Meri Kahani Meri Zubani
Episode 22
ہم دونوں حیرانگی سے ایکدوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔یہ دیکھیں اسے اسکا ایکسرے کروانا ہے ۔۔ پلیز جلدی کریں۔۔ بیلا کی پریشان آواز نے ہم دونوں کو چونکایا۔اس نے حیرت سے میرےلیے پریشان ہوتی اس چھٹکلو لڑکی کو دیکھا۔۔ اور پھر میری طرف جیسے آنکھوں سے پوچھ رہی ہوں یہ بھی۔۔ کیا گیدڑ سنگھی ہے تمہارے پاس۔۔ انہیں حقائق کا کیاپتہ تھا کہ میرے ساتھ ان معنوں میں بس کومل تھی میرج ہال اور بیلا الگ سین
کچھ دیر بعد میرا ایکسرے ہو گیا۔۔ اللہ کا احسان ہڈی بچ گئی لیکن دیسی زبان میں کہیں تو اندر سے جسم تھوڑا پھٹ گیا۔۔ سوجن اور ہلکا درد۔۔۔ مجھے درد کا انجیکشن لگایا گیا اور واپس کمرے میں۔۔اب تک ہمارےدرمیان بات نا ہوئی۔۔ انجیکشن لگانے کے بعد جب رابعہ نکلنے لگی تو میں نے کہا آپ تھوڑا وقت دیں بات کرنی آپ سے۔۔ بیلا نے حیرت سے مجھے دیکھا اور جب رابعہ دو منٹ تک آتی کہہ کر چلی گئی تو میں نے اسے بتایا کہ یہ کون بس کومل اور اپنا سین چھپا گیا۔۔بیلا بولی تب تو مزید اچھا ہے ۔۔ کم از کم توجہ تو دے گی ابھی بات کرتے اس سے آگے کی۔۔ اسلیے میں نے بھی بلایا میں نے اسکی تائید کی
تھوڑی دیر بعد وہ واپس آئی ۔۔ میں نے سب سے پہلے پوچھا کہ کومل یا نائلہ لوگوں کو تو نہیں بتا دیا فون کر کے ۔۔ زنانیوں کی سپیڈیں میں جانتا تھا لیکن وہ سیانی نکلی اور بولی نہیں۔۔ میں نے کہا شکر اور ابھی بتانا بھی نہیں۔۔ اب بتاو کیا میں یہاں سے واپس جا سکتا۔۔ وہ بولی ویسے تو ہڈی کو چوٹ نہیں لیکن اندرونی گوشت پھٹا ہوا ہے۔۔ باہر بہت ٹھنڈ ہو چکی۔۔اگر بے احتیاطی کرو گے تو مسلہ ہو گا۔۔ نو نو بے احتیاطی کا سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا۔۔بیلا نے پریشانی سےکہا۔۔ رابعہ نے میری طرف دیکھا جیسے پوچھ رہی یہ اتنا پریشان کیوں۔۔ اسے کیاپتہ میں اسکا گھوڑا ہوں ریس کا گھوڑا
پھر کیا کرنا ہے۔۔ اگر آپ لوگ مناسب سمجھیں تو انہیں آج کی رات اوپر شفٹ کیا جا سکتا میری بارہ بجے تک ڈیوٹی ہے ۔۔ عجیب مسلہ بن چلا تھا۔ میں چل کر جا نہیں سکتا تھا۔۔ ویسپا پر جانا ناممکن۔۔ بیلا اکیلے اتنی دور جاے مناسب نا تھا۔۔اگر میں ٹیکسی میں جاتا تو اس گھر اکیلے مجھے بیلا چھوڑنے کو نہیں تھی تیار۔۔ میں جو پہلے ہی عجیب وحشت زدہ تھی وہ وحشت بیزاری اب آوارگی میں بدلنے کوتھی۔۔ میرےاندر ک گھٹن مجھے اکسا رہی تھی کہ ذہن بدلوں کسی طریقے ۔۔میں نے کہا اچھا رابعہ تم ایسا کرو تمہارے اس کومل کا نمبر ہے نا ۔۔ اسے کال کرو اور کس طریقے ناصر کو بلاو یہاں
کوئی بہانہ بنا دینا۔۔ اور ساتھ ہی بیلا سے کہا تم بابا کو فون کر کے بتا دو۔۔اسکے بھی جانےکے بعد میں اگلا پلان سوچنے لگا۔۔ عمبرین کے گریز آمیز سلوک کے بعد میرا دل کر رہا تھا میں بس جو سامنے آئے اسے چیر دوں۔۔ کسی طریقے یہ وحشت دل سنبھلے۔۔ اور مجھے چیرنے والی مل گئی تھی۔۔ اس دن کومل کے کہے الفاظ ۔۔رابعہ ک ہلکی دلچسپی اسکی اندرونی پیاس۔۔مجھے یاد آرہے تھے۔۔ اور اسکے ساتھ ہی میرےاندر کا آوارہ جاگ رہا تھا۔۔ آوارگی کے جاگتے ہی وحشت کا انداز بدل گیا۔۔رابعہ میری توقع سےزیادہ سیانی نکلی اس نے کومل کو نائلہ کا میسج دینے کے بہانے ناصر کو بلایا اور اسے میرا پیغام پہنچایا۔۔میں نے ناصر کو اسلیے بلایا تھا تاکہ میری مدد کر سکے یہاں رک سکے میرے ساتھ۔۔ لیکن اس نےجو شوشا چھوڑا اس نے ساری ترتیب ہی بدل دی۔۔۔ گیارہ بجے کے قریب جب وہ سردی سےکانپا آیا تب تک بیلا کےوالد بھی اسےپک کرنے اور مجھے دیکھنے آ گئے ۔۔ مجھےسخت شرمندگی تھی کہانہیں زحمت دی لیکن عجیب لوگ تھےذرا نا احساس دلایا۔۔ الٹا وہ اسپتال میں ہیٹر ناہونے کمبل پتلا ہونے کیوجہ سے میرے لیے فکر مند تھے۔۔رابعہ اس وقت شفٹ ختم ہونےسے پہلے اکا دکا مریض کو دیکھنے کےلیے راونڈ پر تھی جب ناصر نے میرےکان میں سرگوشی کی ۔ استاد یہاں تو قلفی جم جانی ایک طریقہ ہے اگرآپ اجازت دیں تو۔۔ میں نے کہا بولو۔۔ کہتا آپ جانتے میں کافی وقت سے ان سب کو جانتا۔۔ یہ رابعہ کبھی کبھی کسی فی میل مریض کو گھر لیجاتی ۔۔ اور اس مرہم پٹی کے الگ چارجز لیتیں۔۔ اگر یہ دن رات ادھر کمرے میں گزار لیں یہاں تو یہ چلی جانا پھر کیا کرنا۔۔ اس کی بات انکل نے بھی سن لی اور بولے یہ بلکل درست کہہ رہا ہے ۔۔ سردی کی چوٹ ہےاور یہاں کافی سردی ۔۔پیسوں کی فکر نا کرو ہم ہیں نا۔۔ ارے نہیں انکل ناصر بولا یہ بھی فیملی فرینڈ ہیں پیسے دے لیں گے۔۔لیکن فی میل مریض کی اور بات اورمیری اور بات۔۔ارے بھائی ۔۔ آپ گھر کے ہی بندے نا بس میں کرتا بات۔ کچھ لالچ کچھ تعلق داری معاملہ بن جاے وہ یہ کہتا نکلا
کچھ دیر بعد سب فائنل ہو چکا تھا رابعہ پہلے جا کر میرےلیے انتظام کرنےکےلیےنکل چکی تھی ناصر کے تعلق یا شائد اچھی رقم کالالچ ۔۔تاجپورہ سکیم کا علاقہ ساتھ ہی تھا۔۔مجھے انکل کی گاڑی میں ہی نیم لیٹا کر شارٹ کٹ راستے سے سیدھا رابعہ کے گھر لیجایا گیا۔۔ ہمارےپہنچنےتک رابعہ اندر اسی سٹور میں میرے لیے نرم بستر بنا چکی تھی۔۔انکل اور بیلا مجھے اتار کر نکل گئے ۔۔ اب کل شام تک یہاں ای قیام تھا میرا۔۔ بدقسمتی سے اس ہلچل سردی اور ٹرانسفر کے دوران کچھ بے احتیاطی سے بستر تک جاتےمیری درد کچھ بڑھ گئی۔۔ تھوڑی دیر بعد رابعہ گرم دودھ میں ہلدی ملا کر لائی اور اسکے ساتھ کچھ نیلی پیلی گولیاں۔۔ میری ٹانگ کو اچھے سے لپیٹ کر پاس آگ جلا کر وہ میں ابھی اتی کہہ کر چلی گئی۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ مالش والی کریم لیے اندر آئی اور ناصر سے کہا کہ اسکی ٹانگ کو رضائی سے نکال کر شلوار گھٹنوں تک کردو۔۔ ناصر اناڑی انسان۔۔ اس نے ایسے رضائی کھینچ کرمیری ٹانگ باہر نکالی جیسے نارمل نکالتے لیکن اس کی یہ تیزی میری منہ سے ایک چیخ سی نکلی۔۔۔ کتا کمینہ بے ساختگی سے میں بول اٹھا۔۔ اوہ سوری بھائی۔۔ رابعہ نے بھی اسے گھور کر دیکھا اور کہا تم رہنے دو پیچھے ہٹو
ناصر شرمندگی سے پیچھے ہٹا۔۔رابعہ نے آہستگی سے میری ٹانگ کو تھوڑا اوپر کر کے رکھا اور ناصر سے بولی تم جا کر تھوڑا سا تیل لے آو کچن سے۔۔گرم کر کے اسکو بھی لگا دونگی۔۔ناصر کے جانے کےبعد وہ بولیں اب منہ بند رکھنا چیخنا نہیں۔۔ تھوڑی سی درد ہوگی ۔۔گھر کسی کو نہیں بتایا کہ مرد مریض ہے۔۔ میں نے کہا اور اگر کوئی دیکھنے آ گیا۔۔ وہ بولی کس نے آنا۔۔ ساس بستر سے لگی پڑی۔۔ اور سسر نہیں آتا جب مریض ہو پرائی زنانی کا کمرہ ہوتا ہے یہ سٹور ۔۔ وہ مجھے آہستگی سے سمجھاتی رہی ۔۔اتنی دیرمیں ناصر بھی آ گیا ۔۔ اور آہستگی سے پائنچہ اوپر کیا۔۔ اففف میری ٹانگ کافی نیلی اور سوجی ہوئی تھی۔۔ بہت پروفیشنل طریقہ سے اس نے ٹانگ پر ہلکا ہلکا مساج کیا لیکن اسکا نرم ہاتھ بھی مجھے درد کر رہاتھا۔ خون جم چکا تھا اب وقت لگنا تھا۔۔میں ہولے سے کراہتا ہوا آنکھیں موند لیں۔۔اور خود کو ہمت دینے کےلیے عمبرین کو سوچنے لگا۔۔ وہ کیا کررہی ہونگی۔۔ آج فون کیا ہوگا یانہیں۔۔ کیا ہوگا تو میرے فون نا اٹھانے سے کیا سمجھیں ہونگی۔انکی یاد انکا پیار انکا گریز میرا دل کبھی لہر میں آتا کبھی بوجھل۔۔ میرا اور عمبرین کا دوستانہ عجیب موڑ پر آ چکا تھا۔۔آر یا پار۔۔اب یاتو گریز دوری میں بدل جانا تھا یا واپسی ہونی تھی ۔۔ یا ہجر یا محبت
انہی سوچوں میں مجھے تب پتہ چلا جب رابعہ نے آئنمنٹ اور تیل کا مساج کر کے ٹانگ پر اچھے سے پٹی باندھ دی۔۔
شائد درد کش گولیوں میں کوئی سکون آور گولی تھی یا مساج کے بعد دردکا رکنا۔۔ میں نیم غنودگی سے ہوتا ہوا گہری نیندمیں چلا گیا۔۔ میری آنکھ جب کھلی اس وقت بارہ کے آس پاس کا وقت ہو گا۔۔ناصر میرے سامنے ہی بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔۔۔ اسی نے جا کر رابعہ کو بتایا۔۔رابعہ نے آکر ناشتہ وغیرہ دیا اور دوائی کے بعد ٹانگ کو دیکھا ۔۔ اور ایکبار پھر ہلکا سا تیل لگا کر پٹی باندھی۔۔اب قدرے افاقہ تھا۔۔۔ مجھے عمبرین کی بہت فکر تھی۔۔ میں نے کچھ سوچا اور ہمت کر کے ناصر سے کہا یار آجکل تم عمبرین سے ملے ۔۔وہ جیسے چونکا اور بولا کیوں۔ میں نے ٹوپی کرائی یار میرا دل انکی طرف سے پریشان سا بس۔۔وہ کچھ چپ سا ہوا۔۔ میں نے کہا بولو بھائی اور دوست بھی کہتے ہو اور چھپاتے بھی ہو۔۔وہ بولا مجھے پوری بات کا علم نہیں لیکن کل نائلہ باجی سے میری بات ہوئی انکی طرف سے ٹیلی فون کوئی نہیں اٹھا رہاتھا تو میں انکا پیغام لیکر ادھر گیا ۔۔ بھابھی کا چہرہ بہت عجیب سا تھا جیسے بہت روئی ہوں ۔۔ آنٹی اور انکل باہر تھے ۔۔ میں نے بہت پوچھا لیکن بتایا نہیں۔۔ فون کا بتایا تو کہنے لگیں ٹوٹ گیا ہے وہ ۔۔۔آنٹی کے موبائل پر کر لیں۔۔ اور جب میں نےپوچھا کیسے ٹوٹا تو پہلی بار وہ تلخ ہوئیں میرے ساتھ اور کہا میری جان چھوڑو اور جاو گھر جا کر کسی اور کا دماغ کھاو۔۔ وہ اپنی جھونک میں کہہ رہا تھا اور مجھے لگ رہا تھا جیسے میرے دل پر چھریاں چل رہی ہوں۔۔ وہ سیاق و سباق سے آگاہ نا تھا۔۔ لیکن میں جانتا تھا ٹیلی فون بھلا ایسے تھوڑی ٹوٹتا۔۔ انہوں نے خود ہی توڑا یا ساکٹ سے اتار دیا۔۔ انکے اس گریز نے میرے دل کو پھر سے بوجھل کر دیا۔۔ یعنی انہوں نے سارے رستے بند کریے یعنی وہ اس پرندے کی طرح تھیں جسے قفس راس آ گیا ہو۔۔ یعنی وہ اس گھٹن کی عادی ہو چکی تھیں انہیں کسی جھونکے کی ۔۔ کسی مدد کی کسی دوست کی ضرورت نا تھی۔۔ میں نے رضائی سر تک لی اور سر درد کا بہانہ بنا کر لیٹ گیا۔۔۔میری آنکھوں سے گرم آنسو نکل رہے تھے۔۔ جی کر رہا تھا کہ میں چیخ چیخ کر رووں ۔۔۔ عجیب بے حسی سی طاری تھی
میں جانےکب تک ایسے لیٹا رہا جب باہرسے بیلا کی آواز سنائی دی۔۔ اسی نےآ کرہمت کی اور مجھے رضائی سے منہ نکالنےپر مجبور کیا۔۔اسکےپیچھے پیچھے میڈم رفعت تھیں۔۔دونوں میرا حال احوال پوچھنے لگیں۔۔دونوں کی پریشانی کی وجوہات تھی مجھ سے تعلق اور گیمز جگہ کم تھی واحد کرسی جس پر ناصر تھا وہ میڈم کو دی گئی اور وہ کرسی کو کھینچ کر میرے سرہانے آ بیٹھیں ۔۔ بیلا کمال بے تکلفی سے میری متاثرہ ٹانگ کو بچاتے ہوئے پائنتی سائڈ چارپائی پر اٹک گئی۔۔ناصر انہیں دیکھ کر باہر چلا گیا۔۔ میر دل بوجھل اور جسم جیسے صدیوں کا تھکا ہوا۔۔ کیسےہو جب میڈم نے پوچھا اور میں نے ٹھیک ہوں کہا تو میری آواز کسی کنوئیں سے آتی محسوس ہوئی عجیب سی بازگشت سی ۔ سب کاتعلق قلبی معاملے سےتھا۔۔دونوں پریشانی سے میرے بارے باتیں کر رہیں تھیں ۔۔میراچہرہ جو دکھ سے تپا ہوا تھا۔۔ میڈم نے میرےماتھےپر ہاتھ رکھا اور کہا تمہیں تو بخار بھی ہو رہا ہے۔۔عین اسی وقت رابعہ چائے لیکر اندر داخل ہوئی۔۔ اسکی آنکھوں میں عجیب سی حیرت امڈی۔۔ ایک لڑکی میرےپاوں کو سیدھا کر رہی تھی اور ایک گریس فل سی میڈم میرا ماتھا سہلا رہی تھی۔۔ اسکے لیے سب عجیب تھا۔۔ ایسا کیا تھا مجھ میں جو سب خواتین میرا خیال رکھتیں۔۔
انکا ارادہ مجھے لیجانےکا تھا لیکن میرا مزاج بخار ہاے واے دیکھ کر وہ سب مشورہ کرنے لگے ۔۔ میڈم نے کہا بیلا تم کہاں چھوڑ دیا اسے ۔۔ کسی اچھے اسپتال لے جاو ۔ ایسے دیسی مالش سے تھوڑا ٹھیک ہونا ۔۔یہ بات رابعہ کو لگ گئی ۔۔ اور بات کرنےوالی خاتون ہو تو زیادہ فیل ہوتی دوسری خاتون کو۔۔ اس نےکہا آپ کل شام بے شک اسکی گھوڑے سے ریس کروا لینا ۔۔یہ اسکی مہارت کی توہین تھی کہ مریض کہیں اور جاتا۔۔ کچھ دیر کی بحث کے بعد رابعہ کی مانی گئی ۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ لوگ چلے گئے۔۔ میں نے ناصر کو بلایا اور کہا تم بھی گھر جاو ۔ کب تک دوست کا بہانہ کرو گے ۔۔اور میری طبیعت کا عمبرین یا آنٹی کو بلکل نا بتانا۔۔۔لیکن آپ اکیلے۔۔ نہیں تم جاو۔۔ تمہارے گھر والےپریشان ہونگے بہت مضبوط ہوں میں کچھ نہیں ہوتا۔مجھے ۔۔ میرا اچاٹ دل بس تنہائی چاہتا تھا۔۔
کچھ دیر بعد ہر طرف سکون ۔۔ دوپہر تین کا وقت ہو گا جب رابعہ اندر آئی اور بولی میں اسپتال جا رہی ہوں ۔۔ چار سے بارہ شفٹ میری لیکن آج جلدی آ جاوں گی۔۔ تمہیں کچھ کام تو نہیں۔۔ میں نے کہا ہاں مجھے واش روم جانا۔۔ اس نے کہا یہ ساتھ ہی واش روم ہے ۔۔ ابا گھر نہیں تم اٹھ کر چلے جاو۔۔ میں ہمت کر کے اٹھا درد قدرے کم تھی بس مزاج میں سناٹا تھا۔۔ دو قدم چلا کہ میرا پاوں لڑکھڑایا۔۔ رابعہ نے بےساختگی سے آگے بڑھ کر مجھے سہارا دینے کی کوشش کی۔ اور میری کمر کے گرد بازو ڈال کر مجھے چلانے کی کوشش کی۔۔۔ افففف جیسے ہی اسکا لمس مجھے محسوس ہوا۔۔ ایسے لگا جیسے پورے بدن میں شرارے دوڑ گئے
اسکی رنگت گو گندمی تھی لیکن تراش خراش جیسے کوئی ماڈل ۔۔۔اوراسکے لمس کی حدت جیسے آتشین۔۔ اسکا رووں رووں مجھے جھلسانے لگا۔ میں نے کن انکھیوں سے جائزہ لیا۔۔اسکے چہرے کی رنگت شہابی ہو چلی تھی۔۔یہ چار قدم کا فاصلہ مجھے جھلسا ہی گیا۔۔واپس آ کر جب میں بستر میں لیٹا تو میرے اندر عجیب ہلچل سی تھی۔۔ دکھ اور وحشت کی شدت مجھے کچھ ایسا کرنے پر مجبور کر رہی تھی کہ میں مدہوش ہو جاوں ورنہ یہ سوچیں میرا دماغ ماوف ہونے کو تھا۔۔ اور بہکنے کےلیے اس گندمی جسم سے بڑھ کر اور کیا تھا۔۔ وہ انتقام تھا۔۔ آوارگی یا میری بے بسی ۔۔ میں بس مدہوش ہونا چاہتا تھا ایسا کرنا چاہتا تھا کہ کچھ دیر کو بس مدہوش ہو جاوں۔۔۔ رابعہ کے جانے کے بعد تنہائی میں بس یہی سوچتا رہا۔۔ کومل کی مبہم باتیں ۔۔ اسکا حیرت سے خواتین میں میرا تعلق۔۔ رات ۔۔میں اگلے شیڈول کے بارے سوچ رہا تھا۔۔ سب سے پہلے میں نے بے وقت پین کلر کھائی تاکہ رات کو جب بر وقت کھاوں تب تک ٹانگ سٹیبل ہو جائے۔۔۔ میرے اندر کا وحشی جاگ چکا تھا۔۔ اور ہرنی کے انتظار میں تھا
کچھ دیرمیں نے ہمت کی اور بستر سےاتر کر پیٹی کے سہارےکھڑا ہو کر دو قدم چلا۔۔ ہلکی سی دردتھی لیکن کسی حد تک بوجھ اٹھا سکتا تھا۔۔ میں دو چار قدم چل کر دیکھااور دوبارہ آ کر میں بستر پر لیٹ گیا۔۔۔ کومل نےکہا تھا۔۔ اسکے اندر آگ ہے لیکن اس آگ کے اوپر راکھ ہے ۔۔ ہلکی سی پھونک ہلکی سی شرارت اس آگ کو بھڑک کر سب خاکستر کر سکتی ہے اور میں جلنا چاہتا تھا۔۔۔ اتنا تیز نشہ جیسے دیسی تاڑی کا ۔۔ دیسی ٹھرا۔۔۔ جو نشیلے کے ساتھ زہریلا بھی ہو۔۔۔ جو مجھے اس تلخی حیات سے بہت دور لیجائے۔۔۔ آٹھ بجے کے آس پاس وقت ہو جب سٹور کے دروازہ کے پاس اسکی آواز آئی وہ ساس سے باتیں کر رہی تھی۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ اندر آئی۔ میرا حال چال پوچھا پاوں کو ہلا جلا کر دیکھا اور بولی۔۔ آج ابا گجرات گیا ہے۔۔ جدھر ہمارا میکا۔۔ اسکے کسی دوست کی بیوی مر گئی۔۔میں اماں کو روٹی دارو دے کر آتی ہوں اور تمہاری دوائی دیتی ہوں۔۔ ہرنی شکاری کو نادانستگی میں بتا چکی تھی کہ ہر طرف سناٹا ہونا آج۔۔ وہ جانے لگی تو میں نے کہا اگر ہو سکے تو کوئی بڑی چادر دے جانا۔۔ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا اور بولی کچھ نہیں۔۔ کچھ دیر بعد وہ بسترکی چادر لےآئی اور میرے پاس رکھ کر چلی گئی۔۔۔ جب مجھے یقین ہو گیا یہ واپس نہیں آئے گی میں سیدھا ہوا۔۔ پینٹ اتاری اور اس چادر کی تہمبند بنا کر شلوار کو رضائی کے اندر چھپا کر رضائی سینے تک اوڑھ لی۔۔کل سے پہنی ہوئی پینٹ اتارنے کے بعد اب کچھ ایزی ہوا تھا۔۔پینڈو لڑکا تھا تنگ لباس کا اتنا عادی نا تھا۔۔۔ کافی دیر بعد وہ آئی اور بولی تمہارا کھانا لے آوں ۔۔ پھر اماں کو کھلا کر آتی ہوں۔۔ میں نے کہا تم کھالیا بولی نہیں جب سے آئی کھانا بنایا برتن دھوئے میں اماں کے بعد ہی کھاوں گا۔۔ میں نے کہا چلو میں بھی اسی وقت کھاوں گا۔۔ تم نے تو واقعی مریض بنا دیا مجھے ۔۔ مریض سہی مہمان بھی ہوں تو اکیلے کھانا مناسب بات کیا۔۔ میں نے ماحول کو تھوڑا سا بے تکلف کیا۔۔ وہ کچھ دیر سوچی اور بولی اچھا چلو اکھٹے کھا لیں گے۔۔ کوئی آدھ پون گھنٹے کےبعد وہ آئی کھانے کی ٹرے اٹھائے۔۔ لو جناب آپکے لیے سپیشل مٹن یخنی نکالی ۔۔۔ آپکی میڈم کہہ گئیں تھیں ۔۔ مجھے لگا اسے میڈم کا التفات بھایا نہیں
کھانے کے دوران ہلکی پھلکی باتوں کے بعد درد کش گولیاں کھائیں اور چائے کی فرمائش کی ۔۔ اور کہا پتہ مجھے نرسوں سے بہت ڈرلگتا تھا۔۔ وہ ہلکا سا ہنسی اور بولی ٹیکے لگے ہونگے نا۔۔۔ میں نے کہا عجیب سنجیدہ کرختگی والے منہ دیکھے پہلی بار ایک معصوم سی نرس دیکھی ہے لیکن پلیز آپ یہ سنجیدگی والا لبادہ اتار دیں ۔۔ ورنہ میں بد پرہیزی کرنی میں نے بچوں کی طرح کہا۔۔ میرے بےساختہ پن سے وہ پہلی بار مسکرئی اور بولی جو بدپرہیزی کرے گا اسے ٹیکہ لگے گا اوئی ماں میں نے ڈرنے کی ایکٹنگ کی۔وہ پھر ہنسی میں نے دل میں وقت آنے دو ٹیکا تو میں لگاوں گا تمہیں لگ پتہ جانا۔۔ تو کیا چاہتے ہو تم میں ناچوں گاوں۔۔ ارے نہیں بس تھوڑا عام لڑکی سا بن کر بیٹھیں اورچائے پئیں۔۔ آخر پرائیویٹ ایڈمٹ ہوں اتنی فرمائش میرا حق بنتی۔۔ وہ ہنہہ کرتی چائے بنانے چلی گئیں
کافی وقت گزر گیا ۔۔ مجھے لگا شائد پائے رکھ دیے۔۔ یا عین وقت پر ہم غریبوں کی طرح انکی بھی پتی ختم ہو چکی تھی انہیں سوچوں میں گم تھا جب وہ چائے کی ٹرے اٹھائےلائیں۔۔اور اہم ترین بات یہ تھی کہ انہوں نےلباس تبدیل کر رکھا تھا۔۔وہ ہلکے گلابی رنگ میں ملبوس تھیں جس میں انکا گندمی رنگ دمک رہا تھا۔۔وہ چلتی ہوئی اندر آئیں۔۔ انہوں نے بڑی سی شال لپیٹ رکھی تھی وہ بولیں۔۔ غریب لوگ ہے نعیم صاحب ۔۔۔یہی ہی ایک سوٹ تھا اچھا سا۔نائلہ کی شادی پر کومل نے ڈیزائن کر کے بنوا کر دیا تھا۔۔ جیسے ہی کومل کا نام آیا۔۔دونوں کی نظریں ملیں۔۔ یہی کمرہ تھا جب اوپر سے رابعہ آ گئی تھی۔۔ دونوں کے چہرے پر جھینپی مسکراہٹ ابھری ۔۔ میں نے کہا واہ۔۔۔ کومل تو سنا اچھی ڈیزائنر اور آپ اسکی گوڑھی سہیلی بہت دل سے سوٹ بنایا ہوگا۔۔ آپ نے اتنی بڑی شال اوڑھ رکھی ۔۔ ڈیزائن تو دیکھنے دیں۔۔۔جی نہیں۔۔ چلو تم لیٹو میں تیل اور مرہم لگا دوں۔۔جی نہیں اچھی نرسز مریضوں کی بات مان لیتی ہیں۔۔ورنہ میں نے مساج نہیں کروانا ۔۔دولتیاں مارنی ہیں۔۔۔ وہ کھلکھلا کر ہنسیں اور بولیں بہت وڈے ڈرامے ہو تم۔۔ اور دوسرا میں بھی آ پ جیسا غریب ہوں عام سا ۔۔ میرے والد ریلوے میں ملازم ہیں ۔۔ بس گزارہ ہے ۔۔ یہ کومل نائلہ آنٹی شازیہ لوگ امیر ہیں ۔۔ اسلیے براہ مہربانی مجھے اپنےجیسا سمجھیں۔۔ اور یہ میڈم جو تھی۔۔ انہوں نے ہلکے جھجکتے ہوئےپوچھا۔۔ وہ میرےکالج کی پرنسپل ہیں میں نے معاملے کو لائٹ کرنے کے لیے انہیں زیادہ بزرگ کیا۔۔گیمز کے مقابلے میں ہوں میں اسلیے پریشان ورنہ یہ اتنی سخت جیسے ہٹلر ہو۔۔چلیں نا ڈیزائن دکھائیں۔۔افففف تم بھی نا۔۔ اچھا تم لیٹو میں دکھاتی ۔۔لیکن ایک وعدہ ۔۔ تم کومل سے اسکا ذکر نہیں کرنا کبھی بھی۔۔اسکےاندر کہیں ڈر بھی تھا۔۔میں نے کہا مریض اور ڈاکٹر کا تعلق اعتماد والا ہوتا آپ اعتماد رکھیں بھلا کبھی مریض ڈاکٹر کی بات کوئی شئیر کرتا۔۔ میری بر وقت اور بر محل مثال سے وہ کافی مطمئن ہو گئیں۔۔مزید تجسس کے لیے میں نے کہا پھر میں آپکو ایک بات بتاوں گا آپ یقین نہیں کرو گی۔۔وہ تجسس سے بولیں کیا بتاو میں کر لوں گی یقین۔۔۔ نا ابھی نہیں بتاوں گا نا ۔۔ اس بات کا تعلق مجھ سے ہے۔۔ وہ جھجکتے اٹھیں۔۔ احتیاطا باہر جھانکا حالانکہ وہ جانتی تھیں باہر کون ہونا تھا۔۔میرے سامنے کھڑے ہو کر بولیں پہلے تم آنکھیں بند کرو تب ۔۔ میں نے آنکھیں بند کیں۔۔۔ اور جب کھولیں تو میرا دل جیسے تھم گیا ۔۔ گلابی رنگ کے اس فراک نما شرٹ جو انکے قیامت جسم پر جیسے بلکل فٹ تھی۔۔ جس میں انکی پتلی کمر۔۔سامنے سینے کے پاس گلا مناسب کھلا تھا انکا تنا سینہ ابل رہا تھا ۔۔ جیسے کھلتا ہوا پھول ۔۔سامنے پڑے ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں انکی کمر نظر آ رہی تھی افففف کمر پر بیک گلے ک جگہ ایک بڑا سا دل بنا ہوا تھا۔۔ شرٹ کی بیک پر ڈوری سے گلے کو باندھا گیا تھا۔۔ افففف اس دل سے جھلکتی انکی کمر اور ہلکا سا برا کا سٹریپ۔۔اففففف تہمبند میں میرے لن نے انگڑائی لی۔۔میری وحشت بڑھنے لگی۔۔ انہوں نے کچھ سیکنڈ کا جلوہ دکھا کر دوبارہ شال اوڑھی لیکن اس بار شال قدرے ڈھیلی تھی۔۔ وہ چلتی میرےپاس آئیں اور ٹانگوں کے پاس کھڑی ہوئیں ۔۔ جیسےہی انہوں نے رضائی کو ہٹایا وہ حیران رہ گئیں اور بولیں یہ کیا۔۔ میں نے بھولپن سے کہا تہمبند ہے جی مجھے ایسے سونے کی عادت پینڈو بندہ ہوں وہ تھوڑا سا شرمائیں۔۔ ایسے ٹانگوں کو کھولنے سے تہمبند گھٹنوں تک سرک چکی تھی۔۔انکا رنگ ہلکا سا سرخ ہوا لیکن بولیں کچھ نہیں۔۔مرہم اور تیل لگا کر آہستہ سے میری ٹانگوں پر مساج کرنے لگیں۔۔ انکی ہلکی سرکی شال میں جھلکتا چھپتا انکا جسم اور نرم ہاتھوں کا لمس۔۔ میرے لہو میں شرارے بھرتا جا رہا تھا۔۔ تہمبند کے کھلے ماحول میں لن اس لمس کو محسوس کرکے ہلکا بیدار ہو رہا تھا۔۔ میں نے انجان بن کر آنکھیں موند لیں جیسے مجھے کچھ نہیں پتہ اور ہلکا سا کراہ بھی دیتا۔۔پلکوں کی ہلکی سی جھری سے میں دیکھ رہا تھا۔۔انکا چہرہ ہلکا سرخ سا اور ہاتھ بھی ہلکا لرزش والا محسوس ہو رہا تھا یقینا تہمبند میں لن کا ابھار انہیں نظر آ رہا ہوگا۔۔لن فل کھڑا نہیں ہوا تھا لیکن کسی ناگ کی طرح کنڈلی مارے ابھرا ضرور تھا۔۔ میں نے مصنوعی آہ بھرتے انہیں یقین دلایا کہ مجھے ککھ پتہ نہیں کیا ہوا وہ میری طرف چہرہ کر کے دیکھا۔ اففف انکی آنکھیں ہلکی سرخ تھیں ۔ ککچھ نہیں درد ہوئی تھوڑی آج گھٹنے کو بھی ہو رہی۔اوہ انہوں نے ہاتھ کو گھٹنے پر رکھا اور ہلکا ہلکامساج کرنے لگیں اور بولیں اب بتاو نا۔۔ میں نےکہا بتاوں گا ابھی ایک اور بات بتانی یہ جو سوٹ آپ نے پہنا نا اسکی خاص بات یہ ہے کہ اسے آپ نے پہنا ہے آپکے حسن نے اسے حسن بخشا
انکے رخسار دمکے۔۔ اچھا جی میں تو عام سی عورت ۔۔۔ توبہ کریں عورت آپ تو لڑکی ہیں ابھی لگتا ای نہیں شادی شدہ۔۔۔میرے اندر کا آوارہ جاگ چکا تھا ۔۔ آپکا جسم بلکل ایسے جیسے کوئی ماڈل۔۔اففف انکا چہرہ شرم سے لال۔۔ایسی بھی کوئی بات نہیں جی۔۔۔ میں تھوڑا اوپر کو ہوا اور کہا ایسی ہی بات ہے جی ۔۔آپ یہ شال اتار کر ایکبار دیکھیں تو سہی ۔۔ انکا جسم ہلکا سا لرزا۔۔ اور وہ بولیں میں نے دیکھا ہوا۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر شال کے پلو کوپکڑا اور کہا ۔۔ آج میری نظر سے دیکھ لیجیے گا۔۔ سمجھیں آپ کی رونمائی ہے نئے زاویہ سے۔۔ تو اجازت ہے سرکا دوں۔۔ میں نے گویا پہلی پھونک ماری۔وہ کچھ نا بولیں آنکھیں موند لیں گویا ڈور میرے ہاتھ تھما دی۔۔ میں نے شال کو سرکایا ۔۔ جیسے ہی شال سرکی انکا شعلہ بدن جسم جگمگا اٹھا۔۔ انکا اوپر نیچے ہوتا سینہ انکی دھڑکن کا راز اگل رہی تھی۔۔انکاہاتھ میرےگھٹنےپرجم چکا تھا میں نےکہا آنکھیں کھولیں نا وہ جھجھکتےہوئے آنکھیں کھولیں اور شیشے میں اپنا سراپا دیکھ کر شرما سی گئیں۔۔میں نےگھٹنے کو تھوڑا ہلایا اورآہ سی بھری اور کہا جسم ٹوٹ رہا ہے مساج کریں نا۔۔ وہ لرزتے ہاتھوں سے گھٹنے تک مساج کرنے لگیں لیکن اب انکا انگ انگ انکی اندرونی کیفیت کی چغلی کھا رہا تھا۔۔کومل نےکہا تھا اسےمیرا لن بہت اچھا لگا تھا اور جو اچھا لگے اسکی جھلک تڑپا دیتی ۔۔میرالن انکے جلوے سے انکے لمس سے نیم اکڑ چکا تھا اور تہمبند سےہلکا جھلک رہا تھا۔۔ میں نے آنکھیں موند لیں۔۔ اور جھری سے جھانکا وہ ترسی نگاہوں سے چوری چوری جھلک کو دیکھ رہی تھیں۔۔بلی چوہے کا کھیل شروع ہو چکا تھا۔۔راکھ کے اندر آگ بھڑک چکی تھی بس آخری پھونک کی ضرورت تھی میں نےآخری پھونک طوفانی مارنے کا ارادہ کیا۔۔ ۔۔اور بوا میں نےآپکی اتنی تعریف کی۔۔ آپ نہیں کی ۔۔ میں نے معنی خیز جملہ بولا۔۔ وہ ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے بولی۔۔تم کب تیارہو کرمجھے دکھایا۔۔ لومرد کب سجتے۔۔ جو اصل چیز تھی وہ تو آپ نے پہلی ملاقات میں دیکھ لی۔۔ میرا اشارہ اس منظر کی طرف تھا جب وہ دروازے پرکھڑی میرے تنے لن سے منی کی پھوار کو دیکھا تھا۔۔ ہاااے اللہ ان کی سرگوشی نے گویا قیامت ڈھا دی ۔۔ میں نے ہاتھ بڑھایا اور کہا چلیں ابھی کر دیں ۔۔ میں نے ہاتھ بڑھایا اور پلو ہٹا دیا۔۔ نیچے لن موج میں جھوم رہا تھا۔۔اففف وہ جیسے کانپ گئیں انکی نظریں لن پر تھیں اور زبان پر نعیم کیا کر رہے ہو پاگل۔۔ میں ہلکا اوپر ہوا اور انہیں اپنی طرف کھینچا وہ پکے پھل کی طرح میرے اوپر آ گریں میں نے انکا ہاتھ لن پررکھا اور کہا بہت دردکررہا اسے بھی مساج کر دیں نا۔۔۔ افففف جیسے ہی لن پر انکا ہاتھ لگا لن ناگ کی طرح اچھلا اور انکے منہ سے ہاے میں مر گئی ۔۔انہوں نے ہاتھ کھینچنا چاہا اور کہا دیکھیں تو سخت ہے نا۔۔ میری گرم سانسیں اور سرگوشی ۔ ساتھ لن پر انکے ہاتھ کو دبانا۔۔ وہ جیسے کانپ گئیں ۔۔ آگ بھڑک چکی تھی ۔ میں نے انکےہاتھ پر ہاتھ رکھ کر انکے ہاتھ کولن پر نیچےتک پھیرا ۔۔ افففف ساری بیزاری ساری کوفت ساری وحشت جیسے لن میں آ گئی تھی وہ تن اکڑا کھڑا تھا۔۔ بولیں نا۔۔ اسبار انہوں نے اپنے ہاتھ سے تھوڑا دبایا اور ہاے مر گئی کہتے چھوڑ دیا اور مدہوش بولیں بہہہت سخت ہے یہ تو ۔۔اتنا بڑا بھی ہوتا ہے ۔کیوں آپ کو نہیں پتہ تھا۔۔وہ شرما گئیں ۔۔ میں نے انہیں اپنی طرف کھینچا اور کہا بتاو نا۔۔ انکے گال کے ساتھ گال رگڑا یہ آگ پر پیٹرول کا چھڑکاو۔۔میں نے کہا آپ میں بہت نشہ ہے بہت زیادہ ۔ پتہ کیسا ہے نشہ میں نے اپنے رخسار انکے رخساروں اور گردن کے ساتھ رگڑتے ہوئے کہا۔۔وہ جیسے مچلیں انکا جسم پوری رگڑ سے میرے جسم سے رگڑ کھایا۔۔اففففف یہ رگڑ ۔۔میں رخسار رگڑتا نیچے سینے تک لایا انکا دل دھک دھک ۔۔ میں نے ہلکے کھردرے رخسار جو انکے سینےپر رگڑےایسا لگا جسیےمخملیں کپڑا اتنی نرمی اتنا گداز افففففف
میں نے رخسار گھماتےلبوں کو ہلکا پھیرنا شروع کیا۔ ہرنی پھنس چکی تھی۔۔ نااااکرو نا۔۔میں انہیں ساتھ لیتا اوپر کو آیا نیم دراز اور کہا ۔۔۔ادھر ناکے باوجود انہوں نے لن کو نہیں چھوڑا تھا۔۔ لن فل تن چکا تھا۔۔ میں نے کہا آپکے شوہر کاکتنا تھا۔ وہ شرماتے ہوئے بولی تمہارے آدھے جتنا لیکن پتلا تھا۔۔اففففف تمہارا کافی موٹا ۔۔ میں نےہاتھ کو انکی کمر میں ڈالا اور اوپر نیچے پھیرنے لگا اور کہا ۔۔ پتہ ہے آپ میں بہت نشہ ۔۔ میں پی لوں۔انہوں نے سرخ آنکھوں سے مجھے دیکھا اور کہا کیسے پیو گے۔۔ میں جھکا اور زبان سے لبوں کو ہلکا گیلا کر کے انکے لبوں کو ہلکا سا چوسا لگایا۔ وہ بلکل چمٹ گئیں میرے ساتھ۔۔میں نے ہاتھ انکی کمرپرپھیرتے ہوئے اچانک شرٹ کے اندرکیا اور ننگی کمر پر ہاتھ چلاتا اوپر برا تک لےگیا۔۔ اففف انکی کمر کا نرم گرم لمس۔۔اور انکی سسکی ۔ ایسے ہی ہاتھ پھیرتا باہر لایا اور گلے کی ڈورکو کھول دیا۔۔اب انکی قمیض کافی اوپن ہو چکی تھی اور اس میں مچلتا جسم میں نے شرٹ کوکھسکایا۔۔ شرٹ آدھے کندھوں تک ڈھلکی میں نے زبان کی نوک انکے بازو سے اوپر ٹھوڑی تک کھینچی۔۔ وہ ایک مزے سے کراہیں۔۔ہاااااے ۔۔ میں نے واپس کیا اور پھر سے وہ سسکیں میں نے بہکتے ہاتھوں سے شرٹ کو کھسکایا اور انکی کلیوج کو چوسنےلگا ۔۔ اب وہ بلند آہیں بھر رہی تھیں ۔۔اب آگ الٹا مجھے جلانےکو تھی ۔ وہ ہلکا سا سنبھلیں جیسے مدہوش پیاسا اور میں دریا۔۔ میری شرٹ کے بٹن کھولے اور لگیں میرے سینےکو چومنے۔۔ میں بے تابی سے انکی کمر کو سہلاتا شرٹ اوپر کرتا گیا۔۔ وہ بہک چکیں تھیں۔۔جلانےکوتیار۔۔ میں نے انہیں سیدھا کیا اور اور انکے بازو اوپر کیےاور شرٹ اتاردی ۔۔ ساتھ ہی انک برا کو کھول دیا۔۔
#fkniazi555.blogspot.com
اففففف انکے تنے بوبز جسکے نپل بلکل سرخ ۔۔ بلکل گول اور تنےہوئے میں نے انہیں اپنے اوپر کھینچا اور ننگے سینے کو انکے بوبز پر رگڑےلگا۔۔ انکی آوازیں عجیب آااہافففف ہاااے جیسے سالوں کی پیاس انہیں پاگل کر چکی تھی۔ میں نے انہیں سیدھا لٹایا اور انکے بوبز کو نپلز کو چوسنے لگا۔۔ وہ تڑپ رہی تھیں ۔میں انہیں اورتڑپاتا گیا۔۔ ہونٹ نپلز سے پیٹ تک پھرے۔۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر انکی پھدی پر رکھا۔۔۔ اففف جیسے گرم توا تھا۔۔جیسے ہی میری ہتھیلی پھدی پر پڑی انہوں نے ہااااے مر گئی اج۔۔ کہتے ٹانگوں کو بھنچا۔۔ میں نے انگلی کو پھدی کے اوپر رگڑنا شروع کیا۔۔ اففففف وہ فل گیلی ہو چکیں تھیں ۔۔ میں انکے اوپر آیا اور انکے لبوں ک چوستے ہاتھ انکی شلوار کے اندر گھسا دیا اور ہلکا سا دبایا افففف جیسے آتش فشاں پھوٹ رہا تھا۔۔ اس سے پہلے کہ وہ فارغ ہو جاتی کافی سالوں ک پیاس تھی۔۔ میں نے لمبی کاروائی کو سیکنڈ شفٹ کے لیے چھوڑا اور ہاتھ کو انکی رانوں پر پھیرتے شلوار کو اتارنے لگا۔۔۔ وہ مچل رہی تھیں۔۔ میرا ہاتھ انکی گی نرم گانڈ اور رانوں کو مسل رہا تھا۔ آدھی شلوار کھسکا کر میں نے واجبی باندھی تہمبندکا پلو کھول دیا اور بلکل ساتھ لگ گیا۔۔ جیسے ہی ننگے لن کا ٹوپہ انکی پھدی اور رانوں سے ٹکرایا انہوں نے جیسے مجھے جکڑ لیا۔۔اور لن انکی گرم نرم رانوں میں پھنس گیا۔۔ وہ وحشت سے میرے ہونٹ چوس رہی تھیں۔۔ میں اٹھا اور انکی رہی سہی شلوار بھی کھینچ اتاری انہوں نے شرم سےٹانگیں سمیٹنے کہ کوشش کی لیکن اب بچنا محال تھا۔میں انکے پاوں کی طرف آیا اور انکی ٹانگوں کے درمیان بیٹھتا انکے نپلز کو چوستا۔۔ ہتھیلی کو انک پھدی پر گھماتا انہیں اور پاگل کرتا گیا۔۔وہ مدہوش لیٹی۔ اب انہوں نے ٹانگوں کو کھولا افففف جیسے ہی میری نظر انکی پھدی پر پڑی میں حیران رہ گیا۔۔پھدی کے تڑپتے ہونٹ۔ سچ کہا تھا کومل نے۔۔ سمجھو کنواری ای ہے۔۔ میں نے لن کے ٹوپے کو انکی پھدی پر رکھا اور ہلکا ہلکا دبا کر مساج کرنے لگاا۔۔۔ ااااغ آاااہ ۔۔ پھدی کے لبوں کو مسلتے ہوئے میں نے ہلکا سا پش کیا۔۔ ٹوپہ دانے اور پھدی سے پھسلتا ہوا ٹانگوں کو لگا۔ ہاااے مر گئ۔۔ آرام سےکرنا۔۔ تمہارا وووہ بہہت بڑا اورموٹا ہے میں نے بندےکےعلاوہ کسی سے نہیں کروایا آج تک۔۔ وہ مدہوش بول رہی تھیں۔۔میں نے انکی ٹانگوں کو اٹھایا اور کمرکے گرد کیا۔۔اور لن ک دوبارہ جمایا۔۔اور ہلکا سا پش کیا۔۔ اسبار لن پچک کی آواز کے ساتھ اندر گھسا افففف اندر جیسے بھٹی تھی۔۔ پھدی کی دیواروں نے جیسے ٹوپے کو جکڑ لیا۔۔ ادھر جیسے ہی ٹوپا گیا ۔ رابعہ نے کراہ بھری ہاااے نااااا آرام نال۔ اففف ہاااے۔۔ ٹوپہ پھنس چکا تھا۔ میں نے سانس روکا اور کچھ دیر رک کر پھر ہلکا جھٹکا مارا لن پھدی کی دیواروں کو کھولتا آدھے سے کچھ کم اتر چکا تھا یعنی انکی اینڈ لائن اس سے آگے وہ سیل بند تھیں۔۔وہ تیز کراہیں ہااااےمر گئی ہاےامی جی ۔۔ پاٹ گئی میری۔۔ وہ پنجابی اردو مکس چلا رہیں تھیں۔۔زور سےٹانگوں کو چھڑا کر نکلنا چاہ رہیں تھیں لیکن اب نا ممکن تھا۔۔ میں کچھ دیر رکا رہا اور ہلکا ہلکا وہیں آگے پیچھےکرتا رہا۔۔ کچھ دیربعد وہ قدرے نارمل ہوئیں اور اب وہ میرے ہلکےہلکے آگے پیچھے سے مست ہو رہیں تھیں۔۔ پھدی میں فل چکناہٹ تھی۔۔ ایسے کام نہیں ختم ہونا تھا۔۔ یہ ڈراچانک اتارنا تھا۔ میں انکے گالوں کو چومتا سہلاتا انہیں دھیان لگایا اور انکے لبوں کو چوستا ہوا جکڑا اور اوپر سے تیز جھٹکا مارا۔۔۔لن تباہی مچاتا جڑ تک اندر گھس چکا تھا۔۔ ہرنی ذبح ہونے جیسا تڑپی ایک تیز چیخ میرے لبوں میں گونج کر رہ گئی۔۔ انکی پھدی میں لن ایسے پھنسا ہوا تھا جیسے کوئی نرم گرم پلاس ہو۔۔افففففففف بہت ہی ٹائٹ۔۔ واقعی یہاں تک میں ہی پہلی بار پہنچا تھا۔۔ انکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔۔ کچھ دیر بعد میں نے ہلکا سا نکالا اور پھر آرام سے اندر کیا۔وہ پھر تڑپیں۔۔ اب میں وہیں لن کو ہلکا ہلکا گھمانے لگا۔۔ انکی سانسیں بےترتیب ہو چلیں تھیں۔۔ لن کی یہاں تک مار نے انہیں تڑپا ڈالا تھا۔۔ انکی کراہیں ہاےمیری پاٹ گئی ہااااے ۔۔۔اففففف۔۔۔ میں نے آدھا نکالا اور دھکامارا۔۔ لن سپیڈ سے اندر گیا اور پھر واپس آیا۔وہ ہاااااے کرتی مچلیں۔۔ لیکن یہ روانی ضرور ی تھی۔یہ ڈر اتارنا ضروری تھا۔۔ میں نے آدھےسے اوپر نکالا اففف لن پر ہلکی سرخی مجھے مردانہ خوشی دے گئیں اسی سرشاری میں جو دھکا مارا تو وہ مدہوش کراہیں ہااااے میں گگگگگئی کہتے ٹانگوں کی قینچی کو اورکسا انکی پھدی فل پھڑک رہی تھی انکی آنکھیں چڑھ چکی تھیں اور وہ فل سپیڈ سے چھوٹ رہیں تھیں
جاری ہے
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں