جمعرات، 2 ستمبر، 2021

Meri Kahani Meri Zubani Episode 21


   Meri Kahani Meri Zubani


Episode 21


میں تیز قدموں سے چلتاہوا نزدیک آیا تو حیران رہ گیا۔۔ وہ ناصر تھا۔۔ مجھےدیکھ کر بولا بس بھائی آپ سے شکوہ مجھے ۔۔ میں نے کہا شکوہ جائز لیکن تم یہاں کیسے۔۔اور دروازہ کھولتے اسے اندر لیتا آ گیا۔اندر اتے ہی وہ بولا ۔۔ مجھ سے جھوٹ بولا آپ نےلیکن دیکھ لیں۔ میں شرمندگی سے بولا یار عمبرین نےمنع کیا تھا۔۔ خیر بتاو ادھرکیسے۔۔وہ بولا پتہ جب عمبرین بھابھی یہاں نئی نئی آئی تھیں پانچ چھ سال پہلےمیں ساتویں میں تھا۔

سمجھیں بڑی آپا میری۔۔ نائلہ کی طرح۔۔ابھی انہوں نے مجھے بلایا اور چپکے سے ایک چیز بھجوائی آپکے لیے یہ لیں۔۔ اس نے بیلٹ کے ساتھ ایک بند لفافہ جیب سے نکال کرمجھے دیا۔ ساتھ بتانے لگا کہ دوست ساتھ بائیک پر آیا ہوں اسے میں مارکیٹ پر روکاہے وہ انتظار کرتا ہو گا اور ہاں آتے ہوئے میں بھابھی کی آیا کے گھر پیغام دے آیا ہوں اسکا بیٹا ملا تھا۔۔ادھرسے کوئی نا کوئی بندہ آ جاے گا آپ کے پاس پھر جیسے آپ شیڈول بنایا۔۔ اور آپ بے فکر ہو کر انسے بات کر لینا ۔۔ آیا اور اسکا میاں ۔۔ عمبرین بھابھی کے ساتھ سالوں سے ساری تفصیل آ کر بتاوں گا۔۔ کافی کیا انہوں نے ان لوگوں کے لیے بس سمجھیں جیسے ہم اور بھابھی لوگ فیملی ویسےوہ ملازم ہو کر فیملی سے۔۔ اسکے ساتھ ہی ناصر پھر آنے کا کہتا نکلنے لگا۔۔ میں نے کہا اب جگہ تو تم نےدیکھ لی نا۔۔ کسی کو بلانا ہو تو یہ کمرہ میرج ہال کے کمرے سے زیادہ اچھا ہے۔۔ وہ کھلکھلا کر ہنسا اور بولا آوں گا کل یا پرسوں۔۔ اور بتاوں گا کہ کیا سٹوری۔۔ وہ بلکل گیارہویں بارہویں والے نوعمر لڑکوں کی طرح تھا۔ چمکتی آنکھیں ۔۔ ہلکی سی آتی مس۔اور نیا نیا دنیا سے تعارف

اسکے جانے کے بعد دروازہ لاک کر کے میں واپس پلٹا۔۔ شام کا دھندلکا پھیل چکا تھا۔۔ یہاں اندرون شہر والی رونق اور شور شرابا نہ ہونے کی وجہ سے ہر طرف سکوت تھا۔۔ ساتھ ساتھ گھر لیکن سب گھروں میں۔۔اندر آکر میں نےفورا عمبرین کا بھیجا لفافہ کھولا۔۔ انکی خوبصورت تحریر۔۔ ویسے ہی گول گول نقطے ۔۔ سادہ سا انداز بیان لیکن ایک ایک لفظ میں ہزار جذبے۔۔ لکھاتھا نعیم ۔۔ تم اسوقت وہاں ہو گئے جہاں میری یادیں بکھری ہیں۔۔ تم گئےہوتو شدت سے میرا دل اس گھر کے لیے اداس ہو گیا۔۔ اپنے والدین کے لیے وہاں کی زندگی کے لیے۔۔ میں وہاں نہیں جاتی تھی کہ دل بہت اداس ہو جاتا تھا اور میں یہاں کے مسائل میں بہت مشکل سے ایڈجسٹ ہوئی۔۔اوپر والے پہلے کمرے میں ٹیلی فون لگا ہوا ہے۔۔سب کمروں کی چابیاں کچن کے اوون میں پڑی ہیں۔۔ تم اوپر جا کر دس بجےکے قریب انتظار کرنا۔۔ میں کوشش کرونگی تمہیں ادھرسے کال کرنے کی۔۔کیا ہے نا ۔۔ بہت دل اداس ہے نائلہ بھی نہیں تم بھی نہیں۔۔ تمہاری دوست عمبرین


افففف انکی تحریر کا لفظ لفظ اداس تھا۔۔ انکے اندر کا دکھ۔ میں انکے بارے سوچتا اٹھا اور کچن میں اوون کو کھول کر چابیاں نکالیں اور پہلا کمرہ کھولا۔۔ بہت نفیس اور سادہ سا کمرہ۔۔سامنے دیوار پر ایک تصویر ٹنگی تھی۔۔ ایک گریس فل کپل اور انکے ساتھ پندرہ سولہ سال کی عمبرین۔۔ سکول یونی فارم میں۔۔ بلکل ٹین ایجر اور معصوم ۔۔بیڈ کےساتھ ہی پی ٹی سی ایل فون تھا۔۔ خوش قسمتی سے اس میں ٹون آ رہی تھی

کچھ دیر بعد ڈور بیل بجی۔۔باہر ایک پچاس ساٹھ سالہ مرد اور اسکے ساتھ اسی ایج کی ایک بزرگ خاتون تھیں۔۔ میں سمجھ گیا کہ یہ آیا ہیں۔۔۔وہ واقعی عمبرین کی آیا تھیں مجھےایسے ملیں جیسے میں انکا بیٹا ہوں۔بہت شفقت سے۔۔ کافی دیر وہ عمبرین کےوالدین کے احسانات گنواتے رہے

انہوں نے بتایاکہ عمبرین کی پیدائش انہی کے ہاتھوں میں ہوئی۔۔اتنی دیر میں باہر پھر بیل بجی ۔۔ اسبار بیلا کےگھر سے ڈنر آیا تھا۔۔۔ وہ لوگ غصہ کرنے لگے کہ زندگی میں پہلی بار صاحب مرحوم کے کسی مہمان کی خدمت کا موقع ملا اور میں کسی اور سے ڈنر منگوا لیا۔۔بڑی مشکل سے انہیں منایا کہ یہ دوست کا کام ہے ۔۔ اور اس بات کا وعدہ لیا کہ اب کچھ بھی چاہیے ہوگا تو انہیں کہوں گا۔۔ رات کا دھندلکا پھیلنے کو تھا۔۔ جب وہ لوگ رخصت ہوئے اورجاتےہوئے انکل زبردستی مجھے ضروری چیزیں دودھ پتی چینی نمکو چپس وغیرہ لیکر دے گئے کہ رات کو بھوک لگی تو دودھ چائے کے ساتھ کھا لینا ۔۔ انکے جانےکے بعد میں نےڈنر وغیرہ کیا۔۔ ابھی صرف ساڑھے آٹھ بجے تھے۔۔کچھ دیر کالج کی پڑھائی کرنے کے بعد میں ہوا خوری کےلیے باہر لان میں ٹہلنے لگا۔۔ لان میں ٹہلتے ٹہلتے میری نظر سامنے والے گھر پر پڑی۔۔ پہلی نظرمیں مجھے لگا کوئی مجسمہ ہے لیکن نہیں وہ کسی لڑکی کا ہیولہ تھا۔۔وہ سامنے والےگھر کی گیلری میں کھڑی سامنے جنگلے پر کہنیوں پر جھکی مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ میں نے زیادہ توجہ نادی اور کچھ دیربعد اندر آ گیا ۔۔ وقت جیسے تھم چکاتھا۔۔میں نے کچن میں جا کر چائے بنائی اور اوپر کمرے میں آکر فون کا انتظار کرنے لگا۔۔ ہلکی ہلکی سردی بند کمرے میں بھی آرہی تھی۔۔ میں وہیں بیڈ پر فون پاس رکھ کر نیم دراز لیٹ گیا۔۔ سامنے عمبرین اور اسکے والدین والی تصویر لگی تھی۔۔ میں بغور عمبرین کے نقوش کو دیکھنے لگا۔۔انکے چہرے پر نوخیز جوانی رنگ نمایاں تھے۔۔ بڑی چمکتی آنکھیں جن میں اب اداسی جم کی تھی ۔۔ انکے دلکش ہونٹ اور انکے مسکرانے سے رخساروں پر پڑتے ڈمپل جو میں نے آج ہی دیکھے تھے۔۔ انکے چہرے میں ایک عجیب کشش تھی اپنی طرف کھینچتی تھی۔۔وہ کشش آج بھی ویسےہی تھی ۔۔ وہاں وہ کلی تھیں اب وہ پورے جوبن پر تھیں ۔۔لیکن شائد انکے آس پاس ہر طرف خار مزاج لوگ تھے وہ پورے من سے کھل نا سکیں ۔۔اپنے ہر رنگ کی پنکھڑی نا پھیلا سکیں۔۔ اور مجھے وہ پنکھڑیاں کھولنی تھیں۔۔ انہی سوچوں میں گم تھا کہ بیل بجی۔۔۔ میں نے بے تابی سے فون ریسیو کیا۔۔ کیسے ہو انکی بوجھل سی آواز آئی۔۔ میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں ۔۔ میں بھی ٹھیک ہوں۔۔کیا کر رہے تھے۔۔ آپ کو دیکھ رہا تھا میں نے کہا۔۔ ہیں وہ کیسے ۔۔ آپکی تصویر دیکھ رہا تھا۔۔ اوہ وہ ہلکا سا کچھ شوخ بولیں تو کیسی لگی میں۔ آپ جیسے کھلتا ہوا گلاب ہممم اچھا وہ ہلکا سا چپ ہوئیں۔۔ میں نے کہا پتہ ہے میں یہاں آپکے گھر ہوں ان دیواروں میں آپ سی اپنائیت ہے ۔۔آپ کی خوشبو ہے۔ کاش آپ بھی ہوتیں۔۔ کتنا مزہ آتا نا۔۔ ہاں میرا بھی بہت دل کرتا ہے ادھرجانے کا لیکن وہاں کوئی ہوتا ای نہیں جو میرا انتظار کرے علاوہ خالی دیواروں کے۔۔ان کے لہجے میں اداسی تھی۔۔ اب تو میں ہوں نا آپ آئی تو میں آپ کا آپ کے ہی گھر میں استقبال کرونگا۔۔ وہ پہلی بار ہنسیں اور بولیں شوخا۔۔ اچھا اب سامنے کیبنٹ کو کھولو۔۔ اور وہاں سے بلیکنٹ نکال لو۔۔ تم ویسے ہی پڑے ہوئے ہوگے ہے نا۔۔ ان کو وہاں بھی میرا خیال تھا اور میں جی اچھا کہتا بلینکٹ نکال کر اوڑھ لیا۔۔۔ وقت گزرتا گیا وہ مجھے چھوٹی چھوٹی باتیں سکول کی آیا کی انکل کی ماما کی۔۔ اپنے خوابوں کی۔۔ ایک عجیب سحر طاری تھا۔۔ بلیکنٹ کو اوپر لیے فون سنتے ہوئے آنکھیں بند۔۔ میں نے ایسےہی مستانے لمحے میں کہا رانی آپ کس کروٹ لیٹی ہیں۔۔ بائیں۔۔ اور تم۔۔ میں دائیں ۔۔ میں نےکہا مجھے ایسے لگ رہا آپ میرے بلکل سامنے لیٹی ہیں اور آپکی آواز جیسےسرگوشی۔۔ میری آنکھیں بند اور آپکی۔۔ وہ بولیں اب میری بھی بند۔۔ میں نے کہا پتہ ہے رانی میرا کیا دل کرتا وہ بولیں کیا ۔۔ میں نے کہا کہ وقت رک جائے اور ہم ایسے لیٹے باتیں کرتےرہیں کتنا طلسم ہے نا یہ ۔۔ وہ بولیں لیکن جیسے ہی آنکھ کھلنی طلسم ٹوٹ جانا۔۔

#fkniazi555.blogspot.com

میں نےکہا طلسم چلنے تو دیں ۔۔ کیاپتہ طلسم سب بدل دے۔۔نا ایسی باتیں نا کیا کرو۔۔۔ کیوں نا کیا کروں میرے اندر جیسے ایک الاو اٹھ رہا تھا۔۔ یا شائد رات انکی سرگوشی اور انکے گھر کارومان تھا۔ بسسس تمہیں نہیں پتہ اس ساکت جھیل میں بھونچال آ جائے گا۔۔ میں نے کہا اچھا نا۔۔ آج بہت پیاری رات آج افسردہ نا ہوں نا۔۔ میں ان سے انکی پسند ناپسند رنگ چوڑیوں مہندی سے ہوتا ہوا انہیں پھر سے نارمل کر ہی لیا۔۔ میں نے پھر سرگوشی کی رانی وہ بولیں ہممم۔۔ میں نے کہا پتہ ہے آپکے بال بہت خوبصورت ہیں دل کرتا کہ۔۔ میں بات ادھوری چھوڑ دی وہ بے ساختگی سے بولیں کہ ؟؟میں نےکہا دل کرتا کہ انہیں چھو لوں انکی مہک کومحسوس کروں۔۔میں نے بول تو دیا تھا لیکن دل دھک دھک کر رہا تھا۔وہ کچھ دیر چپ ہوئیں اور بولیں تم نا بہت شوخے ہو۔۔ کیا کرنا چھو کر۔۔میں نے کہا چھونے تو دیں نا۔۔ وہ بولیں اچھا چھو لو۔۔ یقین جانیں اس وقت خیالی فیلنگز میں میرا وہ حال تھا جیسے وہ بلکل میرے سامنے۔۔ اور سب جانتے میں کافی سیکس کر چکا تھا لیکن جو مدہوشی جو مزہ جو خمار اس وقت تھا وہ کبھی نا ملا شائد اسلیے کہ وہ سب ایک وقتی جوش تھا اور اب کی بار دل ساتھ تھا جذبوں کے رنگ تھے میرے انگ انگ میں ایک سرمستی طاری تھی۔۔ میں نے کہا میں ہاتھ بڑھایا اور آپکے بالوں کو چھو لیا۔۔ سامنے آتی لٹ کو ہلکا سا کھینچا۔۔ اففف نہیں نا ۔۔ وہ ہلکا سسکیں۔۔ اگر ادھر لفظ دل سے نکل رہے تھے چاہ سے نکل رہے تھے تو کیسے ممکن تھا ادھر اثر نا ہو۔۔انہیں بلکل اصل لگا۔۔ میں نے کہا رانی۔۔ آپکے بالوں کی مہک بہت ہی نشیلی وہ کچھ دیر چپ رہیں اور بولیں اپنا ہاتھ میرے رخسارکے نیچے رکھ لو اور بس کچھ دیر چپ رہو۔۔ جب میں بہت سکون میں ہوتی ہوں تو ایسے ہی جو پاس ہو اسکا ہاتھ چہرے کے نیچے رکھ کر لیٹ جاتی تھی۔۔ مجھے اور کیا چاہیے تھا۔۔ اب دونوں طرف خاموشی بھی تھی اور چپ اظہار بھی۔۔کچھ دیر بعد میں نے کہا رانی ۔۔ وہ بولیں ہممم۔۔۔ میں نےکہا آپ کا سر سہلا دوں ۔۔ ہممم سہلا دو لیکن رکو۔۔ میں تمہارے شانےپر سر رکھتی ہوں تم بالوں میں انگلیاں پھیر دو ۔ آج مجھے بہت سکون جیسے واقعی وہاں اس کمرے میں ہوں جہاں سب تھے۔۔بالوں میں انگلیوں کے ساتھ میں سرگوشی کی۔۔ آپ جب بھی تھکو مجھے بتانا میں آپکا سر سہلا دیا کروں گا۔۔ آپ کا ہمزاد دوست ہوں آخر۔۔ آپ کے سب غم مٹا دینے ۔۔ میں آپکا سر سہلاتا ہوں آپ سو جاو۔۔اور تم بھی سو جانا نا۔ نہیں میں کچھ دیر آپکے چہرے کو دیکھوں گا۔۔ اچھا جی ۔۔ وہ چپ ہو چکی تھیں کال چل رہی تھی۔۔ کچھ دیر بعد انکے سانسوں کی آواز مدہم مدہم ریسیور سے آرہیں تھی۔۔ اور میں سامنے تکیے کو یوں دیکھ رہاتھا جیسےوہ واقعی میرے سامنے ہوں ۔۔ میری آنکھوں میں جانے کیوں نمی سی آ گئی شائد اسبار بات دل پر آ گئی تھی۔۔جانے کب فون بند ہوا کس نے کیا یا خود کٹا۔۔ کب میں سویا پتہ نہیں۔۔ اگلی صبح میری آنکھ تیز ڈور بیل سے کھلی۔۔میں جمائیاں لیتا باہر نکلا ۔۔ساڑھے آٹھ ہونے والے تھے باہر بیلا تھی۔۔دروازہ کھولا تو وہ شدید برہم ۔۔ کہاں مرے ہوئےتھے خدا کی پناہ کب سے بیل دےرہی تھی۔۔ بے ہوش انسان وقت دیکھو ۔ اس کی زبان قینچی کی طرح چل رہی تھی۔۔ بڑی مشکل سے دس منٹ لیکر میں جلدی جلدی تیار ہوا۔۔ پوری جلدی کے باجود جب میں واپس آیا تو نو بج چکے تھے ۔۔ اب جائیں گے کیسے کالج شٹل تو نو بجے نکل جاتی اور سٹاپ بھی دس منٹ کی واک پر تھا۔۔ مجھے پتہ تھا کہ ایسے ہی ہونا اسلیے آج تم مابدولت کی ڈرائیونگ دیکھو گے ۔۔ ہمارا لیڈیز ویسپا۔۔ وہ ہر قدم پر مجھے حیران کرتی تھی۔۔ تم چلاو گی۔۔ جی نہیں میں رسک نہیں لے سکتا۔۔ وہ ہنسی اور بولی ڈونٹ وری میں کالونی میں اکثر چلاتی ہوں اور گیمز تک مجھے تمہاری تم سے زیادہ فکر ہےمیرے غنے چل آ ۔۔ راستے میں عجیب ماحول تھا ایک چھٹکو سی لڑکی ویسپا چلا رہی چلو ٹھیک لیکن اسکے پیچھے ہٹا کٹا لڑکا ویسے پر پاوں لٹکائے بہت ہی نکھٹو لگ رہا تھا۔۔اللہ اللہ کر کے ہم کالج پہنچے۔۔ اس دن کل والا شیڈول جاری رہا ۔ کالج پھر بیلا گھر وہاں آج سہی سے میری مت ماری گئی ۔۔ آج صرف وہ اور میں ہی تھے۔۔وہاں سے گھر اور اسکے بعد عمبرین کی آیا اور انکے میاں کی آمد۔۔عمبرین نے انکو بتایا تھا کہ میں اسکی مرحومہ ماما کے کسی کزن کا بیٹا ہوں ۔۔ اسلیے مجھے وہ گھرکا بندہ سمجھ کر اور عمبرین کے پیغام کے بعد بلکل بیٹوں کی طرح لے رہے تھے۔ انکی باتوں سے مجھے کافی کچھ علم ہوا ایک خاکہ سا بنتا گیا جسکا ذکر بعد میں اکھٹا آئیگا۔۔۔انکے جانے کے بعدپھروہی انتظار اور پھر وہی بیل۔۔۔ کیسی نیندآئی پھر میں نے ریسیو کرتے ہی پوچھا۔۔۔ بہت مزے کی بہت گہری بہت پرسکون۔۔واااہ اور تمہیں۔۔ مجھے بھی بہت دیر آپکو تکتارہا ایسے سوچا کہ صبح مجھے تکیےپر آپکا بال ملا۔۔ وہ کھلکھلا کر ہنسیں اور کہا بہت ہی شوخےہو تم۔۔ پھر کیا کیا بال کا۔۔ میں نے کہا سنبھال لوں گا جب بہت یاد آئے گی اسے جلاوں گا سنا ہے ایسے جسکا بال ہو وہ فورا آ جاتا۔۔۔ وہ پھر ہنسیں ۔۔ میں نے کہا آپکی تصویر میں ڈمپل پڑتے آپکے چہرے پر اب نہیں پڑتے۔۔ وہ بولیں نہیں۔۔ میں نے کہا کیوں۔۔ کہتیں بدھو تب میرا چہرہ تھوڑا گولو مولو تھا اب تھوڑا سمارٹ ہو گیا تو کم پڑتے ہیں ۔ ویسے تم بہت نوٹ کرتے ہو ۔۔ میں نے کہا جناب ہمارے نوٹ کی آپ بات ہی نا کریں ۔۔ آپ کو پتہ میں نے سب سے پہلے آپ میں کیا نوٹ کیا تھا۔۔ کیا کیا وہ سسپنس سے بولیں۔۔ نا بتانا نہیں آپ ناراض ہو جاوگی۔۔نہیں ہوتی نا بھلا ایسی کیا بات بتاو۔۔۔ اچھا بتاتا ہوں نا۔۔ پہلے آپ شانے پر آئیں کان میں بتاتا ۔۔چلو جگہ دو آ گئی۔۔ پھروہ ہی خیال سج گیا۔۔ میں بیڈ کی ٹیک کے ساتھ کمر لگا کر وہ میرے بلکل ساتھ۔۔ میرے شانےپر سر لگا کر ۔۔ اب بولو بھی۔۔ میں نے کہا مجھے ڈرلگتا نا ۔۔ آپ ناراض ہو گئی تو۔۔ وعدہ کریں پکی دوستی والا ناراض بھی نہیں ہونا اور بات بھی کرنی۔۔انکا سسپنس عروج پر پہنچ چکاتھا اب بولو بھی وعدہ پکا۔۔۔ جیسے ہی انہوں نے وعدہ کیا مجھے وہ پہلا دن یاد آگیا جب میں نے چھت سے انہیں اور انکے سرخ تک کو دیکھا تھا۔۔ میں نے سرگوشی کی۔


آپکے سینے کے سرخ تل کو۔ تل جو چمکتا ہے 


میں نے ہمت کر کے بول دیا۔۔ کچھ لمحے جیسے سناٹا چھا گیا مجھے لگا کہ ابھی فون بند ہوا یا کلاس ہوئی۔۔ میں نے ہمت کر کےکہا رانی ۔۔ ناراض ہیں ۔۔ وہ ہلکا جھجھک کر بولیں نہیں لیکن تم کیسے دیکھا میں تو بہت احتیاط کرتی انکے لہجے میں شرم جھجھک دونوں شامل تھیں۔۔ بس دیکھ لیا آپکا قصور نہیں ہماری نظر کا کمال ہے۔۔ انکی فطری جھجھک جاگ چکی تھی۔۔میں نےکہارانی پتہ ہے ۔۔وہ بولیں نا کچھ نہیں پتہ اور نا پتہ کرنا بس سوجاو۔۔نا میں ایسے جانے نہیں دینا میں یہ بازو بڑھا کر آپکو روک لیا۔۔ نعیم ۔۔ وہ تھوڑا شرما کر بولیں۔۔ ہم میں کچھ طے ہوا تھا ایسی باتیں کیوں۔۔ مجھے جھٹکا لگا ۔۔ میں نےکہا رانی سنیں۔۔ میں آپکو پسند کرتا ہوں بہت زیادہ لیکن ہوس سے نہیں۔۔آپ کو ایسے دیکھتا جیسے چکور چاند کو۔۔۔ پوری شدت سے۔۔ اور رہا تل وہ تو اس چاند کا روشن ستارہ نا۔۔۔میری باتیں میرا لہجہ میرے الفاظ میرے اندر کے عشق کے سفیر تھے۔۔میں انہیں ساتھ لگائے انہیں سمجھاتا رہا وہ سنتی رہیں۔۔میں نے کہا پتہ ہے رانی سرکار ۔۔ میرا دل کرتا میں ساری زندگی کی بصارتوں سے بس آپ کو دیکھوں۔۔نا کرو نعیم وہ جیسے روہانسی ہوئیں۔۔ میں پہلے ہی بہت الجھی مجھےاورنا الجھاو۔۔ کبھی ایسی باتیں یہ شعر یہ چاند چکور تارے مجھے پسند تھے لیکن اب نہیں۔۔ اب وہ عمبرین کہیں کھو چکی۔۔ نا کھوئی نہیں اس نے آنکھیں بند کرلیں بس۔۔ اور مجھے آنکھیں کھولنی آپکو زندہ کرنا۔۔کیاکروگے زندہ کر کے ۔۔ میں زندہ ہوئی توپھرسے اس گھٹن کو سہ نہیں سکوں گی اور اسبار میں خود کو سمیٹ نہیں سکوں گی مر ہی جاونگی۔۔ انکا لہجہ ڈر خوف اندیشوں سےبھرا تھا۔۔نہیں اسبار آپ بکھریں گی نہیں اسبار آپکے گرد میرا حصارہو گا۔۔۔ تممم کیا چاہتے ہو آخر۔۔ وہ ہلکا زچ ہو کر بولیں۔۔میں آپکو چاہتا ہوں میں نے بےدھڑک کہہ دیا۔۔کیاکرو گے مجھے چاہ کر ۔۔تم سراب کے پیچھے وقت ضائع کر رہے ہو جاو کسی گلستان کی طرف ۔۔ایسا لگا جیسے وہ رو رہیں ہوں ۔۔میرا دل کٹنے لگا۔۔ میں نے کہا میرا گلستان میرا چمن اسی سراب میں ہے میں اسی سراب کو تلاش کروں گا ۔۔ وہ بولیں سراب صحرا میں رلا مارتا ہے ۔۔میں نے کہامیں سسی کی طرح رل لوں گا۔۔ مٹی ہو جاونگا۔۔ تم تم تم نا وہ روہانسی ہوکر زچ ہوئیں۔۔ کیوں زندگی برباد کررہے ہو ۔۔ میں کھلا ہوا پھول ہوں ۔۔ جاو کسی کلی کو ڈھونڈو اپنےلیے ۔۔ اس کے ساتھ خواب سجاو۔۔ میں نے کہا آپ کھلی نہیں مسلی گئیں ہیں آپکا اعتماد آپکی شخصیت کو توڑا گیاہے۔۔جھوٹ ہے سب۔۔ نہیں ہے ۔۔ آپ کھل تو گئی مہکی نہیں ۔۔ مجھے آپ کی مہکار واپس لانی۔۔میں جیسے رو پڑا۔۔ مجھے یہی ڈر تھا اسی لیے کہا تھا مرد عورت میں دوستی نہیں ہوتی بس طلب ہوتی ہے۔۔ بسسس میں چیخا۔۔ میرے جذبوں کی توہین نا کریں آپ۔۔ مجھے مار دیں لیکن میری نیت کو طلب سے نا جوڑیں۔۔ تم نہیں سجھو گے میں کیا کہہ رہی بس میں فون رکھ رہی۔۔مجھے تمہاری نیت پر شک نہیں لیکن یہ مناسب نہیں تباہی ہے ۔اور میں فون آج واپس باہر برآمدے میں رکھ دونگی۔۔ تم اپنے مقصد پر دھیان دو جسکے لیے گئے ۔۔ جب آو گے تو بات ہوگی انہوں نے فون کاٹ دیا۔۔ اور میں خالی ہاتھوں میں ریسور لٹکائے۔۔ میرا دل جیسے بند ہونے کو تھا۔۔ سناٹا۔۔ میری آنکھیں برسنے لگیں۔۔ بہت دیر تک میں جاگتارہا۔۔ سو تسلیاں سو وہم ۔۔امید نا امیدی ۔۔کہیں فجر کے قریب میری آنکھ لگی۔۔ سوتے میں کبھی عمبرین کو مجھے مناتے دیکھتا کبھی دور جاتے۔۔ایسی کچی پک نیند میں ہی احتیاطا لگایا الارم بول گیا۔۔۔میرا موڈ عجیب سناٹا ہو جیسے ۔۔ جیسے روبورٹ کوئی۔۔ مجھے لگا جیسے میری عزت کا سودا ہو گیا ۔۔ مجھے لگا جیسے میں واقعی بہت برا ہوس پرست۔۔ عجیب اضطراب تھا۔۔۔ کالج کیا پڑھایا گیا ککھ پتہ نہیں۔۔میرے اندر وحشت سی تھی جیسے دنیا کو آگ لگا دوں۔۔ بیلا کو میرا اندازہ تھا اس نے ایکبار پوچھا لیکن پھر چپ ہو گئی کہ ابھی میں تپا ہوا۔۔ اس شام جب ہم رننگ مشین پر تھے میری وحشت مجھے اندھا دھند بھگا رہی تھی جیسے میں پوری شدت سے جاتی ہوئی عمبرین کا پیچھا کر رہا ۔۔ انکا ہیولہ آگے آگے اور میں سپیڈو سپیڈ پیچھے۔۔آج میرا رنگ ہی اورتھا بیلا نے حیرت سے ٹائم اور کلومیٹر دیکھے اور عجیب نظروں سے مجھے دیکھا۔۔لیکن بولی کچھ نہیں۔۔۔ اسکے بعد جب میں وہاں سے نکلنے لگا تو اس نے کہا رکو۔۔ میں تمہارےساتھ جانا کام ہے۔۔میں کچھ نا بولا۔۔ہم باہر آئےتو اس نےکہا میرےساتھ چلو چپ کر کے۔۔میں نے کہا کدھر۔۔اس نےکہا تمہیں تو ہوش نہیں آج صبح سے۔۔ آج پنجاب یونیورسٹی والے مغلپورہ کینال کو لائٹنگ سے سجا رہے۔۔چل تمہیں لاہور کی بتیاں دکھاوں ۔۔ پانی میں بلب ۔۔ اسکے آگے کسکی چلی۔۔ میں چپ اسکے ساتھ۔۔ہم پنجاب کیمپس سے نہر و نہر مغلپورہ تک بتیاں دیکھتے رہے۔۔اوروہاں سے آگے برکی کی طرف مڑ گئے اب کچھ کچھ میرا مزاج بہترہو رہا تھا لیکن اندروحشت بدستور تھی۔ اور میرا دل کر رہا تھا کوئی مجھے مارے میرا سر پھاڑ دے کسی طریقہ یہ وحشت یہ سناٹا مٹے۔۔بیلا مڑ مڑکر مجھ سے باتیں کررہی تھی جب اچانک اس سے ویسپا مس بیلنس ہوا اور جب تک وہ سنبھلتی میرے بے ہنگم ڈولنے نے معاملہ خراب کر دیا۔۔ہم دونوں ویسے سے لڑھک چکے تھے۔۔ وہ ویسپا چلا رہی تھی اور اسکی ٹانگیں آزاد تھیں لیکن بد قسمتی سے میری ایک ٹانگ بھاری ویسپے کے نیچےآ چکی تھی درد کی ایک لہر۔۔میں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ بیلا بچی یا کدھر گئی۔۔ بیلا ایک طرف کھڑی پھٹی پھٹی نظروں سے میری پھنسی ٹانگ کو دیکھ رہی تھی۔۔ اسکا کھلاڑی قبل از گیم ہی انجرڈ ہو چکاتھا۔۔لوگوں کی مدد سے ویسپا سیدھا کیا اور مجھے سہارا دیکر کھڑاکیا گیا بیلا بےتابی سے میری متاثرہ ٹانگ کو دیکھنےلگ گئی۔ اس نے بے تابی سےکہا چل کر دیکھو ۔۔ بلڈ تو نکلا نہیں۔۔۔ میں نے سہارے سے قدم بڑھائے درد تھی لیکن لگتا بچت ہو گئی ہڈی کی۔۔ بیلا شدید پریشان ہو چکی تھی۔۔۔ اس نے فورا ایک ٹیکسی کو روکا اور اس میں مجھے لٹا کر ٹیکسی والے سے پوچھا نزدیکی اسپتال کہاں ۔۔ ہم اس وقت لال پل کے پاس تھے ۔۔ ڈرائیور بولا جی ویسے تو شالامار اسپتال قریب لیکن اسکے لیے گھوم کے جانا پڑنا قریب ایک پرائیویٹ اسپتال ہے

ادھر چیک کر لیں۔۔۔بیلا ویسپا پر پیچھے اور ہم آگے۔۔ لال پل کراس کر کے تھوڑا آگے ایک پرائیویٹ اسپتال تھا۔۔۔ بیلا اور ٹیکسی ڈرائیور مجھے سہارا دیے اندر لائے عجیب سناٹے والا اسپتال تھا وہی عام اسپتالوں والا ماحول زرد روشنی۔۔ رات کا وقت ۔۔ ایک آدھ مریض۔۔ بیلا مجھے بٹھا کر خود کاونٹر تک گئی۔۔ کیا ڈاکٹر نہیں ہے بس سینئر نرس ہے۔۔ ایکسرے ہو جاے گا نا۔۔ چلو اسے ہی بلاو۔۔ بیلا کی باتیں مجھے سنائی دے رہیں تھیں۔۔ جیسے جیسے چوٹ ٹھنڈی ہو رہی تھی ویسے درد بڑھ رہی تھی۔۔ بیلا میرے تکلیف دہ چہرے کو دیکھتی بس رونے والی تھی۔۔ اسپتال کے عملے کی مدد سے میں چلتا ہوا لمبےکوریڈور کے آخری کمرے میں بیڈ پر آگیا۔۔ بیلا مجھے لٹاکر اسی سینئر نرس کا پتہ کرنے بھاگی۔ اور کچھ دیر بعد جب وہ لوٹی تو ۔۔۔میں سب دردبھول کر اس نرس کو دیکھ رہا تھا۔۔ وہ رابعہ تھی وہی رابعہ کومل کی سہیلی


جاری ہے

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں