Meri Kahani Meri Zubani
Episode 35
انکےجانےکے بعد کافی دیر میں انہی کے بارے سوچتا رہا۔۔عمبرین کی محبت دلنوازی اور انیلہ کےتجسس۔۔اچانک مجھے سارہ کا خیال آیا۔۔جانے اسکا کیا حال ہوگا میں نے وقت دیکھا تین بج چکے تھے۔۔ میں نے سوچا کہ سارہ کا پوچھ کر پھر بیلا سے ملاقات کرتے کالج کا پوچھتے۔۔ میں نے جا کر فلیٹ کی بیل بجائی۔۔دوسری بیل کے بعد اندرسے آواز آئی کون ہے۔۔ میں ہوں جناب آپکا بؤائے فرینڈ میں نے شوخی سے کہا۔۔ اچھاجی کیا کام ہے۔۔ وہ آپکا پتہ لینا تھا جی۔۔ ہم ٹھیک ہیں آپ جائیں۔۔آئے ہاے ایسے کیسے جائیں دروازہ کھولیں نا۔ اوہو رکیں پھر۔۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور میں اندر داخل ہوا۔۔ افففف وہ ایک بڑے سے تولیے میں لپٹی ہوئی تھی اسکے گھنگریالےبال کندھوں سے نیچے تک اور اسکے سفید بازو اور شانہ اففف۔۔ اوے ہوے نہانے لگی تھی۔۔چلومیں نہلاتا۔۔۔جی بلکل نہیں ۔۔ میں لگی ہوں نہانے تم بےشک بیٹھو یاجاو۔۔ اس نے شوخی سے کہا۔۔ اکھٹے نہاتے نا۔۔ افففف ہو یار سمجھا کرو نا۔۔ میں بس آئی ۔۔ لیکن تیاریاں کدھر کی۔۔ آج سپر ڈیٹ مارنی میں نے ۔۔ تیار رہنا آج گرل فرینڈ کے نخرے ہونے۔۔ اس نے جیسے رات کا پلان بتایا ہو۔
مجبورا میں اٹھکر باہر نکل آیا۔۔ اور ٹہلتا ہوا مارکیٹ گیا کچھ سنیکس وغیرہ لیے پیٹ پوجا کی اور ادھر ادھر گھومتے بیلا کے گھر جا دھمکا۔۔مجھے دیکھ کر انکل اور آنٹی بولیں لو نعیم آ گیا یہی سمجھاتا اسکو پوچھنے پر پتہ چلا کہ بیلا دو دن کے لیے میڈم ساتھ انکے گاوں جانا چاہتی اور آنٹی اسکے جانے کےخلاف اتنی دور کسی کے گھر جانا مناسب نہیں تھا اب ناراض ہوکر کمرے میں بند۔۔بیلاکو ہزارمنتوں کے بعد دروازہ کھولنے پر راضی کیا اسکاپھولا ہوا منہ دیکھ کر بہت مشکل سے ہنسی چھپائی۔لیکن میڈم کے ساتھ تو تم مجھے بھیج رہی تھی اب خود کو تیار کر لیا۔بس کر لیامجھے آوٹنگ کرنی۔۔ اتنی دیر میں آنٹی بھی آ گئیں۔۔ بڑی مشکل سے وہ اسے اس شرط پر راضی کیا کہ جیسے ہی میں واپس آتا ہوں ہم سب دوست اسکے اپنے گاوں جا کر گھوم لیں ساتھ آنٹی بھی ہو آئیں گی ۔۔ شکر خدا کا وہ ایزی ہوئی آنٹی اسکے لیے کھانا لینے چلی گئیں۔۔تو وہ بولیں تم کب ٹپکے ناس مار دیا سارے احتجاج کا ۔۔ انکو منا کرہی میں دم لیتی۔۔ کیا بچپنا ہے یار کیاکرنا ادھر۔ اوہومجھے میڈم کی حویلی دیکھنی انکی زمین انکا ریسٹ ہاوس بہت تگڑے زمیندار ہیں یہ لوگ۔۔ بس تمہاری بات نہیں ٹال سکی میں اسنے مصنوعی غصہ دکھایا۔۔ کھانے کے بعد وہ بولی آج بھی میڈم تمہارا پوچھ رہی تھیں۔کل لازمی ملنا ان سے۔چلو کہیں گھوم کر آتے مجھے منایا تو اب میری بات مانو۔ لیکن قدر مجھے سستی میرا نہیں دل کہیں جانے کو میں نے اسے ستایا۔۔ اٹھتے ہو یا اور کیا کرتا اٹھ بیٹھا۔۔کافی دیر ہم ادھر ادھر گھومتے رہے ۔۔ گھومتے گھومتے اس نےکچھ شاپنگ کی اور شام کو اسے فریش موڈ میں گھراتارا۔۔۔ آجکل ناصر نظر نہیں آرہا۔۔ وہ تو شاہدرے آجکل ہم اکیلے۔۔ لو بتایا ای نہیں ۔۔کیوں تم نے کونسا ادھر آ جانا تھا میں نے ایویں ہی شغل کیا۔۔ کیاپتہ آ جاتی اس نے عجیب انداز میں کہا۔۔اور اندر چلی گئی
رات تک میں نے بیلا سے لیے نوٹس کو دیکھا اور پڑھائی کی اسکے بعد فریش ہوا۔۔ سارہ سے آج باقاعدہ ڈیٹ تھی میں نے اسکے لیے گیسٹ روم کھولا ۔اندر بلینکٹ وغیرہ سیٹ کیا ائیر فرینشنر چھڑکا اور کوئی آٹھ بجے کے آس پاس میں سارہ کے فلیٹ بیل دی۔۔آج اسکو ڈنر کرانا تھا۔۔جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا مجھے جیسے کرنٹ لگا۔۔سکن ٹائیٹ جرسی شرٹ اور ٹائٹ جینز میں وہ بلکل کسی ماڈل کی طرح لگ رہی تھی۔۔ میں نے سیٹی ماری وہ بلش ہوئی اسے ساتھ لیے ہم اسی باربی کیو کارنر آئے جدھر بیلا مجھے لائی تھی۔۔وہ گرل فرینڈ بنی تھی اور نخرے اٹھوانے سے پہلے ٹانگیں بھی اٹھا چکی تھی تو اب حق بنتا تھا اسکے لاڈ اٹھائے جائیں۔۔ڈنر کے بعد ہم ادھر ادھر گھومتے رہے اور کچھ ساڑھے دس بجے واپس لوٹے۔۔اسے میں ساتھ لگائے اندر لے آیا۔۔میری پرشوق نظریں اس پر جمی تھیں۔۔میں اسے لیے اسی گیسٹ ہاوس کی طرف گیا۔ وہ کمرے میں سجی چیزیں دیکھنے لگ گئی اور میں نے روم ہیٹر کو آن کیا کچھ دیر بعد کمرے کا موسم بہتر ہو گیا۔۔ اچھا تو یہ تیاریاں تھیں میں نے اسکے سراپے پر نظر جمائی ۔۔نہیں تو تیاریاں تودکھانی باقی ابھی۔۔اس نے ادا سے جرسی شرٹ کو جیسے ہی اتار میری جیسے سانس بند ہو گئی جرسی کے نیچے سلیولیس شارٹ شرٹ تھی جس میں اسکا ہلکا ہلکاپیٹ نظر آ رہا تھا شرٹ اسکی ناف تک ہی تھی اور اس باریک شرٹ میں اسکے تنے بوبز اور دمکتا جسم ۔۔ میرے ایسے دیکھنے پر اسکی رنگت شہابی ہوئی۔اسکے سرخ ہونٹ دہک رہے تھے میں نے اسکے قریب گیا اور اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنی طرف کھینچا اور اسکو ساتھ لگا کر اسکے گالوں کو چوما پھر ماتھے کو پھر گردن پھر لپس پھیرے اسکا جسم کانپا اور ایک ہلکی گہری سسکی نکلی اففففف ۔۔ تمہارے لیے ساری باڈی ویکس کی آج اور لوشن بھی لگایا۔۔کل تو بس اچانک سب ہو گیا نا اسکی سرگوشیاں مجھے بہکا رہیں تھیں ۔۔ میرے ہاتھ اسکی شرٹ سے الجھے۔اففففف وحشی رکو تو اس نے گہری سانسوں میں کہا اور قدرے کھسکی
اس نے لہکتے ہوئے شرٹ کو الگ کیا اوررر اسکا سفید چکنا چمکتا جسم جیسے لائٹیں مارنے لگا۔۔ میں نے اپنی شرٹ کو اتارا اور اسکی طرف بڑھا۔۔اسکے چونتیس نمبر کے بوبز اور سرخ نپلز پتلی کمر اور گورا بن جیسے مجھے آگ لگا رہے تھے۔ہم دونوں ننگے جسموں سے آپس میں ٹکرائے اورجیسے جسم آپسی رگڑنےلگے اسکا بدن جل رہا تھا میرے ہاتھ اسکی سے ہپ تک گردش کر رہےتھے۔۔ میں نے اسے بازو پہ کیا اورقدرےپیچھے جھکایا ۔۔ اس کا چہرہ اور بال جھولے سینہ تن کر سامنے آیا۔میرے پیاسے ہونٹوں نے نپلز کو چوسا افففف انکامزے کارس اور اسکی دلکش سسکیاں ۔وہ بےتابی سے میرے بازووں کو سہلا رہی تھی۔۔میں اسے لیے لیے بیڈ پر آیا۔۔ بہت لاڈ سے اسے لٹایا اوراسکی ٹائٹ جینز کوکھینچا پینٹ جیسے چپکی پڑی تھی۔۔آہستہ آہستہ پینٹ اتری افففففف نیچے اس نے انڈر وئیر نہیں پہن رکھا تھا۔صاف چکنی سفید رانیں نظر آئیں میں نے بےساختگی سے ہاتھ رانوں پر رکھا اففف ہاتھ صابن کی طرح پھسلا لوشن کاکمال تھا یاکیا ایسا جسم پہلی بار دیکھا تھا۔۔میں اسکی رانوں پر ہاتھ سے مساج کرنے لگا ہاتھ پاوں سے اوپر تک آتا۔وہ بیڈ پر مست لیٹی گرم آہیں بھرتی رہی۔۔میں نے اسکی ٹانگوں کو کھولا افففف اسکی چھوٹی سی سرخ پھدی بلکل صاف۔۔ رات جوہلکے بال چھبے تھے اب وہ بھی صاف تھے سرخی مائل پھدی کے ہونٹ ہلکے گیلے تھے میں نے ان پر انگلی کو پھیرنا شروع کیا وہ تو جیسے تڑپ اٹھی ۔۔ میرا۔ہاتھ کبھی بوبز تک جاتا کبھی پاوں پر کبھی رانوں کومسلتاکبھی پھدی کورگڑتا۔۔ وہ کھلی کتاب کی طرح پڑی تھی اور میں انگلیوں کے لمس سے اسے پڑھ رہا تھا۔۔
میں ہاتھ کے انگوٹھے کو اسکی پھدی کے دانے پر رگڑنےلگا افففف اسکا جسم جیسے پھڑک رہا تھا اسکی سریلی سسکیاں کمرےمیں گونج رہیں تھیں
میں نے اپنے ٹراوزر کو اتارا۔ کب سے منتظر لن تڑپ کر سامنے آیا۔۔میں اسکےساتھ لیٹا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر لن پہ رکھا اور سرگوشی کی اسے دیکھو نا پھر فل روشنی میں۔وہ مدہوش اٹھی جیسے ہی اسکی نظر فل اکڑے لن پر پڑی اسکے منہ سے افففف وااوووو سوپر ٹول نکلا اوہ وہ پیار سے لن کو سہلانے لگی ۔۔ اففف اسکے ہاتھ کا لمس لن جیسے پھٹنے کو تھا۔۔میں سیدھا کھڑا ہوا اور اسکی ٹانگوں کو پکڑ کر کھینچا آاااہ آرام سے نا ۔۔ پلیز اتنی چھوٹی سی تو ہے آرام سے ڈالنا پلیز۔۔ میں نے ہممم کیا اورٹوپے کو پھدی پر جما کر ہلکا سا رگڑا اسکی مست سسکی بلند ہوئی میں نے ہلکا سا سٹروک کیا ٹوپہ پھدی کے لبوں کو کھولتا اندر گھسا ۔ اسکا بدن نیچے سے کانپا اس نے بیڈ شیٹ کو مٹھیوں میں بھنچ لیا آہستہ آہستہ دباو بڑھاتا گیا اسکی چکنی پھدی میں لن پھنس پھنس کر جا رہا تھا اور وہ مستی بھری کراہیں بھر رہی تھی۔۔افففف کتنا موٹا ہے یار تمہارا اففففف ۔۔ میں آدھے تک ہی اندر باہر کرتا رہا۔۔ اسکی سسکیوں میں مزےتھے ب وہ فل مدہوش ہو گئی تو میں نے جھک کر اسکے بوبز کو ہاتھوں میں دبا کر اگلا جھٹکا مارا اور لن جڑ تک اندر جا گھسا۔۔ اسکی اووووئی ماں کےساتھ تیز چیخ نکلی ۔۔ میں نے واپس کھینچا اورپھر مارا۔۔ میا لن اوپر سے اسکے دانے کو رگڑتا ہوا اندر جا رہا تھا اور اسکی سسکیاں مستیاں بڑھ رہی تھیں۔۔آااا یسسس اووو واٹ اے فک ۔۔اففف کرتی اسکی مست آوازیں مجھے بھڑکا رہیں تھیں۔میں نے لن کو باہر کھینچا اور اسے بیڈ سےاٹھایا۔۔ اور بیڈ پر گھوڑی بنا دیا۔۔ افففف اسکی چکنی گانڈ میرے ہاتھوں میں جیسے پھسل رہی تھی۔۔ پیچھے سے ٹوپہ رکھ کر میں نے تیز دھکا مارا ۔۔ لن اندر باہر اور اسکی سسکیاں جیسے کمرے کو ہلا رہی تھیں۔۔۔ آااااا یسسسسس ااااااہ ااااف آاااہ یسسس آئم کمنگ افففف اسکی پھدی نے سکڑنا شروع کیا اسکا جسم کی لرزش تیز ہونے لگی اب وہ خود بھی گانڈ کو آگے پیچھے کر کے رسپانس دے رہی تھی ۔۔پورا کمرہ تھپ تھپ آاااہ اففف یس کی آوازوں سے گونج رہا تھا جب وہ سریلی چیخ کے ساتھ بیڈ پر مدہوش لیٹتی گئی۔۔ میرا بھی وقت قریب تھا میں نے ایسے ہی اسکے اوپر لیٹ کر پشنگ جاری رکھی اسکی پھدی پانی پھینک رہی تھی اففف اسکی وہ گرم گرم دھاریں لن سے ٹکرائیں میں نے فل باہر نکالا میرا بھی بس منٹ ہی تھا۔۔ پچھلی بار باہر چھوٹا تھا اسبار میں نے الگ مزے کا سوچا اورلن کو باہر نکالا لن اسکی پھدی کے پانی سے چکنا ہو چکا تھا میں نے اسکی ٹانگوں میں اندر باہر کرنا چاہا جب اس نے آخری جھٹکا لیا ار ہلی۔۔ لن کا ٹوپہ غلطی سے اسکی گانڈ کے سوراخ میں پھنسا۔۔ اففف اسکی چیخ تھی جیسے اسے کسی نے چھری سے کاٹ ڈالا ہو۔ وہ اور تڑپی لیکن میرا آخری جھٹکا تھا تب۔گانڈ کا گرم اور ٹائٹ سوراخ لن کو نچوڑنے لگا تھا جذبات میں سمجھ نا آئی اور میں نےگاڈ میں آدھا اتار دیا اور اسکےساتھ ہی لن نے اسکی گانڈمیں پچکاریاں مارنا شروع کر دیں۔۔ اسکی چیخیں اور واویلا
جب تک آخری قطرہ نا نکلا مجھے ہوش نا آیا ۔۔ فارغ ہونے کے بعد میں ڈھلکا تو وہ گندے بچے کہتے مجھ پر جھپٹی اور آئی ااااف کرتی واپس بیٹھ گئی۔۔ بہت منتوں کے بعد اس نے مجھے معاف کیا اور مجھے ساتھ لیتی بستر اوپرلے لیا
اگلی صبح وہ جلدی فلیٹ چلی گئی اور میں تیار ہو کر کالج کو نکلا۔۔ کالج پیریڈز لینے کےبعد میں ایڈمن آفس گیا۔۔ میڈم میرا ہی انتظار کر رہی تھیں ابتدائی حال چال کے بعد وہ پوچھنے لگیں کہ تمہارا گاوں کس طرف ہے میں نے بتایا کہ میرا گاوں چکوال سے پہلے سرگودھا چکوال روڈ پر واقع ہے۔۔ وہ مجھے بتانے لگیں کہ بھتیجے والامسلہ ابھی دبا نہیں وہ ایکبار گاوں جانا چاہتی اوپر سے بلدیاتی الیکشن بھی قریب اور وہ ایکبار گاوں جانا چاہتی ہیں کچھ مسائل ہیں۔۔ اس سلسلے میں وہ چاہتی ہیں کہ میں ان کے ساتھ جاوں اگر مشکل نا ہو تو
میں نے کہا کیسی بات کرتی ہیں آپ ۔۔ کب جانا۔۔ وہ بولیں کل جمعہ ہےنا کل جمعےکے بعد نکلتےہم ۔اور تم کالج سے روٹین کے مطابق جاو گے یہاں کسی کو پتہ نا چلے کہ تم میرےساتھ جا رہے ایویں لوگ فضول باتیں کرتے انہوں نے ہلکا سا جھجھک کر کہا۔۔بے فکر رہیں میں تو بیلا کو بھی نا بتاتا اسے بھی آپ ہی بتایا ہے۔۔وہاں سے میں گھر آیاتو خلاف توقع سارہ کے فلیٹ کی سیڑھیوں والا دروازہ باہر سے لاک تھا۔۔میں نےاپنا دروازہ کھولا تو سامنے ایک لفافہ پڑا ہوا تھا میں نے حیرت سے لفافہ کھولا اندر دو سطریں لکھی تھیں۔۔ ڈئیر نعیم روزی کی ماما کی ڈیتھ ہوگئی ہے میں قصور جا رہی ہوں ۔۔ واپس آ کر بات کرتے۔۔ تمہاری سارہ
کھانا وغیرہ کھا کر میں کچھ دیر سستانے ہی لگا تھا کہ ناصر کو آتا دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔ اسکے۔چہرےپر پریشانی نمایاں تھی۔وہ اپنے مخصوص انداز میں بولا گرو ایک خوشخبری ہے ایک بری خبر آج پہلے خوشی کی سن لیں۔مابدولت اور نائلہ کی مدد اسے کومل بھابھی کا سعودیہ جانے کا پلان بن گیا ہے۔۔پاسپورٹ بھی دے آیا ہوں سمجھیں دو ہفتے تک بھابھی پھررر ۔وہ تو خوشی سے اتنا پاگل ہیں کہ آج ہی اپنے ابا اور بھیا کو ملنے گجرات چلی گئیں۔ابا چھوڑنے گئے انہیں۔۔نائلہ وی آج ہماری طرف ہی۔۔اور بری خبر یہ ہے کہ دلاور کا پھر جھگڑا ہوا ہے گھر انکل سے کسی گاڑی کے سودے کی بات پر اور وہ غصے سے اڈےپر چلا گیا ہے انکل کی طبیعت تب سے بہت خراب۔۔آپ چلیں میرے ساتھ بھابھی نے بلوایا ہے آنٹی نے بھی کہا ہے سرکار کا حکم ہو اور میں نا جاوں ایسا ناممکن تھا۔۔ اسی وقت میں نکلا ۔۔ بیلا کو بتایا کہ میں شاہدرے جا رہا ۔۔اور میڈم کے لیے پیغام دیا کہ میں کالج نا بھی آیا تو ان سے اگلا پروگرام طے کر لوں گا۔۔ اور بھاگم بھاگ شاہدرے۔۔انکل کی طبیعت واقعی بہت خراب تھی آنٹی کے ہاتھ پاوں پھولے ہوئے تھے عمبرین کا چہرہ جیسے زرد پھول ۔ایمبولینس منگوائی اور انہیں پرائیویٹ اسپتال لے گئے ۔۔اللہ کا شکر کہ کچھ دیر بعد انکی طبیعت قدرے سنبھل گئی ۔ آنٹی اسوقت خالص بیوی بنے انکے آگے پیچھے تھیں بار بار دلاور کو کوستیں اور رونے لگ جاتیں۔۔اتنی دیر میں نائلہ اور اسکی اماں بھی آگئیں نو بجے ڈاکٹر کی وارننگ پر سوائے آنٹی کے ہم سب باہر ہال میں آگئے۔۔۔ میں کھسکتا ہوا نائلہ کے پاس گیا اور اسے ویلڈن دی کہ اس نے کومل کے لیے مدد کی اس نے پھر پوچھا مجھے سمجھ نہیں آتی آپ کو انکی یکدم ہمدردی کیسے نا اتنے واقف تم۔۔ بس یار چھوڑو ابھی تم سے ایک کام ہے کرو گی ۔ ہاں ہاں بولو۔۔ یار دیکھو تم اور ناصر میرے دوست بھی ہو نا میں نے جان بوجھ کر سسپنس بڑھایا۔۔ اوہو بول بھی دو میں تمہاری دوست ہوں جیسے عمبرین وہ روانی سے بولی اور پھر یکدم پزل ہوئی مطلب جیسے ناصر۔۔میں ہنسا اور کہا کوئی بات نہیں آخر تم سالی بھی تو ہو نا یاد ہے نا ۔۔یسسس اب بولو بھی۔۔ اگر تم چاہتی ہو کہ تمہیں پردے والا سین زیادہ اچھے سے دیکھنے کو ملے تو ایک کام ہو سکتا ہے وہ شرمائی اور بولی تم بھی نا وہ کیسے۔۔میں نے اسے پلان سمجھایا تو وہ کچھ دیر سوچتی رہی میں نے کہا یار سالی ہو اتنی مدد تو کرو۔۔یہ صرف میرا اور نائلہ کا پلان تھا۔۔پلان کے مطابق میں دلاور کو ڈھونڈنے اڈے کو چلا گیا۔۔ کچھ دیر بعد ناصر نائلہ اور عمبرین کو لیے گھر چلا گیا۔۔ آنٹی انکل اور نائلہ کی اماں انکل کے ساتھ تھیں۔۔ناصر نے واپس اسپتال جانا تھا اور میں نے دلاور کو خوب تلاش کر کے صبح تک انہی ں رپورٹ دینی تھی رات ہاسٹل ہی گزار کر۔۔عمبرین کو ہمارے پروگرام کی اس وقت تک ذرا خبر نا تھی۔۔نائلہ فطرتا شرارتی اور چنچل تھی اوپر سے نئی نئی شادی شدہ اسکی بات بات پر ہنسی نکل جاتی۔اسپتال سے نکل کر جب عمبرین نے مجھے دیکھا تو وہ حیران رہ گئی اور اس نے گھور کر نائلہ کو دیکھا اور آگے آگےچلنےلگیں میں کچھ بولنا چاہا تو انہوں نے شکوہ بھری نظر سے مجھے چپ کا حکم دیا۔میں نے ناصر کو اشارہ کیا اور وہ آپی آپی کرتا انکے پیچھے چلنے لگا میں اور نائلہ پیچھے پیچھے۔۔ یہ تو ناراض ہو گئی میں نے نائلہ سےکہا۔۔ عادت ہے اسے ہو جاے گی ٹھیک بس گھر پہنچنے دو۔۔ پتہ مجھے سخت کوفت بھئی جو بات دل میں وہ بولو ایسے شرمانا کیا ۔۔اب دل میں خوش ہے کہ مل کر بیٹھیں گے اوپر سے کڑوی کریلی ۔یہ نا بہت حساس ہے بہت نازک سی ۔۔میں نے بہت کوشش کی تب جا کر ہمارا دوستانہ ہوا۔۔ جب اسکی تمہارے ساتھ باقاعدہ دوستی ہوئی نا اس سے پہلے یہ کبھی کبھی تمہارا ذکر کرتی تھی پھر شادی پہ دیکھا بھی پھر اسکا تم سے پڑھنا بدلنا خود کو یہ سب بتاتی رہی ۔۔ اس دن جب مجھے تم دونوں کے لوو سین کاپتہ چلا تو میں بہت حیران ہوئی کہ عمبرین کیسے تمہیں اتنی اجازت تھی ۔۔اسکی باتوں میں تمہارا ذکر بڑھتا گیا ایک ایک بات۔۔اس دن ہمارےگھر جب تم آ گئے تھے بعد میں بہت تنگ کیا اور وہ شرما کر بتاتی رہی ۔ادھر گلبرگ میں یہی دیکھ رہی تھی کہ تم کرتے کیا ہو اور مجھے بہت اچھالگا کہ تم نے اسے پیار کیا۔۔ وہ پیار کی ترسی ہوئی ہے تمہیں آہستہ آہستہ پتہ چل جاے گا عمبرین بہت گہری ہے بہت اسے تم پر بہت اعتماد جو وہ اس حد تک گئی مجھے تو ویسے کسی حد کا بھی اعتراض نہیں وہ بول کر ہنسی اور پھر شرمائی بھی۔۔ہم میں ایسا کچھ نہیں بس ایک حد تک میں نے بتانا چاہا تو وہ ٹوک کر بولی پتہ ہے مجھے ۔۔وہ تم سے جتنا مرضی پیار کر لے لمٹ رکھے گی لازمی وہ لمٹس نہیں بھولتی بے شک اندر قیامت ہو اسکے وہ تمہیں ایسے کچھ کرنے نہیں دے گی۔۔میں چاہتا بھی نہیں ہوں۔میں اس سے شادی کروں گا میں نے جیسے بم پھوڑا ہیں وہ کیسے۔۔ بس جیسے بھی ہوا کرونگا تب ہی لمٹس کراس کروں گا میں نے اسے آنکھ ماری اور وہ ہنس دی۔بس جیسے ایک لگاو ہوتا نا ڈرامےناول یامووی سے مجھے تم دونوں کے کپل سے پیار بس لگاو ہے میں اسی لیے مانی تمہاری بات ۔۔کس ہگ تو کرتے ہو نا اس نے تجسس سے پوچھا ہاں ساتھ لیٹ بھی جاتے ہیں۔ سچی اسنے حیرت سے پوچھا ہاں بے شک دیکھ لینا وہ کچھ دیر سوچی اور بولی لیکن یہ بات اسے نہیں پتہ چلنی چاہیے ورنہ مسلہ ہوجاے گا۔۔ ڈونٹ وری یار یہ سالی سہیلی کا معاملہ انہی باتوں میں ہم نائلہ کے گھر پہنچ گئے۔۔ناصر بےچارہ شاگردی کا مارا آخر عمبرین کو نارمل کر ہی لیا۔۔اندر جا کر عمبرین نے مجھے کہا ویسے بہت بری بات ہے ادھر انکل بیمار ہیں اور تمہیں میرا پڑا ہے۔۔ ہاں کیونکہ میرا تعلق تم سے ہے ادھر آنٹی ہیں نرسز ہیں ہم نے وہاں بھی تو بیٹھنا ای تھا نا ادھر سہی۔۔۔جو کچھ گھر میں تھا وہ کھا کر ناصر واپس اسپتال چلا گیا اسے کچھ دیر بعد واپس آنا تھا۔۔اسکے جانے کے بعد ہم تینوں چائے پیتے باتیں کرتے رہے۔۔
کچھ دیر بعد ہم تینوں نائلہ کے کمرے میں تھے جہاں وہ پہلے رہتی تھی کچھ دیر بعد نائلہ اٹھی اور کہنے لگی بھئی تم لوگ باتیں کرومیں ذرا کچھ کام کرنے کر لوں اور کہیں تم میرے پیچھے نا آ جاو اس لیے دروازہ ناصر کے آنے تک باہر سے بند کررہی ہوں اس نے دروازہ باہر سے لاک کرتے ہوے کہا۔۔ کمینی عمبرین بےساختگی سے بولیں اور پھر ہنس پڑیں۔۔میں نے انکی طرف دیکھا اور بازو پھیلائے وہ دھیرے سے چلتی ہوئی آئیں اور میرے بازووں میں سما گئیں انکا وجود میرے بازووں میں سمٹا انکی خوشبو انکا قرب جیسے ہر طرف طلسم محبت طاری ہو گیا۔۔میں انہیں لیے لیے بیڈ پر لے آیا اور انکو ساتھ لٹا کر انکے بالوں میں انگلیاں چلانے لگ گیا اور وفور شوق سے انکے چہرے کو دیکھنے لگا ۔۔ اور کہا سرکار پریشان نا ہوں انکل بہتر ہوجائیں گے۔۔کیسے نا ہوں نعیم اللہ نا کرے انہیں کچھ ہو گیا تو ہم خالہ بھانجی رل جائیں گی دلاور سب کچھ تباہ کر دے گا میں انکے سر کو سہلاتا انہیں دلاسے دیتا رہا۔۔ اور انکے کان سے لگ کر کہا سرکار آپ میں جان ہے میری جیسے جن کی طوطے میں ہوتی وہ کروٹ لیکر پلٹیں اور بولیں تم وہ شہزادے ہو جس نے مجھے جادو سے زندہ کیا میں نے اپنی انگلی انکے گالوں پر پھیرنی شروع کی اور انکے کان اور گردن تک پھیری وہ آنکھیں بند کر کے گہرے سانس لے رہیں تھیں ہاتھ انکے چہرے کا طواف کرتے ہوے ہونٹوں کو چھیڑا میں نے نچلے ہونٹ کو انگوٹھے سے ہلکا باہر دبایا اور ہونٹ کے اندر سے ایک گہرا چوسا لگایا افففف وہ جیسے تڑپ کر اٹھیں انکی اوڑھنی ڈھلک چکی تھی اور آنکھوں میں سرخی کے آثار ۔۔ بسسسس وہ گہری سانس میں بولیں۔۔میں نے انہیں واپس کھینچا اور کہا کیوں بسسس۔۔ جہاں تک وعدہ ہے وہاں تک تو کرنے دیں نا۔۔ نہیں نا شہزادے روز روز نہیں کیوں جان جاناں میں نے ہاتھ کی کی پشت سے انکی گردن کو چھوا وہ سسک کر بولیں ایسے بہک جانے کا ڈر مجھے ۔۔مجھ پر یقین نہیں کیا میں نے پوچھا۔۔ تم پر ہے خود پر نہیں اور دوبارہ میرے ساتھ لگ گئیں میں نے سرگوشی کی ۔۔ مجھ پر ہے تو بے فکر رہیں میں آپکو سنبھال لوں گا۔۔اور انکے ہونٹ کو پھر سے ویسے کسس کیا وہ تڑپ کر میرے ساتھ فل لپٹ گئیں ۔۔ہمارے جسم پاوں سے ہونٹوں تک ساتھ جڑے ہوئے تھے اور میں نے نچلے سے اوپر والے ہونٹ کا سفر کیا۔۔۔ انہوں نے مجھے دھکیلا اور اسبار خود اوپر آئیں اور بے تابی سے میرے چہرے کو چومنے لگ گئیں۔۔ایسے کرنے سے انکا دلکش سینہ اور وہ سرخ تل بلکل میرے قریب تھے نیچےکو ڈھلکی شرٹ سے انکا جلوہ ہلکے ہلکے نظر آ رہا تھا۔۔میں نے انگلی سے تل کو چھوا وہ میرے ماتھے کو چومیں۔میں نے تل پر انگلی سے لائن ماری انہوں نے میرے رخسار کو چوما۔۔ اور الٹے ہاتھ کو جب تل پر پھیرا وہ مدہوش مجھ پر آ گریں انکا جسم شدید تپ رہا تھا۔۔آگ دونوں طرف بھڑک چکی تھی۔وہ مجھے اپنے اوپر کھینچیں جیسے ہی ایسے کیا مجھے الارم ہوا۔۔ یقین آزمانے کا وقت آ گیا تھا ۔میں ان سے ہلکا کھسکا اور صرف ہاتھ سے انکے ماتھے کو سہلانے لگا۔۔ انہوں نے ہاتھ کو پکڑ کر چوما اور چہرے پر رگڑا میں نے ہاتھ دوبارہ بالوں میں گھسایا انہوں نے اسبار ہاتھ کو دانتوں سے بائٹ کیا جیسے ضبط کر رہی ہوں سسسسس میں نے سسکاری ضبط کی انہوں نے تڑپ کر ہاتھ چھوڑا اور اٹھ کر صوفے پر جا بیٹھیں میں نے روم فریج سے پانی نکالا اور انہیں دیا وہ نڈھال سرخ چہرہ لیے پانی پیا اور دوبارہ سے صوفہ کے ساتھ ٹیک لگا لی کچھ دیر بعد وہ نارمل ہوئیں اور چادر کو سنبھال کر نظریں جھکا کر بیٹھ گئیں اور بولیں شکریہ نعیم تم نے میرے یقین کو نہیں توڑا آج پتہ نہیں مجھے کیا ہوگیا تھا وہ شرما کر بولیں۔۔تھوڑی دیر ایسے ہی ہم محبت بھری باتیں کرتے رہے جب ناصر واپس آیا اسکی بیل پر نائلہ نے پہلے روم کا دروازہ کھولا اور بعد میں باہر کا۔۔۔ میں جلدی سے باہر نکلا ۔۔ میری اور نائلہ کی نظریں ملیں۔۔ نائلہ کا چہرہ جانے کیوں ہلکا لال اور آنکھیں بھی سرخ سی لگیں مجھے ۔۔ناصر کی فرمائش پر نائلہ اسکے لیے آخری بار چائے بنانے گئی تو میں اسکے پیچھے لپکا اور جاتے ہی بولا تم کہاں سے دیکھا۔۔ تمہیں کیا میں نہیں دیکھا۔۔ جھوٹ مت بولو تمہارا چہرہ بتا رہا تم نے دیکھا ہے بتاو نا۔ساتھ بھابھی کومل والے کمرے سے دونوں کمروں میں ایک چھوٹی کھڑکی تم دھیان نہیں دیا اسکے پردےکو ہٹا کر۔۔ میں چونکا اور بولا تم ایسے کومل اور بھائی کو بھی دیکھا ہوگا نا ۔۔وہ جیسے حیران رہ گئی گڑبڑا کر بولی ججج نہیں۔۔ جھوٹ مت بولو دیکھا بھی تو کیا ہوگیا چھوڑو۔۔ وہ کھسیا کر بولی ایک بار اتفاقا دیکھا تھا ۔۔سگا بھائی نا ہوتا تو دیکھ لیتی۔۔ ویسے آج میں تم پر بہت حیران ہوئیں ہوں۔۔ کیوں ایسا کیا۔۔ تمہیں پتہ ہے آج عمبر آوٹ آف کنٹرول ہو چکی تھی کچھ دنوں پہلے ہی اسکےمینسز ختم ہوئے ان دنوں سب عورتیں ہاٹ ہوتیں۔۔ اوہو یار انکےبارے ایسی بات نا کرو۔۔اچھا نا سن تم جو چاہےکرلیتےلیکن تم انہیں سنبھالا تمہاری ہمت ہے ۔۔تمہارا دل نہیں کیا اس نے جھجھک کرپوچھا ۔۔ دل تو ابھی تک کر رہا کہ کوئی ہو تو لگ پتہ جاے اسے لیکن ان سے عشق مجھے تو صبر کیا۔۔کچھ دیر دونوں جھینپے خاموش رہے پھر میں نےپوچھا تمہیں دیکھ کر کچھ نہیں ہوا دل نہیں کیامیاں پاس ہوتے۔۔وہ بےساختہ بولی ارے یار نا پوچھ وہ آئے تو مجھے یہی مسلہ تھا کل ختم ہوا بس صبر کیا پتہ ہم دونوں سہیلیوں کے دن ساتھ ساتھ ہوتے ہمیشہ وہ پھر ہنسیں۔۔ میں اسکے قریب گیا اور کہا سالی جی ایک بات کہوں سالی سمجھ کر سالیوں والی۔۔ہاں بولو انہوں نے جھجھک کر کہا۔۔مجھ سے صبر نہیں ہو رہا آگ لگی اندر ۔۔ مجھے بھی بتاو کیسے صبر کرتے میری بات سن کر اسکے چہرے پرلالی دوڑی اور کہا تمہیں میں ایسا حل بتاتی کہ یاد رکھتے لیکن تم عمبر کے شہزادے ہو۔۔لیکن یہ تو ہماری بات نامیں نے ذرا جھک کر سرگوشی کی ۔نا کر نعیم یار پہلےہی بہت مشکل سے صبر کر رہی۔۔ کیا اچھا لگا اور میرے پیار میں ۔۔کسسس تمہاری کس اچھی تھی۔۔ ہاں میں کسس بہت مزے کی کرتا ہوں نشیلی کسسس۔۔ ہاااے سچی میرے میاں بھی کرتے ہیں لیکن جو میں کرتا ہوں نا وہ بندے کو گھما دیتی۔۔نا کر یار مشکل ہوجانی
عمبرین کو شک بھی پڑا نا ہمارے ایسے مذاق کا تو اس نے مار دینا۔۔یاریہ سالی سہیلی کی بات ۔۔تمہیں کیسی کس پسند میں نے پوچھا۔۔ گہری کسسس اور تمہیں۔ مجھے نشیلی کس جو پورے ہونٹوں کو چوس لے میں نے ہونٹوں سے چوسنے کا اشارہ کیا۔اااافففف دل۔کروا دیا یارا سچی ۔۔ میرا بھی دونوں کی نظریں ملیں انکا چہرہ جذبوں سے لال ہورہاتھا۔۔میں انکی طرف جھکا تو وہ بولیں رکو یار غلط کام کرنا ہی ہے تو سواد سے کریں تم سیڑھیوں کے پاس جاو میں آتی ہوں۔۔میں سیڑھیوں کےپاس دیوار کی اوٹ میں پہلی سیڑھی پر کھڑا ہوا۔۔ کچھ دیر بعد وہ آئیں اور بولیں دونوں مست باتیں کر رہے ۔۔ میں نے اسکا بازو پکڑ کر کھینچا اور ساتھ لگایا اففف جیسے ہی انکا گداز جسم میرے ساتھ ٹکرایا لن نے انگڑائی لی۔۔میں نے انکے ہونٹ کو ہلکا باہر نکالا اور اندر کی طرف سے چوسا ۔اور زبان کو اسکےمنہ میں گھماتا دونوں ہونٹوں کو چوستا گیا۔۔ وہ برابر چوس رہیں تھیں اسکے ہاتھ میری۔کمر کوسہلا رہے تھے اور ہم مگن لپسنگ میں۔۔ ایک بہت لمبی کسسس کے بعدانہوں نے سانس لیا میں نےانہیں کھینچا لن فل تنا انکی ٹانگوں کو چھو رہا تھا۔۔اففففف بسسس بہت ہوگیا وہ گہرے سانس بھرتے بولیں مزہ آ گیا۔میں نے انہیں پھر کھینچا اور کہا ایک مزے کی جھپی تولگاو نا سالی سہیلی اور انہیں خود پر کھینچ لیا میرے ہونٹ اسبار اسکی گردن سے ٹکرائے وہ لرز کر میرے ساتھ چمٹی لن نے انگڑائی لی اور انکی ٹانگوں میں گھسا وہ تڑپیں اور بولیں بسسسس اوووو بہت اووور ہوجاے گا یار دیکھو تو اپنی حالت ۔۔ ککیا ہوا مجھے میں نے انجان بنتے ہوئے کہا یہ اس نے کمال ہمت سے ہاتھ لن کو لگایا اففف لن تڑپا۔۔ اففف کتنا بڑا ہے یار میرے میاں کا بھی بہت سوپرلیکن تمہارا اس سے سخت لگتا نا۔۔افففف ۔پکڑ کر دیکھ لو نا میں جو مکمل آوارہ ہو چکا تھا۔۔ نہیں آج نہیں پھر کبھی سہی کہتی وہ جلدی سے واپس نکل گئیں
جاری ہے
fkniazi555.blogspot.com
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں