جمعہ، 8 اکتوبر، 2021

Manhoos se Mahan tak Episode 4

 منحوس سے مہان تک



Episode 4


صبح آمت اٹھ کر اپنی روٹین سے آکھاڑے جاتا ہے مگر آج وقت سے پہلے لوٹ آتا ہے کیونکہ آج اسے راجو کے ساتھ شہر جانا تھا گھر آ کر جلدی سے تیار ہوتا ہے گوری کو بھی معلوم تھا جلدی جائے گا اس لیے ناشتہ پہلے سے ہی بنا دیتی ہے ناشتہ کر کہ نکلنے کو تیار ہوتا ہے کہ گوری اسے کمرے میں بلاتی ہے


گوری: آمت یہ لے کچھ پیسے رکھ لے کیا خالی ہاتھ شہر جائے گا کیا

اتنا کہہ کر وہ آمت کی جیب میں پیسے ڈال دیتی ہے


آمت: ماں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے میرے پاس پہلے ہی اتنے پیسے ہیں میں بھلا اتنے پیسوں کا کیا کروں گا

گوری: چپ کر جو بول رہی ہوں وہ سن وہاں زیادہ آوارہ گردی مت کرنا کسی انجان آدمی سے بات مت کرنا اور کسی سے کوئی چیز لے کر مت کھانا اور اگر ٹائم ملے تو اپنی ماسی کے ہاں بھی چکر لگا لینا


آمت: ٹھیک ہے ماں جو حکم مگر ماسی کے ہاں نہیں جا پاؤں گا وہاں اگر گیا تو آتے آتے رات ہو جائے گی


گوری: اچھا اچھا رہنے دے مگر ٹائم سے گھر آ جانا


آمت: ٹھیک ہے ماں اب چلتا ہوں اتنا کہہ کر آمت روم سے نکلتا ہے اور چھوٹی مامی مل جاتی ہے


دیپکا: آمت بات سن، یہ لے کچھ پیسے رکھ لے اور اچھے سے پارٹی دینا اپنے دوستوں کو کوئی کنجوسی نہیں

اتنا کہہ کر وہ آمت کی جیب میں پیسے ڈال دیتی ہے


آمت: ارے یہ کیا مامی پہلے ہی ماں نے اتنے پیسے جیب میں ڈال دیئے ہیں اور میرے پاس اپنے بھی تو ہیں


دیپکا: بس بس پتہ ہے مجھے، پیسہ جتنا ہو اتنا اچھا ہے۔ اور ہاں ٹائم سے گھر آ جانا ایسا نہ ہو کہ دیدی تیرے پیچھے شہر ہی آ جائے

 پھر آمت گھر سے نکل کر راجو کی طرف جاتا ہے اور راجو اسے آگے سے آتا ہوا دکھائی دیتا ہے دونوں دوست بس سٹاپ کی طرف نکل پڑتے ہیں


بس سٹاپ پر کوئی خاص بھیڑ نہیں ہوتی اس ٹائم بس نارمل سی بھیڑ ہوتی ہے دونوں دوست بس پکڑ لیتے ہیں اور اپنی سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں آمت کی نظر منجری پر پڑتی ہے آج منجری اچھی طرح تیار ہو کر لال شلوار سوٹ پہن کر اپنی سہیلی کے ساتھ بیٹھی تھی ایک پل کو آمت کی نظر اس پر رک سی گئی آج بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ آمت جانتا تھا کہ منجری اسے پسند کرتی ہے مگر آمت کے دل میں ایسا کچھ نہیں تھا، ادھر منجری بھی آمت کو دیکھ رہی تھی دونوں کی نظر ملتی ہے تو دونوں مسکرا دیتے ہیں


آمت: ابے سالے منجری اتنی صبح کہاں جا رہی ہے تیار ہو کر


راجو: دیکھ بھائی برا مت ماننا جو بھی بولنا ہو بعد میں بول دینا دراصل میں منجری کی سہیلی کو پسند کرتا ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں، بڑے ہاتھ پیر جوڑ کر میں نے منجری کو منایا ہے اور توں اپنے جنم دن کی پارٹی دے رہا ہے تو توں نے منجری کو بھی بلایا ہے اور رینو کو بھی ساتھ لانے کو کہا، توں تو جانتا ہے اس کا باپ سالا اسے گھر سے نہیں نکلنے دیتا تو کسی طرح آج منجری کی ہیلپ سے آج اس سے اپنے دل کی بات کرنے والا ہوں رینو سے، اب اپنے یار کی خوشی کے لئے اتنا بھی نہیں کر سکتا

(دراصل کل راجو بھاگ کر منجری کے پاس ہی گیا تھا اس نے منجری کی ہیلپ کا سودا کیا تھا کہ آمت کے ساتھ اس کی سیٹنگ کروائے گا اور وہ راجو کی سیٹنگ رینو سے کروائے گی) 


آمت: چپ سالے بند کر اپنا اموشنل ڈرامہ توں اپنے چکر میں مجھے کیوں پھنسا رہا ہے تجھے پتہ ہے نہ میں لڑکیوں سے دور رہتا ہوں اور میرا نام لے کر توں نے منجری کو بلا لیا، کیا تیرے کو نہیں پتہ وہ کیسے مجھے دیکھتی ہے اب تو وہ سمجھے گی میں نے اسے بلایا ہے مطلب میں اسے پسند کرتا ہوں


راجو: دیکھ بھائی اگر وہ تجھے پسند کرتی ہے تو توں بھی اسے پسند کر لے اور ویسے بھی اس سے زیادہ کوئی خوبصورت پورے گاؤں میں نہیں ہے، کب تک بھرمچاری بنا پھرے گا یہی تو جوانی کے دن ہیں، میں تو بولتا ہوں توں بھی اسے آج لپک لے وہ بھی بیچاری کب سے تیار بیٹھی ہے اور ایک توں ہے جو ایسے ہی بھاؤ کھا رہا ہے


آمت: بکواس بند کر تجھے پتہ ہے نہ میں ان سب میں نہیں پڑنے والا


راجو: یار دیکھ لے میری زندگی کا سوال ہے میں رینو سے شادی کرنا چاہتا ہوں اب اگر توں میری مدد نہیں کرے گا تو کون کرے گا

ویسے بھی منجری کونسا تجھے کھا جائے گی کرنی تو صرف باتیں ہی ہیں نہ مجھے تھوڑا وقت مل جائے گا رینو سے باتیں کرنے کا


آمت: ٹھیک ہے مگر گاؤں میں اگر کسی کو پتہ چل گیا تو پتہ ہے کتنی بدنامی ہوگی اور مجھے میرے گھر والے مجھے گھر سے ہی نکال دیں گے


راجو: ارے گاؤں میں کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا وہ الگ جا رہی ہیں ہم الگ سیدھا سینما میں ملیں گے


آمت: چل ٹھیک ہے یاری کے نام پر یہ بھی منظور ہے مگر اگر کوئی لپھڑا ہوا تو اپنا بھی سوچ لینا


راجو: (ہنس کر) تیرے لیے جان حاضر ہے میرے یار یوں ہی باتیں کرتے بس ایک گھنٹے میں شہر پہنچ جاتی ہے پھر دونوں دوست اور دونوں سہیلیاں الگ الگ آٹو پکڑ کر سینما پہنچ جاتے ہیں آمت ٹکٹ لینے کے لئے لائن میں لگتا ہے تو دیکھتا ہے ہے کہ منجری بھی ٹکٹ کے لئے لائن میں لگی ہوئی ہے آمت راجو کو اشارہ کرتا ہے منجری کو ٹکٹ لینے سے منع کرنے کے لیے تب منجری راجو اور اپنی سہیلی کے پاس جاتی ہے اور آمت ٹکٹ لے کر سب کو ساتھ لے کر سینما میں پہنچ جاتے ہیں


منجری: ( منجری آج کھلی کھلی لگ رہی تھی آج وہ پکا ارادہ کر کے آئی تھی آج وہ آمت سے اپنے دل کی بات کر کے ہی رہے گی) جنم دن مبارک ہو بھگوان کرے آپ ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہیں اور آپ کو ہر وہ خوشی نصیب ہو جو آپ چاہتے ہیں


آمت: ( تھوڑا نروس ہو جاتا ہے کہ کیا کہے کیا کرے) شکریہ منجری اسکی کیا ضرورت تھی تم اتنا رسک لے کر کیوں آئی شہر اگر کسی کو پتہ چلا تو کتنی بدنامی ہوگی


منجری: تو کیا ہوا آپکا جنم دن تھا تو کیسے نہ آتی آپ کے لئے سب قبول ہے


آمت ہیرانی سے منجری کو دیکھ رہا ہوتا ہے تبھی راجو بیچ میں بول پڑتا ہے


راجو: چل یار جلدی کرو نہیں تو فلم نکل جائے گی


پھر چاروں اندر حال میں جاتے ہیں صبح کا شو تھا اس وجہ سے رش بھی اتنا نہیں تھا چاروں ساتھ ساتھ تھے پہلے آمت بیٹھ جاتا ہے پھر منجری پھر رینو اور پھر راجو، آمت راجو کی طرف دیکھتا ہے راجو ریکوئسٹ کرتا ہے اشارے سے، آمت بھی چپ کر کے بیٹھ جاتا ہے۔ منجری کے دل میں آج خوشیوں کی شہنائیاں بج رہیں تھیں جانے کب سے وہ آمت کے ساتھ وقت گزارنا چاہتی تھی اور اپنا حال دل بتانا چاہتی تھی پتہ نہیں کب سے وہ آمت کو اپنا سب کچھ مان چکی تھی اور آمت اسے اگنور کرتا رہتا تھا

تھوڑی دیر میں لائٹس بھج جاتی ہیں اور مووی شروع ہو جاتی ہے ایک رومانٹک ہندی مووی تھی اور آپ تو جانتے ہی ہیں اس میں کسنگ آم بات ہے ایسے ہی جب رومنٹک سکین آتا ہے تو ہیرو ہیروئن کے لبوں پہ لب رکھتے ہوئے چوسنے لگتا ہے آمت کے دل میں ہلچل ہونے لگتی ہے اور آخر تھا بھی تو وہ گھبرو جوان ایسا کیسے نہ ہوتا اور منجری کے دل میں توفان اٹھنے لگتا ہے اسکی آنکھوں میں لال دورے آنے لگتے ہیں وہ اچانک آمت کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے

آمت منجری کو دیکھتا ہے دونوں کی نگاہیں ملتی ہیں دونوں میں سے کوئی نہیں بولتا مگر دونوں کے دل میں طوفان اٹھ رہا تھا آمت اپنا چہرہ سیدھا کر لیتا ہے اور خود کو کنٹرول کرنے لگتا ہے ایسے ہی تھوڑے بہت گرم سکین مووی میں آتے ہیں اور انٹرول ہو جاتا ہے اور آمت سب کے لیے سنیک لینے چلا جاتا ہے تھوڑی دیر میں مووی پھر شروع ہو جاتی ہے، تھوڑی دیر مووی میں ایک بیڈروم سکین آتا ہے اور اسے دیکھتے دیکھتے آمت کا پرائیویٹ پارٹ کھڑا ہونے لگتا ہے اور منجری کا بھی برا حال تھا وہ بھی کامواسنہ میں جلنے لگتی ہے آمت بس آنکھیں بند کر کے خود کو سنبھالتا ہے منجری کا ہاتھ ابھی بھی آمت کے ہاتھ پر تھا پھر مووی ختم ہوتی ہے اور چاروں باہر آتے ہیں اور شکر کرتے ہیں کہ مووی ختم ہوئی


راجو: کیسی لگی فلم تجھے


آمت ( غصے سے) بکواس


راجو: مجھے تو بڑا مزہ آیا رینو کی طرف دیکھتے ہوئے اور رینو شرما جاتی ہے


آمت سمجھ جاتا ہے کہ راجو نے کچھ تو کیا ہے جو رینو اتنا شرما رہی ہے وہیں منجری مگر وہ چپ ہو جاتا ہے اور منجری آمت کو ہی دیکھ رہی تھی


آمت: اب گھر چلیں


راجو: ابے پارٹی تو ابھی رہتی ہے چل کچھ کھا پی کر آتے ہیں

آمت غصے سے راجو کی طرف دیکھتا ہے مگر راجو پھر ریکوئسٹ کرتا ہے اشارے سے


آمت: بتا پھر کہاں چلیں کیا کھانا ہے


راجو: رینو منجری تم بھی تو بتاؤ کیا کرنا ہے کیا کھانا ہے کہاں چلنا ہے


منجری: شہر کے بارے میں ہمیں کیا معلوم آپ ہی چلو جہاں چلنا ہے ہم ساتھ ہیں

پھر چاروں ایک آٹو کرتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ ایک اچھے سے ریسٹورنٹ میں چھوڑ دے

پھر چاروں ریسٹورنٹ میں تھوڑا بہت کھا پی کر واپس پلٹنے کو سوچتے ہیں

منجری سوچ رہی تھی کہ کیسے بات کرے اپنے دل کی مگر آمت تو اسے دیکھ ہی نہیں رہا تھا تبھی وہ راجو اور رینو کو اشارہ کرتی ہے تو رینو باتھ روم جانے کا کہہ کر اٹھ جاتی ہے اور راجو بھی اٹھ کر اس کے پیچھے چلا جاتا ہے اور ان کے جاتے ہی منجری قمیض میں ہاتھ ڈال کر ایک کاغذ نکالتی ہے اور وہ آمت کو دے دیتی اور کہتی ہے اسے ایک بار پڑھ لینا پلیز صرف ایک بار یہ احسان کر دینا

آمت اسے دیکھتا ہی رہ جاتا ہے مگر منجری کے معصوم چہرے کو دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں التجا کی نظر دیکھ کر وہ کاغذ پکڑ کر جیب میں ڈال دیتا ہے۔ منجری کو تھوڑی تسلی ملتی ہے کہ اس نے کاغذ پکڑ لیا ہے اور اسے لگتا ہے کہ چانس ہے کیا پتہ اس کا پریم پتر پڑھ کر اسے منجری کے دل پر ترس آ جائے

اس پتر پر منجری نے اپنا سارا حال دل بیان کر دیا تھا کتنے ہفتوں سے لکھ لکھ کر کاغذ پھاڑ پھاڑ کر فائنلی ایک پریم پتر لکھا تھا، اتنے جذبات اس نے لکھے تھے کہ کوئی پتھر بھی ہو تو وہ بھی پگل جائے مگر آمت پگلے گا کہ نہیں یہ پتہ نہیں تھا

تھوڑی دیر میں رینو اور راجو آ جاتے ہیں بل آمت پے کرتا ہے اور سب نکل پڑتے ہیں بس سٹاپ کی طرف، یہاں سے بس سٹاپ دور نہیں تھا تبھی سب پیدل ہی چل پڑے


ابھی جا رہے تھے کہ گلی میں ایک عورت کے چیخنے کی آواز آتی ہے


عورت: بچاؤوووو بچاؤووو کوئی میری مدد کرو آہہہہہہہہ بچاؤوووو بچاؤووو


امت آواز سن کر آواز کی دشا میں بھاگتا ہے گلی سنسان تھی اور آگے سے بند تھی اس طرف کوئی گھر دکان نہیں تھی شاید کسی ہوٹل کی بیک سائیڈ تھی 

آمت تیزی سے بھاگتا ہوا جاتا ہے اور اندھیرے میں کونے میں اسے تین غنڈے دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے ایک عورت کو گلے پر چاکو کی نوک رکھ کر اس سے گہنے وغیرہ لوٹ رہے تھے

آمت تیزی سے بھاگتا ہوا ایک اینٹ اٹھا کر ایک غنڈے کے سر مارتا ہے جس نے چاکو کی نوک رکھی ہوئی تھی غنڈے کے سر سے خون کی دھار بہنے لگتی ہے

دوسرا غنڈا چاکو لے کر آمت کو مارنے کے لیے آتا ہے اور آمت اس کا ہاتھ ہوا میں ہی روک لیتا ہے اور بازو مروڑ کر دوسرے ہاتھ کی مدد سے غنڈے کو اوپر اٹھا کر نیچے پٹخ دیتا ہے، تبھی تیسرا غنڈا تیزی سے بھاگتا ہوا آتا ہے اور وار کرتا ہے آمت خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے مگر پھر بھی آمت کے بازو پر کٹ لگ جاتا ہے مگر آمت تو پہلوان تھا وہ اس غنڈے کو پھر بھی پکڑ کر دیوار پر غنڈے کا سر دے مارتا ہے اور وہ وہیں ڈھیر ہو جاتا ہے

تینوں سے نپٹ کر آمت عورت کی طرف مڑتا ہے اور سامنے ایک حسن کی دیوی کھڑی ہے بالکل دودھیا رنگ چمکتا چہرہ شرابی آنکھیں اس عورت کو دیکھ کر آمت کو ہیما ملینی یاد آ گئی ڈریم گرل کیا زبردست فگر تھا، ساڑھی میں تو اور بھی حسین لگ رہی تھی سر پر بال باندھے ہوئے تھے عمر کا اندازہ لگانا مشکل تھا شاید کوئی 30 کے آس پاس کی ہو گی آمت اسے یک تک دیکھ رہا تھا


عورت: ( من میں اس کا چہرہ مجھے اپنا سا کیوں لگ رہا ہے آخر کون ہے ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی اپنا ہے) شکریہ بیٹے تم نے میری جان بچائی میں بہت احسان مند ہوں، کیا نام ہے تمہارا؟ 


آمت: (ہوش میں آتے ہوئے) جی جی وہ آمت نام ہے میرا

اور پلیز شکریہ مت کہیے ایک طرف آپ بیٹا کہہ رہی ہیں اور شکریہ کہہ کر مجھ پر پاپ چڑھا رہی ہیں


عورت: تم واقع ہی ایک اچھے اور سنسکاری گھر سے ہو یقیناً تمہاری ماں کوئی دیوی ہو گی جس نے تمہارے جیسے بیٹے کو پیدا کیا


آمت: ارے آپ ایسے ہی میری بڑھائی کرے جا رہی ہیں میں نے بس اپنا فرض ادا کیا ہے

عورت: نہیں آمت آج کل کے زمانے میں کون کسی کی مدد کرتا ہے اور تم نے تو اپنی جان کی بازی لگا دی اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو

تبھی اس عورت کی نظر اس کے بازو پر لگے زخم پر پڑی وہ جلدی سے اپنی ساڑھی کا پلو پھاڑ کر آمت کے بازو پر باندھ دیتی ہے یہ سب ہوتے ہوئے راجو بھی وہاں پہنچ چکا تھا اور سب دیکھ رہا تھا کہ آمت کا زخم دیکھ کر اسے ٹینشن ہو جاتی ہے


راجو: ارے یہ کیا اتنی چوٹ لگ گئی تجھے


آمت: کچھ نہیں یار بس ہلکی سی خروش ہے توں ٹینشن نہ لے


راجو: چل ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں


آمت: آمت بس ذرا سی تو چوٹ اتنی تو لگتی ہی رہتی ہے


عورت: تمہارا ٹھیک کہہ رہا ہے چلو ڈاکٹر کے پاس پٹی کروا لو


آمت: ارے آپنے پٹی تو کر دی ہے اب آپکے پیار اور سنیح سے بڑھ کر اور کیا کوئی دوا ہو سکتی ہے ویسے بھی ہم لیٹ ہو رہے ہیں ہمیں گاؤں واپس جانا ہے اگر لیٹ ہو گئے تو گھر والے پریشان ہوں گے


عورت: ایسے کیسے چلے جاؤ گے تم نے میری اتنی مدد کی ہے کچھ تو سیوا کا موقع مجھے بھی دو


آمت: ارے نہیں میڈم ہمیں سچ مچ دیر ہو رہی ہے پھر کبھی ملے تو سیوا کا ضرور موقع دوں گا


عورت: (ہنستے ہوئے) ٹھیک ہے یاد رکھنا اور ویسے میرا نام میڈم نہیں منجو ہے


آمت: (مسکرا کر) ٹھیک ہے منجو جی اب ہم چلتے ہیں اجازت دیجیئے


پھر آمت اور راجو چل پڑتے ہیں گلی سے باہر نکلتے ہی منجری اور رینو دونوں پریشان گھبرائی ہوئی کھڑی تھیں جب سے آمت بھاگ کر گیا تھا منجری کا دل ڈر کے مارے بیٹھا جا رہا تھا اوپر سے راجو دونوں کو وہیں رکنے کا کہہ کر گیا تھا منجری جب آمت کے بازو پر پٹی دیکھتی ہے جس پر خون لگا ہوا تھا تو وہ بھاگ کر آمت کے گلے چپک جاتی ہے اور رونے لگتی ہے، آمت کے دل کو ایک میٹھا سا احساس ہوتا ہے مگر اگلے ہی پل وہ منجری کو خود سے الگ کر کے چپ کرواتا ہے


آمت: ارے منجری تم کیوں بچوں کی طرح رو رہی ہو بس ذرا سی خروش ہے کچھ نہیں ہوا چپ ہو جاؤ


منجری: (روتے ہوئے آنسو پونچھتی ہوئی) کیا ضرورت تھی ایسے مصیب میں پھنسنے کی اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو میرا کیا ہوتا


آمت کے دل میں یہ بات بہت اثر کرتی ہے کہ"میرا کیا ہوتا" 

ایک پل میں سوچ میں پڑ گیا کہ منجری کتنے حق سے یہ بات کہہ گئی سیدھا آمت کے دل پر اثر کر گئی

پھر آمت اسے چپ کرواتا ہے اور بس سٹاپ کی طرف چل پڑتے ہیں چاروں

بس سٹاپ پر تھوڑی ہی دیر میں بس آ جاتی ہے بس کی سیٹ فل تھی تبھی سب کھڑے ہو جاتے ہیں سب سے پہلے راجو پھر رینو پھر منجری اور آخر میں آمت

بس چل پڑتی ہے نیکسٹ سٹاپ پر اور لوگ چڑھ جاتے ہیں بس میں اور زیادہ بھیڑ ہو جاتی ہے بس میں آمت نہ چاہتے ہوئے بھی منجری سے پیچھے چپک جاتا ہے بس کے بار بار بریک مارنے سے آمت بار بار منجری سے ٹکرا رہا تھا جس آمت کے نچلے حصے میں مؤمنٹ شروع ہو جاتی ہے منجری کی گانڈ کے ساتھ ٹکرا کر آمت کا سانپ سر اٹھانے لگا آمت کو شرمندگی ہونے لگی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے اس کے ساتھ اور منجری کیا سوچے گی اس کے بارے وہیں منجری کو آمت کا لنڈ اس کے چوتڑوں میں محسوس ہونے لگتا ہے اسے ایک میٹھا سا احساس ہونے لگتا ہے اور اسکی منیا بھی بہنے لگتی ہے منجری کنٹرول کھونے لگتی ہے اور وہ بھی اپنے چوتڑ بار بار آمت کے لنڈ پر مارنے لگتی ہے اور مزے لینے لگتی ہے اسکی زندگی میں نیا احساس تھا جو اسے بڑا مزہ دے رہا تھا

وہیں آمت خود کو کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا اسکا چہرہ لال ٹماٹر بن گیا تھا اور پسینے سے بھیگ گیا تھا آمت پیچھے ہٹنے کی پوری کوشش کرتا ہے مگر بھیڑ کی وجہ سے پیچھے ہٹ نہیں پاتا گانڈ کے احساس نے بابو راؤ کی نیند توڑ دی تھی اور وہ گانڈ سے ٹکریں مار مار کر اندر جانے کی کوشش کر رہا تھا شاید بدلہ لینے کے لئے کہ میری نیند کیوں خراب کی، آمت کا لنڈ پورے جوبن پر تھا بالکل لوہے کی راڈ کی طرح منجری کی گانڈ میں گُھس جانا چاہتا تھا

منجری لنڈ کی موٹائی اور لمبائی اپنے چوتڑوں میں محسوس کر کے پوری پھنیا گئی تھی اور اپنی گانڈ کو لنڈ پر دبائے جا رہی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے اسکی زندگی میں پہلی بار کسی مرد کا لنڈ اس کے چوتڑوں میں محسوس کر رہی تھی


آمت خود کو روک نہیں پا رہا تھا ابھی تک کی زندگی میں اسے یہ احساس کبھی نہیں ملا تھا، ہوتا بھی کیسے پہلوانی میں تو یہی سکھایا جاتا ہے کہ عورتوں سے جتنا دور رہو اتنا ہی اچھا ہے مگر آج آمت کا خود پر قابو نہیں تھا اسے بھی یہ احساس مزہ دینے لگا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ بھی زور لگا کر اپنا لنڈ منجری کی گانڈ میں گھسانے لگا منجری زیادہ دیر ٹک نہیں پائی اور وہیں کھڑے کھڑے چھوٹ گئی اب اس سے اور کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا پسینے سے چہرہ بھیگا ہوا تھا تبھی بس رکتی ہے اور دو سیٹ خالی ہوتی ہیں آمت منجری اور رینو کو وہاں بیٹھا دیتا ہے اور اپنی شرٹ اتار کر اپنے کھڑے ہوئے لنڈ کے آگے کر کے چھپا دیتا ہے

ایسے ہی ایک گھنٹے کا سفر ختم ہو جاتا ہے اور چاروں گاؤں پہنچ جاتے ہیں

منجری آمت سے نظریں نہیں ملا پاتی اور چپ چاپ رینو کے ساتھ نکل جاتی ہے آمت بھی بس میں ہوئی گھٹنہ سے بہت شرمندہ تھا اس لیے وہ بھی جلدی جلدی نکل جاتا ہے راجو کے ساتھ

راستے میں آمت راجو سے کہتا ہے جلدی چل ورنہ پھر دانٹ پڑے گی 5 بج گئے ماں پھر غصہ کرے گی تبھی دونوں اپنے اپنے گھر پہنچ جاتے ہیں


گوری گھر میں پریشان ادھر ادھر گھوم رہی تھی اور سوچ ری تھی کہ اسے آمت کو جانے ہی نہیں دینا چاہئے تھا اگر آمت کو کچھ ہو گیا تو وہ کئی بار دیپکا سے بھی غصے میں کہہ چکی تھی کہ سب تیری وجہ سے ہوا ہے ابھی تک نہیں آیا اگر اسے کچھ ہو گیا تو میں دیکھ تیرا کیا حال کرتی ہوں اتنے میں دروازہ کھلتا ہے اور،،،،،،،،


جاری ہے،،،

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں