جمعرات، 7 اکتوبر، 2021

Baazigar Episode 3

 Baazigar


Episode 3


جانے بھوک کے بعد کھیر کھانے کا اثر تھا یا تھکاوٹ۔۔۔ یونہی روتے روتے میری آنکھ لگ گئی ۔۔۔ جانے رات کا کونسا پہر تھا جب میری آنکھ شدید پیاس سے کھلی ۔۔پہلے تو کچھ دیر مجھے سمجھ ہی نا آئی میں کہاں ہوں جب حواس بحال ہوئے تو میں چارپائی سے اترا۔۔ اور دروازہ کھول کر صحن میں جھانکا۔۔۔سامنے ہی لکڑی کی گھڑونجی پڑی ہوئی تھی جس پر مٹی کا گھڑا پیالے سے ڈھکا پڑا تھا میں بےتابانہ آگے بڑھا اور پیالے کو بھرکر غٹ غٹ پینے لگا۔۔ کچی مٹی کے گھڑے اور مٹی کے پیالے میں پانی پینے کا عجب ہی لطف ہے اس پانی کی ٹھنڈک مجھے اب تک یاد ہے۔۔ پانی پی کر میں یونہی صحن میں گھومنے لگا۔۔۔ابھی میں چند قدم ہی چلا تھا کہ مجھے اپنی دائیں طرف سے کتے کی غراہٹ سنائی دی یہ غراہٹ نہیں وارننگ تھی گویا۔۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اسطرف دیکھا۔۔ صبح والے کتوں میں سے ایک کتا غراتے ہوئے مجھے گھور رہا تھا۔۔۔میں نے فورا زقند بھری اور تیزی سے کمرے کی طرف بھاگا۔۔اور بدحواسی میں ساتھ والے کمرے کا دروازہ زور سے کھولا۔۔ سامنے شمع جل رہی تھی اندر کا نظارہ دیکھ کر مجھے کتے کا خوف بھول ہی گیا جیسے۔۔سامنے دری پر دن والی خاتون جس نے اپنا نام کاجل بتایا تھا چوکڑی مارے بیٹھیں تھیں اور انکے بلکل سامنے ایک کوبرا سانپ پھن پھیلائے بیٹھا تھا۔۔ دونوں کے درمیان ایک دودھ کا پیالہ تھا۔کاجل نے گہری سرخ چادر اوڑھ رکھی تھی اسکے گھنگھریالے بال کھلے تھے ایسا لگتا تھا جیسے اس نے سرخ چادر کے نیچے کچھ نہیں پہن رکھا تھا۔۔اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا اس نے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر مجھے چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔۔میں نے باہر دیکھا کتا اندر نہیں آیا تھا لیکن کتے کا خوف مجھےباہر بھی نہیں جانے دےرہا تھا۔۔ میں وہیں چپ بیٹھ اسے دیکھنے لگا۔۔۔کوبرا سانپ اور وہ ایک دوسرے کو گھورے جا رہے تھےاچانک سانپ نے اپنا پھن جھکایا اور پیالے میں رکھے دودھ کو زبان نکال کر چکھنے لگا تھوڑی دیر بعد کاجل نے ہاتھ بڑھایا اور سانپ کو پکڑ کر ساتھ پڑی پٹاری میں رکھ دیا اور خود اسی پیالے کواٹھا کر وہی دودھ پینے لگی میرا تو دماغ جیسے ماوف ہو چکا تھا

دودھ پی کر اسنے میری طرف دیکھا۔۔ اسکی سبز آنکھوں سے عجیب سی چمک پھوٹ رہی تھی وہ دری سے اٹھی اور طریقے سے سرخ چادرکو اپنے گردلپیٹ لیا جیسے ساڑھی ہو ۔۔۔اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا اس نے مجھے اشارے سے ساتھ آنے کو کہااور باہرنکل گئی۔۔۔صحن چاندنی سے روشن تھا۔۔۔میں نے زندگی میں پہلی بار چاند کو اتنا روشن دیکھا تھا۔اس نے مجھے چاندکو دیکھتے دیکھا تو بولی چودھویں کاچاند ہے پورا چاند ۔۔ اور تم نے میرا بہت نقصان کر دیا آج۔۔ اسکے چہرے پر جیسے پرسرار سی اداسی پھیلی ۔۔لیکن تم ایسے بھاگتے کیوں آئے باہرسے۔۔۔ اور میں اسے بتانے لگا کہ کیاہوا ہے۔۔ اوہ میں بھول گئی پانی رکھنا ۔۔ چلو جوہوا اس میں کچھ راز ہوگا ۔۔۔ لیکن یہ سب کیاتھا تم کون ہو میں پہلے ہی بہت پریشان ہو مجھے بتاو میں جیسے پھٹ پڑا۔۔ وہ میرے سامنے آئی اور کہنے لگی سب بتاوں گی بس وقت لگے گا اور رہی بات پریشانی کی تو تم اب میری پناہ میں ہو بابا کی پناہ میں ہو۔۔ ہم تمہارے لیے مخلص ہیں بالی ۔۔۔جانے اسکی باتوں میں کیا اثر تھا میں جیسے مسمرائز سا ہو گیا۔۔ابھی تو میں تمہارا کتوں کا ڈر نکالتی ہوں اور میرے کچھ کہنےسے پہلے اس نے ششکارا سا بھرا۔۔ چند لمحوں بعد دونوں کتے ہمارےسامنے تھے۔۔ میں ڈر کر کاجل کے پاس ہوا۔۔ اونہوں ڈرو نہیں۔ لاو اپنا ہاتھ دو مجھے۔۔۔ میں نےڈرتے ڈرتے ہاتھ آگے بڑھایا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا جیسے ہی میرا ہاتھ اس نے پکڑا مجھت جیسے عجیب سنسناہٹ سی ہوئی۔۔۔اسکا ہاتھ عجیب سی حرارت لیے ہوئے تھا۔ہاتھ کی گرمائش جیسے میرے پورے جسم میں پھیل سی گئی ایک سنسناہٹ سی۔۔۔میرا کسی عورت سے تعلق نہ سہی لیکن سلام دعا اور ہیلو ہاے میں کافی لیڈیز ٹیچرز سے میں ہاتھ ملا چکا تھا لیکن اس کی حرارت سب سے جدا تھی۔۔میں شائد اسی کیفیت میں کب تک رہتا اگر وہ اگلاقدم نا اٹھاتی۔۔اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور دونوں کتوں کی تھوتھونیوں سے جا لگایا۔۔۔دونوں کتوں نے میرے ہاتھ کو سونگھا چاٹا ۔۔ افففف انکی کھردری زبانوں کا لمس ۔۔ وہ لمس مجھے حال میں واپس لے آیا۔۔ لو اب سے یہ کتے تمہارے وفادارہیں انہوں نے تمہاری بو پالی ہے۔۔ اب نا ڈرنا۔۔۔میں نے جلدی سے کتوں کی رالوں سے گیلا ہوتا ہاتھ اپنی قمیض سے رگڑا اور کہا پکا نا یہ اب کچھ نہیں کہیں گے۔ کاجل ہلکا سا مسکرائی اور کہا ہاں بالی پکا۔۔ چلواس نے پھر میری طرف ہاتھ بڑھایا اور میرا ہاتھ تھام لیا۔مجھےپھر وہی کرنٹ سا لگا اسکی فرحت انگیز حرارت مجھے عجیب سا سلگانے لگی کچھ عجیب تھا اس کے لمس میں۔۔۔پانچ دس گز کے سفر نے مجھے جیسے جلاکر رکھ دیا تھا۔۔۔جیسے ہلکی وولٹیج کا کرنٹ اسکے ہاتھوں سے نکل رہا تھا۔۔۔اچانک شائد اسے احساس ہوا اس نے تڑپ کر میرا ہاتھ چھوڑا اور بولی ہاے رام۔۔۔بالی تم ٹھیک ہو نا۔۔ میں جیسے غنودگی میں بولا ہاں ٹھیک ہوں ۔ وہ مجھے میرے کھاٹ تک لائی اور بولی تم لیٹ جاو میں کسی معمول کی طرح لیٹتا گیا۔ وہ میرےپاس کھڑی ہوئی اور کہا تمہارے کچھ سوالوں کاجواب تو ساتھ ساتھ ملتا جاے گا اور کچھ باتوں کا جواب تمہیں نو چندی جمعرات تک مل جاے گا۔۔۔ نو چندی جمعرات کیا ہوتی ہے میں نے کھوئےلہجے میں کہا۔۔ نوچندی جمعرات یعنی نئے چاند کی پہلی جمعرات۔۔۔ اور اس دن تک تم فیصلہ کرو تم نےآگے کیا کرنا ہے۔۔وہ مجھے مزید الجھاتی کمرے سے نکل گئی۔۔۔ اسکے جانے کے بعد بھی وہ پراسرار سا نشیلہ کرنٹ مجھے گھیرے رہا۔

شہر کی نسبت یہاں زندگی بہت سست اور سلو تھی۔ میرا کتوں سے ڈر اتر چکا تھا۔۔اونچے نیچے ٹیلوں کے درمیان میں یہ نشیبی سا علاقہ تھا جہاں کاجل لوگوں کی جھونپڑی تھی۔۔ جھونپڑی کے عقب میں جانوروں کا باڑہ تھا۔مجھے یہاں آئے تیسرا دن ہونے کو تھا۔۔مجھے ہر چیزمیں پرسراریت نظر آتی تھی لیکن میں کافی حد تک سنبھل چکا تھا۔۔ادھر ادھر سے گھوم کر میں واپس آیاتو کاجل چولہا جلاے کچھ پکا رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر مسکرائی اور کہا گھوم آئے ۔۔ آ جاو تمہارے لیے ہالیے کی کھیر بنا رہی ہوں میں۔۔بہت طاقت والی ہوتی ہے ساتھ تھوڑی ہلدی بھی ڈال دی ہے تمہارے لیے اچھی ہوگی۔۔آج پھر کھیر مجھے کچھ مرچ والا کھانا دو نا پلیز میں جو شہری چٹخارہ دار کھانوں کا عادی تھا آختر بول ہی بیٹھا۔۔ وہ ہلکا سا مسکرائی اور بولی بس آج شام یا کل تک بابا آ جائیں گے تو جو تم کہو گے وہ کھلا دونگی۔۔ کچھ دیر کے بعد کاجل نے کہا تمہارے کپڑے بہت گندے ہو گئے ہیں میں نے تمہارے لیے ایک دو سوٹ نکالے ہیں امید ہے تمہیں پورے ہونگے ۔۔ تھوڑے پرانے ہیں لیکن نئے ہیں۔۔۔ کیامطلب پرانے بھی نئے بھی میں نے حیرت سے کہا۔۔۔ بالک پرانے مطلب کافی وقت پہلے کے سلے ہوے اور نئے مطلب ابھی تک انہیں پہنا کوئی نہیں۔۔۔ وہ اٹھی اور اندر سے تین چار جوڑے شلوار قمیض کے اٹھا لائی۔ مجھے نہانا ہے کب سے میں گندہ ہوں کیا کروں ؟ نہانا ہے تو نہا لو لیکن تھوڑا چلنا پڑے گا آو میں تمہیں بتاتی کیسے اور کہاں نہانا ہے۔۔ وہ مجھے ساتھ لیے لیےباہر نکلی۔۔۔اور ٹیلوں کے درمیان بنے قدرتی راستوں سے نکالتی ایک کھوہ کے پاس لے آئی۔۔ کھوہ کا سرا لکڑی کے پھٹوں سے ڈھکا ہوا تھا۔۔ہم دونوں نے وہ پھٹے ہٹاے اور اندر داخل ہوئے۔۔۔ اندر ہلکا ملجگا اندھیرا تھا۔۔ کچھ دور چلنے کے بعد کھوہ بائیں طرف مڑی اور مجھے ایسے آواز آنے لگی جیسے کہیں پانی گر رہا ہو۔۔تھوڑا آگے جا کرایک زیرزمین پانی کا چشمہ نظر آیا جو جانے کدھر سے آ رہا تھا اور پہاڑی ٹیلوں کے درمیان سے گزرتا ہوا جانے کدھر جا رہا تھا۔۔ایک جگہ پانی کسی بہتے تالاب ک طرح رواں تھا۔۔ صاف شفاف پانی اور اسمیں کہیں کہیں تیرتی رنگ برنگی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں۔۔ اتنا شفاف پانی میں پہلی بار دیکھا۔۔ اور حیرت سے کاجل کو دیکھا۔۔ یہاں نہا لو۔۔۔ ہم یہیں نہاتے ہیں ۔۔۔وہ وہیں ایک اونچی جگہ پر بیٹھی اور پانی کو ہاتھ لگا کر بولی تھوڑا ٹھنڈا ہوگا پانی۔۔ میں جو پسینے مٹی اور خراشوں سے رستے سوکھے خون سے تنگ آ چکا تھا جلدی سے بولاجو بھی ہومجھے نہانا ہے۔۔۔کاجل نے وہیں ایک طرف پڑا دیسی صابن مجھے دیا اور کہا جاو نہاو۔۔۔تمہارے سامنے ۔۔۔ میں نے جھجھک کر پوچھا۔۔۔ ہاں تو کیا ہوا یہ لو لنگی باندھو اور نہالو باہر نکل کر کپڑے بدل لینا۔۔۔ میں جھجھکتا ہوا آگے بڑھا ۔۔ بڑی مشکل سے اسکی دی چادر کولنگی کی طرح لپیٹا اورچشمے میں داخل ہوا۔۔۔ پانی کافی ٹھنڈا تھا ۔۔۔اتنا ٹھنڈا کہ میری بتیسی بجنے لگی ۔۔۔ کاجل ہنستے ہوے میری حالت دیکھ رہی تھی۔۔شیمپو اور خوشبودار صابن کی بجاے دیسی مارکہ کپڑے دھونے والے صابن سے میں پہلی بار مل مل کر نہایا اور تھر تھر کانپتا باہرکو بھاگا۔۔

میں اپنی تعریف نہیں کرونگا لیکن نازو نعم والے ماحول میں پرورش اچھی خوراک اور الہڑ جوانی کے ساتھ ساتھ اپنے بابا کی پرسنیلٹی کا عکس تھا میں۔ گورا چٹا رنگ چہرے پر آتی ہلکی ہلکی سنہری رویں میں بہت خوش شکل سا لڑکا تھا تب ۔۔ اکثر سکول کی ٹیچرز میرے گالوں پر چٹکیاں کاٹتی تھیں جسے راحیل ٹھرک کہتا تھا اور میں اسکی لوفرانہ گفتگو پہ ہمیشہ ہی تپتا تھا۔۔۔جب میں باہرنکلا تو لنگی میری ٹانگوں کے ساتھ بلکل چمٹی ہوئی تھی اور گویا میرا سارا جسم لش پش کر رہا تھا۔۔کاجل نے انتہائی گہری نظروں سے مجھے دیکھا اور کالے رنگ کا جوڑا مجھے پکڑا دیا۔۔۔ لوپہلے قمیض پہنو اور پھر اسکے پردے میں شلوار بدلو اس نےمجھے دیسی طریقہ بتایا۔۔۔جیسے ہی کالا جوڑا پہن کر میں نے بالوں میں انگلیاں چلا کر تیاری مکمل کی تو کاجل جیسے مجھے بغور دیکھے جا رہی تھی۔۔وہ چلتی چلتی میرے پاس آئی اور اپنی چنری کیے کونے سےایک ڈبیا نکالی اور کہا ادھر آو تمہیں کاجل کا ٹکا لگاوں۔۔ ڈبیہ سے تھوڑا سا کاجل انگلی پر لگا کر اس نے میرے دائیں رخسار پر انگلی لگائی۔۔۔ اور ہلکا سا رخسار کو چھوا۔۔ افففف اسکے ہاتھوں کا لمس مجھے پھر سے جھنجھنا سا گیا

ایسے لگتا تھا جیسے اس میں پراسرار مقناطیسیت سی۔یہ کیا کر رہی ہو کاجل میں نے پوچھا۔۔کجلا لگا رہی ہوں بالی ۔۔ کالا جوڑا تم پ بہت جچ رہا ہے دیکھو نا سائز بھی پورا نکلا۔۔ ۔۔ہم کھوہ سے باہر نکلے سہ پہر کے سائے پھیل رہے تھے جب ہم گھر واپس پہنچے۔۔ جس کمرے میں میری عارضی رہائش تھی وہیں ایک ٹوٹے شیشے میں دنوں بعد میں نے اپنا عکس دیکھامجھے اپنا جائزہ لیتے دیکھ کر کاجل بولی دیکھا کالے جوڑے میں کیسا روپ نکل آیا شہزادوں جیسا۔۔اسکی سبز آنکھوں میں جیسے چمک سی لہرائی۔۔اور پھر وہ شرارت سے بولی ویسے ایک بات سہی کہہ رہا تھا وہ پٹھان۔۔۔ کک کیا بات میں حیران ہوا۔۔ تم ہو بہت چکنے لونڈے۔۔اور میں اسکی ایسی بات سن کر شرما کر رہ گیا مجھے ایسے شرماتے دیکھ کر اس نے بلند قہقہہ لگایا۔۔اس سے پہلے کے میں کچھ بولتا باہر سے ایسے آواز آئی جیسے کوئی پرندہ کوک رہا ہو جیسے ہی کاجل نے یہ آواز سنی وہ باہر کو لپکی اور بولی لگتا بابا آ گیا میرا تم یہیں اندر رکو جب تک میں نا کہو۔۔۔ میں نے دروازے کی درز سے باہر جھانکا۔۔صحن میں ایک صحرائی عقاب اپنے پر پھڑ پھڑا رہا تھا۔۔۔ کچھ دیر گزری جب ایک ریڑھی باہر رکی اور ریڑھی کے اوپر بابا بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ دونوں ملکر ریڑھی سے سامان اتارنے لگ پڑے

سامان اتارتے اتارتے کاجل نے آواز لگائی بالی آ جاو دیکھو بابا آیا۔۔ جیسے ہی میں باہر نکلا اور کاجل کے بابا رام کی نظر مجھ پر پڑی اسکے چہرے کا رنگ بدلا جیسے ۔۔یہ یہ سوٹ ۔۔۔ میں نے دیا ہے اپنی مرضی سے کاجل نے کہا اور سامان اٹھاے اندر کوچل دی۔۔۔ کاجل کی عمر کچھ تیس سال کے آس پاس ہوگی مضبوط جفاکش عورتوں جیسا جسم جس میں نسوانیت والی لچک بھی تھی۔۔میں نے غور کیا جیسے بابا مجھے کن انکھیوں سے بار بار دیکھتا ہے میں نے سوچ لیا کہ آج رات ان سے انکے بارے لازمی پوچھوں گا۔رات کو کاجل نے مرغ پلاو پکایا اور کافی دنوں بعد تیکھی مرچی کھا کر مجھے زندگی کا احساس ہوا

یہ اسی رات کا قصہ ہے جب رات کو بادل گرجنے سے میری آنکھ کھلی۔میں نے باہر جھانکا باہر بادل چھا چکے تھے بارش بس آنے کو تھی اس سے پہلے کہ میں پلٹتا مجھے کسی کے سسکنے کی آواز سنائی دی سسکی واضح طور ساتھ والے کمرے سے آئی تھی میں نے دروازے کی درز سے جھانکا۔۔۔ بابا اور کاجل آمنے سامنے بیٹھے تھے اور بابا کاجل کا سر تھپک کر اسے چپ کرانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ مان جا دھیئے ۔۔۔تم پھر سے خود کو تکلیف دے رہی ہو۔۔ تمہارے ساتھ جو ہوا اسکا کسی کو دوش نہیں ۔۔ یہ مہمان ہے آج یا کل چلا جاے گا یہ اجے نہیں ہے اجے سرگباش ہو چکا۔۔۔اور اسکا تمہارا کوئی جوڑ نہیں ۔۔۔ایسی بات نہیں بابا۔۔ چپ اب اپنے بابا کو دھوکہ دے گی ۔۔ ایسا نا ہوتا تو تم کالا جوڑا اسے نا دیتی۔۔میں اسےکل ہی واپس پہنچا کے آتا ہوں جہاں کا ہے بابا نے سخت لہجے میں کہا۔۔۔ ننن نہیں اسے یہاں رہنے دو وہاں ظالم زمانہ اسے مار دے گا کدھر جاے گا۔۔ اور ادھر یہی حال رہا تو تم ضبط نہیں کر سکو گی تم مار دو گی اسے۔۔۔ جانتی ہو نا کیا کہہ رہا میں۔۔اچانک بجلی اتنے زور سے چمکی اور گرجی جیسے جھونپڑی کو جلانے لگی ہو۔میں بےساختہ چیخ اٹھا میری چیخ سن کر دونوں چونکے میں جلدی سے واپس کمرے کو پلٹا اور سیدھا کمرے میں گھس گیا۔۔چند لمحوں بعد کمرے کا دروازہ کھلا اوربابا اندر داخل ہوا کیا بات ہے بالک چیخے کیوں اسکے پیچھے پیچھے کھلے دروازے میں کاجل کھڑی تھی ۔۔ تیزی سے آنے کی وجہ سے اسکے سر پر اوڑھنی نہیں تھی پہلی بار میں نے اسےبھاری اورھنے کے بنا دیکھا۔۔۔ بتیس تینتیس کی ہونے کے باوجود اسکا کسا ہوا بدن اور بھاری سینہ جیسے مجھے ساکت کر گیا۔۔ کک کچھ نہیں بجلی کی چمک سے ڈر گیامیں نے نظریں چراتے ہوے کہا ۔۔بابا ہنسا اور کہا ادھر ایسی ہی بارش ہوتی بجلی چمکتی۔۔۔میں نے چوری چوری پھر کاجل کو دیکھا عجیب سی مقناطیسیت تھی اس میں ۔۔لیکن اسبار میری چوری پکڑی گئی اور ہماری نظریں ملیں۔۔۔ جیسے ہی کاجل کو احساس ہوا میں اسے دیکھ رہا ہوں اس نے جلدی سے اپنے بازو سینے پر باندھ لیے ۔۔۔جلتی شمع کی روشنی میں اس کے چہرے پر لالی سی لہرائی اور وہ فورا واپس پلٹ گئی

کاجل کے جانےکے بعد بابا میرے قریب آیا اور بولا تم ہماری باتیں سن رہےتھے نا ۔۔۔ تمہاری چیخ دروازے کے پاس سے آئی تھی ۔۔ میں بادلوں کی آواز سن کر باہر نکلا اور پھر آپ لوگوں کو جاگتا دیکھ کر رک گیا میں نے شرمسار لہجے میں کہا۔ہمممم تو کیا سنا تم نے۔ بابا کے استفسار پر میں نے وہ باتیں بتائیں جو سن چکا تھا۔۔۔ تب بابا نے ہنکارہ بھرا اور کہا تو اب تمہارا کیا ارادہ ہے ۔۔تم صحتمند ہوچکے ہو۔۔ واپس چلے جانا تمہارے لیے بہتر ہوگا میں تمہیں خود شہر تک چھوڑ کر آونگا ۔۔ یہاں تم ضائع ہو جاو گے جاو بالک واپس جاو۔۔۔میں جواب دینے ہی لگا تھا کہ کاجل کی آواز ۔۔تم ایسے اسے نہیں بھیج سکتے ہاں یہ خود جانا چاہے تو جاے۔۔۔ للکین بٹیا ۔۔ بس آج تک میں کچھ نہیں بولا آج بس بول دیا کہتے کاجل کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔۔رام رام کلجگ ہے بھیا کلجگ بابا بڑبڑاتا رہا اور اگر یہ جانا چاہے تو کہتے ہوے بابا نے میری طرف دیکھا اور بولا بولو بالک۔ میں نے ایک نظر کاجل کی طرف دیکھا جسکی پرسراریت مجھے باندھ رہی تھی اور سوچا ابھی واپس جانا یعنی دشمنوں کے آگےخود پیش ہونا جانے وہاں کیا حالات ہوں اور پورن ماشی کی رات مجھے کاجل سے اس رات کا راز سننا تھا اسی لیے میں نے کہا نہیں میں رکنا چاہتا ہوں۔۔ دیکھا دیکھا کاجل چہکی۔ یہ رک رہا ہے کیونکہ اسے پتہ کچھ نہیں ۔۔۔ میں بتا دونگی اسے خود اور اگر یہ پھر بھی رکا رہا تو تم اسے نہیں بھیجو گے بولومنظور۔۔۔ اور بابا بڑبڑاتا ہوا سر ہلا گیا

اگلے دن صبح دس گیارہ کا وقت ہوگا جب اچانک سکون سے بیٹھے کتے بھونکنے لگے۔۔لگتا ہے کام آ گیا بابا نے ہولے سے کہا اور تیزی سے باہر کو نکلا۔۔۔ کچھ دیر گزری تھی کہ کسی جیپ کے آنے کی آواز سنائی دی۔میں دروازے کی اوٹ میں ہو کر باہر دیکھنے لگا۔۔ باہر کوئی مقامی جوان شکاری جیپ میں بابے سے آہستہ آواز میں کچھ باتیں کر رہا تھا۔۔ بابا کچھ دیر سر ہلاتا رہا اور پھر بولا تم ٹیلوں پاس رکو میں آتا ہوں۔۔۔ اسکے جانے کے بعدبابا اندر آیا اور کاجل کو بلا کر کہنے لگا لو بھئی بڑا کام مل گیا۔ شیخ آ رہے ہیں اگلے ماہ ۔۔۔ نہیں پکھیرو چاہیے میں جا رہا ہوں۔۔ مجھے کچھ دن لگ جائیں گے تمہیں کچھ منگوانا ہےتو بتا دو۔کاجل سے بات کر کے بابا نے مجھ سے پوچھا بالک تمہیں کچھ چاہیے۔۔۔ ہاں مجھے کچھ چیزیں چاہییں اور بابا کو ٹوتھ برش پیسٹ وغیرہ کے علاوہ پچھلے پندرہ دن کی اخباریں لانے کا کہہ دیا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد بابا اپنا سازو سامان لیکر روانہ ہو گیا۔۔ اسکے جانے کے بعد کاجل بولی ۔۔ بالی مجھے کپڑے دھونے ہیں چلومیرے ساتھ چشمے چلتے ہیں۔۔۔ہم دونوں کپڑوں کی گھٹڑی اٹھاے اسی کھوہ کے اندر چشمے پر چلے گئے۔۔تالاب کےکنارے کاجل کپڑے دھونے لگی اور میں تالاب کے گرد گھوم گھوم رنگ برنگی مچھلیوں کو تیرتے دیکھنےلگا

اپنے خیالوں میں مگن پانی سے کھیلتے کھیلتے اچانک میری نظر کاجل پر پڑی۔۔ ایک پتھر پر بیٹھ کرجھک کر کپڑے دھوتے ہوے اسکا گریبان کافی اندر تک کے نظارے دکھا رہا تھا۔۔ مجھے جیسے کرنٹ سا لگا۔۔۔اسکا سانولا چنگھاڑتا جسم جیسے مجھے کھینچ رہا تھا۔۔ ایک بیخودی کے عالم میں میں نے چلو میں پانی بھرا اور اس پر پھینکا وہ چونکی اور ہنس کر بولی ٹھہرو بالی کے بچے تمہیں بتاتی میں۔۔ اس نے کپڑے چھوڑے اور میرے پیچھے بھاگی ۔۔میں تالاب کے اوپر اوپر سے چکر کاٹ کر بھاگا۔۔۔ لیکن وہ جنگلی مٹیارن قلانچیں بھرتی میرے بلکل عقب میں آ گئی جیسے ہی مجھے لگا میں اسکی گرفت میں آنے لگا ہوں میں نے سکول زمانے میں ہاکی والا تجربہ آزمایا اور اسے جھکائی دی وہ اپنی جھونک میں سیدھا تالاب کے اندر جا گری وہ تڑپ کر تالاب سے جیسے ہی نکلی مجھے لگا جیسے پانی سے جل پری نکل آئی ہو۔ کاجل کے بھیگے کپڑوں سے نچڑتا پانی اور اسکا سانولا شباب میرا دل دھڑکا گیا

اسکے کپڑے اسکے بھرے جسم سے چمٹے ہوئے تھے ایک طرف آتش بھڑکتی جوانی تھی اور ادھر نئی نئی نشیلی جوانی۔وہ تیزی سے میری طرف لپکی اور مجھے بھی دھکا دیکر پانی میں گرا دیااورکنارے کھڑی ہنسنے لگی۔۔۔ میں جلدی سے اٹھا اور اسک طرف دیکھنے لگا ۔۔ اسکے بھاری سینےکی اٹھان اور چمٹی شرٹ کے اندر سے نظر آتا برا۔۔برا کا کٹاو۔۔ اسے بھی اچانک اسے احساس ہوا اس نے مجھے گھور کر دیکھا اور بےساختہ بولی انسان بنو اجے۔اور اچانک سے یہ بول کر وہ سنبھلی اور جلدی سے رخ موڑ کر واپسی کو پلٹی۔۔ میں وہیں سے بولا کاجل رکو وہ وہیں رک گئی۔۔ جانے کیوں میرے لبوں سے نکلا اگر تمہیں اجے نام اچھا لگتا ہے تو تم مجھے اجے کہہ لیا کرو سمجھو میں اجے ہی ہوں۔۔ میرے ان الفاظ کو سنتے ہی وہ پلٹی اور بولی سچی کہہ لیا کروں تمہیں اجے اسکے چہرے پر امید کے تاثرات تھے ہاں کہہ لیا کرو میں اجے ہی ہوں۔۔ یہ سننا تھا کہ اس نے سسکی لی اور وہیں بیٹھ کر گھٹنوں میں سر دے لیا۔۔ میں تالاب سے باہر نکلا اور چلتا اسکے پاس گیا۔۔ کاجل سنو نا۔۔۔ لیکن وہ وہیں گھٹنوں میں سر دیے سسکتی رہی۔۔۔میں نےہمت کر کے اسکے کاندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔۔ ہاااے اسکے ننگے شانے کا لمس۔۔۔ جیسے ہلکا کرنٹ جسے ارتھ کہتے ہیں وہ جسم جھنجھنانےسا لگا۔۔ میری ہاتھ کے دباو سے اسکا جسم ہلکا کانپا اور وہ روہانسی آواز میں بولی مجھے ہاتھ مت لگاو جل جاو گے۔اسکا سحر جیسے چھانے لگا تھا میں جیسے مسمرائز سا بولا جل جانے دو لیکن مجھے بتاو تو سہی کون ہو تم ۔۔۔اور کون ہے اجے وہ سب باتیں ۔۔۔ مجھے پورن ماشی نہیں آج سننی ہیں ۔۔۔ نا کرو اجے آگ سے مت کھیلو ۔ جاو تم واپس چلے جاو تو تم نہیں بتاو گی اپنے اجے کو نہیں بتاو گی۔ وہ کچھ دیر چپ رہی پھر سرسراتے لہجے میں بولی بتا تو دوں لیکن اس سے کیا ہوگا۔۔۔ آگ کو نا ہوا دو اجے۔۔ بسسسس کیاہوگا جل جاوں گا جل جانے دو ایسی زندگی سے میں تنگ آ گیا ۔۔ میری دنیا ختم ہو چکی تھی مر جانے دیا ہوتا نا۔۔۔ چپ چپ چپ وہ چیخی پھر نام مت لینا پہلے کی طرح اب تمہیں مرنے نہیں دونگی اجے وہ جیسے تڑپ سی گئی۔لیکن مجھ سے ایک وعدہ کرو یہ راز یہیں اسی کھوہ میں دفن کر دوگے ۔۔ بابا کے علاوہ تم دوسرے زندہ بندے ہوگئے جسے اس راز کا علم۔ کرو وعدہ ۔۔۔ میں نے ہاتھ آگے بڑھایااور کہا وعدہ یہ راز سمجھو یہیں دفن ہوگیا۔ کچھ دیر سکوت کے بعد وہ بولی

بابا میرا باپ نہیں میرا تایا اور میرا سسر ہے۔۔۔ہمارا تعلق ہندو مذہب سے ہے۔۔ ہم ناگ دیوتا کوپوجتے ہیں۔۔ ہمارا خاندان سمجھو مہا پجاریوں کا خاندان ہے سانپوں کومیں بچپن سے دیکھتے آئی ہوں۔۔سانپ ہمیں کچھ نہیں کہتے۔۔۔ہم سانپوں کا زہر بھی نکالتے ہیں میرا بابا بہترین شکاری ہے ۔۔ یہ اکثر باہر عرب ممالک میں جاتا ہے ۔۔ سانپوں کےعلاوہ بازوں کا ماہر ہے۔۔جب میں دو سال کی تھی تو غلطی سے میں نے نکالے ہوئے زہر کو چکھ لیا۔۔ سمجھو مرنے کی دہلیز پر پہنچ گئی لیکن خاندانی ٹوٹکوں سے اور ناگ منکے سے میری جان تو بچ گئی لیکن زہر میرے اندر سرایت کر گیا۔ ایسا زہر جو میرے خون میں اثر کر گیا۔ کچھ ماہ گزرے تھے کہ میرے جسم میں اینٹھن سی پیدا ہونے لگی۔بابا ایک بزرگ حکیم کو لائے اور اس نے ساری کہانی سننے کے بعد کہا کہ۔میرا جسم اور خون زہر کو قبول کر گیا ہے اور جیسے جیسے لہو سے اس زہر کی مقدار کم ہوئی اسے زہریلے نشے کی تروٹک ہونے لگی اسکا علاج زہر ہی ہے۔۔ بہت سوچ بچار کے بعد مجھے اس رات کی طرح زہریلا دودھ پلایا گیا۔ اور پھر یہی میرا علاج بن گیا لیکن اس زہر نے مجھے ایسازہریلا کر دیا کہ سمجھو میں ناگن بن چکی ہوں۔۔ میراتھوک جسے لگ جاے اسے بخار ہو جاتا ہے۔۔ اور اگر میں اسے دانت کاٹ لوں سمجھو اسے سانپ کاٹ لیا۔۔ میری جلداسی لیے ایسے چمکیلی سانولی ہے جیسے سانپوں کی۔۔ اور میرے جسم کی حرارت بھی عام لوگوں سے جدا ہے ۔۔ یاد اس رات جب میں تمہارا ہاتھ پکڑا تھا اور پھر یاد آنے پر تمہاری خیریت پوچھی تھی اسی لیے کہ تم جیسے کم عمر کوتو میری حرارت جلا دیتی اسی لیے میں نے کہا تھا مجھے کسی سے سےڈر نہیں۔۔ اجے کو میں پسند کرتی تھی لیکن جب میں تیرہ سال کی ہوئی اور مجھے خون آیا اسکے بعد امیدپیداہوئی شائد آگے سیکس اور بچوں کے بعد میرا اثر کم ہوجاے عین جوانی میں سمجھو میں بجلی کا ننگا تار بن گئی۔اجے مجھے جھیل لیتا کیونکہ وہ بھی ہماری نسل سے تھا لیکن بلکل تمہاری ایج میں اسکا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور وہ بھگوان پاس چلا گیا۔ خاندان میں اور کوئی جوڑ نا تھا اور باہر کے خاندان میں مجھے بیاہنا یعنی انہیں ہر دم موت کے منہ میں رکھنا تھا۔۔۔ تم مسلمان ہو شائد نا مانو اجے کی موت کے ساتھ ہی میں ستی ہو جاتی اگر سب مجھے باندھ نا دیتے۔جس دن اسے جلایا گیا اس رات مجھے خواب آیا۔۔کہ اجے دوسرا جنم لے گا آئے گا۔۔ جب تمہیں میں نے دیکھا تم بلکل ویسے بے سدھ پڑے تھے۔ اسی لیے میں نے کہا تھا مجھے یقین تھا اجے تم آو گے۔۔ یہ کپڑے جو تم پہنے یہ اجے کے تھے بلکل نئے۔۔۔ اسی لیے بابا میری تم میں دلچسپی کو بھانپ کر مجھے سمجھا رہا تھا۔۔ جانوروں میں رہتے رہتے ہماری حسین بدل چکیں۔۔ مجھے خوشبو آ جاتی۔۔ حتی مجھے پسینے سے آنے والی خوشبو سے اندرونی کیفیت کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ اگلا بندہ کیسے جذبات کا شکار۔۔لیکن تم آئے بھی تو کیا ۔۔تمہاری الگ زندگی میری الگ ہمارا اس جنم میں بھی ساتھ نہیں ہے اجے۔۔ وہ بول چکی تھی ہر طرف سناٹا تھا۔میں اکیسویں صدی میں ایسی باتیں سنکر حیران تھا لیکن کم از کم اسکے لمس کی حد تک اوراسکے زہریلا دودھ پینے کی حد تک میں گواہ تھا۔۔۔ وہ عجیب لمحے تھے ہماری آنکھیں ایکدوسرے پر جمی تھیں اور اسکی سبز آنکھوں کا سحر مجھے گھیر رہا تھا کسی نشیلے اثر کے تحت میں نے کہا کاجل میں نے کہہ دیا نا میں اجے ہوں تو سمجھو تمہارا اجے ہوں۔۔ تمہارا یہ وہم میں توڑوں گا ہوتا ہے بخار ہو جاے میں تمہیں بہتری کی طرف لاوں گا۔۔ میں تمہیں مکمل کرونگا۔۔ نہیں نہیں اس نے سسک کر کہا بالی ہو تم ۔۔ تمہارا برا حال ہو جاے گا اور تم ہو بھی بلکل چکنے اس نےتلخی سے کہا۔۔بس چپ۔۔ پتہ ہے میں تو آج تک عام عورت کو بھی نہیں چھوا اور نا ہی مجھے علم زیادہ۔۔۔ لیکن تم نے میری جان بچائی ۔۔ میں اتنی مشکلات سے گزر کر تم تک پہنچا

اس میں حکمت ہوگی تمہیں اجے کا واسطہ بس چپ۔۔ للیکن سنو تو ایک شرط اور بھی تھی کہ مجھ سے ملن والا خالص کنوارا ہو اس نے مرد عورت خودلذتی کچھ بھی نا کیا ہو اسکا پہلا باقاعدہ انزال جوان لہو کا پہلا گوہر ۔۔۔ ورنہ اسکے لیے مشکل ہو جاے گی۔۔ میری شادی نا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کسی سے پہلے کیسے یہ سب پوچھتے بتاتے۔۔ میں اسکے سامنے بیٹھا اور کہا تو سنو میں آج تک کچھ بھی نہیں کیا۔۔کچھ سال پہلے میں بالغ ہوا ہوں ۔۔ ایک آدھ بار کے احتلام کے علاوہ بلکل خالص کنوارا ۔۔ عورت کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔۔۔ تب جیسے اسکا چہرہ چمکا اور اس نے سرگوشی سے کہا بالی سوچ لو ۔۔ تمہاری قسم کاجل سچ کہہ رہا۔۔ تب جیسے وہ کھل ر بولی اگر تم نےمیرا علاج کر دیا تو تم سوچ نہیں سکتے کاجل یعنی کجلا دیوی تمہیں کیا دان کرے گی ایسا خزانہ جو تمہیں سلطان بنا دے گا۔۔میں تھوڑا مخمور ہوا اور کہا مجھے وہ خزانہ نہیں یہ خزانہ چاہیے میں نے ہاتھ بڑھایا اور اسکے کندھے پر رکھا ۔۔ اسکے لمس نے وہی کیا جو کرنا تھا۔۔ اس نے جلدی سے میرا ہاتھ ہٹایا اور کہا اگر تم یہ قربانی دینے کا فیصلہ کر ہی چکے ہو تو وقت مقررہ سے پہلے مجھے نا چھوو ۔۔ مجھے کچھ تدابیر کر لینے دو چندا۔۔ پہلی بار اسکا چہرہ گلابی ہوا اور اسکے اندر کی سولہ سالہ لڑکی جاگی ہو جیسے


جاری ہے

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں