Meri Kahani Meri Zubani
Episode 36
کچھ دیر کے بعد قدرےحالت کو درست کر کے میں واپس ناصر کے پاس چلا گیا۔۔نائلہ اور عمبرین دوسرے کمرے میں تھیں۔۔کافی وقت گزر گیا مجھے نیند نہیں آ رہی تھی میں دبے پاوں اٹھا اور باہر نکلا ۔۔ جسم میں عجیب سی بےسوادی تھی۔۔شائد لن کی گرمی دماغ کو چڑھ گئی تھی۔۔ میں کچن میں گیا اور کچھ دیر سوچا اور نیند کوکوسوں دور دیکھ کر چائے بنانے کا سوچا ۔۔
fkniazi555.blogspot.com
جتنی بھی کوشش کی کچھ نا کچھ کھٹر پٹر ہو ہی گئی۔۔ اسی کھٹر پٹر کا نتیجہ نکلا جب کوئی آہستگی سے کچن میں داخل ہوا اوہ تم ہو آنے والی نائلہ تھی میں سمجھا ناصر ہے۔۔ نہیں وہ تو گھوڑے گدھے سب بیچ کر سو رہا ہے ۔۔ اور سرکار اس نے شوخی سے کہاتمہاری سرکار کے سر درد ہو رہا تھا ہاتھ تھک گئے میرے تو دبا دبا کر اسکا سر دبا دبا کر اب وہ بھی سکون سے سو رہی اسنے انگلیاں چٹخائیں اورکرسی پر بیٹھتے ہوے بولی۔۔ تم نہیں سوئی۔۔نا میرے بھی سر درد تھا ہمارا کون دباتا ۔۔دونوں میں ایک عجیب سا گریز ایک عجیب سا دوستانہ بن گیا تھا۔۔میں نے چائے کا کپ دو کپوں میں انڈیلا اور اسے بھی دیا۔۔ بہت پیار کرتےہو عمبرین سے جو سرکار کہتے۔۔ اور میں اسے بتانے لگا کہ وہ میرے لیے کیا۔۔ وہ سن کر بولی پتہ ہے جیسے کسی افسانے کسی مووی کے کپل سے لگاوہوتا نا انکے پیار کو دیکھ کر خوشی ہوتی جیسے آپ خود۔۔ ایسے ہی میرا لگاو تم دونوں سے۔۔ یہ جو ہم میں ہوا نا اس سے غلط مطلب نا لینا تم عمبرین کے ہو میری نیت غلط نہیں تھی اس نے سرجھکاتے ہوے آہستہ آواز میں کہا۔۔ مجھے اسکی سادگی پر بہت پیار آیا
میں اسکےسامنے کھڑا ہوا وہ کرسی پر گود میں دونوں ہاتھوں کو مروڑ رہی تھی۔میں نےکہا دیکھو تم میری دوست ہو اور مجھے وضاحت نا دو میری نظر میں ایسی باتوں کی ویلیو نہیں ویسے بھی سالی سہیلی ہو اور سہیلیوں کا حق بنتا ہے میں نے اسے ایزی کیا وہ کھسیا کر ہنسی اور بولی یہ بات تو ٹھیک کہی ۔۔اچھا بتا نا یار کومل کا کیوں احساس ہوا تمہیں۔۔ افففف یار تم بھی نا۔۔اچھا بتاتالیکن تمہیں دو وعدے کرنے ہونگے پہلا تم غصہ نہیں کرو گی میری بات پوری سنوں گی۔۔ دوسرا یہ بات ہم میں راز ہوگی بس۔۔ ڈن ہوا پکا وعدہ۔۔ وہ ایک رات میں اور ناصر ادھر رکے تھےنا تو ایسے ہی مجھے بھوک لگی میں کچن میں آیا آگے وہ تھیں ۔۔ شائد انکا مزاج بھی گرم تھا تو میں نے اس رات کی کہانی کو تھوڑا سا چینج کر کے بات بڑھائی
توووو اس نے سسپنس سے پوچھا تو ہم بہک گئے ۔۔ نااا کر اس نے حیرت سے کہا ۔۔ہاں یار غلطی ہو گئی ۔۔۔مطلب تم اور کومل بھابھی اسکے چہرے پر حیرت تھی۔۔ ہاں ہم بہک گئے اور وہ بھی فلی ۔۔ واٹ اس کا منہ کھل گیا۔۔ ہاں یار میں نے سر جھکا کر کہا۔۔ تمہیں برا لگا۔۔ نہیں نہیں حیرت ہوئی میں جانتی کومل کافی ہاٹ اور ویسے بھی میریڈ تو اٹس نیچرل ۔۔ کہاں کیا اسکے کمرے میں افففف یار امیزنگ۔۔کیسا لگا پھر اس نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد جھجکتے ہوے پوچھا۔ یار بہہت مزہ آیا واقعی وہ کافی ہاٹ دو بارکیا میں نے سرگوشی کی
افففف وہ جیسے کانپی ۔مجھے اس وجہ سے احساس ہوا اور کوشش کی یہ بات ہے ۔۔پتہ تم میں یہ خوبی تم اچھے ہو کوئی اور ہوتا تو اپنے مزے کے لیے الٹا اسکو پاس رکھتا جب ایکبار ہوگیا تو دوسری بار ہونا کیامشکل تھا۔۔ بسس یار یہ غلط ہوتا نا وہ گھریلو عورت میں انکامسلہ سمجھا میں ایسے ہی کسی کے بارے رائے نہیں بدلتا۔۔ اسکے چہرے پر مسکان آئی یہ بات اب تم بتاو کیوں نہیں سو رہی ابھی تک نارمل نہیں ہوئی۔۔ وہ شرما کر بولی ہوئی تھی کچھ پھر سے ہوگئی اور دونوں ہنس دیے۔۔ میں نے اسکا ہاتھ پکڑا اور کہا تو تم ذرا نا فکر کرو ہم میں جو ہوا بس اتفاق تھا حسین اتفاق۔۔ جیسا پہلے بھی ایکبار ہوا یاد ادھر تمہارے گھر۔۔ اسکا چہرہ جیسے بلش کر گیا اور بولی افففف اس دن تو مجھے جھٹکا ای لگا اب سمجھ سکتی تم عمبرین ساتھ تھے تو بنتا تھا ۔۔اسنے شرما کر کہا۔ویسےتمہارا ٹول بہت زور سے چھبا تھا مجھے۔۔ایسی باتوں سے میرا لن پھر سے سر اٹھانا شروع ہو گیا۔میں اسکے سامنے کھڑا تھا اور اسے بھی احساس ہو گیا وہ اچانک اٹھتے ہوئے بولی میں چلتی ہوں اب ۔۔ ایسے اٹھنے سے ہم بلکل آمنے سامنے ہوگئے۔۔ میں نے کہاکیوں نیند آ گئی۔۔وہ بولی بسس نیند بھی اور ویسے بھی ایسا نا ہوپھر کچھ بہک جائیں دیکھو تمہارا ٹول پھر سے بہک گیا اسکی نظر میرے ادھ کھڑے لن پر جمی۔۔۔تھوڑا سا بہک لیا تو کیا ہے نیند آ جاے گی سکون سے میں نے سرگوشی کی۔۔اففف میری دھڑکن بہت تیز ہو رہی پھر زیادہ بہکنے کا خطرہ نا۔۔میں نے دیکھا اسکا سینہ اوپر نیچے ہورہا تھا اور چادر ڈھلک چکی تھی ۔۔میں نے کہا دیکھوں تو دھڑکن اور ہاتھ اسکے سینے پر پھیرا وہ ہاتھ جس پر مجھے مہارت تھی۔۔جیسے ہی ہاتھ اسکے نرم دہکتے سینے پر پڑا مجھے شدید کرنٹ لگا۔۔نننا کرو نعیم کسی نے دیکھ لیا تو مصیبت ہو جانی میں تھوڑا پرے ہوا اور کہا جیسے کہو اور وہ میرے ساتھ لگتی ہوئی دروازے کو بڑھی۔۔میں نے کہا ویسے میں تمہیں بنا فلی کیے فل سکون دے سکتا ہوں جس سے دونوں فل سکون میں آ جائیں گے۔۔ وووہ کیسے وہ بولی۔۔ بس ہے طریقہ تم یقین کرو تو ایک حد میں تم مکمل فریش ہو جاو گی۔۔۔وعدہ نا صرف ایک حد ۔۔ہممم وعدہ ۔۔اچچھا تم سیڑھیوں پر چلومیں ایک بار کمرے کا چکر لگا کر آتی۔۔
میں واپس انہی سیڑھیوں پر کچھ دیر بعد وہ دبے قدموں آئی اور بولی سب سو رہے اب جلدی سے بتاو کیا کرنا لیکن بس زیادہ نہیں ۔۔ یااار وعدہ سہیلی سے نا میں اسے سیڑھیوں کے اوپر چھت والے دروازے کے پاس لے گیا اوپر جہاں کسی کی نظر نا پڑے اور ہم اوپر سے اندھیرے میں نظر رکھ سکیں۔۔میں نے اسکابازو پکڑا اور وہ میرے ساتھ آ لگی۔۔۔ میں جھکا اور اسکے شانےاور گردن کو چوما اور پورےجسم کو رگڑا۔۔ دونوں کافی دیر سے جل رہے تھے میرا لن فل راڈ ہو چکا تھا۔۔وہ گہری سانسیں لیتی میرے ساتھ لپٹی وقت تھوڑا تھا۔۔میں نے اسکے چہرےکو اوپر کیا اور اسکے لپس کو چوسنا شروع کیا وہ بلکل میرےساتھ چمٹ کر پورے جوش سے لپسنگ کر رہی تھی۔۔میں نے ہاتھ اسکی کمر پر پھیرے اورلن کو اسکی رانوں میں پھنسایا۔۔۔ افففف وہ کافی گیلی ہو چکی تھی لن کو گیلی شلوار کا لمس محسوس ہوا۔۔میں نے اسکی ٹانگوں میں لن کو پھنسا کر رگڑنا شروع کیا اسکی شلوار چپک کر پھدی سے چمٹ چکی تھی بلکہ پھدی میں دھنس چکی تھی اور ایسے لگ رہا تھا جیسے لن بلکل پھدی سے ٹچ۔۔پھدی کی چکناہٹ اسکی گرمی جان لے رہی تھی۔۔میں نے اسکی قمیض کو اوپر کیا وہ تھوڑا سا ٹھٹھکی میں نے سرگوشی کی اورکہا وعدہ یاد مجھے میں نہیں بہکوں گا نا بہکنے دوں گا۔۔اور اسکی شرٹ کو کندھوں تک اوپر کر کےاپنی شرٹ کو کھول کر اوپری جسم رگڑنا شروع کیا۔۔ اسکے پیٹ اور سینےکا لمس جسم کو جلا رہا تھا۔۔۔لپسنگ کے ساتھ اوپری جسم کا ٹکرانا اور نیچے سے لن کو رانوں میں رگڑنا دونوں شدید مست ہو چکے تھے۔۔ ہماری سسکیاں دونوں کو اور جلا رہیں تھیں۔۔اسکی لپسنگ جنونی ہوئی اسکا جسم مچلنے لگا۔۔ میں ذرا سا رکا اس نے اکھڑے سانسوں میں کہا افففف رک کیوں گئےبہہہت مزہ آ رہا تھا اففف ہونے لگی تھی نا اففف اس نے ہاتھ بڑھایا اور پہلی بار لن کو پکڑا اور بولی افففف کتنااااموٹا ہے نا ۔۔ کرو نا اس نے مجھے کھینچا۔۔ ایسےکپڑے خراب ہو جائیں گے یار رکو۔۔میں نے ٹراوز کو نیچے کھسکایا گھٹنوں تک لن تڑپ کر باہر آیا ۔۔ افففف اسے کیوں ننگا کر لیا اس نے لن کو دبا کر کہا۔۔ٹراوزز خراب ہوجانا تھی یار۔۔ار دوبارہ سے اسکی رانوں میں لن کو دبایا رکوووو ایک منٹ ایسے ہی بنا شلوار کے کر لو اندر نا کرنا تو میں بھی نیچے کر لیتی اس نے اکھڑی آواز میں کہا۔۔مجھے کیا چاہیے تھا میں نے ہممم وعدہ کیا نا اور اسکی شلوار کو نیچے کھسکایا اففف جیسے ہی میرے ہاتھ اسکی گانڈ اور رانوں سے ٹکراے جیسے شدیدکرنٹ لگا بہت ہی گداز اور نرم لمس۔۔میں نے لن اسکی پھدی کے نیچے رکھا اور اس نےٹانگوں کو آپس میں ملا کر ایک دوسرے پر چڑھا لیا۔پھدی کی چکناہٹ سے رانیں اور لن فل چکنا ہو چکا تھا۔۔ میں نےاسکی کمر کوجکڑ کر لپسنگ کرتے ہوے جسم کو رگڑتے ہوےتیز تیز دھکے شروع کیا ۔۔ایسے بھی کافی مزہ تھا۔۔ لن رانوں میں سپیڈ سے جاتا ۔۔ اسکی پھدی کے لبوں اور دانے کو رگڑتا۔۔اسکا دانہ جس کی رگڑ ویسے بھی عورت کومدہوش کر دیتی ہے میرے ایسےلن کو فل رگڑنے سے جیسے وہ پاگل ہو گئی اسکی اکھڑی اکھڑی سانسیں تیز ہونےلگیں اسکی رانوں کی جکڑن سخت ہوئی ۔۔میرا بھی اینڈ قریب تھا۔۔ میں نے اسےہلکا سا اوپر اٹھایا اور تیز تیز حرکت شروع کی ۔ ہمارےہونٹ جیسے ایک دوسرےسے مقابلے میں تھے لڑ رہےتھے چوس رہے تھے میں اسکی زبان کو چوستا اپنی زبان کو اسکے منہ میں گھماتا ۔۔اسکا جسم جیسے کانپا ۔۔ لن کے اوپر پھدی جیسے آگ برساتی تیزی سے رس پھینکنے لگی برسات ہونے لگی۔۔میں نےدھکے جاری کیے وہ لپسنگ چھوڑ کر اب قدرے بلند سسکیاں اور آہیں افففف سسسسس آااااہ یسسسس ہونے لگی کررہی تھی۔۔اور اس کی پھدی نے فل برسات شروع کر دی وہ ااگگگگ کرتی جھٹکوں سے چھوٹنےلگی۔۔اسکا سر میرے شانے پر ڈھلکا اور میں نے آخری آخری تیز جھٹکے مارےاور لن سے تیز مزےکی پچکاریاں گرتی گئیں۔۔ دو منٹ ہم ایسے ہی ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے ہانپتےرہے۔ پھروہ الگ ہوئی اور جلدی سے کپڑے درست کرنے لگی۔۔ میں نے بھی ٹراوز اوپرکیا شرٹ بند کی۔۔وہ میرے ساتھ آ کر لگی اور بولی تھینک یو یارا۔۔ لو تھینکس کیسا وعدہ کیا تھا نا بس نبھایا۔۔ وہ شرما کر بولی وہ تو مجھے یقین ۔۔تھینکس اسلیےکہ تم نے مجھے ریلیکس کر دیا افففف ایسے بھی کر سکتے مجھے اندازہ نا تھا مزہ آ گیا۔۔میں نے اسکا ماتھا چوما اور کہا سہیلی ہو خیال تو رکھنا تھا نا ایزی تو کرنا تھا نا۔۔ وہ بولی سچی بہت ہاٹ تھی آج میں۔۔ابھی تو باہر کیا سوچو اندر کرتا تو کیالطف آتا ۔۔ اففففف بہہہت تمہارا ٹول بھی بہت سوپر ۔۔۔بسس اسبار مجھے مینسز تھے نا ساس بہت غصے تھی اسے پوتا چاہیے فورا اسے تھا کہ اسبار کچھ نہیں ہوسکا مینسز کی وجہ سے تو اسلیے صبر کیا کچھ ہوجاتا تو جان عذاب ہو جاتی اس نے تو دو ماہ بعد آنا نا۔چلو اب میں جاتی وہ جلدی سے نیچے اتر گئیں کچھ دیر کے وقفے کےبعدمیں واپس کمرےمیں ۔۔ ناصر گہری نیند میں گم ۔۔ میں اسے نئے دوستانےکو سوچتا رہا جو اچانک سے بنا اور امید تھی کہ بہت جلد نائلہ بھی میرے لن کی فل سواری کرنے والی تھی اسی مستی میں آنکھ لگ گئی
اگلی صبح ناصر اور عمبرین جلدی جلدی اسپتال کو نکل گئے میں نے جان بوجھ کر تھوڑی دیر کی تاکہ وہ الگ سے نکل جائیں اور میں ذرا نائلہ کو دیکھ لوں کیونکہ صبح سے وہ تھوڑی چپ چپ تھی ۔۔ جیسے ہی وہ لوگ گئے میں باہر آیا نائلہ صحن میں کسی سوچ میں گم تھی۔۔کیا ہوا سالی جی ۔۔ کچھ نہیں اس نے پھیکی مسکراہٹ سے کہا بس افسوس ہو رہا رات ہم زیادہ بہک گئے نا ۔۔ اوہو یار میں نے بڑی مشکل سے اسے پھر سمجھایا ۔۔اور نکلنے لگا تب وہ بولی سنو تم کومل سے ملو گے اسکے سعودیہ جانے سے پہلے۔۔پتہ نہیں اگر موقع ملا تو۔۔۔ ہممم کیوں
وہ بتایا نا میں کومل کو اتفاقا دیکھا تھا تو بھائی کی وجہ سے پھر نہیں دیکھا نا۔۔ اگر ایسا سین بنا تو بتانا مجھے دیکھنا انکی کیا حالت ہوتی
ان سے وعدہ کر کے میں اسپتال کو نکلا۔۔ پہلے اڈے گیا وہاں سے پتہ چلا وہ گاڑی کے لین دین کے لیے پشاور چلا گیا کل شام سے ۔۔ وہاں سے واپس اسپتال پہنچا اور آنٹی لوگوں کو سب بتایا۔۔ انکل کی طبیعت کافی بہتر تھی ممکنہ طور وہ ڈسچارج ہو جاتے آج۔۔ میں نے اسپتال کے کاونٹر سے ایڈمن آفس فون کیا اور میڈم سے مشورہ کیا کیسے جانا۔۔ باہمی مشورے کےبعد پروگرام طئے ہو گیا وہ بتانے لگیں کہ بیلا آج نہیں آئی شائد غصہ اسے۔۔ابھی کچھ دیر باقی تھی۔ میں واپس اسپتال کے کمرے میں آیا اور آنٹی کو بتانے لگا کہ کچھ ضروری کام سے گھر جانا ہے ۔۔ پرسوں تک آ جاوں گا۔عمبرین اور ناصر مجھے باہر گیلری تک چھوڑنے آئے ۔۔ میں نے عمبرین کو گاوں کے دکاندار کا نمبر دیا اور کہا ضرورت پڑی تو مجھے فون کر لینا ورنہ پرسوں تک آ جانا میں یا سوموار کو صبح لازمی ۔۔ انہوں نے مجھ پر دم پھونکا اور میں وہاں سے گلبرگ کو نکل گیا۔۔ گھر پہنچ کر نہایا دھویا تیارہوا بیگ بنایا اور بیلا کی خبر کے لیے اسکے گھر کو چل دیا
جیسے ہی میں اسکے گھر پہنچا وہ منہ پھلائے لان میں بیٹھی کوئی سپورٹس میگزین دیکھ رہی تھی۔۔میں نے اسے گھورتے ہوے کہا تم کالج کیوں نہیں گئی آج۔۔ بس میرا موڈ نہیں تھا اس نے پھولے منہ سے جواب دیا۔۔ ہممم اور منہ کیوں پھلایا ہوا۔۔ میرا منہ ہے ای ایسا اس نے تنک کر کہا۔۔میں کچھ دیر خاموش رہا اور پھر بولا میں تو تم سے ملکر فریش ہونے آیا تھا کیا مطلب میں کارٹون ہوں کیا ۔۔ میں اسکی بات ہر زورسے ہنسا اور کہا پاگلے میرا موڈ فریش ہوتا تمہیں دیکھ کر۔۔ سچی اسکا چہرہ چمکا ۔۔ مچی ۔۔وہ بچوں کی طرح خوش ہوئی اور بولی کب جانا ۔میں نے کہا بس کچھ گھنٹے تک میڈم کو کچھ سامان لینا تھا گاوں کے بچوں کے لیے انہی کا انتظار۔۔چلو میں تمہارے ساتھ چلتی ۔۔ وہ اٹھتے ہوے بولی
تم نے کیا کرنا بھلا میں نے پوچھنے کی جرات کی کیوں تمہیں بل آتا کیا مجھے میڈم سے بہت ضروری مشورہ کرنا ہےاسکے پاس گھڑا گھڑایا بہانہ موجود تھا۔۔ راستے میں پاپ کارن لیے اسےکھاتی وہ گم صم بس چپ رہی۔۔ گھر جا کر بھی وہ چپ چاپ بیٹھی رہی کچھ دیر انتظار کے بعد میں نے پوچھا کیا بات ہے ۔۔ کچھ نہیں اس نے روہانسی آواز میں کہا۔۔کیا ہوا اتنی روندو آواز کیوں نکل رہی جناب کی اور وہ باقاعدہ رونے لگ گئی میں پریشان ہوکر اس کے پاس جا کر بیٹھا اور بولا کیا ہوا بیلا کچھ نہیں تمہیں کیا تم بس جاو۔۔ اوہ تو جناب کو ساتھ نا جانے کا غم کھائے جارہا۔اس نے غصے سے مجھے دیکھا اور کہا بھئی بہت اخیر نالائق ہو تم ۔۔ میں تمہیں مس کرونگی نا۔۔
میں نے سے ساتھ لگایا اور کہا پگلی ہوتم بس وہ چپ چاپ میرے ساتھ لگی رہی۔۔کچھ دیر بعد میڈم رفعت بھی پہنچ گئیں۔۔میڈم ایک بڑی شال اوڑھے بہت گریس فل لگ رہیں تھیں میڈم کی کار کی پچھلی سیٹ شاپنگ بیگز سے بھری ہوئی تھیں ہم بیلا کو گھر ڈراپ کرتے ہوے موٹر وے پر چڑھے۔۔موٹروے کے آغاز کے ساتھ ہی میڈم نے سروس سٹیشن گاڑی روکی اور گاڑی کی ہوا وغیرہ چیک کروانے کے بعد سامنے بنی شاپ سے کچھ چپس وغیرہ لیے۔۔فروری کی سہ پہر اور موٹروے کا پرسکون سفر ۔۔دوبارہ سفر سے پہلے میڈم نے بڑی چادر اتار کر عام چھوٹی چادر کو شانوں پر رکھا اور میں انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔ ہلکے سبز کلر کا سوٹ جس پر ہلکی کڑھائی ہوئی تھی ان پر بہت جچ رہا تھا۔کیا دیکھ رہے ہو کچھ نہیں آپ بہت گریس فل لگ رہیں ہیں۔۔ اچھا واہ تھینکس ۔۔ہلکی پھلکی باتوں سے سفر کٹتا جا رہا تھا۔۔ تم میوزک سنتے ہو انہوں نے مجھ سے پوچھا ہاں لیکن بس غزلیں جگجیت نصرت غلام علی مہدی صاحب وغیرہ ۔ آہاں میں سمجھی تم پاپ سنتے ہو گئے ارے نہیں جی ہاں میں منصور ملنگی کے بس دو کلام سنتا کیہڑی غلطی ہوی اے ظالم وغیرہ ۔۔چلو تمہیں اپنی پسند سنواتی ہوں ۔۔اور گاڑی میں نیرہ نور کی آوز گونجنے لگی کبھی ہم خوبصورت تھے۔۔میڈم اپنی موج میں تھیں وہ ساتھ ساتھ خود بھی گنگنا رہیں تھیں۔میں نے انکی آواز کی تعریف کی آہستہ آہستہ ہمارے درمیان بے تکلفی بڑھ رہی تھی کہتے ہیں نا کسی کو جاننا ہو تو اسکے ساتھ سفر کرو یا کھانا کھاو اسکی حقیقت کھل جاے گی تو یہ سفر ہمارے پردے کھول رہا تھا ناولوں گانوں موویز پسند ناپسند سے شناسائی بڑھتی جا رہی تھی میڈم مجھ سے کافی متاثر ہوئیں بیلا کے برعکس تم میں بہت ٹہراو ہے اور تمہارا نالج بھی اچھا خاصا ہے ۔بھیرہ انٹر چینج پر میڈم نے پھر گاڑی روکی اور بولیں مجھے اب تمہیں ساتھ لانے کا فیصلہ درست معلوم ہو رہا ہے۔۔میری بات غور سے سنو تمہارا میں ادھر دوست کا بیٹا بتاوں گی ۔دوسرا جب تک میں نا کہوں تم نے کسی معاملے میں دخل نہیں دینا ۔۔ تیسرا تم یہاں کی باتیں کسی سے نہیں کروگے بیلا سے بھی نہیں اگر تمہیں منظور ہے تو ٹھیک ورنہ یہاں سے تمہارا گاوں بھی قریب ہی ہے تم جا سکتے ہو۔۔ میں نے کہا کیسی بات کرتی ہو آپ اور انہیں مکمل اعتماد دلایا وہ مسکرائیں اور کہا چلو پھر آج تک تم نے ایڈمن رفعت کو دیکھا ہے اب وڈی ملکانی کے ششکے بھی دیکھ لو انہوں نے دوبارہ سے بڑی چادر کو اوڑھا اور کہا چلو۔۔
کلر کہار سے ہم نیچے اترے اور چکوال کونکل پڑے ان پہاڑیوں کے اسطرف ہمارا گآوں ہے اب کچھ وہاں کی سن لو پھر۔۔ میرے میاں ملک نواز اچھے خاصے زمیندار ہیں میرے ماموں کے بیٹے ہیں برادری کی شادی ہے۔۔ بس انہیں زمینداری اور شکار کا شوق اور مجھے پڑھنے کا انکادل میں ملکانی بنوں حکم چلاوں اور میں ڈاہڈی نہیں بن سکتی۔بہت خیال رکھتے ہیں میرا بس ہمارا مزاج تھوڑا الگ الگ نواز کے چھوٹے بھائی ملک اعزاز ایکسیڈنٹ میں وفات پا چکے ہیں انکا بیٹا ہے ملک خاور وہی بھتیجا جسکا بتایا تھا۔۔ تائے کے لاڈ نے اسے بگاڑ دیا ۔۔میں تو سوچ رہی ہوں اسے لاہور کوئی کام بنا دوں تم کوشش کرنا اس سے دوستی ہو سکے مجھے ذرا اسکا اندر لے دو تم
انہی باتوں کے دوران ہم ایک بڑی حویلی پہنچ گئے دو حصوں میں بٹی ہوئی حویلی باہر مردانہ بیٹھک تھی اس سے پیچھےکچھ فاصلے پر رہائش تھی درمیان میں ایک لان سا تھا گھر کو الگ سے چھوٹا دروازہ لگا ہوا تھا۔۔ ہمارے پہنچتے ہی دو نوکرانیاں اور ایک بوڑھا بابا نمودار ہوئے نوکرانیوں نے سامان اٹھا لیا اور میڈم مجھے بابے کے حوالے کرتے ہوے اندر چلی گئیں ۔۔ بابا مجھے لیتےہوے اندرونی بیٹھک میں لے گیا ۔۔اور وہاں بٹھا کر گم ہو گیا۔۔ کچھ دیر بعد وہ گرم چائے اور ساتھ دیسی پنجیری لے آیا۔۔چائے وغیرہ پینے کے بعدمیں باہر نکل کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔۔کچھ دیر بعد ایک تئیس چوبیس سال کا لڑکا اندر سے نمودار ہوا اور کافی اچھے طریقے سے مجھ سے سلام دعا کی یہی ملک خاور تھا۔۔وہ مجھے لیتا اندر کو چلا گیا رہائشی عمارت کے ساتھ ہی ایک گیسٹ ہاوس بنا ہوا تھا ایک بڑا کمرہ اٹیچ باتھ اور باہر برآمدہ ۔۔دیسی گاوں کا بڑا کمرہ جس میں پلنگ موڑھے وغیرہ کی سجاوٹ تھی۔۔یہ آپکا کمرہ ہے آپ یہاں ریسٹ کریں آپ ملکانی جی کے مہمان ہیں تو سب ملکوں کے مہمان ہوے نا۔۔
جاری ہے
fkniazi555.blogspot.com
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں