہا تھا۔ اور وہ آنکھیں بند کر کے مست سریلی آہیں بھر رہیں تھیں۔۔ میں نےہاتھ انکی ننگی کمر پر رکھا اور پھیرتا ہوا ۔۔ موٹے نرم چوتڑوں تک لایا۔۔اففف ہاتھ سے دو چار بار چوتڑوں کو نرمی سے دبایا اور ہاتھ کی انگلی کو انکی گانڈ کی لکیر کے اوپر اوپر پھیرنے لگا۔۔۔ افففف وہ بلکل ساتھ چمٹ گئیں۔۔۔ جب سے انہوں نے رابعہ کا ذکر کیا تھا مجھے وہ لچکیلے جسم والی تب سے یاد آ رہی تھی۔۔نئی عورت کا اپنا ہی چارم ہوتا ہے۔۔اور اسی چارم کے ساتھ کومل کا لمسسس افففف میں مست ہاتھ سے کمر گانڈ کو سہلا رہا تھا۔۔ ایسے لن کی پھدی پر رگڑ انہیں بھی فل مست کر چکی تھی۔۔ انکے بوبز تن چکے تھے۔۔ بوبز کے نپلز اکڑ کر سینے سے لگ رہے تھے۔۔
اب کام فل گرم تھا۔۔ میں اٹھا۔۔ رضائی کو تہہ کر کے اسکے نیچے تکیہ ایسے رکھا کہ شہنیل کی رضائی کی ڈھلان سی بن گئی۔۔۔اس ڈھلان کومل کو لٹا کر اسکی ٹانگوں کو کھولا۔۔۔ اس پوزیشن میں انکی پھدی تھوڑی سی کھل گئی تھی۔۔ خود گھٹنوں پر بیٹھا۔۔ لن انکی پھدی کے بلکل نیچے تھا۔۔۔ میں نے لن کو پھدی کے نیچے جمایا اور ہلکا جھک کر انکے شانے پر ہاتھ رکھ کر انکو نیچے کھسکایا۔۔ شہینل کی رضائی پر انکا نرم جسم میرے ہلکےدباو سے پھسلتا نیچے کوآیا۔۔۔ انکےدباو سے لن اندر گھسا ۔۔ آدھے تک انکا جسم دباو سے آیا وہ ہلکا سر اٹھا کر نیچے کو دیکھ کر بولیں ہاے مرجانیا ۔۔ اندر تک گھسا پھر بھی آدھا باقی ہے
میں تھوڑا اور ہوا اور انہیں کندھوں سے کھینچ کر خود اوپرکو موو کیا۔۔۔ افففففف لن رگڑ کھاتا اندر تک۔۔ انکی سریلی چیخ نکلی۔۔ اب انکی ٹانگیں میری کمر کے گرد قینچی مار چکیں تھیں۔۔ میراجسم انکی گداز رانوں سے رگڑ کھاتا اورہر رگڑ مجھے دیوانہ کرتے جاتی۔۔ انکے لب ہلکے کھلے تھے اور گرم سانسیں ۔۔۔میں اوپر کو ہوکر جھکا۔۔۔ نرم رضائی کی ڈھلان پر انکی کمر کمان کی طرح ہو چکی تھی اور میں انکے لبوں کو چوستا جا رہا تھا۔۔ ایک ہی انداز میں متواتر ۔۔ میرا لن فل اندر جاتا ۔۔ باہر نکالتا اور پھر دھکا مارتا۔۔ وہ میرے بازووں کو پیار سے سہلا رہیں تھیں۔۔پورا پلنگ چوں چوں کر رہا تھا۔۔ انکی سسکیاں میری سانسیں۔۔ دونوں مزے کی انتہاوں پر تھے۔۔ وہ عجیب و غریب الفاظ بولے جا رہیں تھیں۔۔۔ آہہہ یسس نا یسسس ایسے ہی افففف نیچے سے ہاااے رگڑ مار۔۔۔ اور میں انکے جملوں سے اور وحشی ہوتا گیا۔۔ میں نے اب جسم کو ہلکا ہلکا گھمانا شروع کیا۔۔ لن ڈرلنگ کر رہا تھا۔۔ میرا یہ وار وہ نا سہہ سکیں اور کچھ دھکوں کے بعد ہاااے مر گئی یسسسس یسسسس سپیڈ مار رکنا نہیں کرتی فارغ ہوتیں گئیں۔۔ انکا جسم مدہوش۔۔ اسی مدہوشی میں ۔۔ میں نے انہیں اسی رضائی پر پلٹایا انکی موٹی گانڈ سامنے تھی اور اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل سے لوشن لے کر اسے انکے چوتڑوں کی لکیر میں گرا کر انگلی سے مسلنے لگا۔۔ وہ سسک کر بولیں نہیں نا۔۔ پیچھے نا کرنا بہت تکلیف ہوتی ہے۔۔ میں نے انکا ماتھا سہلا کر کہا میرا مزہ رہتا نا۔۔ تھوڑا سا کروں گا بس۔۔ وہ کیا کرتیں چپ رہیں۔۔ میں نے اچھے سے انکی گانڈ کے سوراخ کو لوشن سے نرم کیا اور اپنا ایک ہاتھ آگے سے انکی پھدی پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے لن کی ٹوپی کو گانڈ کے نرم ہوتے سوراخ پر ہلکا ہلکا رگڑنے لگا ساتھ ہاتھ کی انگلی سے انکی پھدی کے دانے کو مسلنے لگا۔۔ وہ دوبارہ سے مدہوش سسکیں ۔۔میری انگلی ہلکی تیز ہوئی۔۔ جب انکا دھیان فل پھدی کی طرف چلا گیا ۔۔ لن کی ٹوپی جو گانڈ کے سوراخ کو سہلا رہی تھی پورا لن لوشن سے مکمل چکنا ہو چکا تھا۔گانڈ مارنی طے تھی لیکن اسبار انہیں مزہ دینا تھا انگلی کو ہلکا سا پھدی میں داخل کر کے انہیں فل دھیان لگا کر میں نے لن کو گانڈ کے سوراخ پر جمایا اور اوپر سے ہو کر ان پر لیٹتا چلا گیا۔۔ میرے ایسے نیچے آنے سے لن کی چکنی ٹوپی ۔۔ نرم ہوتے گانڈ کے سوراخ کو کھولتی اندر گھسی ۔ انکی ہلکی سی چیخ بلند ہوئی نعیممم وہ سسکیں لیکن میں کان بند کر چکا تھا۔۔ میں نے دباو جاری رکھا انکی ہاے واے کے ساتھ آدھا لن اتر چکا تھا۔۔آدھا لن گھسا کرمیں رکا اور کان کے پاس جا کر کہا بس چلا گیا سارا۔۔ تھوڑا سا رہ گیا۔۔ وہ قدرے خوشی سے بولیں شکر ہے اب جو باقی رہتا اسے اچانک اندر کر کے رک جانا۔۔ مجھے اورکیا چاہیے تھا میں نے آخری جھٹکا مارا اور انکی ایک تیز چیخ نکلی۔۔ میرا لن پورا اندر گھس چکا تھا۔۔۔وہ نیچے زور سے ہلیں۔۔ ااااف انکی گانڈ کی گرمی اور جکڑن ۔۔۔ میں ہلکا ہلکا سا موو کیا۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ کچھ پرسکون ہوئیں۔۔اورمیں آہستہ آہستہ پھدی میں انگلی ہلاتے لن کو تھوڑا اندر باہر کرنےلگا۔۔ اب وہ ریلیکس تھیں ۔۔ اور میرا بھی وقت قریب تھا۔۔ میں نےدوسرا ہاتھ بڑھا کر انکے لبوں کو چھیڑتے ہوے طریقے سے لبوں کو دبایا اور آدھا لن کھینچ کر اندر کو مارا۔۔ اففففف انہوں نے میرے ہاتھ کو دانتوں سے کاٹا لیکن اس چکی نےالٹا مجھے ہنٹر مارا۔۔ میں نے باہر نکال کر پھر اندر مارا۔۔ اففففف وہ زور سے ہلیں کچھ بولیں لیکن میرا وقت قریب تھا۔۔ میں نے جھٹکے جاری رکھے اور دو چار دھکوں کے بعد انکی گانڈ کو منی سے بھرتا گیا۔ افففف نشہ تھا کہ کیا تھا جسم جیسے مدہوش۔۔ فارغ ہونے کے بعد میں وہیں سائیڈ پر گرا۔۔۔تھوڑی دیر بعدکومل گانڈ پر ہاتھ رکھتے اٹھی اور مجھے لاڈ سے مارنے کو دوڑی ۔۔ میں نے انکے اٹھے ہاتھوں کو آرام سے روکا اور اپنے بازووں میں انہیں لیکر اوپر رضائی اوڑھ لی۔۔ مدہوش سونے سے پہلے انکی اتنی آواز آئی۔۔۔ افففف جتنا مزہ دیتے ہو نا اتنا ہی درد بھی ۔۔ لیکن جو بھی ہو چدائی اچھی کرتی ہو۔۔
اگلی صبح انہوں نے ہی مجھے پیار سے کسی بیوی کی طرح جگایا۔۔ جلدی جلدی کپڑے پہنے۔۔ انہوں نے محلے کے کسی لڑکے ساتھ مجھے بائیک پر گجرات اڈے کے لیے روانہ کیا۔۔۔ گیارہ کے آس پاس میں لاہور پہنچا۔۔۔ کالج کی پہلی دو کلاسز تو مس ہو ہی گئیں تھیں میں نےپوری چھٹی کا ارادہ کیا ویسے بھی جو نشہ مجھے لگ چکا تھا پڑھائی میں کہاں دل لگنا تھا۔۔ بس یہ عادت اچھی تھی کہجب پڑھتا تھا تو پورے دھیان سے پڑھتا تھا۔۔ اور جب چودتا تھا تب بھی پورے دھیان سے۔۔۔گھر پہنچا۔۔ انکل اور عمبرین کچن کا سامان لینے گھر سے باہر تھے۔۔آنٹی مجھے دیکھتے ہی کھل اٹھیں۔۔ اور زور سے گلے لگایا ۔۔اور اچانک پیچھے ہٹ کر مجھے دیکھا پھر گہرا سانس لیا اور ہنس کر بولیں کومل کو چودا یے نا رات کو۔۔ چودائی والے جسم کی سمیل آ رہی۔۔ واقعی وہ استانی تھیں۔۔ میں کھلکھلا کر ہنس پڑا۔۔۔انکا ارادہ شائد کچھ اور ہو جاتا لیکن اچانک انکے موبائل کی بیل بجی۔۔ کوئی انجان نمبر تھا۔۔ آنٹی نے مجھے موبائل دیکر کہا دیکھو کون بھلا نیا نمبر ہے۔۔ جب میں نے ہیلو کی تو آگے سے زنانہ آواز گونجی۔۔ نعیم سے بات ہو سکتی کیا۔۔
میں چونک کر بولا جی نعیم بات کر رہا ہوں ۔۔ آپ کون۔۔میرا نام سنتے ہی آواز نے یکدم تہذیب والا انداز بدلا اور چلاتے ہوئے آواز میں بولی اوے ن غنہ آج کالج کیوں نہیں مرے تم۔۔کہاں دفع تھے۔۔ یہ بیلا تھی۔۔میں نے حیرت سے پوچھا تم آنٹی کا نمبر کہاں سے لیا۔۔ اس نے اطمینان سے جواب دیا ایڈمن آفس سے۔۔ عارضی رہائش لاہور کے ساتھ فارم پر درج تھا یہ نمبر۔۔ شیطان کی بچی تھی پوری۔۔ اس نےپھر پوچھا آئے کیوں نہیں۔ پاوں کیسا چل تو رہے نا۔۔ گھر جا ڈیٹول وغیرہ سے دھویا تھا۔۔ امید ہے نہیں دھویا ہوگا۔۔ اسے کیا پتہ میں کب کا کانٹے کو بھول چکا تھا ۔۔اس نے فوری اگلا حکم صادر کیا تم ابھی کے ابھی ایڈمن آفس پہنچو۔۔ ابھی ساڑھے بارہ بجے کیا کرنے آوں کالج۔۔ اب تو ایک پیریڈ رہ گیا دفع کر میں رات بھر کا تھکا ٹالنا چاہا۔۔ ہر گز نہیں اور کان کھول کر سنا کرو ایڈمن آفس کہا ہے کالج نہیں ۔ میں نے ٹالنا چاہا تو اس نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا کہ وہ اورمیڈم رفعت انتظار کر رہیں۔۔ ایک ارجنٹ کام ہے۔۔۔ اب یہ آفیشل آرڈر سا ہو گیا تھا۔۔ آنٹی میری طرف دیکھے جا رہی تھیں۔۔میں نے بتایا کہ کالج سے بلاوا ہے کھیل کے لیے۔۔ انکا موڈ غارت ہو گیا۔۔ وہ تو انکل اور عمبرین کی غیر موجودگی میں کچھ مستی پروگرام میں تھیں ۔۔ اب انہوں نے امید سےپوچھا۔۔میں نے بہانہ کیا مجبوری ہےآنٹی ایڈمن نے بلایا۔۔ آنٹی منہ بناتی رہ گئی اور میں منہ ہاتھ دھو کر جلدی سے کالج کو چلا گیا۔۔ایڈمن اور کلیرکل آفسز کالج کے ایک طرف تھے ۔۔ میں سیدھا ادھر ہی گیا۔۔ آگے بیلا اور میڈم رفعت میرا ہی انتظار کر رہی تھیں۔۔ انکے چہرے ہلکے پریشان سے تھے میں نے بیلا کو کہنی مار کر پوچھا کیا ہوا۔۔۔ اسکی بجائے میڈم رفعت کی آواز آئی۔۔ نعیم بات پریشانی کی ہے بھی اور نہیں بھی ۔۔ ابھی سارےشہر کے کالجز کی لسٹ جب مجھے ملی جس میں تمام کالجز کے کھلاڑیوں کے نام اور شیڈول درج تھے۔۔ تب ہمیں پتہ چلا کہ دیال سنگھ کالج سے کاشف عرف کاشی بٹ ریس میں حصہ لے رہا ہے۔۔ کاشی بٹ فیصل آباد سے ابھی ہی مائیگریٹ ہوا ہے ادھر۔۔ اور لاسٹ دو سال سے یونیورسٹی و ڈویزن کا ونر ہے ۔۔ میں نے اطمینان سےسانس لیا اور بولا تو کیا ہوا۔۔۔ بندہ ہی ہے نا کتا تھوڑی جو ساتھ بھاگنے سے کاٹ لے گا۔۔ میری ایسی بےساختگی سے میڈم کھلکھلا کر ہنس پڑیں ۔۔ اففف ان کی ہنسی۔۔ میں اسی ہنسی کے اثر میں جانے کب تک رہتا جب بیلا نے میرے شانے پر ہاتھ مار کر کہا۔۔۔ مسلہ یہ ہےبکہ وہ کتا ہوتا تو مسلہ نہیں تھا وہ چیتا ہے ۔۔۔ اسکی سپیڈ آوٹ کلاس ہے ۔۔۔ اس کا ہونا مطلب ہارنا۔۔ اور ہارنا میری لغت میں نہیں ۔۔ میں سمجھ رہا تھا جو لفظ اسکی لغت میں نہیں وہ میری میں اس نے رہنے نہیں دینا تھا۔۔۔ اب مجھے سنگینی کا احساس ہوا اور بولا تو اب ۔۔۔ بیلا بولی اب۔۔۔ آج سے تمہارا کالج سے گھر جانا بند۔۔ سونےتک تم نے بس پریکٹس کرنی ۔۔ اسکی بات سن کر میرے اوسان خطا ہو چکے تھے۔۔ گھر نا جانا مطلب عمبرین سے دوری۔۔ مطلب میرا دل بند
#fkniazi555.blogspot.com
بہرحال ایک طویل بحث کے بعد یہ طئے پایا کہ پہلے تین اہم اور مشکل پیریڈز کے بعد میں اور بیلا آف کر جائیں گے کالج کی اجازت سے اور سیدھا بیلا کے گھر۔۔ اگلے چار پانچ دن کے بعد سنڈے تک میری گروتھ ریٹ چیک کی جاے گی اور اتوار کو سوئمنگ کا ٹیسٹ۔۔انہی باتوں کے بعد ہم باہر نکل آئے ۔۔ بیلا مجھے سامنے پڑے بینچ تک لے آئی۔۔اور غصے سے بولی کل آئے کیوں نہیں اور آج بھی جب میں کال کی تب تک آدھا دن گزر چکا تھا۔۔ پاوں کیسا۔۔ اسکے لہجے میں غصہ ہمدردی پیار توجہ فکر سب کچھ تھا۔۔میں نے بہانہ بنا دیا کہ جن کے گھر رہتا انکاکام پڑ گیا تھا۔۔
وہ بولی دیکھو نعیم ۔۔ مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ تم نے جیتنا ہے۔۔ اور اس کاشی سے تو لازمی ہی جیتنا ہے تم نے ۔۔ مجھے پتہ ہوتا تو کبھی بھی تمہارا نام شامل نا کرواتی۔۔ اس ک سنجیدگی کو دیکھ کر میں نے کہاکیا ہے یار۔۔۔ بندہ ہی ہے نا ۔۔یارتم سمجھ نہیں رہے ۔۔۔ وہ پروفیشنل سمجھو ۔۔ ڈیلی کی پریکٹس۔۔ اسکا اعتماد اور اسکے جملے ۔۔۔ وہ ساتھ بھاگتے بندے کو ایک جملہ مار کر اسکا سارا مومینٹم توڑ دیتا ہے ۔۔ بہت ہی اکھڑ سا۔۔ میرےساتھ اس نے ایکبار بدتمیزی کی تھی ۔۔ حالانکہ ہماری فیلڈ الگ تھی لیکن صوبائی مقابلوں کے درمیان اس سے ملاقات ہوتی رہی۔۔ اسکی ایک گرل فرینڈ بھی ہوتی تھی ان دنوں ۔۔ وہاں اس نے بہت واہیات ہوٹ کیا تھا مجھے ۔۔ بس تم اسے ہرا دو تم نے اسے ہرانا ہے وہ میرے ہاتھ تھامے بچوں کی طرح ٹھنک رہی تھی۔۔ میں جانتا تھا اسکو۔۔ جب تک وہ بدلہ نا لیتی اسے سکون نہیں آنا تھا اور اس سے بڑھ کر بدلہ کیا ہو سکتا تھا کہ اسے اسکے میدان میں ہرایا جائے۔۔اور اس کام کے لیے میں موجود تھا نا اسکا گھوڑا۔۔اسے تسلی تشفی اور کل سے سط اوکے کے وعدے کرتا میں گھر پہنچا تو سب چائے پی رہے تھے۔۔ انکل کافی خوش تھے ۔۔پوچھنے پرپتہ چلا کہ جس وجہ سے ٹرک پھنسے ہوئے تھے وہ کام ہو گیا ہے۔۔ اب سکون ہے۔۔ انہوں نے دلاور کو کہ دیا تھا کہ وہ دونوں ٹرک کلیر کروا کر ۔۔ ساتھ دوسرے ڈرائیور کو لیکر خود ہی واپس آ جاے ۔۔گپ شپ کے دوران میں نے طریقہ سے آنٹی کو بتایا کہ کل سے میں لیٹ آیا کروں گا۔۔اور وجہ پتہ چلنےپر آنٹی تو غصہ ہی ہوئیں لیکن انکل نے کہا اچھا ہے نا کیا پتہ جیت جاو انعام۔شنام ملے۔۔اسکےبعد وہی عام سی باتیں پھر کھانا اور میں اوپر چھت پر۔۔رات دس کےبعد میں نے ہلکی سی بپ دی۔۔ کچھ دیر بعد ہم دونوں بات کر رہے تھے۔۔ عمبرین نے جب مجھ سےپوچھا کہ کل کیسا سفر رہا ۔۔ رات سہی نیند آ گئی مجھے مس کیا ۔۔ تو مجھے اتنی شرمندگی ہوئی کہ کیا بتاوں اسے کیاپتہ ۔۔ میں کل اس وقت کیسی نیند لے رہا تھا۔۔مجھے بہت گھن آئی ایک طرف لگن دل میں دوسری طرف آوارگی ۔ ایسا ہی ہوتا تھا جب بھی میں عمبرین کو سوچتا مجھے شدت سے دکھ ہوتا کہ میں ان کہے وعدوں کو توڑ رہا ہوں۔۔ لیکن جیسے ہی میں کومل یا آنٹی کے پاس ہوتا میرے اندر کا آوارہ جاگ جاتا۔۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ ایسے میں پریکٹس کیا کروں گا ایڈمن کے ساتھ جا کر بیلا کے گھر اسکے ابو کے ساتھ۔۔ بے شک میرا بیلا کے ساتھ ایسا ویسا کچھ نہیں تھا۔۔لیکن میں نہیں چاہتا تھاکہ انہیں ہلکا سا بھی برا لگے۔۔انہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور بتایا کہ سپورٹس کے بھی مارکس ہوتے شیلڈز کا فائدہ ہوتا ہے۔۔لیکن میں تومر گیانا۔۔ یہاں سے کالج کالج سے گلبرگ پریکٹس کے لیے۔۔ وہاں سے پھر یہاں شاہدرے اتنا سفر اور لہور کی ٹریفک۔۔وہ بولیں اسکا ایک حل ہے ۔۔اگر تم مان جاو تو اور کسی سے ذکر نا کرو تو کسی مطلب آنٹی کے علاوہ کسی سے ۔۔ میں نے کہا بولو کیا۔۔ کہتیں تم بتایا تھا ان کا گھر فردوس مارکیٹ کے پاس۔۔میں نے کہا ہاں۔۔وہ بولیں میرا گھر بھی گلبرگ تھری میں ہی ۔۔میں تمہیں چابی دے دونگی ۔۔تم ریسٹ روم میں آرام سے ریسٹ کرنا دھیان سے پریکٹس کرنا اور جیت کر واپس آنا۔۔۔ ویسے بھی دو چار دن تک دلاور آ رہا ہے۔۔ اس کے ہوتے گھر میں سکون نہیں ہوتا۔۔وہ ایک طرف مجھے بھیج کر میرے لیے فکرمند تھیں تو دوسری طرف دلاور کی فکرمندی میں۔۔لیکن میں اتنے دن آپ سے بات نا کی آپ کودیکھا نا تو۔۔ میں نے ہزار عذر تراشے۔۔ اور سب عذر انکی ایک بات سے ختم ہو گئے جب انہوں نے کہا تم میری بات نہیں مانو گے کیا۔۔ اور میرے گھر جا کر تم وہاں کی دیواروں میں مجھے محسوس کر لینا نا۔۔انکی یہ ادا مجھے لے ڈوبی۔۔ میں نے ہار مانی ۔ اسکے بعد وہ کافی دیر مجھے اپنے اس گھر کی باتیں بتاتی رہیں ان گلیوں کی اپنے بچپن کی۔۔ انکی مدھر سرگوشیاں اور انکا احساس
جاری ہے
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں