جمعرات، 9 ستمبر، 2021

Meri Kahani Meri Zubani Episode 37


    Meri Kahani Meri Zubani


Episode 37


رات آٹھ بجے کے آس پاس ملک خاور دوبارہ نمودار ہوا اور مجھے ساتھ لیے ڈائینگ ہال لے گیا۔۔میں نے وہاں دوبارہ میڈم کو دیکھا تو حیران رہ گیا انکی حالت ای بدلی ہوئی تھی۔۔کانوں میں بڑے بھاری جھمکے اور ہاتھوں میں سونے کےدو کنگن چڑھاے۔۔ زرتار بڑی شال اوڑھے وہ پوری ملکانی کے حلیہ میں تھیں۔۔ ہماری آنکھیں ملیں میں نےستائش بھری نظروں سے دیکھا شائد کوئی بات ہو جاتی اگر اوپر سے ملک نواز نا آجاتے۔۔ پچاس پچپن کے پیٹے میں ملک نواز خالص دیسی زمیندار نظر آ رہا تھا بوسکی کی قمیض شلوار پر گرم چادر اوڑھے۔۔ ایک ہاتھ پہ تیتز بٹھاے وہ اکڑی چال سے چلتے آئے اور عام سلا دعا کے بعد کرسی پر بیٹھ گئے ۔۔ اسکے ساتھ ہی ملازمائیں کھانا رکھنے لگیں۔۔ بہت پرتکلف کھانا تھا۔۔ کھانے کے بعد ملک نواز باہر دارے کو نکل گئے۔ انکے جانے کے بعد میڈم اٹھیں اور صبح بات ہوگی کہتی اندرونی حصے کو چل دیں۔۔خلاف معمول انہوں نے بالوں کے ساتھ بھاری پراندہ باندھ لیا تھا جو چلتے ہوے ادھر ادھر جھول رہا تھا میڈم کے ششکے ہی بدل گئے تھے

fkniazi555.blogspot.com

کھانےکے بعد میں واپس اسی گیسٹ روم میں آکر لیٹ گیا۔۔تھوڑی دیر بعد ایک ملازمہ اسی بڈھے بابے کے ساتھ آئی اسکے ہاتھ میں ایک ٹرے جس میں چائے اورکچھ فروٹ تھا ۔۔ بابا نےاپنا تعارف کراتے ہوے کہا کہ وہ ملکوں کا جدی پشتی خادم ہے اور حویلی کا انچارج کچھ بھی مسلہ ہوتو اسے بتایا جاے۔۔ چاے کے بعد میں کچھ دیر روم میں ٹہلتا رہا نیند ابھی کوسوں دور تھی۔۔ تنگ آ کر میں باہر برآمدے میں آ گیا ہر طرف سناٹا اور سکون تھا گاوں کی رات۔ڈیرے پرملک نواز اور گاوں کے کچھ لوگ بیٹھے باتیں کر رہے تھےمیں چلتا ہوا ادھر کو کھسکا ملک صاحب آنے والی گھوڑوں کی ریس کے حوالے سے سب سے باتیں کر رہے تھے۔۔مجھے ان باتوں میں قطعی دلچسپی نا تھی سو میں واپس کمرے میں جا گھسا۔۔کافی دیر گزر گئی۔۔ کافی لوگ جا چکے تھے بس ملک نواز زرنگار کرسی پر بیٹھا تیتر کو سہلاے جا رہا تھا۔۔ خلاف توقع وہ اندر نہیں گیا جہاں اسکی بیگم اور وڈی ملکانی پورے سنگھار سے اسکی منتظر تھیں۔۔

اگلی صبح میری آنکھ دس بجے کے آس پاس کھلی۔۔ فریش ہو کرمیں برآمدے میں نکلا تو ایک عجیب منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔کوئی دس پندرہ مختلف عمروں کے بچے اور کچھ خواتین کے درمیان بڑی کرسی پر میڈم بیٹھی چیزیں بانٹ رہیں تھیں۔۔بچوں کے لیے چاکلیٹس وغیرہ اور خواتین کے لیے سوتٹ چادر وغیرہ۔انچارج بابا جسکا نام خادم علی تھا اور سب اسے بابا خادم کے نام سے جانتے تھے وہ بتانے لگاکہ ملکانی سرکار بہت سخی ہیں ۔۔ ملک صاحب جتنے سخت مزاج ہیں ملکانی اتنا ہی نرم دل پورا گاوں انکامنتظر رہتا ہے

ناشتے کے بعد میں نے بابا خادم سے کہا کہ ملکانی تک میرا پیغام پہنچا دیں ان سے ضروری کام ہے۔کچھ دیر بعد انکا بلاوہ آ گیا بابا خادم مجھے ایک بڑے کمرے کے دروازے پر روکا اور خود دستک دیکر اندر چلا گیا۔اور واپس آ کر مجھے اندر جانےکا اشارہ کرکے بولا میں باہر موجود ہوں آپ ملکانی جی سے بات کر لیں پھر جو حکم ہوا ۔۔ میں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔۔

یہ واقعی کسی ملکانی کا کمرہ تھا بڑا زرنگار پلنگ پر گاو تکیے سے ٹیک لگائے وہ بیٹھیں تھیں۔۔ میں نے شوخ لہجے میں کہا سلام ملکانی صاحبہ وہ اسی لہجے میں بولیں جیتے رہو میں نے کہا واہ آپ تو اصلی ملکانی بن گئیں یہاں آ کر۔۔ وہ ادا سے کہنے لگیں کیا مطلب میں اصلی ملکانی ہی ہوں ملک اختر کی اکلوتی بیٹی پورے اڑھائی مربع نہری زمین کی وارث ملک دلنواز کی بیوی ۔۔۔جی جی جانتا ہوں جناب ۔۔پتہ میں یہاں رہوں تو ہل کر پانی نا پیوں لیکن مجھے یہاں گھٹن ہوتی یہاں ہر بات پر خیال رکھنا پڑتا کہ ملکانی ہوں ۔۔کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد بولیں تمہارا کیا پلان ہے اب۔۔میں نے کہا جی گھر جانا ہے باقی آپ بتاو۔۔ وہ کہنے لگیں میں کالج سے ایک دن کی چھٹی اور لے لوں گی تم پرسوں صبح انتظار کرنا میں تم سے رابطہ کروں گی۔۔میں نے ملک نواز کا پوچھا تو وہ کہنے لگیں ملک جی تو رات کو ہی باہر ڈیرے پر چلے گئے تھے ۔۔ کچھ شکاری دوست آئے تھے انکے ۔۔۔ انکے چہرے پر ہلکی اداسی جھلکی پھر سنبھل کر انہوں نے سائیڈ ٹیبل پر لگی گھنٹی بجائی ۔۔ بابا خادم جن کے بوتل کی طرح نمودار ہوا۔۔ انہوں نے اسے قریب بلا کر کچھ سمجھایا۔۔تھوڑی دیر بعد بابا واپس آیا

اسکے ہاتھ میں ایک شاپر تھا۔۔ میڈم نے وہ شاپرمجھے پکڑایا اس میں ایک بوسکی کا سوٹ ایک گرم چادر اور ایک لیڈیز چادر میری اماں کے لیے اور ایک بنوں کا سوٹ ابا کے لیے۔۔میں نے بہتیرا منع کیالیکن وہ بولیں یہ اس حویلی کی روایت یے ۔۔ بابا خادم تمہیں باہر مین روڈ تک پہنچا دے گا

میں میڈم سے اجازت لیکر بابا خادم کے ساتھ نکلا۔۔بابا نے باہر ایک جیپ میں مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کسی ڈرائیور کو بلا کر اسے کچھ سمجھا کر مجھے روانہ کیا۔۔ ڈرائیور پہلےمجھے مالٹوں کے باغ لے گیا اور وہاں سے ایک توڑا مالٹےجیپ میں رکھے۔۔میرے پوچھنے پر بتانے لگا یہ اراضی ساری ملکوں کی ہے۔۔میں ادھر ادھرگھوم کر دیکھنے لگا۔۔سامنے ایک ٹیلے پر کسی کا مزار تھا ۔۔میں ادھر کو چلتا گیا۔۔ڈرائیور میرے ساتھ ساتھ بتاتا چلتا گیا۔۔ میں گھومتا ہوا مزار کی پچھلی طرف گیا سامنے وسیع کھلا میدان تھا جس میں جھاڑ جھنکار اگی ہوئی تھی۔۔ مزار کے پچھلی طرف نکاسی کا راستہ تھا ۔۔ میں ایویں تجسس میں ادھر کو گیا نکاسی کے راستے کے ساتھ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی راستہ اندر کو جاتا جو جھاڑ جھنکار میں بری طرح گم تھا۔۔ پوچھنے پر ڈرائیور کہنے لگا ادھر نیچے ملنگوں کا تکیہ تھا۔۔ مدت سے بند ہے۔ ادھر اب کوئی نہیں ہوتا ۔۔۔ وہاں سے ہم واپس نکل پڑے اور ڈرائیور نے مالٹوں کے توڑے کے ساتھ مجھے میرے گاوں کی طرف جانے والی گاڑی پر سوار کروا دیا

اماں ابا مجھے ملکر بہت خوش ہوے۔۔ میرے لائے ہوئے گفٹس انہیں بہت پسند آئے اور وہ میڈم کا بہت شکریہ ادا کرنے لگے۔۔ دو دن اماں کے لاڈوں میں کیسے گزرے پتہ ای نہیں چلا۔۔ ابا کی طبیعت کافی ناساز تھی۔۔دو دن میں بس گھر رہا اپنی ماں کے۔۔۔ دو دن بعد گلی ک نکڑ پر جنرل سٹور پر میرا فون آیا۔۔۔فون کرنے والا بابا خادم تھا اس نے مجھے بتایا کہ کل دوپہر کو میں وہاں آ جاوں وہاں سے لاہور کو جانا ہوگا۔۔ مقررہ دن میں ماں باپ کی دعائیں لیتا اور میڈم کے لیے جوابی گھریلو کڑھائی کی چادرلیتا ہوا گھر سے روانہ ہوا

موسم ابر آلود ہورہا تھا۔۔ جب میں بس سے اترااس وقت گہرے بادل چھا چکے تھے۔ وہی ڈرائیور سٹاپ پر موجود تھا۔وہ مجھے بتانے لگا کہ ملکانی جی باغوں کی سیر کو آئی ہیں وڈے ملک صاحب اورملک خاور دونوں فیصل آباد گئے ہیں۔وہ مجھے سیدھا حویلی لے گیا ۔میں اسی کمرے میں میڈم کا انتظار کر رہا تھا جب مجھے باہر شور کی آواز سنائی دی میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔۔ حویلی کے کچھ ملازم اکھٹے کسی مسلے پر پریشان الجھے الجھے نظر آ رہے تھے میں باہرنکلا ۔۔ بابا خادم کے چہرے پر کافی پریشانی نظر آ رہی تھی ۔پوچھنے پر بتانے لگا کہ وڈے ملک اور ملک خاور کے ناہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوے شریکوں نے ایک متنازعہ زمین پر قبضے کی تیاری مکمل کر لی ہےسارے محافظ دونوں ملکوں کے ساتھ ہیں ہاے او ربا اب کیا کریں ۔۔ موسم کے تیور بگڑ چکے تھے ۔۔میں نے میڈم کا پوچھا تو یکدم جیسے بابا خادم کوکچھ یاد آیا اور وہ بولا ہاے اور ربا میریا وہ کہیں اسی طرف نا ہوں۔۔ میں فورا اسی ڈرائیور کی طرف لپکا اور اسے کہاجلدی کرو گاڑی نکالو اور جمپ لیکر جیپ میں سوار ہوا سب سے پہلےمیڈم کو حویلی لانا ضروری تھا قبضہ بعد میں واپس لیا جا سکتا تھا۔۔ہلکی بوندا باندی شروع ہو چکی تھی ہم تیز رفتاری سے باغوں کو نکلے ۔۔ابھی ہم باغ سے کچھ ایکڑ فاصلے پر تھے جب فضا میں پہلے فائر کی گونج پیدا ہوئی۔۔ یا اللہ خیر۔۔ڈرائیور نے سپیڈ تیز کی۔پہلے فائر کے بعد کچھ دیر سکوت رہا پھر یکے بعد دیگرے چار پانچ اکھٹے فائر ہوے کچی پھسلن والی سڑک پر ہم ہر ممکن سپیڈ سے جا رہے تھے۔۔آگے ایک چھوٹی نہرکی۔پلیانظر آ رہی تھی پلیا کے دائیں طرف متنازعہ زمین اور بائیں طرف وہ باغ تھا جدھر پرسوں میں آیا تھا ۔۔ جیسے ہی جیپ پلیا پر چڑھی اچانک کسی طرف سے دو فائر سیدھے جیپ کی باڈی سے ٹکرائے بدحواسی سے ڈرائیور کا ہاتھ کانپا اور جیپ پھسلتی ہوئی ساتھ کھیت میں اتری ۔۔ ڈرائیور نے فوری جیپ سے چھلانگ لگائی اور اسکی دیکھا دیکھی میں بھی کود۔۔ ڈرائیور کے ہاتھ میں تیس بور پسٹل نظر آ رہا تھا

اس نے دو فائر جوابی کیے ۔۔فضا میں نعرے ابھرے ۔۔ بہن چود پکڑو انکو یہ ملکوں کی گڈی ہے۔۔ ڈرائیور نےمجھے کہا میں انہیں روکتا ہوں آپ یہاں سے سیدھے اترو ملکانی جی یقینا باغ کے ریسٹ روم ہونگی آپ انہیں کسی طرح وہاں سے لیجاو صاحب ۔۔یہ بہت ذلیل لوگ ہے بھاگو لڑکے۔۔ اتنی دیر میں دوسری طرف سے پھر دو چار فائر آئے ۔۔ میں اکڑو ہوکر جیپ کی آڑ میں بھاگا۔۔ کچی گیلی زمین پر بھاگنا آسان نا تھا لیکن جان کا خود میڈم کو بچانا مجھے بھگاتا لے گیا۔۔اچانک جیسے ایک زور دار دھماکہ ہوا۔۔ میں رکا اور مڑکر پیچھے دیکھا۔۔ سامنے اونچائی پر جیپ میں آگ لگ چکی تھی شائد کوئی بھٹکی گولی پٹرول ٹینکی کو آ لگی تھی۔۔ شکر کا مقام میں مالٹے کے باغ میں گھس چکا تھا۔۔ انہیں شائد اندازہ نا تھا کہ ہم دو تھے یا ایک ۔۔ جیسے ہی میں باغ سے نکل کر ڈیرے پر پہنچا تو اندازہ ہوا بارش کافی تیز ہو چکی تھی۔۔ ڈیرے کے اکلوتے کمرے کے دروازے پر میڈم جیسے شدید پریشان کھڑی تھیں

جیسے ہی انکی مجھ پرنظر پڑی انکو آسرا ہوا۔۔ وہ قدرے خوفزدہ لہجےمیں بولیں۔۔یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔بلند آوازیں قریب آ رہی تھیں۔۔ ادھر دیکھو ادھر ہی ہوگی ملکانی پکڑو اسے ۔۔ اسکا ایسا پھودا پاڑیں گے کہ یاد رکھے گا خاورا کہ کسی کی لڑکی کو ایسے نہیں بہکاتے۔۔ایسی واہیات باتیں سنکر میڈم کا رنگ جیسے نچڑ کر سفید ہو گیا۔وقت کم تھا۔میں انکے قریب پہنچا اور بنا پوچھے انکا ہاتھ پکڑ کر پچھلی طرف بھاگا۔۔باغ کے درخت ہمیں آڑ دے رہے تھے ۔۔کچھ آگے جا کر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا وہ ڈیرے تک پہنچ چکے تھےاور ادھر ادھر تلاش کر رہے تھے۔۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کدھر جایا جاے بے سمت بھاگتے میری نظر دائیں طرف اسی مزار پر پڑی۔۔اور مجھے بچ نکلنے کا ایک راستہ نظر آیا۔میں انہیں گھوما کرلیتا مزار کے گرد جھاڑ جھنکار سے گزارتا بھاگا جا رہا تھا۔۔ اسی لمحے اچانک میڈم کا پاوں پھسلا اور وہ پھسل کر ایک جھاڑی پر جا گریں انکی سریلی چیخ بلند ہوئی مجبورا رکنا پڑا ۔ افففف انہوں نے چلنا چاہا لیکن شائد پاوں کو کچھ کھچاو آ گیا تھا وہ چل نا سکیں ۔۔ انکی آوازیں آس پاس گونج رہیں تھیں اوووو ملکانی کہاں چھپ گئی آ آ آ جا میری مہارانی کسی کی آوارہ آوز گونجی میڈم کی آنکھوں میں ہراس سمٹا انکے سفاک ارادے واضح تھے اگر ملکانی انکے ہاتھ آ جاتی تو اسکے ساتھ کیا ہونا تھا میں بہت اچھی طرح سمجھ سکتا تھا میں نے انکا بازو پکڑا اور انہیں اوپر اٹھا لیا وہ میرے ساتھ آ لگیں بازو میری گردن کے گرد لگا کر وہ میرے ساتھ جیسے چمٹی تھیں میں گھومتے ہوے مزار کے عقب میں آیا ۔ادھر کدھر جا رہے ہو آگے بہت گھنا ویرانہ ہے بادلوں کی وجہ سے سرشام ہی گہری شام کا جیسا اندھیرا پھیل رہا تھا مجھے پتہ ہے کدھر جانا ہے میں نے انہیں تسلی دی۔ریس کا سارا تجربہ اور آج تک کی ایکسرسائز کا نتیجہ تھا کہ آخر میں مزار کے عقب میں اسی دراڑ کے پاس دوبارہ پہنچا سامنے جھاڑیوں کی آڑ میں تاریک سرنگ نما کھوہ سی تھی۔۔بارش کی رفتار بہت تیز ہو چکی تھی ۔۔میں انہیں اٹھائے اندر کو گھسا اندر سخت اندھیرا تھا دو چار فٹ آگے جا کر میں رکا ۔۔ دور سے انکی آوازیں آ رہیں تھیں۔۔ جانے کدھر گئی ملکانی ۔میڈم ڈرکر میرے اور ساتھ لگیں۔۔میں تھوڑا آگے کھسکا باہر بجلی کی چمک اور کچھ متواتر اندھیرے میں رہنے کی وجہ سے میں کچھ کچھ دیکھنے کے قابل ہوا اور قریبا کھوہ کے اینڈ تک پہنچ گیا انکی آوازیں اب بہت تک آ رہیں تھیں باہر موسم بہت خراب ہو چکا تھا بادلوں کی گرج چمک کے ساتھ ملکانی کی تلاش عروج پر تھی

تم لوگ ہو ہی سارے نالائق ۔۔ میں کہتا رہا پہلے ملکانی کی خبر لو لیکن تم سب پہلے دوسرے ڈیرے بھاگے ۔۔ جس کام کے لیے آئےتھے وہ ہوا ہی نہیں۔۔ دوسرا بولا ہاں ہاں تمہیں بہت دکھ نا ملکانی کے گم ہونے کا۔۔ دکھ میرے لن کو ہے یہاں یہاں اسی گیلی زمین پر اسے رگڑنا تھا میں نے۔۔۔ ننگا لیجاتا واپس ساتھ اسے۔۔ انکے ارادے خطرناک تھے میڈم کا جسم کپکپا رہا تھا بلکل ایک سہمی ہرنی کی طرح جو وحشیوں کے نرغے میں اس دراڑ میں تھوڑا آگے کھسکا۔۔۔دیکھا وہی ہوا نا جسکامجھے ڈر تھا میڈم نے کانپتے لہجے میں سرگوشی کی۔۔ ڈریں مت ادھر مشکل وہ پہنچیں۔۔باہر وہ گالیوں میں میڈم کو چود رہے تھے رگڑ رہے تھے اور اندر میڈم میرے ساتھ لگ کر کانپ رہیں تھیں۔۔ہااااے ہاااے یہ موسم مستانہ مل جاتی تو سواد آ جاتا سنا ہے ملک نواز کو وہ جوتی پرنہیں لکھتی ۔۔۔ کب سے شہر رہتی ۔۔دوسرا ہنسا اور کہا کیاپتہ وہاں کالج کے لونڈوں سے پھدا مرواتی ہو ۔۔ آخر تیل پانی تو اس نے بھی بدلنا ہوتا ہی ہو گا۔۔ چپ کر کنجرا کسی نے غصے میں کہا وہ یہیں کی ہے اس نے سڑک کی طرف جانا تھ چلو سڑک کی طرف دیکھو۔۔ بارش میں بھیگنے کا فیدہ۔۔ آہستہ آہستہ آوازیں مدہم ہونے لگی ۔۔ کچھ دیر بعد سناٹا سا ہوگیا بارش کی رفتار بڑھ چلی تھی ۔۔ لگتا ہے وہ لوگ مایوس ہو کر چلے گئے لیکن ابھی رکنا ہوگا یہاں ای۔۔میں انہیں احتیاطا واپس پیچھے کو لیکر گیا۔۔ یہ مزار کے ساتھ ملنگوں کا تکیہ ہے شائد میڈم نے سرگوشی کی۔۔ہممم جی وہ ہی ۔۔ تمہیں کیسے پتہ چلا انکے لہجےمیں حیرانگی تھی اور میں نے مختصرا تفصیل بتائی۔۔خطرے کے ٹلنے کے بعد جیسے انہیں اپنی حالت کا اندازہ ہوا وہ کسمسائیں مجھے بھی احساس ہوا اس سے پہلے تو بس جان بچاو مہم تھی میں نے انہیں آہستہ سے زمین پر اتارا انہوں نے پاوں زمین پر رکھا اور دو قدم چلیں اور افففف آوچ کرتی لڑکھڑائیں میں نے بڑھ کر سہارا دیا کیا ہوا میڈم شششائد موچ آ گئی انہوں نے میرے شانے کا سہارا لیا۔۔ ادھر آگے ایک اونچی جگہ ہونی چاہیے وہاں آگ جلاتے تھے ملنگ ۔میں بچپن میں ایکبار ابا کے ساتھ آئی تھی تب یہاں ملنگ باقاعدہ ہر جمعرات محفل لگاتے تھے انہوں نے دوسرے ہاتھ سے دیوار کا سہارا لیتے مجھے کہا۔میں ٹٹولتا آگے بڑھا کچھ فٹ آگے واقعی ایک تھڑا سا بنا ہوا تھا میں نے اسے چھوا تو زمین پر کوئی موٹا سا قالین بھی بچھا محسوس ہوا ۔۔ میں نے انہیں بتایا کہ ایسی جگہ ہے وہ بولیں ہاں یہی ۔۔ یہاں دو تین بندوں کی جگہ بنی ہوئی ہوتی تھی۔۔ وہ دیوار کے سہارے چلنا چاہیں لیکن پھر سسسی کرتے رک گئیں میں انکے قریب جا کر کہا زیادہ درد ہے ۔۔ ہاں درد تو کافی ہو رہی ۔۔ رکیں میں آپکی ہیلپ کرتا ہوں میں نے انہیں سہارا دینے کی کوشش کی ۔۔اسبار جیسے ہی انکا گیلا بدن میرے گیلے جسم سے ٹکرایا جیسے آگ بھڑکی اب دونوں نارمل تھے لیکن مجبوری تھی۔۔ میں نے بازو انکی کمر کے گرد حمائل کیا اور انہیں چلانے کی کوشش کی اففف پاوں نہیں اٹھ رہا نعیم وہ پریشانی اور جھجھک سے بولیں ۔۔ رکیں جی میں نے انہیں اچانک پھر سے بازووں میں اٹھا لیا اور تھڑے کو چلا۔۔ لیکن اس اٹھانے نے میری واٹ لگا کے رکھ دی انکے جسم کا لمس انکی حرارت انکا گداز ۔۔ وہ جو بنگالی ساحرہ سی تھیں جنہیں جب پہلی بار دیکھا تھا تب ہی انکی گریس کا قائل ہو گیا تھا۔۔میں انہیں تھڑے پر لایا اور اس قالین پر بٹھایا۔۔ابھی بھی کبھی کبھار یہاں لوگ بیٹھتے ہیں کسی نا کسی فضول کام میں سگریٹ وغیرہ دیکھو شائد کچھ ماچس وغیرہ مل جاے۔۔ ایسی جگہ سو شے ہو سکتی۔۔ بڑی تلاش کے بعد ایک ماچس اور اسکے اندر دو چار تیلیاں مل ہی گئی۔۔ میں نے پہلی تیلی جلائی اس وقت وہ تیلی ہمارے لیے کسی بڑے بلب سے کم نا تھی کھوہ کی دیوار کے اینڈ پر یہ تھڑا سا بنتا تھا سمجھیں ایک چارپائی جتنا جس پر ایک پرانا موٹا قالین بچھا تھا۔۔ دوسری تیلی سے غار کے آس پاس جائزہ لیا شکر کوئی بچھو سانپ نہیں تھا۔۔تیسری تیلی ۔۔تیلی نہیں جیسے بم تھا اس بار جائزے کے بعد ہماری آپسی نگاہیں ٹکرائیں۔۔۔میڈم کی بڑی چادر بھاگ دوڑ میں کہیں گر چکی تھی ۔۔ بارش میں بھیگے لباس کے اندر انکا ساحرہ سا جسم بھیگے بال اور کانپتا جسم ۔۔اب ماچس میں بس ایک تیلی تھی اسے سنبھال کر میں نے کہا آپ بیٹھیں میں ذرا باہر جھانکتا ۔۔ احتیاط سے جانا۔۔ اور میں جی اچھا کرتا کھوہ کے کے دھانےپر گیا ۔باہر جیسے اندھیر مچ چکا تھا وقفے وقفے سے کڑکتی بجلی میں دور تک بس بارش ہی بارش یا اونچے نیچے ٹیلے ۔۔ ویسے تو سب سکون ہے لیکن باہر بارش بہت زیادہ اور اندھیرا بھی۔۔اوہو اب کیا کریں ہر طرف شور مچ چکا ہوگا ۔۔ جانے ملک جی آئے یا نہیں وہ پریشان لہجے میں بولیں۔ فی الحال تو صبر ہی ہو سکتا ہے ایسے تو نکلنا نا ممکن ۔۔ حویلی تک جاتے ہم نے ٹھر مر جانا ۔۔ جاتی سردی کی بارش ہے۔۔ٹھر مر تو اب بھی رہی ہوں انکے لہجے میں کپکپاہٹ واضح تھی۔۔افففف آپکو تو سردی لگ رہی میں انکے قریب جا کر کہا ہاں بھیگ گئی نا ساری۔۔گیلے کپڑے تنگ کر رہے۔۔ ہاں میرے کپڑے بھی سارے بھیگ گئے میں نے بھی جوابی انداز سے کہا۔۔پاوں کیسا اب۔۔ درد ہو رہا ہے ابھی ۔۔ اوہو آپ صحیح ہو کر بیٹھیں ٹانگیں لٹکائیں مت میں اٹھا اور انہیں ضد کر کے ایزی کروایا۔۔اور انکے منع کرنے کے باوجود انکےپاوں کو ہلا جلا کر دیکھا معوملی سی موچ لگی مجھےتو کیوں کہ سوجن نہیں تھی اتنی میں نے انکے پاوں پر ہاتھ پھیرا۔۔ جہاں مجھے پاوں کی سوجن کا اندازہ ہوا وہاں مجھے میڈم کی جلد کی ملائمت بھی محسوس ہوئی میں تو تھا ہی عاشق آوارہ۔۔میں نے دوسری بار ہاتھ کو سہی سے گھما کر پھیرا اففف جیسے ہلکا کرنٹ سا لگا۔یقینا انہیں بھی محسوس ہوا ہوگا وہ جھجھکتے ہوے بولیں نا کرو ایسے پاوں کو ہاتھ نہیں لگاتے جناب۔۔اوہو آپ تو ہماری ایڈمن آفیسر ہیں لائبریرین بھی ہیں آپکے پاوں چھونے میں ہرج نہیں۔۔وہ ہلکا ہنسیں اور بولیں لیکن تم اس وقت اپنی ایڈمن آفیسر کے ساتھ نہیں ملکانی کے ساتھ ہو ۔۔میں ہنسا اور کہا ہاں یہ بھی ہے یعنی میں نے آج ملکانی کی مدد کی ہے۔۔ہاں وہ جھجک کر بولیں آج تم نے ملکانی کو بچایا ہے اسکی عزت کو بچایا ہے

یہ بیلے کے پکھی واس ہیں ۔۔ تم انہیں نہیں جانتے ہوگے ہمارے شریکوں کی زمین پر آباد ہیں جنکی لڑکی کا خاور ساتھ چکر تھا ۔۔ بہت جنگلی مزاج ہیں تم نے آج ملکانی پہ بہت بڑا احسان کیا ہےملک نواز کے شملے کو بچایا ہے تم نہیں جانتےتم نے آج کیا کام کیا پلیز اب شرمندہ نا کریں۔۔

افففف بہت سردی ہو گئی میرا تو جسم جیسے کانپ رہا وہ ٹھٹھرے لہجے میں بولیں جلدی بارش ختم ہو تو نکلیں یہاں سے۔۔ گھبرا رہی ہیں ۔۔اب میرے اندر ایک سرمستی سی چھانے لگی تھی ۔تیسری تیلی کا نظارہ اور ساتھ ان پکھی واسوں کی باتیں ۔۔میڈم اور بیلا والا سین میرے ذہن میں جیسے فلیش بیک ہوا۔۔ میں انکے پاس جا کر بیٹھا اور کہا زیادہ سردی لگ رہی ۔۔ ہممم وہ کانپتے ہوے لہجے میں بولیں۔۔گیلا جسم اور لباس ہے نا اسلیے ۔۔چارپائی بھر کی جگہ پرہم ساتھ ساتھ ۔۔جسم درد کرنے لگ پڑا میرا آج پھر ۔اب اندھیرے کی ہماری نظریں عادی ہو چکیں تھیں ہیولوں کی طرح نظر آ رہے تھے۔۔انہوں نے بازو اپنی گردن اور شانے تک گھمایا اور شانے کو دبانے لگیں۔۔کیا ہوا ۔۔ کچھ نہیں بس بڈھی ہو گئی نا تو کبھی کبھار کندھوں کو درد ہو جاتا ۔۔ خیر بڈھی توآپ نہیں ہیں میں پہلے بھی بتایا تھا آپکو ۔۔ اور یہ کھچاو ہوجاتا ہے آج بھاگ دوڑ بھی تو بہت کی نا۔افففف وہ جیسے گزرے وقت کو یاد کر کے جھرجھری لیں ۔۔میں دبا دوں شانے اس دن بیلا نے بھی تو دباے تھے۔۔نہیں نہیں بس ٹھیک ہے اوہو میڈم میں بھی تو آپکا شاگرد نا ۔۔ انہوں نے پھر سے ٹالنے کے لیے وہی بہانہ گھڑا کہ گاوں میں وہ بس ملکانی ہیں۔۔اچھا تو پھر میں کیا ہوں اسبار میں جو مست ہو رہا تھا انہیں جوابی پوچھ لیا۔۔ تتمممم میں آپکا گارڈ ہوں جس نے بچایا ملکانی کا گارڈ ۔۔ سیکیورٹی آفیسر ہاہاہا دونوں ہنس پڑے ۔۔ہاں ایسا ہی سمجھ لو۔۔ تو گارڈ بھی آپکاخدمت گزار نا اس سے دبوا لیں ۔۔ میں نےانہیں انکی بات میں ہی پھنسا لیا۔۔اچھا نہیں لگتا نا انکے لہجے میں ہلکا سا گریز تھا ۔۔اوہو کون دیکھ رہا یہاں جانے کتنی دیر لگے اوپر سے سردی ہے زیادہ اکڑاہٹ نا ہو جاے میں نے جیسے کہانی گھڑی اور انکے پیچھے بیٹھ کر آہستگی سے انکے شانوں کو دبانے لگا۔۔ میری ہتھیلیاں انکے شانے سے ٹکرائیں ۔۔گول قمیض اور کچھ کچھ ننگا شانہ میرے ہاتھوں کو جلا سا گیا میرے ہاتھ شانے گردن سےہوتے بازووں تک آئے۔۔ کیسا لگ رہا ہے۔۔ افففف سکون سا آ گیا میں تھوڑا اور کھسکا اور انکے شانے سے بازووں تک دبایا ۔۔ بھیگے لباس کے اندر انکا کانپتا ہلکا گرم جسم میرے اندر آگ سی بھرنے لگی سردی بارش رات سناٹا بہت پاس ایک بھیگے بدن کی خوشبو۔۔انکے گیلے بالوں کی مہک آہستہ آہستہ مجھے بہکا رہی تھی اسکا نشہ چھا رہا تھا بھیگے بدن کی خوشبو میں پرفیوم کی خوشبو میں ایک لہر میں انکے شانے دباتا گیا۔۔وہ جیسے میرے ساتھ لگی ہوئی تھیں۔۔ اامممم بسسس کرو اب انکی غنودہ سی آواز ابھری۔۔ کیوں اچھا نہیں لگ رہا۔۔ سکون تو ہے لیکن تم تھک جاو گے ۔۔ نہیں تھکتا میں نے دبانا جاری رکھا اور ہاتھ سے انکے شانوں سے نیچے اوپری کمر تک دبایا۔۔ ایسسسے اچھا نہیں ہے نا انکے لہجے میں جھجھک سی تھی کچھ نہیں ہوتا ملکانی جی ۔۔ملکانی کی خدمت کرنے دیں گارڈ کا حق ہوتا ہے خدمت گزاری۔۔ لیکن ملکانی کے ایسے قریب ہو کر دبانا گارڈ کی ڈیوٹی نہیں نا۔۔ وہ ہلکا سا شوخ ہوئیں ۔۔ گارڈ دوست بھی تو ہے نا یاد کہا تھا آپ نے ۔۔۔وہ چپ ہو گئیں۔زیادہ سردی لگ رہی میں نے انکے کانپتے جسم کو محسوس کیاہممم کافی ۔۔ میں بازو کو پھیلایا اور انکے ساتھ لگا انکی کمر میرے سینے سے لگ رہی تھی۔۔ جسموں کے ٹکر کی حرارت دونوں کو بھا رہی تھی لیکن ایک گریز سا تھا۔۔سکون آیا میں نے سرگوشی کی ۔۔میرےہاتھ اب صرف انکے شانوں پر دھرے تھے میں نے دھیرے سے بازو کھولے اور انہیں بازووں میں آہستگی سے لے لیا وہ میرے ساتھ لگ چکیں تھی ۔۔ کیا کر رہے ہو انکے لہجے میں ایک غنودگی سی نشہ سا تھا۔۔ میں اندھیرے میں محسوس کر سکتا تھا آج بھی انکے چہرے پر ویسے پیاسے تاثرات ہونے تھے۔۔ انکے قرب سے میرا لن نیم اکڑ چکا تھا۔کچھ نہیں بس آپکی سردی کو کم کرنے کی کوشششش۔ کیوں اچھا نہیں لگا ۔۔ نہیں وہ بات نہیں لیکن ایسے مناسب نہیں نا۔۔ میں نے بازو قدرے تنگ کیے اور کہا اس میں کیا ہے وہ بولیں ملکانی کے اتنا قریب ہونا مناسب نہیں۔۔میرے اندر آوارگی فل جاگ چکی تھی لن تقریبا راڈ ہو چکا تھا۔۔کچھ نہیں ہوتا ورنہ ٹھر مر جانا ۔۔ ہممم وہ کچھ نا بولیں میں نے بازووں کو دبانا شروع کیا جیسے ہی بازو پر ہاتھ جاتا انگلیاں انکے بوبز سے ٹکراتیں اففف بازو کے ساتھ بوبز کا لمس ۔۔میں نے دوسری بار واپس آتے ہوے جان کر انگلی انکے بوبز سے رگڑی ۔۔انکا جسم اور ساتھ لگا میں نے اگلی بار پھر کیا اور آہستہ آہستہ بازو کوہاتھ سے دباتے رگڑ کو سخت کرتا گیا۔۔ سکون ہوا میں نے سرگوشی کی۔۔ ہممم بہت ۔۔چوتھی بار جب میری انگلیاں بوبز سے رگڑیں کھائی تو انکی ہلکی سی سسکی نکلی ۔۔ یہ سسکی نہیں تھی یہ اشارہ تھا الارم تھا کہ ان کو بھی میرا لمس جلا رہا۔۔ لن مکمل سیدھ میں اب انکی کمر سے چھب رہا تھا۔۔جسے وہ محسوس ضرور کر رہی ہونگی

وقت کم تھا کسی بھی وقت ملکانی کے ورثا پہنچ سکتے تھے۔۔میں نے کہا ملکانی جی ۔۔ وہ بولیں جی ۔۔ آپکو شائد بخار ہو رہا میں نے ہاتھ انکی گردن اور چہرے سے لگاے وہ جیسے کانپیں اور بولیں نننا کر نعیم ۔ یہہ ٹھیک نہیں۔۔ کیا نا کروں ۔تتتتم بس وہ چپ ہو گئیں میں نے ہاتھ آگے بڑھایا اور انکے چہرے کو چھوا اور کہا سردی کا بخار ہے مساج کروں ۔۔ بہت اچھا مساج کرتا ہوں میں ۔۔ننن نہیں کرنےدیں نا میری سرگوشیاں انہیں بہکا رہیں تھیں۔۔میرے ہاتھوں کا لمس لن کی چھبن انہیں یقینا جلا چکی تھی۔۔ پتہ ہے آپ کمال ملکانی ہیں ایسی ملکانی جیسے ملکہ ہو میں نے مکھن لگایا میرے لیے اعزاز کے میں نے ملکانی کو بچایا میرے ہونٹ جیسے انکے گالوں سے ٹکرا رہے تھے۔۔

میں نے انہیں ساتھ چمٹایا اور کہا پرانے زمانےمیں ملکہ اپنے بچانے والے کو انعامات سے نوازتی تھی آپ بھی مجھے انعام دیں نا۔۔ میرے لیے اعزاز ہوگا ملکانی کا انعام۔۔وہ میرے ساتھ لگی کچھ دیر چپ رہیں۔۔ میرے ہاتھوں کی گستاخیاں بازو دبانے کے بہانے بوبز کو رگڑ رہیں تھیں۔۔ تب وہ اچانک سرگوشی سے بولیں۔۔ ملکہ کا انعام ملے گا لیکن اسکی رازداری شرط ہے بولو ملکانی کا راز رکھو گے ۔۔ وہ جیسے ایک نشے کے عالم میں بول رہیں تھیں۔۔۔اب تک یقین کیا ہے تو یہ یقین بھی کر کے دیکھیں ۔۔ جا جا سکتی راز نہیں ۔۔میرے لہجے میں سچائی تھی۔۔اب دیں انعام میں نے انکے کانوں کے ساتھ سرگوشی کی۔۔انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا تم نے ملکانی کی عزت بچائی ۔۔بہت بڑا کام کیا ۔۔ اور جاو ملکانی نے وہ عزت تمہیں انعام میں دی ۔۔ تم پر وار دی وہ عزت جو اسکا غرور رہی ۔۔ ملکانی کا غرور کیا یاد کرو گے اور یہ راز بس یہاں تک رہے گا ۔۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور اسے خود پکڑ کر اپنے شانے سے سیدھا نیچے کلیویج تک رگڑا اور سسکاری لیکر بولیں ملکانی تمہارا انعام یہاں ابھی اسی وقت ۔۔۔ اور میں جیسے ششدر رہ گیا

جاری ہے

fkniazi555.blogspot.com

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں