منگل، 5 اکتوبر، 2021

Manhoos se Mahan tak Episode 3

منحوس سے مہان تک


 Episode 3


آمت اپنے کمرے میں سو رہا تھا تینوں بھائی اپنے اپنے کام نکل گئے اس کے بعد تینوں عورتیں مل کر دوپہر کا کھانا بنانے لگتی ہیں گوری کے من میں آمت کی تبعیت کو لے کر چنتا تھی اس لیے وہ دیکھنے جاتی ہے مگر آمت سو رہا تھا وہ اسے دور سے ہی سوتا دیکھ کر لوٹ آتی ہے


وہیں دیپکا کے من میں ایک ہی بات چل رہی تھی کہ آخر کیا وجہ ہے جو کامنی اتنی نفرت کرتی ہے آمت سے، من ہی من میں اس نے فیصلہ کرلیا تھا وہ پتہ لگا کر رہیں گی پہلے بھی کئی بار اس پتہ کرنے کی کوشش کی مگر کوئی صحیح جواب نہیں ملا کوئی تو بات ضرور ہے جو کامنی اتنی نفرت کرتی ہے آمت سے ورنہ آمت تو اتنا پیارا ہے کہ کوئی نفرت کر ہی نہیں سکتا اس سے اتنے معصوم لڑکے کو آخر کامنی کیوں منحوس بول بول کر اتنا دکھ دیتی ہے، تبھی اس کے من میں آتا ہے کہ آمت کو آج بہت برا لگا تھا بیچارہ کسی سے اپنے من کی پیڑا کہہ بھی نہیں سکتا کتنا درد تھا اسکی آنکھوں میں کہیں کسی دن کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے اسی کی وجہ سے گھر میں تھوڑی بہت رونق ہے اگر اس نے کوئی غلط قدم اٹھا لیا تو ہم سب کا کیا ہو گا۔ 

دیپکا: (خود سے) نہیں نہیں میں اسے ایسا نہیں کرنے دوں گی میں اسے سمجھاؤں گی اس کا کوئی دوست بھی نہیں ہے میں اس کی دوست بنوں گی اس کے من کو پڑھنا ہو گا اور اسے سمجھانا ہو گا

اتنا سوچ کر دیپکا ارادہ کر لیتی ہے کہ اب سے وہ آمت کی دوست بن کے رہے گی تاکہ وہ اپنے من کی ساری باتیں نکال سکے دوپہر کا کھانا بنا کر فری ہو کر پہلے دیپکا کامنی کے پاس جاتی ہے تاکہ سچ جان سکے مگر اس بار کامنی کوئی صحیح جواب نہیں دیتی پھر وہ اٹھ کر آمت کے پاس جاتی ہے ابھی تک آمت دوپہر کا کھانا کھانے بھی نہیں نکلا تھا کمرے سے۔ جب دیپکا آمت کے کمرے میں جاتی ہے تو دیکھتی ہے آمت ابھی تک آنکھیں بند کر سویا ہوا تھا وہ واپس پلٹنے کو ہوتی ہے اور اس کا دھیان آمت کی آنکھوں پر جاتا ہے اسکی پلکیں تھوڑی گیلی تھیں مطلب وہ رو رہا تھا مطلب وہ سویا نہیں سونے کا ناٹک کر رہا تھا۔ ایک دم سے دیپکا دروازہ بند کر کے آمت کے پاس اس کے بیڈ پر بیٹھ جاتی ہے اور اسے آواز دیتی ہے


دیپکا: واہ جی واہ جناب لمبی تان کر سو رہے ہیں برتھ ڈے پارٹی دینے کی بجائے نیند پوری کی جا رہی ہے، چل چل جلدی کر بہت ہو گیا ڈرامہ مجھے پتہ ہے تو جاگ رہا ہے

اتنا کہہ کر وہ آمت کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی ہے مگر آمت کوئی ریسپانس نہیں دیتا اسے لگتا ہے اگر وہ جواب نہیں دے گا تو چھوٹی مامی خود ہی لوٹ جائے گی مگر دیپکا تو جان گئی تھی


دیپکا: چل اٹھ بھی جا میرے شیر اور مجھے پارٹی دے میں کوئی بہانا نہیں سنوں گی یہ ڈراما دیدی کے آگے کرنا مجھے پتہ ہے تو جاگ رہا ہے یہ سن آمت سوچتا ہے مامی کو اس بارے کیسے پتہ چلا مگر پھر وہ سوچتا ہے ایسے ہی مامی بول رہی ہو گی


دیپکا: اٹھتا ہے یا دیدی کو بلا کر لائوں اور وہ خود دیکھ لے کہ اس کا لاڈلا اپنے جنم دن پر رو رہا ہے اتنا سنتے ہی آمت ایک دم آٹھ جاتا ہے


آمت: نہیں نہیں مامی جی ماں کو مت بلانا


دیپکا: پھر رو کیوں رہا ہے تجھے سمجھایا تھا نہ میں نے پھر بھی توں بچوں کے جیسا رو رہا ہے اگر دیدی کی اتنی ہی چنتا ہے تو خود کو سنبھالتا کیوں نہیں اگر انہیں پتہ چلا تو کیا بیتے گی ان پر


آمت: تو آپ ہی بتائیے مامی جی میں کیا کروں آخر میرا قصور کیا ہے جس کی وجہ سے مجھے اتنی سزا دی جا رہی ہے کیوں کامنی مامی مجھے منحوس کہتی رہتی ہے کیوں مجھے دھتکارتی رہتی ہے کیوں وہ میرا چہرہ دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی میں نے تو ہمیشہ انہیں ماں کے سامان ہی عزت دی ہے پھر کس لئے میرے ساتھ ایسا سلوک کیا جا رہا ہے میرا دل کرتا ہے میں مر جاؤں یا کہیں دور چلا جائوں جہاں کوئی مجھے پہچان ہی نہ سکے

اتنا کہہ کر آمت پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہے اور دیپکا آگے بڑھ کر آمت کو گلے لگا لیتی ہے اور اسے چپ کرواتی ہے


دیپکا: کبھی سوچا ہے تیرے جانے کے بعد دیدی کا کیا ہو گا جس کا دن ہی شروع نہیں ہوتا تیرے بغیر، جس کو نیند ہی نہیں آتی جب تک توں نہ سوئے جو ہر وقت تیرے بارے ہی سوچتی رہتی ہے، کیا ہو گا جنہیں توں بابا کہتا ہے جو تجھے دیکھ کر سینہ چوڑا کیے پھرتے ہیں کیا ہو گا تیرے اجے ماما تیرے چھوٹے ماما کا کیا تجھے اس گھر کی خوشیوں کی اتنی بھی پرواہ نہیں ہے تجھے۔ توں اتنا سیلفش کیسے ہو گیا کبھی سوچا ہے مجھ پر کیا بیتے گی کہ میں سب جان کر چپ رہی اور تجھے سمجھا بھی نہ پائی

ارے غصہ ناراضگی تو ہر رشتے میں ہوتی ہے مگر ہمیں اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، ایسے دور چلے جانے سے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، وہ انسان ہی کیا جو دوسروں کی غلطی کو معاف ہی نہ کر سکے اور توں تو اتنا سمجھ دار ہے پھر بھی ایسی باتیں کر رہا ہے


آمت: (روتے ہوئے) میں بھی تو انسان ہوں مامی پتھر تو نہیں جب سے ہوش سنبھالا ہے کامنی مامی نے کبھی ہنس کر ایک شب بھی نہیں کہا ہر وقت نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہے کب تک میں برداشت کروں آخر کب وہ مجھے ہنس کے پیار سے گلے لگائیں گی کب مجھے اپنا بیٹا کہیں گی میرا گناہ کیا ہے کم سے کم اتنا تو بتا دے پھر بھلے میری جان ہی لے لے مجھے کوئی غم نہ ہوگا۔


دیپکا: یہی تو میں بھی جاننا چاہتی ہوں کہ آخر وجہ کیا ہے۔ ویسے تو کامنی دیدی دل کی بہت اچھی ہیں پھر کیوں تمہارے ساتھ اتنا برا سلوک کرتی ہیں اور جب بھی وجہ پوچھوں بتاتی بھی نہیں ہیں۔ کون بتا سکتا ہے آخر وجہ کیا ہے بڑی دیدی کو بھی نہیں پتہ آخر ایسا کیا راز ہے

اینی وے وہ سب چھوڑ اور تو یہ بتا کہ صبح کہہ رہا تھا کہ تیرا کوئی دوست بھی نہیں ہے اور توں مجھے دوست سمجھتا ہے تو آج سے ہم دوست بن جاتے ہیں، بول کرے گا دوستی؟


آمت: (مسکرا کر) کیا مامی، آپ میری ٹانگ کھینچنے کے لیے بول رہی ہیں، آپ کیسے دوست بن سکتی ہیں آپ تو میری مامی ہیں میں تو بس دوست کی طرح آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں


دیپکا: (مزے لیتے ہوئے) اچھا ویسے باتوں کے الاوہ اور کیا کرنا چاہتا ہے تو دوست کے ساتھ


آمت: (شرما کر) جاؤ میں آپ سے بات نہیں کرتا آپ تو میری ٹانگ کھینچنے آ گئی ہیں، سب چھوڑ کر بھلا اور کیا کرتے ہیں دوست کے ساتھ


دیپکا: (ہنستے ہوئے) لو بھئی دوست بنانے چلا ہے اور اتنا بھی نہیں پتہ دوست کے ساتھ کیا کرتے ہیں، ارے بدھو دوست کے ساتھ صرف باتیں ہی نہیں ہوتی ہنسی مذاق بھی ہوتا ہے لڑائی جھگڑا بھی ہوتا ہے، کوئی روٹھتا ہے تو کوئی مناتا ہے، مستی بھی کرتے ہیں گھومتے ہیں پارٹی کرتے ہیں اور شاپنگ بھی کرواتے ہیں، اور اب ہم دوست ہیں تو سب سے پہلے مجھے تو پارٹی دے گا اور شاپنگ بھی کروائے گا وہ بھی شہر س، 


آمت سر پر ہاتھ رکھ کر


آمت: ہائے بھگوان اتنا کچھ مجھے تو لگتا ہے آپ کی دوستی مجھے مہنگی پڑنے والی ہے، نہ بابا نہ مجھے معاف کرو


دیپکا: (ہنستے ہوئے) بس ڈر گیا نکل گئی ہوا دوست بنانے ہیں اتنا پتہ ہے اور کچھ نہیں آتا، توں ٹنشن نہ لے ہمارا سب کچھ تیرا ہی تو ہے جتنے چاہیے مجھ سے لے لینا پیسے


آمت: کیسی بات کرتی ہو مامی میں تو ایسے ہی بولا تھا اور ویسے بھی آپ سب جو مجھے پیسے دیتے رہتے ہو وہ میں کہاں خرچ کر پاتا ہوں، بولیے اب کب چلنا ہے شاپنگ پر


دیپکا: (ہنستے ہوئے) یہ ہوئی نا بات پہلے حلیہ ٹھیک کر اور چل کھانا کھا لے پھر آگے کا پلان کرتے ہیں، جلدی آ جا میں کھانا لگاتی ہوں


اتنا کہہ کر دیپکا چلی جاتی ہے اور آمت کھانا کھانے نیچے آ جاتا ہے کھانا دونوں مل کر کھاتے ہیں تبھی گوری بھی آ جاتی ہے


گوری: اب تبعیت کیسی ہے بیٹا

آ کر آمت کے ماتھے پر ہاتھ لگا کر چیک کرتی ہے


آمت: بالکل ٹھیک صرف ہلکا سا بخار تھا اب بالکل فریش ہوں

اتنا کہہ کر مسکرا دیتا ہے


گوری: (نکلی غصہ کرتے ہوئے) کس نے کہا تھا صبح صبح آکھاڑے جا کر کصرت کرنے کو، سورج بعد میں نکلتا ہے تو پہلے نکل جاتا ہے، کپڑے نکال کر ننگا گھومتا ہے ادھر نظر لگ گئی ہو گی اسے لیے سر درد ہوا ہو گا، دیپکا کو دیکھتے ہوئے جا چھوٹی رسوئی سے مرچی لے کر آ اس کی نظر اتاریں پہلے کسی کی نظر لگ گئی ہو گی میرے بیٹے کو، 


دیپکا: ( ہنستے ہوئے) ارے دیدی مرچی سے کیا ہو گا آپ کا بیٹا اتنا ہینڈسم ہے کہ ہر کوئی اسے نظر ہی لگائے گا میں تو کہتی ہوں کہ ایک کام اور بھی کرو آپ


گوری: (ہیرانی سے دیکھ کر) وہ کیا


دیپکا: اس کے گلے میں لیموں مرچی دونوں لٹکا دو تاکہ نظر نہ لگے


گوری: تو ذرا ٹھہر میرے بیٹے کا مذاق اڑاتی ہے ابھی تجھے بتاتی ہوں

اتنا کہہ کر دیپکا کو پکڑنے کو ہوتی ہے دیپکا اٹھ کر رسوئی میں بھاگ جاتی ہے


آمت: ارے ماں توں بھی کیا باتیں کرتی ہو ایسا کچھ نہیں ہے آؤ بیٹھو میرے پاس، بتاؤ آج میرا جنم دن ہے تو کیا لاؤں بازار سے آپ کے لئے


گوری: (آمت کے بالوں میں ہاتھ گھما کر) آج تیرا جنم دن ہے تو بول کیا چاہیے میرے لال، میرا پیٹ تو تجھے دیکھ کر ہی بھر جاتا ہے

آمت کس کر گوری کو گلے لگا لیتا ہے اور سوچتا ہے سچ میں کتنا پیار ہے ماں کے دل میں اگر میں کہیں چلا گیا تو کیسے رہیں گی میری ماں میرے بغیر

تبھی دیپکا مرچی لے کر آ جاتی ہے اس سے مرچی لے کر ماں آمت کی نظر اتارتی ہیں، گوری مرچی لے کر رسوئی میں چلی جاتی ہے

دیپکا: بتا پھر کیا پلان ہے، کروائے گا مجھے آج شاپنگ؟ 


آمت: اب تو جانا مشکل ہے اب اگر گئے تو بس میں آنے جانے میں رات ہو جائے گی پھر کسی دن کا پروگرام بناتے ہیں


دیپکا: ہاں بات تو تیری ٹھیک ہے اگر اپنی گاڑی ہوتی تو بات اور تھی بس میں آنا جانا بہت ٹائم خراب کرنے والا کام ہے

توں ایک کام کیوں نہیں کرتا بائک چلانا سیکھ لے میں تیرے ماما کو بول کر تجھے بائک دلوا دیتی ہوں


آمت: مامی جی اب اتنی سی بات کے لیے کیوں بائک لینی بس ہے تو سہی شہر جانے کے لئے


دیپکا: ویسے اگر بائک چلانا سیکھ لے گا تو کیا چلا جائے گا تیرا، کہیں کبھی کوئی مشکل پڑ جائے تو کام آ جاتا ہے


آمت: ہاں،،،،، بات تو آپ کی صحیح ہے، میں سیکھ لوں گا کسی سے آپ چنتا مت کرو مگر ابھی بائک نہیں لینی میں نے، ابھی اس پڑھائی کا بورڈ 12th کا سال ہے یہ پاس کر کے لوں گا بائک۔


دیپکا: پڑھائی تو ہوتی رہے گی میں ہوں نا جب کبھی ضرورت ہو تو مجھ سے پوچھ لیا کر مگر اب جلدی سے بائک سیکھ اور پھر بائک لینی ہے دیٹس فائنل اور بحث نہیں


آمت: (ہاتھ جوڑتے ہوئے) جو آگیا ماتے اور دونوں ہنسنے لگتے ہیں تبھی گوری آ جاتی ہے


آمت: ماں میں کل شہر جانا چاہتا ہوں راجو کے ساتھ


گوری: کیوں کیا ہوا کیا کام آ گیا ہے وہاں پر؟


آمت: (ہڑبڑا کر) وہ،،،، وہ،،،، وہ ماں وہ راجو کی ماسی کی بیٹی کی تبعیت تھوڑی خراب ہے اس کا پتہ لینے جانا ہے


گوری: بیٹا اس میں تمہارا کیا کام راجو کے ماتا پتا چلے جائیں گے


آمت کو کوئی جواب نہ سوجتا تو دیپکا کی طرف ریکوئسٹ بھری نظروں سے دیکھتا ہے، دیپکا سمجھ جاتی ہے کہ بات کچھ اور ہے آمت بتا نہیں پا رہا


دیپکا: ارے دیدی جانے دو نا ہو گی کوئی بات کہ راجو کے ماتا پتا نہ جا پا رہے ہوں، دونوں دوست ہیں اور جوان ہیں ہو کر آ جائیں گے، ویسے بھی دنیا دیکھنے دو اسے اگر پلو سے باندھ کر رکھو گی تو دنیا کو کیسے سمجھے گا


گوری: رہنے دو توں زیادہ طرف داری نہ کر، اور کیا دنیا دیکھے گا شہر میں کیسے کیسے لوگ رہتے ہیں یہ کتنا بھولا ہے کسی نے کچھ کر دیا تو، دیکھا نہیں کیسے نظریں لگا دیتے ہیں گاؤں کے ہی لوگ اسے، شہر والے تو کھا ہی جائیں گے میرے چاند سے بچے کو


دیپکا: او ہو دیدی آپ نا آمت کو بدھو رام بنا دو گی اگر ایسا رہا تو کوئی بھی اسے بیوقوف بنا کر لوٹ کر چلا جائے گا، میں تو کہتی ہوں ابھی اسے دنیا دیکھنے دو 18سال کا تو ہو گیا ہے کیا ساری عمر ایسے ہی رکھو گی اسے


گوری تھوڑا ناراض ہو کر مانتے ہوئے ہاں کر ہی دیتی ہے مگر ایک کنڈیشن کے ساتھ کہ دوپہر تک واپس آنا ہو گا اور آمت بھی ہامی بھر دیتا ہے، ماں سے اجازت ملنے کے بعد آمت راجو کو بتانے نکل جاتا ہے

پیچھے سے گوری دیپکا کو کہتی ہے


گوری: دیکھ چھوٹی تیرے کہنے پر اجازت دے تو دی ہے مگر میرا دل نہیں مانتا


دیپکا: ارے دیدی بھروسہ رکھو ہمارا بیٹا کبھی کچھ غلط نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کے ساتھ کچھ غلط ہو گا ہمارا پیار ہے نا اس کی حفاظت کے لیے، آپ اسے تھوڑا دنیا کو بھی دیکھنے کا موقع دو تاکہ وہ سب سمجھ سکے دنیا کو دیکھ کر


ادھر آمت راجو کو ملنے جا رہا تھا کہ راجو اسے راستے میں ہی مل گیا


آمت: ارے توں ہمیشہ باہر ہی رہتا ہے یا گھر والوں نے نکال دیا


راجو: ہاں ہاں توں تو مجھے گھر سے ہی نکلوانا چاہتا ہے


آمت: ابے چپ نوٹنکی نا کر، اچھا سن ماں سے منظوری مل گئی ہے کل صبح شہر جانے کی


راجو: (خوشی سے اچھل کر) ہورے،،،،،،،،،،،،،، اب آئے گا مزہ اپنی تو نکل پڑی کل خوب مستی کریں گے


آمت: ابے اتنا مت اچھل ایک کنڈیشن بھی ہے دوپہر تک واپس آنا ہے اس لیے جلدی نکلنا پڑے گا


راجو: وہ بعد میں دیکھیں گے تو رک میں ابھی آیا اتنا کہہ کر راجو بھاگ جاتا ہے


راجو سے مل کر آمت گھر آ جاتا ہے، ہال میں کوئی نہیں تھا تو آمت اپنے روم میں چلا جاتا ہے تھوڑی دیر میں وہاں دیپکا آ جاتی ہے


دیپکا: کیا چل رہا ہے کدھر جا رہا ہے کل، ڈیٹ ویٹ ہے کیا تیری کسی کے ساتھ، بتا مجھے میں تجھے گائیڈ کروں گی


آمت: (شرما کر) کیا مامی آپ پھر ٹانگ کھینچنے لگی آپ کو پتہ ہے میں لڑکی تو کیا کسی لڑکے سے بھی بات نہیں کرتا


دیپکا: ارے بدھو یہی تو عمر ہے دوست بنا اور کوئی گرلز فرینڈز بھی بنا اور نہیں تو کیا بڈھا ہو کر بنائے گا


آمت: مجھے نہیں ضرورت کسی کی آپ ہیں تو سہی میرے پاس، میں اور کسی کو کیوں دوست بناؤں


دیپکا: (مزے لیتے ہوئے) اچھا،،،، تو کیا گرلز فرینڈز بھی مجھے ہی بنا لے گا بیشرم


آمت: کیا مامی آپ بھی، مجھے نہیں چاہیے کوئی جی ایف 


دیپکا: کیوں،،،،،! کیوں نہیں چاہیے زندگی بھر اکیلا ہی رہنا ہے کیا؟ 


آمت: کہاں اکیلا ہوں میں آپ سب ہیں تو سہی میرے پاس


دیپکا: اچھا یہ چھوڑ چل یہ بتا کہاں جا رہا ہے توں کس کے ساتھ اور کیا کرنے؟ 


آمت: اچھا تو آپ یہ پتہ لگانے آئی ہیں، ویسے میں راجو کے ساتھ شہر جا اسے سینما دکھانا ہے، میرے برتھڈے کی پارٹی دینی ہے اسے


دیپکا: ہاں،،،،،، تو جناب اکیلے اکیلے پارٹی دیتے پھرتے ہیں اور ہمیں پوچھتے بھی نہیں


آمت: ارے ایسی بات نہیں آپکو بھی دوں گا نا کل آتے وقت آپ کے لئے اور باقی سب کے لیے کچھ نہ کچھ لیتا آؤں گا، آپ بس حکم کیجیے! 


دیپکا: رہنے دو رہنے دو، دوسروں کو فلم دکھاتا ہے اور مجھے سموسہ کھلا کر سستے میں نپٹنا چاہتا ہے ایسے نہیں چلے گا


آمت: تو بتائیے پھر کیا چاہیے


دیپکا: مجھے بھی فلم دیکھنے جانا ہے مگر ابھی توں راجو کے ساتھ جا پھر کسی دن ہم چلیں گے


آمت: ٹھیک ہے مامی جی جو آپ کا حکم


اس کے بعد ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد دیپکا اپنے روم میں چلی جاتی ہے

وہیں دوسری اوور راجو آمت سے مل کر بھاگتا ہوا مندر کے پاس جاتا ہے کسی سے ملنے اور کہتا ہے کل وہ میرے ساتھ صبح 7 بجے کی بس میں چلے گا تم ٹائم سے صحیح جگہ پہنچ جانا، اور ہاں! میرا کام بھی ہو جانا چاہیے آپ کا کام تو میں نے کر دیا اب اگر میرا کام نہ ہوا تو بھول جاؤ سب اتنا کہہ کر راجو وہاں سے نکل جاتا ہے اور وہ دوسرا شخص خوش ہو کر کل کا پلان بنانے لگتا ہے ایسا موقع پھر نہیں ملے گا کل کیسے بھی کر کے اپنا کام کرنا ہو گا


جاری ہے،،،،،،،،

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں