بدھ، 8 ستمبر، 2021

Meri Kahani Meri Zubani Episode 34


   Meri Kahani Meri Zubani


Episode 34


وہ رات بہت سہانی تھی۔۔رابعہ کی۔نائٹ شفٹ تھی اور اس رات میں نے رابعہ سے فل ڈیوٹی کروائی۔۔ایسی ڈیوٹی جس نے اس کے انجر پنجر ہلادیے سمجھو وڈا آپریشن ای کر دیا اسکا 😂۔اگلے دن میں وہاں سے سیدھا کالج کو نکلا۔۔ مجھےتانیہ پر فل تپ چڑھی ہوئی تھی کاشف کے ساتھ تو جو ہونا تھا بعد کی بات تانیہ کی بنڈ پاڑنی تو سمجھو لازمی ہو گئی تھی اب۔بیلا کو میں انکل کی طبیعت کا بہانہ بنا کر بتایا کہ رات ادھر تھا۔۔شام میں ناصر سے ملاقات ہوئی میں نے اسے تانیہ کی یکی کا بتایا ۔۔ وہ کافی پریشان ہوا اور کہنے لگا سمجھ یہ نہیں آتی کہ جب اسے پتہ ہمارے پاس اسکی ویڈیو تو اس نے ایسی غلطی کیسے کرلی ممکن ہے اسے پتہ ای نا ہو ۔تم اس سے رابطہ کرو اور اسے کسی بہانے یہاں بلاو۔میں کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر اٹھ کر روزی کے فلیٹ کی بیل بجائی۔گیلری سے سارہ نے جھانکا ہیلو ہاے کے بعد میں نے روزی کا پوچھا۔۔روزی ابھی آفس تھی۔۔ میں نے ایگزائمز کا پوچھا تو بتانے لگی میں روزی کو میرا بتانے کا کہہ کر واپس آ گیا۔۔روزی رات کو آٹھ بجے کے آس پاس آئی اسے میں نے بتایا کہ اس نے کاشف کو جو تپایا اسکا نتیجہ کیا نکلا وہ پہلے تو شرمندہ ہوئی اور پھر بولی لیکن اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا کمینہ

کچھ دن نارمل روٹین سے گزرے میں عمبرین کو ملنے کے لیے بےتاب تھا ایکدن ہمت کر کے میں خود ہی چلا گیا۔۔یہ شام کا وقت تھا دلاور گھر نہیں تھا عمبرین مجھے کچھ چپ چپ لگی۔۔گھر میں ایک معمولی سی تبدیلی آ چکی تھی اب اوپر والی سیڑھیوں کو ایک دروازہ باہر بھی لگ چکا تھا۔ ماحول میں کچھ سنجیدگی تھی۔۔ انکل بھی کافی کمزور لگ رہے تھے۔ آنٹی انہی کے سرہانے بیٹھی ہوئی تھیں کچھ دیر بعد میں اوپر کچھ لینا ہے کا کہہ کر باہر نکلا ۔۔ عمبرین کچن میں شام کا کھانا بنا رہی تھی میں سیدھا کچن گیا ۔جیسے ہی اسے کسی کے آنے کا احساس ہوا وہ فورا پلٹی اور مجھے دیکھ کر پریشان ہوتے ہوئے بولی تم آنٹی کدھر میں تھوڑا پاس ہوا اور کہا آنٹی کمرے میں ہیں اور آپ پلیز ریلیکس ہوں میں جتنا پاس ہوا وہ تھوڑا پرے کھسکیں اور روہانسی ہوکر بولیں پلیز نعیم تم جاو میں ملوں گی نا تمہیں بہت جلد۔۔ میں صرف آپکو دیکھنے آیا ہوں آپ سے بات کرنے ۔ویسے بھی میری گیمز ختم ہو گئیں ہیں تو میں سوچ رہا واپس ادھر آ جاوں یا کیا کروں۔۔ ادھر ۔۔ تم ادھر نا آنا ابھی یہاں کچھ مسلے ہیں۔۔

میں نے کہا تو مجھے پھر کب ملیں گی آج یا کل بس مجھے نہیں پتہ مجھے کسی کی نہیں پرواہ میں جذباتی ہو گیا۔۔ دیکھو نعیم پلیز تم ابھی جاو اور وہ میرا انعام جو میں ریس جیتا ۔۔ انکا رنگ گلابی ہوا اور بولیں وہ بھی دونگی ابھی تم جاو۔۔ میں نے کہا وعدہ کریں آپ اوپر آو گی تب۔۔ ہاے اللہ اوپر ہاں ۔اگر آنٹی نے دیکھ لیا تو میں انہیں ہینڈل کر لوں گا۔۔اففف مسلہ آنٹی کا نہیں دلاور کا ہے یار تو جب آئے گا بیل بجاے گا یا آسمان سے چھت پر اترے گا۔۔ میں نے اسکے سب بہانے ختم کیے اور انتظار کر رہا ہوں کہتا چھت پر چلا گیا۔۔ دس پندرہ منٹ بعد وہ بھی آگئیں اور آتے بولیں بہت ضدی ہو تم ۔۔ میں نے کہایہ ضد نہیں دیوانگی ہے۔۔ وہ میرے ساتھ بیٹھتی ہوئیں بولیں جانتی ہوں لیکن ڈرتی ہوں اس دیوانگی سے ۔۔کیوں ڈرتی ہیں میں نے انکا سر اپنے شانے سے لگا کر انکےگرد اپنا بازو پھیلا لیا۔۔ بس جانے کیوں کبھی سوچتی ہوں تمہیں منع کر دوں چند دن کے سوگ کے بعد تم بھی سیٹ ہو جاو گے میں بھی اور کبھی سوچتی ہوں وہ رکیں کیا سوچتی ہیں سوچتی ہوں تمہارا سنگ کر لوں میرا جیسے دل دھڑک اٹھا لیکن تم نہیں جانتے یہ بہت مشکل میں نے انکے ہاتھ کو سہلا کر کہا ۔۔ آپ بس ایک بار کہہ دیں میں آپ کو لیکر جاوں گا اور دیکھتا ہوں کون روکتا ہے مجھے ۔۔پتہ ہے کل میں بہت روئی۔۔ کیوں روئی ۔۔۔ بس یہ نا پوچھو انکی آنکھیں جیسے چھلکنے کو تھیں۔۔میں نے انکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور کہا نا رونا نہیں رانی سرکار۔۔ مجھے بتاو نا کس نے دکھ دیا۔۔ وہ چپ آنسو بہاتی رہیں میں نےتڑپ کر انکو ساتھ لگا لیا ۔۔ ہم بیٹھے بیٹھے گلے مل رہے تھے۔۔ انکے اشک میرے سینے کو بھگو رہے تھے اور انکا بے مثال جسم میرے بازووں میں لرز رہا تھا۔۔ میں انہیں بہت لاڈ سے تھپک رہا تھا۔۔ یہ بڑے عجیب لمحے تھے۔۔ وہ میرے گلے لگی ہوئی تھیں لیکن رو رہی تھیں انکا ہر ہر آنسو میرے دل کو چیر رہا تھا۔۔ کچھ دیر بعد جیسے انہیں اپنی حالت کا احساس ہوا وہ کسمسا کر الگ ہوئیں انکا چہرہ رونے اور اب شرم سے گلنار ہو رہا تھا سوگوار حسن ا بھی اپنا ہی جلوہ ہوتا ہے میں دیوانگی سے انکودیکھ رہا تھا۔۔ ایسے کیا دیکھ رہے ہو انہوں نے شرمیلی مسکان سے پوچھا۔۔ آپکے نقش نقش کی زیارت کر رہا ہوں سرکار ۔۔ جی بھر کر دیکھ رہا ہوں آنکھوں میں بسا رہا ہوں بس یہ چہرہ یہ نقش میری آنکھوں میں جم ہی جائیں۔۔ میں نے شدت محبت سے کہا۔ہاااے میں صدقے ۔۔میں تو بس عام سی بس تمہاری نظر کا کمال ۔ اچھا نا جو بھی ہے مجھے انعام دیں ۔۔ میں ریس جیت کےآیا۔۔ انکا چہرہ شرم سے لال ہوا اور وہ بولیں کوئی انعام شنام نہیں ہیں مطلب لارا ۔۔چیٹنگ بس میں نہیں بولتا میں لاڈ سے خفا ہوا۔۔ اوہ میرا شہزادہ ہے تمہارا انعام لیکن ابھی نہیں نا۔۔مجھے ابھی ہی لینا بششش میں نے ضد کی۔۔وہ کچھ دیر سوچیں اور بولیں رک میں آتی کہہ کر وہ باہر نکلیں اور منڈیر کی جالیوں سے نیچے جھانکا۔۔میرا دل دھڑکنے لگا جیسے انعام کچھ بہت سہانا ہو آثار یہ ہی لگ رہے تھے۔۔وہ واپس آئیں اور میرے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئیں۔۔ انکا چہرہ شرم سے لال ہو رہا تھا وہ شرما کر بولیں تم کہہ رہے تھے نا کہ تمہیں مجھے کس کرنی تو تم کر لو کہہ کر انہوں نے شرما کر چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔۔ مجھے تو لگا جیسے ہر طرف بہار آ گئی ہو۔۔ انکا نوازنا اففف یہ ہوس نہیں چاہت تھی سپردگی تھی۔۔میں نے انکے چہرے سے ہاتھ ہٹائے انکے ہاتھ کسی کبوتر کی طرح لرز رہے تھے۔انکی آنکھیں بند اور پلکیں لرز رہی تھیں ۔۔میں نے سرگوشی کی کہاں سے کس کروں سرکار۔۔وہ اپنا ماتھا ہلکا سا آگے کیا میرے گرم ہونٹ ماتھے پر جمے جیسے سکون آ گیا میں نے ہونٹ ہٹائے اور انکے چہرے کو ہلکا سا اوپر کیا جھکا اور بہت نزاکت سے بہت چاہت سے انکے دلکش ہونٹوں کو ہلکا سا چھوا وہ پورے جی جان سے کانپیں میرے شانے پر انکا ہاتھ گرفت کیا۔۔ میں نے ہونٹ پھر آگے کیا اور انکے نچلےلب کو ہلکا سا چوسا اففف انکے ہونٹ تھے کہ مصری کی ڈلی ۔ انکا نشہ تھا کہ جیسے سب سے دلفریب۔میں دو تین سیکنڈ ہی چوسا تھا کہ انہوں نے تڑپ کر اپنا چہرہ پیچھے کیا اففف انکا چہرہ جیسے آگ تھا بھڑک رہا تھا انکا سانس جیسے دھونکنی وہ گہرے سانسوں میں بولیں بسسس ہوگیا انعام ۔۔ میں انکی طرف جھکا اور سرگوشی کی ابھی اوپر والا ہونٹ رہتا ہے نا۔۔ نہیں نا بسسس انہوں نے گہری سانسوں میں گریز کیا ۔۔ ایسے تو حق تلفی ہوئی نا میں نے انوکھا نکتہ اٹھایا اور سرکار حق تلفی نہیں کریں گی نا۔۔ وہ شرما کر مسکرائیں اور بولی بہت تیز ہو تم اور شرما کر آنکھیں بند کر لیں۔۔ میں اس ادا پر قربان ہی ہو گیا میں آگے کو بڑھا اور انکے بالوں میں اپنے ہاتھوں کو پھیرتے ہوئے انکے چہرے کو کھینچا وہ پوری جان سے میری طرف لپکیں ہونٹوں سے ہونٹ ٹکراے اور میں نے نشے کو چوسنا شروع کیا قطرہ قطرہ ہر قطرے میں ہزار بوتلوں کا نشہ خمار ۔۔یہ کوئی انوکھا نشہ تھا جس میں دل کی چاہت ساتھ تھی پانچ چھ سیکنڈ کا یہ بوسہ میری زندگی کا سب سے بہترین انعام تھا۔۔انہوں نے چہرہ پیچھے کیا۔۔ انکی آنکھیں لال ڈورا تھیں۔۔ انکی اوڑھنی ڈھلک چکی تھی اور انکا اوپر نیچے ہوتا سینہ اور وہ سرخ تل پوری تباہی مچا رہے تھے ۔میرے ہاتھ بہکے اور میں نے انکےشانے سے ہاتھ کو ہلکا سا کھسکایا اور انگلی سے تل کو ہلکا سا مس کیا۔۔وہ تڑپ کر الگ ہوئیں اور بولیں نہیں نعیم بسسس اور نہیں نا شونا۔۔میں نے خمار آلود لہجے میں کہا بس یہاں تک اور انگلی انکے سینےپر دھر دی۔۔ وہ جیسے کانپ اٹھیں اور بولیں ہاے اللہ کیسی باتیں کرتے ہو نعیم ۔۔میں نے منت بھرے لہجے میں کہا سرکار نواز دیں نا جانے میں آگے کو ہونےلگا تو انہوں نے ہاتھ میرے شانے پر رکھ کر مجھے روکا اور سرکے دوپٹے کو دوسرے ہاتھ سے تل پر کیا۔۔میں نے انکی نظروں میں دیکھا نظروں میں بہت سپردگی کچھ گریز کچھ شرم کچھ مشرقیت سب کچھ تھی۔۔میں ایک چوکورتھا اور انکا تل جیسے چاند ۔سرکار جو حکم میں پیچھے کوہونےلگا جب اسی شانے پر دھرے انکے ہاتھ نے مجھے پھر روکا اور دوبارہ اسی ہاتھ سے انہوں نے دوپٹے کوکھینچا۔۔ جیسے بجلی چمکی جیسے بادل گرجے۔

انکا دلکش کلیویج اور بائیں طرف وہی سرخ تل۔ دال چنے کے دانےکے برابر ۔۔میں جھکا اور بہت نرمی سے اپنے ہونٹوں کو تل پر لگایا اففففف انکا جسم تھا کہ جیسے دک رہا دل کی دھڑکن جیسے بھاگ رہی جیسے ہی تل کو میرے ہونٹ مس ہوئے انہوں نے ایک تیز سسکاری لی۔۔ایسی سسکاری جس میں بہت نشہ ہو میں نے ہونٹوں کو ہلکا سا کھولا اور تل کولبوں میں لیکر چوسا۔۔انہوں نے ایک تیز سانس لی اور میرے شانے پر انکے ہاتھ کی گرفت سخت ہوئی ۔۔ میں ہونٹوں کو اٹھاتا اور انچ انچ پر عقیدت سے لگاتا ۔۔ پیاسے ہونٹ دریا پہ تھے میں پوری شدت عشق وپیاس سے چوم رہا تھا پوری بے تابی سے جیسے بارش کے قطرے پیاس زمین پر انکا جسم جیسے مچل سا گیا انکی سانسیں بہت تیز اور بہکتی سرگوشیاں بسسس کرو نعیم میری جان افففف انکا جان کہنا جیسے مجھے نہال کر گیا میں نے جی جان نعیم کہتے ہوئے ہونٹ انکے کلیویج پر رکھے اور گہرا بوسہ لیا۔۔انہوں نے بےساختگی سے میرے چہرے کو سینے پر دبایا میرا چہرہ انکے گداز سینے میں دھنسا ہوا تھا۔۔ انکی خوشبو انکالمس انکی سانسیں یہ سب طلسم تھا۔۔ایک عجیب سی خود سپردگی تھی۔۔کچھ دیرایسے نوازنے کے بعد انہوں نےمیرا چہرہ اٹھایا اور بہکتے نشیلے انداز میں کہا اب بششششش نا میں نے کہا جو حکم سرکار ورنہ۔۔۔ کیا ورنہ انہوں نے اپنی سرخ گہری آنکھیں جماتے ہوئے کہا۔۔ ورنہ میرا دل کرتا میں آپکو ماتھے سے پاوں تک انگ انگ پر پیار کروں اتنا پیار کہ بس آپ میں گم ہو جاوں ۔۔ میں نا رہوں تم ہو جاوں۔ ہاااے صدقے وہ جیسے شرما گئیں توبہ کیسی باتیں کرتے ہو۔۔بسسس اسکے علاوہ کچھ بھی نہیں۔۔جو حکم سرکار کا میں تو بس دل کا بتایا۔۔ آپکا دل کچھ نہیں کہتا میں نے مان سے پوچھا۔۔ کہتا ہےمیرا دل کہتا کہ میں تمہارے سینے پر سر رکھ کر بہت بولوں بہت لاڈ کرواوں۔۔ اووور تمہیں بہت پیار کروں لیکن ۔۔ اچھا نا افسردہ نا ہوں لیکن بھی دیکھ لیں گے اور میرا وعدہ رہا آپ سے اپنی جان سے اپنی محبت سے کہ میں اسے سے آگے تب تک آگے نہیں جاوں گا جب تک ہماری شادی نا ہو جاے۔۔ہاے اللہ وہ شرما کر بولیں ہماری شادی کیسے ہو سکتی بھلا۔۔سمجھیں ہو گئی تب اجازت ہے نا بہت پیار کی۔۔ وہ شرما کر بولیں ہممم ۔۔ میں نے کہا ہممم کیا بتاو نا۔۔ وہ شرما کر بولیں نا پھر بھی نہیں اجازت۔۔ ہیں وہ کیوں جی میں نے روٹھتے ہوئے کہا۔۔ کیوں کہ تب میں تمہیں پیار کرنا اپنے شہزادے کو وہ شرما کر بولیں اور ہاتھ چھڑا کر جلدی سے نیچے اتر گئیں۔۔ میں کافی دیر انکے اس انعام انکے پیار انکا اظہار اور آخر میں انکی شدت چاہت کو سوچتا رہا۔۔ بھلے وہ شادی شدہ تھیں لیکن انکا دل صفحہ ابھی کورا تھا ۔ میں ہی انکی پہلی محبت تھا ۔۔ جو شادی کے بعد ہوئی

کچھ دیر بعد میں واپس آنٹی پاس آ گیا انکل ہلکی غنودگی میں تھے۔ آنٹی مجھے اپنے دکھ درد بتانے لگیں۔۔ دلاور کی فضول ضدوں اور حرکتوں سے سب تنگ تھے۔آجکل سیزن آف تھا تو روز اسکے دوستوں کا میلہ لگ جاتا ۔تاش کی بازیاں ہوتیں۔۔اسی وجہ سے اوپر والی رہائش کا ایک دروازہ باہر بھی لگایا۔۔اسے ذرا احساس نہیں کہ جوان بیوی گھر میں آنٹی نے ڈھکے چھپے انداز میں کہا۔۔مجھےتو لگتا اسے بیوی سے لگاو ہی نہیں میں بھلا کرتے کرتے زندگی تباہ کر دی عمبر کی۔۔

انکے لہجے میں تاسف تھا۔میں نے سوچا تھا سدھر جاے گا لیکن نہیں۔ اب کل اسے نے عمبر کو مارا بھی تھا ۔۔ میں نے ابھی اسے فون کیا تھا۔دیکھو بیوی سے لڑ کر مار کر گھر جھگڑ کر بجاے پوچھنے کے وہ ملتان چلا گیا۔ ابھی آٹھ بجے ادھر سے بیٹھا ہے ساتھ کوئی دوست بھی اسکا۔۔تم اسکو سمجھاو کسی طریقہ اس سے بات توکرو ۔تم آج رات ادھر ای رک جاو۔بہانے سے مجھے اسکے دوست کو تو چیک کر کے بتانا کیسا ہے کون ہے۔۔انکا لہجہ پراسرار تھا۔سوچ لیں نے حامی بھرتے ہوئے کہا اگر اسے میرے رکنے کا مسلہ ہوا تو۔۔ نہیں میرے خیال سے نہیں ہوگا ایسا تم گھل مل جانا پلیز انہوں نے منت سی کی۔۔ ٹھیک ہے پھر طریقے سے میں نے عمبرین کا پوچھا کہ کیوں مارا کیا مارا تو افسردگی سے کہنے لگیں وہ کمبخت اسکا دوست اس نے کوئی بےہودہ مذاق کیا اسکے ساتھ اور جب عمبرین نے اسے ڈانٹا تو یہ دلاور بےغیرت الٹا اسکی سائیڈ لینے لگا اور اسے دھکا بھی دیا اور تھپڑ بھی مارا وہ بتا رہیں تو اور جیسے چوٹ مجھے لگ رہی تھی۔میری سرکار کو مارا یہ تصور ہی جان لیوا تھا۔۔اسی لیے مجھے بہت چپ لگیں وہ جیسے بہت اداس جیسے رونا چاہتی ہوں اور ضبط کر رہی ہوں۔۔ تم نے پوچھا نہیں۔۔ میں نے کوشش کی لیکن اسے دلاور کا ڈر تھا اور آپکا خیال وہ چپ رہی۔۔ نہیں بول رہی کل سے وہ اسکے دوست کے سامنے اسکا غصہ جائز ہے ۔۔ یہ توہین ہے اسکی۔۔کچھ نہیں بول رہی تم جاو اس سے پوچھو۔۔ دلاور تو پانچ گھنٹے تک آنا نہیں۔۔تم جاو میرے اندر بہت پریشانی ۔۔ میں انکی اجازت سے دکھی دل سے اٹھا اب مجھے سمجھ آ رہی تھی آج کیوں وہ اتنی گداز تھیں شروع میں کیوں دکھی تھیں۔۔ وہ کچن میں نہیں تھیں انکے کمرے کا دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا میں آہستگی سے اندر داخل ہوا وہ گہری سوچ میں گم بیٹھی میں نے انہیں پکارا۔۔ رانی سرکار۔۔ وہ جیسے چونکیں اور ہڑبڑا کر اٹھیں اور بولیں تم اففف نعیم حد کرتے ہو شہزادے آنٹی کدھر۔۔ میں انکے قریب گیا اور کہا سکون سے بیٹھیں میری بات سنیں سکون سے ۔۔ لل لیکن نعیم ۔۔ اوہو سنیں تو میں نے انہیں ٹوکا۔۔ آنٹی نے ہی بھیجا مجھے وہ جیسے یکدم چونکیں۔۔ کیوں ۔بتاتا ہوں دلاور نے بھی لیٹ آنا اور آنٹی نے خود بھیجا اب آپ سکون سے بیٹھو وہ چپ بیٹھ گئیں میں انکے ساتھ بیٹھا اور کہا مجھے بتائیں کیا کہا اس کے دوست نے۔۔ انکا چہرہ جیسے سفید پڑ گیا۔۔ مجھے بتائیں سرکار مجھ سے کیاپردہ اپنے شہزادےسے اپنی جان سے اپنے ہمزاد سے میں تو آپکا خود نا۔۔ میرے محبت بھرے اصرار پر وہ بولیں اسکے سارے دوست ہی آوارہ مزاج ۔۔عجیب سے بھوکی نظروں سے دیکھنے والے۔۔یہ تو بلکل چھوٹا سا لڑکا سا۔۔ میں ناشتہ لیکر گئی تو دلاور کو کہنے لگا باقی ساری چیزیں ملکر کھاتے ہیں تو اصل سویٹ ڈش الگ سنبھال کر رکھی ہوئی بس مجھے غصہ آیا تو میں نے اسے سختی سے گھورا تب کہتا مرچی بھی ہے واہ جی ۔۔ بس میں نے اسے فضول باتوں سے ٹوک دیا اور اس نے الٹا مجھے دھکا مارا مجھے اتنی چوٹ آئی نا وہ پھر سے سسکنے لگ گئیں۔۔ اور مجھے تو جیسے آگ لگ گئ دل کیا کہ دونوں کو گولی مار دوں۔میں نےطئے کر لیا اسے ایک ایک آنسو کا حساب دینا پڑے گا۔

جب میں دھکے سے گری تو اس نے مجھے ٹھڈا مارا ابھی تک درد ہورہی مجھے نیل اور سوجن ہوگئی شائد۔۔الٹا اس نے اسی کنجر سے مجھے سوری کرنے کا بولا میں نیچے چلی آئی۔۔ اور وہ نیچے آکر شور کرنے لگ پڑا انکل بیچ میں بولے تو ان سے بھی اونچا بولنے لگ گیا اسی وجہ سے انکی طبیعت زیادہ خراب ہوئی۔۔انکے آنسو بہہ رہےتھےمیں نے تڑپ کر انکا چہرہ تھاما اور انکے آنسووں کو صاف کر کے بولا بس۔اب ایک آنسو اور نہیں۔۔ آپکے آنسو اتنے سستے نہیں۔ ایک ایک آنسو کی قدر مجھ سے پوچھو۔۔ کچھ نہیں میری قدر وہ جیسے بلک اٹھیں۔میری قدر یہ ہے کہ میں ایک جاہل کے متھے لگ گئی میری قدر یہ ہے کہ میں وہ وہاں صوفے پر پڑی ہوتی اور وہ بیڈ پر لیٹا دوستوں سے فضول۔لطیفے سن سن کر ہنس رہا ہوتا۔۔ وہ چیخ کر بولیں۔۔ ہر انسان کے ضبط کا اینڈ ہوتا ہے ۔شائد انکا ضبط اب اینڈ تک پہنچ چکا تھا۔نا بولے مجھ سے نا پوچھے لیکن ایسی تذلیل نا کرے میری کہ ہر ایرا غیرا مجھ پر جملے کسے ۔وہ بلکتے بلکتے میرے ساتھ لگ گئیں۔۔ میں نے انہیں رونے دیا کہ رو کر بھڑاس نکال لیں۔۔کچھ دیر بعد وہ بولیں جب تم آئے تمہاری سادگی تمہارے خلوص اور تمہاری عزت نے مجھے ہمت دی کہ تم سے دوستی کروں ۔۔ مجھے تمہاری آنکھوں میں اپنے لیے محبت نظر آتی ہے ہوس نہیں ۔۔اس لیے میں تمہارے اتنے قریب ہوئی کیونکہ تمہاری طلب میں محبت پہلے ہے۔۔بس سمجھو تم نے پتھر کی اس مورتی میں جان ڈال دی ۔۔میں نے انہیں الگ کیا اور اٹھ کر باہر نکلا پانی لایا آنٹی حسب وعدہ اپنے کمرے میں ہی رہیں۔۔ پانی لاکر آتے سمے میں نے دروازہ مکمل بند کر دیا۔۔ انہوں نے ایک نظر مجھے دیکھا لیکن بولی کچھ نہیں۔۔جیسے انہیں مجھ پر اندھا یقین ہو جیسے انہوں نے اب ہتھیار ڈال کر میرے حوالے کر دیا ہو سب۔۔میں نے انہیں پانی پلایا اور کہا ہیرے اور پھول کی قدر جاہلوں کو نہیں ہوتی۔۔میں ہوں نا جو قدر کرتا آپکی ۔ آپ کیوں خود کو جلاتی۔۔بس مجھے ایک کوشش کی اجازت دے دیں بس کچھ وقت دیں اور پھر دیکھیں ۔۔ کیا اجازت دو۔۔ بس اتنا کہہ دیں کہ تمہیں اجازت ہے میں آپکے راستے کے سب کانٹے چن لوں گا۔۔بس آپ مجھے اجازت دے دیں کہہ دیں کہ مجھے لیجاو یہاں سے۔۔نعیم شہزادے وہ بولنے لگیں کہ میں نے کہامیری بات سنیں پہلے۔۔میرا وعدہ رہا کچھ غلط نہیں کرونگا آپکو سب بتاوں گا۔۔ وعدہ یہ میں نے ہاتھ انکے سرپر رکھا انہوں نے خاموشی سے سر جھکا لیا میں نے کہا بولیں اب۔۔ وہ کچھ لمحے چپ رہیں اور پھر گود میں دھرا ہاتھ آگے بڑھایا اور سر جھکائے بڑی ادا سے بولیں لو دیاہاتھ تمہارے ہاتھ میں۔۔ افففف مجھے لگا جیسے کل جہان مل گیا میں نے بڑی عقیدت اور چاہت سے انکا ہاتھ تھاما اور اس کو آنکھوں سے لگا کر بولا بس اب دیکھیے میں آپکی زندگی کو کیسے گلزار کرتا ۔بس آج سے سمجھیں میں آپکا ڈاکٹر ہوں۔ میں نے انہیں چھیڑا۔۔واہ جی ڈاکٹر کیسا انہوں نے شرارت سے کہا۔۔لیکن جب تک سب مسائل حل نہیں ہوتے تم وہ جھجکیں اور شرما کر بولیں زیادہ انعام شنام نہیں مانگو گے ۔۔ میں ہنس پڑا اور کہا وعدہ کیا نا بس وہاں تھوڑا سا بس کبھی کبھی۔۔ لو وہ تھوڑا تھا۔۔ میری جان نکال کر رکھ دی تم نے وہ شرما کر بولیں۔۔

اوئےہوئےجان نکل گئی بس ۔۔ سوچیں سوچیں میں شوخا ہوا۔۔نا کچھ نہیں سوچنا انہوں نے شرما کرمنہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔۔میں ہنسا اور کہا ابھی مجھے چوٹ دکھائیں ۔۔ جی نہیں وہ نہیں دکھانی سوری انہوں نے ٹھینگا دکھایا۔۔دکھائیں کہاں ٹھڈا مارا مجھے دیکھنا زیادہ نیل تو نہیں نا سوجن دیکھنی بنا کسی شرارت کےوعدہ۔۔وہ شانےپر ہےنا اوپر نہیں دکھا سکتی نا بابو۔۔ وہ منمنائیں ۔۔اوہو ڈاکٹرکو دکھا لیتے چلیں شاباش ورنہ ۔۔ میں آگے کو بڑھا۔۔ اچھا نا رکو ۔۔ وہ بولیں تم باہر جاو میں تمہیں بلاتی۔۔ کچھ دیر بعد جب میں واپس آیا تو انہوں نے شرٹ سے ایک بازو نکال کر اوپر چادر ایسے اوڑھی ہوئی تھی کہ انکا شانہ باہر ننگا تھا۔۔ افففف شانے کی چمک نے ایکبار مجھے بہکایا لیکن اگلے مجھے ضمیر نے ملامت کی ۔۔ انکی کمر پر نیل بنا ہوا تھا اور سوجن بھی ۔۔ میں نے تیل نیم گرم کیا اور بہت نرمی سے انکے شانے کومساج کرنے لگا۔۔ وہ ہلکا ہلکا کراہتی رہیں ۔۔ کافی دیر کے بعد بولیں چلو اب تم جاو میں شرٹ ٹھیک کر لوں پھر کچھ کھانا کھاتے۔۔ میں اٹھ کر دوسرے کمرے میں آیا۔۔ انکل گہری نیند سو ہے تھے اور آنٹی انکے ساتھ نیم دراز ہی سوئی پڑی تھیں۔۔میں نے ہلکی آواز میں انکوجگایا لیکن وہ جانے کب کی تھکی تھیں۔۔ میں واپس پلٹ آیا ۔۔ اور عمبرین کو بتایا ۔۔ وہ بولی اچھا ہے لیٹ لیں کل رات سے جاگ رہیں وہ تو۔تم کھانا کھا لو میں انکے ساتھ کھاونگی ابھی بھوک نہیں۔۔ جی نہیں آپ ابھی کھانا کھاو گی اور آپکو کھانا آج میں کھلاوں گا میں نے لاڈ سے کہا

بڑے لاڈ سے ہم ایکدوسرے کو کھانا کھلایا۔۔ پھر ملکر چائےبنائی ۔۔ مستقبل کی باتیں ایسی باتیں جو خوابوں بھری ہوں اسی دوران لگا جیسےآنٹی جاگ گئیں ہوں میں باہر نکلا تو وہ کمرےسے نکل رہیں تھیں۔۔ میں نے انہیں رکنے کا اشارہ کیا اور جا کر بتایا کہ کھانا کھا لیا اس نے اب کچھ بہتر ہے آپ فکر نا کرو۔۔انکے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور بولی شکر ہے۔۔ چلو تم دونوں کھانا کھاو چائے مجھے کمرے میں دے جانا میں نے دوپہر کو لیٹ کھایا تھا ابھی بھوک نہیں۔۔اور پھر میرےقریب آ کر بولیں میں بھی بہت اداس تھی تمہارے لیے لیکن ابھی ماحول نہیں ایسا ورنہ تمہیں لازمی ملتی۔۔ میں نےتو شکر کیا کہ وہ نہیں چمٹ رہیں ورنہ عمبرین سے مزید کیسے بات کرتا۔۔انکے کمرے میں چائے کےبعد وہ بولیں نعیم تم اوپر کمرے میں جا کر سو جاو۔۔جب دلاور آیا تو عمبرین تم ادھر میرے پاس آ جانا۔۔ میں اٹھ آیا عمبرین وہیں رکی رہی۔۔ میں اوپر آ کر لیٹ گیا۔۔کچھ آدھ گھنٹے بعد انٹرکام پر بیل بجی۔۔میں نے ہیلو کیا تو بولیں جاگ رہے ہو۔۔ میں نےکہا ہاں ۔۔ کہتی کیوں جی۔۔ میں نے شوخی سےکہا آپکا انتظار کر رہا تھا۔۔وہ بولیں جی نہیں سو جاو اب دلاور آنےوالا ہی ہوگا ویسے بھی بہت ہوگیانا آج تو۔۔ لو محبت میں کب بہت ہوتا محبت تو اور اور اور مانگتی ہر ہر لمحہ وہ شرما کر بولیں بہت باتیں کرتے ہو نا۔ دو منٹ خاموشی رہی میں نےحساب لگایا دلاور کو بھی بھی آنے میں دو گھنٹے تھے۔میں نے کہا سرکار ابھی اسکے آنے میں وقت آو آپکو گانا سناتا ایک سوپر سا۔ استادنصرت کی غزل وہ کچھ دیر بولیں اور کہا یاد رکھنا صرف غزل سنانی اور کچھ نہیں۔۔کونسی سنواو گے ۔۔ میں بولا وہی آفریں آفریں والی ۔ ہاےتمہیں پسند وہ۔ چلو رکو میں آتی ہوں ۔۔ کچھ دیر بعد وہ واپس میرےساتھ تھیں ۔ہلکی آواز میں کیسٹ پر استاد نصرت کی آواز۔۔ آفریں آفریں۔۔ آنکھیں دیکھیں تو میں دیکھتا رہ گیا۔۔ ہم دونوں گنگناتے اور میں انکی آنکھوں کے طلسم میں ڈوبتا جاتا۔بلکل ساتھ لگ کر ایک دوسرے کا سہارا لیے ۔۔ غزل ختم ہوئی تو وہ اٹھنے لگیں میں نے انکا ہاتھ پکڑا اور کہا نصرت جتنی تعریف کی نا سب آپ کی ہے آپکے انگ انگ میں بھی ایسا جادو ۔۔ ہاے اللہ وہ شرما کر سمیٹیں اور بولیں اب میں جاوں۔۔میں نے کہا جی نہیں ۔۔ ابھی انعام باقی۔ہیں وہ پلٹیں اب کاہے کا انعام بھئی۔۔ پہلے انعام دوست نے دیا تھا اب انعام محبوب سے لینا جس نےمجھے اپنا ہاتھ تھمایا ۔۔ دیں گی نا۔۔ وہ شرما کر بولیں نا جی اب انعام پیپروں کے بعد ملے گا جی۔۔ ہاے اللہ ظالم سجنی میں تڑپ کر اٹھا اتنی دیر جی نہیں۔ بس دس منٹ اتنا ہی بس وعدہ ایک انچ زیادہ نہیں۔۔وہ شرما کر بولیں وہ کم تھ کیا۔۔ آگ لگا دی تمہارے پیار نے مجھے بہکنے سے ڈر لگتا ہےنعیم میں نہیں چاہتی ہماری محبت بھی ہوس کا شکار ہو جاے۔۔میں انکے سامنے کھڑا ہوا اور کہا وعدہ کیا نا ۔۔اور اس آگ کی جلن کا ہی تو مزہ میں نے آہستگی سے انہیں کھینچا۔۔ وہ میرے ساتھ آ لگیں ۔۔میں انکو ساتھ لگاتے بیڈ تک لایا اور انکو اپنے ساتھ لٹا کر کہنی کے وزن پر جھک کے انکے حسین چہرےکو دیکھنے لگا

اور بہت نرمی سے انکے ماتھے انکے بالوں انکے رخساروں انکی ٹھوڑی کو وقفے وقفےسے چومنے لگا۔۔ وہ آنکھیں بند کر کے گہری سانسیں لے رہیں تھیں۔۔میں نے سرگوشی کی دل کرتا ہے آپ کو ایسے ہی تاعمر چومتا رہوں وہ لاج سے میرے ساتھ لگ گئیں۔۔ایسےہی سرگوشیوں میں جانے کتنا وقت گزر گیا جب ایسے لگا باہر گلی میں کوئی گاڑی رکی۔۔عمبرین تڑپ کر الگ ہوئی اسکا رنگ جیسے سفید سا پڑ گیا۔ وہ تیزی سے نیچے چلی گئ میں نے آہستگی سے چلتا باہر نکلا اور منڈیر سے جھانکا۔۔ گاڑی سے دلاور اور اسکے ساتھ ایک اور لڑکا گرم چادریں لیے نکل رہے تھے۔۔دلاور نے بیل دی۔۔ کچھ دیر بعد آنٹی نکلیں اور انہوں نے دروازہ کھولا اور واپس پلٹ گئیں۔۔اس نے اندر سے سیڑھیوں والادروازہ کھولا اور لڑکے سے بولا تم اوپر جاو۔۔ اور اندر سے دروازہ بند کرنے لگ گیا آنٹی بولیں اوپر نعیم ہو گا تمہارے ابا کو پوچھنے آیاتھا۔بخار بھی تھا اسے گولی کھا کر سو گیا ۔۔ میں جلدی سےکمرے میں گھسا اور رضائی کھینچ سونے کا ڈرامہ کیا۔۔۔ کچھ دیربعد کسی نےکمرےکا دروازہ کھولا میں سویارہا رضائی کی درز سے ہلکا سا جھانکا جیسے ہی میری نظر اس لڑکے پر پڑی میں حیران رہ گیا اسکا چہرہ بلکل کلین شیو تھا اور قدرے زنانہ بھی آنکھوں میں سرمہ بھرا ہوا۔۔ اتنی دیر میں دلاور بھی آ ٹپکا۔۔ اور اسے دوسرے کمرے میں لیجا کر اس سے باتیں کرنےلگا۔۔ وہ قدرے اونچی آواز میں بتا رہا تھا کہ میں گولی کھاے سو رہا ۔۔کچھ دیر کھٹر پٹر چلتی رہی ۔ میں کچی نیند میں تھا جب میں واش روم جانے کے لیے اٹھا ۔۔بہت آہستگی سے میں نے اٹیچ باتھ کا دروازہ کھولا اور بنا لائٹ جلاے ہی کموڈ تک گیا۔۔ اچانک مجھے ساتھ والے کمرے سے انکی باتوں کی آواز سنائی دی۔۔میں نے اسی ہول سے جس سے آنٹی نے میری اور کومل کی پہلی چدائی دیکھی تھی انکے کمرے میں جھانکا تو حیران رہ گیا۔میری کچی نیند اڑ گئی۔۔ ایک حیرتناک منظر میرے سامنے تھا۔۔وہ دونوں سامنے صوفے پر بلکل ننگے ایک دوسرے کے ساتھ لگ کر بیٹھے ہوے تھے۔۔اس لڑکے کے چہرے پر کچھ میک اپ سرخی بھی سجی ہوئی تھی۔۔دونوں میرے دیکھتے ہی دیکھتے کھڑے ہوئے

لڑکاکافی نرم ونازک تھا اسکی رانوں پر بال بہت کم تھے۔۔دلاور کی ٹانگوں پر بال توتھے لیکن سیفٹی لگی ہوئی تھی۔۔ دونوں ایکدوسرے کو ملنےلگ کر گرم کرنے لگے۔۔اب دلاور بلکل سامنے آیا میری نظر اسے لن پر پڑی عجیب ترچھا سا پتلا سا رگوں والا لن تھا اسکا جیسے اس نے بہت مٹھ ماری ہو۔۔وہ ہلا جلا رہا تھا اسے لن نیم کھڑا تھا۔ اسنے وہیں صوفے پر لڑکے کو جھکایا لڑکے کی بنڈ بڑی کمال کی تھی۔۔موٹی گانڈ اس نے لن کو ہاتھ میں پکڑا اور اسکی گانڈ میں پھیرنے لگا۔۔ عجیب بات تھی کہ اسکالن ترچھا تو تھا ہی اتنا کھڑا بھی نا تھا۔۔جیسے تیسے کر کے اس نے اسکی گانڈ میں لن اتارا اور اسکی بنڈ مارنے لگا دو چارمنٹ بعد ہانپتا ہوا پیچھے ہٹا اور جا کر صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھا اور بولا اففف مزہ آ گیا بس آ جاو۔۔ لڑکا سیدھا ہوا تو میری نظر اسکی ٹانگوں پر پڑی۔۔اسکا ہتھیار تو کچھ ٹھیک تھا لیکن ایسے لٹک رہا تھا جیسے کھسرے ہوتے ۔۔اتنی جلدی ہو بھی گئے تم اس نے شکوہ کیا۔۔ ہاں مٹھو رانی میں واپس کمرے میں آیا۔۔ پہیلی سلجھ چکی تھی دلاور کی ساری عمر ڈرائیوروں میں گزری وہ لونڈے باز تھا اور مٹھ اورلونڈے بازی نے اسے تقریبا ختم بھی کر دیا تھا۔۔اسی وجہ سے شائد اسے اپنی بیگم کی بجاے دوست پسند تھے اور اسی وجہ سے وہ انکی واہیات سن کر بھی الٹا انکا ساتھ دیتا تھا۔انہی سوچوں میں میری آنکھ لگ گئی

اگلی صبح جب میری آنکھ کھلی تو دلاور شائد نیچے تھا وہ لڑکا باہر صحن میں چارپائی پرلیٹا ہوا تھا۔۔ میں کچھ سوچا اورباہر نکلا اس سے ہیلو ہاے کی اور چھ اینٹیں برآمدے کے نیچے رکھ کر ان پر ڈنڈ نکالنےلگ گیا۔۔ کافی دنوں بعد ورزش ہورہی تھی۔ جسم جیسے کھل اٹھا۔۔وہ بغور میری طرف دیکھتا رہا۔۔میں نے شرٹ اتار دی میرا ورزشی جسم نکھر کر سامنے آ گیا۔۔میں نے اس کھسرے ذہن کے لڑکے کے ساتھ نفسیاتی گیم شروع کر دی تھی۔کچھ دیر بعدمیں اٹھکر اسکے پاس جا کر بیٹھ گیا اور ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں اسکانام اقبال تھالیکن بالی مٹھو کے نام سے مشہور تھا۔۔دلاور کا پوچھا تو پتہ چلا وہ باہر سے ناشتہ لینے گیا۔۔ کچھ دیر بعد دلاور بھی آ گیا اور کافی خوش ہوا کہ میں اسکے جانی دوست کو بور نہیں ہونے دیا۔۔کچھ دیر بعد میں نیچے گیا اور آنٹی سے دو دن کے بعد اچھی رپورٹ دینے کا وعدہ کیا۔پھر اوپر گیا تو وہ دونوں کسی بات پر الجھ رہے تھے۔میں چپ کر کے نکلنےلگا تو مٹھو بولا تم کدھر جا رہےہو۔۔میں نے کہا کالج اور کچھ کام ہیں۔۔وہ بولا یہ بھی جارہا گجرات میں اکیلا کیا کرونگا تم مجھے باہر روڈ تک لیجاو میں بھی کسی دوست سے مل آتا۔۔ نہیں تم کسی سے ملنے نہیں جاو گے دلاور نے عجیب ضد کی بس میں ہوں نا دوست دفع مارو سب کو۔۔تو میں بور ہوتا رہوں کیاکروں۔۔ میں نے کہا اسکا ایک حل ہے اگر دلاور بھائی مان جائیں تو میں نے بڑی مشکل سے عزت سے نام لیا۔۔ کیا حل دلاور بولا۔۔ آپ میرے ساتھ چلو بھائی کے دوست میرے لیےقابل احترام آپکو کالج دکھاتے گھماتا پھر آ جائیں گے۔۔ دلاور نے شکر کیااور کچھ دیر بعد وہ میرے ساتھ۔۔ باہر نکل کر میں نے بوتھ سے میڈم رفعت کے آفس فون کیا اور انکل کی بیماری کا بہانہ ڈال کر دو دن کی رخصت لی۔میڈم بولیں جیسے ہی انکل کی طبیعت بہتر ہو مجھے ملنا بے شک کالج کےبعد ایزی ہوئے تو گھر آجانا۔۔ وہاں سے میں مٹھو کو ادھر ادھر گھمایا اور اسے قریبی پارک لے گیا۔۔اور اسے کہا کہ اسکے لیے چھٹی لے ۔۔وہ بہت خوش ہوا


اسے کھلایا پلایا اور شام تک کافی گھل مل گیا اسکے ساتھ۔۔وہ چار بہنوں کا بھائی تھا اور زیادہ بہنوں ساتھ رہنے کی وجہ سے عجیب سی ذہنی حالت بن چکی ہوئی تھی اسکی۔۔میں نے نوٹ کیا وہ ادھر ادھر پاس سے گزرنے والی لڑکیوں کو بہت بھوکی نظروں سے گھورتا ہے آہستہ آہستہ کھلتے ہوئے میں اسکا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔۔دوپہر کو شاہ عالمی سے اسے اچھا کھانا کھلانے کے بعد میں اسے جھولوں والے پارک لے گیا جہاں فیملیز زیادہ ہوتیں میں نے اس سے پوچھا کوئی لڑکی پھنسائی بھی وہ سر جھکا کر بولا نہیں یار ۔۔ جس سے بھی کوشش کروں وہ ہنس پڑتی میرے جسم میں لچک نا ۔اوے ہوے تو لچک ختم کر دیں گے پہلوان بنا دیں گے میں نے ہنس کر کہا۔۔ سچی بلکل اپنے جیسا کیسے تمہاری مچھلیاں نکلتی بازووں کی۔۔میں نے ہنس کر کہا سب سب جگہ سپرتگڑی ہو جاے گی وہ شرما گیا اور بولا سچی ۔۔وقت مناسب تھا میں نے کہا دکھاوں گا تمہیں ساری باڈی کیسے تگڑی ہوتی بس ایک شرط وہ بولا کیا۔۔ میں نے کہامیں دلاور بھائی سے بہت ڈرتا ہوں انکو شکائت نہیں کرنی۔۔وہ۔ہنس کر بولا نہیں کرتا ویسے بھی اسکی کیا جرات میرے آگے بولے وہ سچا تھا۔فیملی پارک میں وہ لیڈیز کو دیکھ دیکھ کر تھوڑی تھوڑی دیر بعد ٹانگوں کو کھجاتا ۔۔ اس نےمروانا تھا میں اسے لیے ایک سائیڈ پر بینچ پر بیٹھا اور کہا اگر میں تمہاری سیٹنگ کسی آنٹی سےکروا دوں وہ بولا ہاے سچی لیکن اس سے پہلے مجھے تگڑا کرو نا اپنی طرح۔۔ میں نے کہا بلکل بے فکر رہو بس راز رکھنا اب مناسب وقت آ چکا تھا۔۔ میں نے کہا آنٹی کو لن پسند آ جا ے تو سمجھو پیسے بھی دیتی میں نے سنی سنائی کہانیاں اسے سنانا شروع کیں۔۔ سچی۔لیکن مجھے لن کو تگڑا کرنا تھوڑا اس نے شرما کر کہا مجھے تو مرد بھی اچھے لگتے جانے کیسا ہوگیا میں۔سب سیٹ ہو جاے گا چلو اٹھو میں اسے گھر واپس لے آیا۔۔اسے باہر روکا اور اندر گیا۔۔ دلاور ابھی تک نہیں آیا تھا میں نے عمبرین کو اشارے سے بلایا اور کہا وہ دروازے سے دیکھے یہی ہے وہ جس نے بدتمیزی کی۔۔ اس نے باہر کی ہول سے باہر دیکھا اور کہا ہاں یہی کمینہ ہے۔۔میں نے سوچ لیا اس کنجر کی کیسے بنڈ پاڑنی

اوپرجا کر میں نے اسے کہا اب بتاو اعتماد کر لوں وہ بولا یسسس بے فکر ہوکر۔۔ میں اسکی دکھتی رگ کو پکڑ چکا تھا۔۔ اوپر لیجا کر میں نے شرٹ اتاری اور اسے مچھلیاں دکھانے لگ پڑا۔۔وہ ہاتھ لگا لگا کر اوئی کتنے سخت ہیں نا بازو کے ڈولے۔۔میں نے کہا تم بھی اتار دو نا اس نےشرت اتاری چٹا نازک لونڈوں جیسا اسکا بدن تھا۔۔ مجھے لڑکوں میں دلچسپی نہیں تھی لیکن ان دونوں کو سزا دینا ضروری تھی۔۔ میں اسے سکھانے کے بہانے نرم نرم ہاتھ لگاے تو وہ ذرا محسوس نا کیا۔۔پھر میں نے سرگوشی سے کہا تمہیں پتہ میں حکیم سے دوائی لی ورزش والی۔۔ جس سے سارا جسم اور وہ بھی فل سخت ہو جاتامیں نے آنکھ مارتے ہوے کہا اور بڑا بھی۔۔سچی اس نے سرگوشی کی۔۔میں نےکہا ہاں دیکھ لو خود ہی میں نے جوا کھیلا

اسنے ادھر ادھر دیکھا اور ہاتھ بڑھا کر میرے ہتھیار کو پکڑ لیا اور آہستگی آہستگی سے دبانے لگا ۔۔ لن کو ویسے بھی بہت غصہ تھا اس پر۔لن سر اٹھانےلگا۔۔ اس نے مٹھی میں زور سے دبا کر کہا اففف کتنابڑا لگتا نا۔۔ میں نے پھر سرگوشی کی اسکی مچھلیاں بازووں سے بھی اچھی۔۔ اففف میں دیکھوں بھلا اس نے ہاتھ سے شلوار کو کھولا اور شلوار کو تھوڑا کھسکایا جیسے ہی شلوار کھسکی لن اور اسکا ٹوپہ لہراتے ہوے اسکے سامنے آیا جیسے ہی اسکی نظر لن اور ٹوپے پر پڑی وہ اوئی ماں کرتابدک کر پیچھے ہٹا اور بولا افففف اتنا بڑااور موٹا اففف اسکی نظریں لن پر ہی جمیں تھیں

اس نےپورے ہاتھ سے لن کو سہلانا شروع کر دیا میں نے کہا اب تم بھی دکھاو نا۔۔ اس نے اپنی شلوار کو کھولا اور کھسکا دی۔۔ جسا پہلے دیکھ چکا تھا اسکا لن تھا تو کچھ مناسب لیکن مرجھایا ہوا۔۔ دیکھا ایسے ہےرہتا نا اس نے اسے ہلاتے ہوے کہا۔۔ میں نے کہا اوہو ساری شلوار اتار کر دکھاو نا ۔۔ وہ اٹھا اور دروازہ بند کرتے ہوے بولا لو اس نے شلوار اتار کر میرےسامنے آتے ہوئے کہا۔۔ میں نے مذاق سے کہا واہ یار تمہاری ڈگی تو بہت مزے کی میں نے اسکی گانڈ کو چھوا۔۔افف اسکی گانڈ کسی لڑکی کی طرح سافٹ تھی۔۔آپکوپسند آئی ہاں اور تمہیں کیسا لگا میرا یہ۔۔ اففف بہت پیارا بہت موٹا۔۔ جس میں جاے گا اسے مزہ آئے گا ۔۔ اس نے ہونٹ کاٹتے ہوے کہا۔۔تمہیں ایسا کرنا ہے میں نے داو کھیلا۔۔ہاں ہاں اس نے ابھی تک لن کو نہیں چھوڑا تھا۔۔ میں نے ہنس کر کہا لگتا ہے زیادہ ہی پسند آگیا ۔۔ وہ بولا ہااں یہ تو میری گانڈ ہی پھاڑ دے گا۔۔ اس نے خود ہی دعوت دیتے ہوئے کہا۔۔ میں نے کہا سوچ لو۔۔ وہ بولا سوچ لیا بس ابھی تم کچھ کرو نا اسنے لن کو ہاتھ سے ہلاتے ہوے کہا۔۔ چلو اٹھو میں اسے دوسرے کمرے میں لیتا آیا جہاں رات وہ دونوں رکے تھے۔۔وہاں جا کر اندر سے دروازہ بند کر کے اس نے سارےکپڑے اتار دیے۔۔اسے پھنسانا ضروری تھا مجبورا میں نے بھی سارے کپڑے اتار دیےاور وہ مرےساتھ لگ کر اپنی ٹانگوں میں لن کو دبا دبا کر مزے لینے لگا۔۔ اففف اسکا ٹوپہ کتنا بڑا نا۔۔ کچھ نہیں ہوتا یار مزہ آئے گا میں نے اسے صوفے پر جھکاتے ہوے کہا۔۔رکو رکو وہ سائیڈ۔پر پڑے اپنے بیگ سے لوشن نکالا اور لن کو اچھی طرح سے ملا لن فل چکنا اور ٹن ٹنا ٹن ہو چکا تھا۔۔میں اسکے پیچھے کھڑا ہوا اور چکنے ٹوپے کو اسکی گانڈ کی درز میں پھنسایا

جیسے ہی ٹوپہ اسکے لن سے ٹکرایا اس نے لذت بھری سسکی لی اور بولا آرام سے کرنا پلیز ٹوپہ بہت موٹا اففففف۔۔۔ میں نے دباو ڈالا کونسا پہلی بار مروانےلگا تھا عادی گانڈو تھا۔ٹوپہ پچک کر کے گانڈ میں گھسا۔۔اؤئی کرتے ہوے اس نے گانڈ کو سکیڑا لیکن میں نے اگلا دھکا مارا اور لن ایک ہی دھکے میں آدھا اتار دیا وہ کلبلایا اوئی لیکن مجھے بہت تپ تھی اس پر اگلے جھٹکے نے جڑ تک مار ماری اور اسکے منہ سے چیخ بلند ہوئی جو میں نے جلدی سے ہتھیلی سے اسکا منہ بند کیا

وہ پوری جان سے کسمسایا۔۔ اسکی نرم گانڈ میں لن کسی نیزے کی طرح جا گھسا تھا۔۔ میں نے واپس کھینچا اورپھر دے مارا۔۔ کچھ دھکوں کے بعد اس کی کراہیں لذت بھری ہوگئی۔۔ کوئی پندرہ بیس منٹ کی شاندار ٹھکائی کے بعد جیسے ہی میں فارغ ہوا اس نے سکھ کا سانس لیا اور اوئی بنڈ پاٹ گئی میری کہتا باتھ روم کو بھاگا ۔۔ کچھ دیر بعد وہ ہانپتا ہوا واپس آیا اور بولا افففف بہت کڑک ہو تم جی ۔ دلاور تو بس نام کا دلاور ہے اسکی زبان پھسلی کیا مطلب اسکا رنگ زرد ہوا اور اس نے سر جھکا لیا۔۔ میں نے ڈرامہ کرتے ہوے اسے دلاسہ دیا اور کہا تم لیتےکیا ہو اس سے۔۔ لینا کیا ہے بس پھنسا ہوا ہوں اسکے بیس ہزار روپےدینے ہیں میں نے۔۔ اور اگر وہ بیس ہزار دےدو تو۔۔ تو میں اسے دفع دور کر دوں گا۔۔ افففف سوجا دی تم نے تو۔۔میں نے اسےآج کی سب باتیں راز میں رکھنے کا کہا اور اس سے وعدہ کیا کہ میں اسکو پیسے بھی دوں گا حکیم سے مالش والا تیل بھی لیکر دوں گا بس تم دلاور جیسے فضول بندےکو چھوڑ دو۔۔ وہ تو جیسے خوشی سے پاگل ہوگیا۔۔وہ بتانے لگا کہ دلاور پکا لونڈے باز ہے اول تو عورتیں اسے اچھی نہیں لگتیں جو ایک آدھ ٹیکسی ملے بھی تو اسکی بھی گاند ہی مارتا ۔۔ میں نےسنا ہے پہلے اڈے کے پرانے ڈرائیوروں سے اس نے خود بھی بہت مروائی ۔۔۔ وہ جیسے اندر کی گھٹن نکال رہا تھا۔۔ پتہ ہے یہ جو انکی بیگم انہیں بچہ کیوں نہیں ہوتا میں آج تک اس طرف سوچا ہی نا تھا میں پہلے تو تپا کہ اسکی جرات جو سرکار کا نام لے لیکن بات نکلوانی تھی میں نے پوچھا کیوں۔۔ کیونکہ یہ گانڈو اسکے پاس ہی نہیں گیا۔کیا مطلب ۔۔ مطلب یہ کہ سیدھے طریقے سے اس نے کیا نہیں اور الٹے طریقے سے اس نے پاس نہیں آنے دیا۔۔ ایک دو بار اس نے زبردستی کی کوشش کی شائد لیکن خود بتا رہا کہ اس نے سختی سے منع کر دیا۔۔ میرے دماغ میں جیسے آندھیاں چل رہیں تھیں۔۔

نائلہ ناصر اور عمبرین کی ادھوری باتیں وہ بات نہیں کرتا۔۔ غلط ضدیں کرتا ہے۔۔ بےقدری کرتا ہے بے شک وہ بہت بڑا بےقدرا تھا جو میٹھی ندی کو چھوڑ کر جوہڑوں سے سیرابی کر رہا تھا۔۔میں وہاں سے اٹھکر نیچے آیا ۔۔ آنٹی کو انفارم کیا کہ کچھ دنوں میں کم از کم اس ملتانی دوست سے جان چھوٹ جاے گی ۔۔ میں نے حامی تو بھر لی تھی لیکن لوں کہاں سے ۔میں باہر نکلا اور ناصر کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔۔ میرا ارادہ ناصر سے مدد لینے کا تھا ۔۔ وقتی ادھارامید تھی بہت کہ وہ جو ہوسکا کرے گا۔۔ناصر کے گھر گیا تو آگےمیلہ سجا ہوا تھا ناصر اسکا بہنوئی نائلہ لوگ سب گپیں مار رہے تھے ۔کچھ دیر سب سے باتیں ہوتی رہیں۔میں ناصر کو اوپر آنے کا کہ کر چھت پر گیا۔۔جیسے ہی میں چھت پر گیا آگے کومل تاروں پر گیلے کپڑے ڈال رہی تھی۔۔مجھے دیکھ کر کھل اٹھی اور بولی تمہیں ہی یاد کر رہا تھا۔میں نے موقع سے فائدہ اٹھانے کا سوچا اور کہا میں تو آیا ہی صرف آپکے لیے ہوں آپکے لیے ایک خوشخبری ہے۔ کونسی خوشخبری انہوں نے سسپنس سے پوچھا۔ اگر آپکو سعودیہ بھجوایا جاے تو کیسا ۔۔ وہ چہک اٹھیں اور بولیں ہاے سچی لیکن کیسے۔۔میں نےکہا بس دیکھتی جائیں۔۔۔ان سے تھوڑی بہت مستی کی۔۔ان سے فیس کے لیے کچھ پیسے ادھارے مانگے کچھ ناصر اور باقی نائلہ سے ۔۔

یہ اگلی شام کا قصہ تھا جب میں نے بیس ہزار روپے ساتھ ملتان کا ٹکٹ اور جانے سے پہلے فرمائشی جاندار چدائی کرکے مٹھو سے الوداع کیا۔ اس وعدے کے ساتھ کہ جلد ملتان آوں گا۔۔مٹھو نے حسب پلان پیسے دلاور کے منہ پر مارے اور وہاں سے چلا گیا۔مجھے یہ خدشہ تھا کہ دلاور اب بھڑکے گا لیکن اس کے سوا چارہ نا تھا یہ عمبرین کے لیے تھا۔۔

دو دن کی چھٹی کےبعد جب میں واپس گلبرگ پہنچا تو میری یادداشت واپس آئی کہ تانیہ کتھے ؟ شام کو ناصرآیا تو خوش ہوکربولا آپکے لیے ایک اچھی خبر ہے اور ایک بری کونسی پہلےسناوں۔۔میں نے کہا پہلے اچھی سناو وہ کہنے لگا کہ تانیہ کا پتہ چل گیا ہے وہ مل کر کچھ باتیں کلیر کرنا چاہتی بےچاری رو رو دہائیاں دے رہی تھی کہ اسکی ویڈیو نا اپلوڈ کریں ہم لوگ۔میں نے ملاقات پر فیصلہ کرنے کاازخود فیصلہ لیا ہے ۔۔ گڈیہ اچھی نیوز ہےاسکا پلان میں بتاتا تمہیں

اب بری خبر سناو۔۔بری خبر یہ ہے کہ شائد میں کچھ دن آپکو مل نا سکوں ۔۔ ہیں وجہ میں نے پوچھا وجہ یہ کہ میرے پیپرز ہونے والے تو میں اکیڈمی جوائن کر رہا۔۔ اسکا منہ جیسےاتر ہوا تھا۔شام کو میں بیلا کے گھر گیا حسب توقع وہ شدید غصے میں تھی۔انکل کہیں باہر گئے ہوئے تھے آنٹی نے بھی شکوہ کیا کہ کافی دن بعد چکر لگایا۔آنٹی نے اس دن کافی باتیں کیں مجھ سے میرے گھر والدین اور میرے مستقبل کے بارے میں میں مختصرا بتایا انہیں اور مزید بتایا کہ شائد اس ہفتے میں گھر کا چکر لگاوں۔۔انہی باتوں کے دوران بیلا منہ پھلائے مجھے گھورتی رہی بس۔۔ آنٹی بتانے لگیں کہ وہ کافی پریشان رہتی تھیں بیلا کے اول جلول حلیے سے دیکھو نا نعیم آگے زندگی مشکل ہو جاتی اب ساری عمر بیڈ منٹن اور کدکڑے ہی تو نہیں مارنے نا آگے گھر گرہستی ہوتی ہے ۔۔ شکر ہے جب سے تمہارےساتھ اسکی دوستی ہوئی کم از کم اس میں یہ اچھا بدلاو تو آیا نا۔۔ تو اس میں اسکا کیا کریڈٹ کونسا اس نے کہا میں خود اپنی مرضی سے یہ سب کیا اور جب میرا دل ہوگا میں واپس سے وہی اول جلول بن سکتی ۔۔ میں ہنس پڑا اور کہا نہیں تم ایسے ہی ٹھیک میں نہیں لیتا کریڈٹ۔۔آنٹی ہمیں باتیں کرنے کا کہہ کر کسی کام سے نکل گئیں۔۔ انکے اٹھتے ہی بیلا نے چھلانگ مار کر مجھ پر جھپٹی کہاں مرےہوے تھے تم اوہو کیاکرتی ہو یارا میں نے اس کا حملہ روکتے ہوئے کہا اس نے دوبارہ کوشش کی میں نے اسکی دونوں کلائیاں تھامیں اور اس نے زور مارنے کی کوشش کی وہ جھکاو سے آگے کوہوئی اسکی شرٹ آگے سے ہٹی ۔۔ ہلکا سا شانہ برا کا شولڈر سٹریپ اور ہلکا سا کلیویج اوپر سے دیکھنے سےایسا لگ رہا تھا جیسے دو چھوٹے مالٹے ہو نفیس سی برا کیپس میں جمےہوے ۔۔ میری نظر ذرا برابر کو بہکی بس۔۔وہ لڑکی تھی اورلڑکی بھی بیلا جو ریڈار تھی اس نے میری چوری کو پکڑا اور جیسے دفعتا بدتمیز کہتے سمٹ کر دور کھسک گئی۔۔ میں نے کھسیا کر کہا کیا ہوا جنگلی بلی اس نے مجھے گھورا اور کہا کچھ نہیں تم بہت بدتمیز ہو تم۔۔میں الو کاپٹھا ایویں شوخ ہو کر بول دیا ۔۔جی آ غلط تو میں ہی ہوں کبھی کہتی ہو لڑکی سمجھ کر دیکھ لو اب دیکھا تو چھپ گئی۔۔۔اسکا چہرہ پہلے چمکا پھر لال ہوا وہ شرما کر بولی بدھو ایسے تھوڑی کہا تھا۔۔ تو کیسے کہا تھامیں اسے چھیڑتے ہوئے کیا بلنڈر مار رہا تھا مجھے بعد میں پتہ چلا۔۔ابھی میرا لڑنے کا موڈ تھا۔دیکھنے والا موڈ الگ ہوتا ہے۔۔ میں اسکی منطق پر ہنسا وہ تپ کر بولی ہنسو تمہیں کیا پتہ۔میں نے کہا چلو بتا دینا۔وہ لاج سے بولی بتا دونگی

تم واقعی گاوں جا رہے ہو اس ویک اینڈ پر۔۔ہاں یار اماں ابا سے ملے کافی وقت ہو گیا ۔۔ ویسے تمہارا گاوں ہے کس طرف بیلا نے پہلی بار پوچھا۔ میں نے اسے بتایا کہ سرگودھا سے چکوال کی طرف جاو تو راستے میں میرا گاوں آتا ہے۔۔ شام کو ناصر نے واپسی شفٹ ہونا تھا۔۔ وہ تانیہ سے پروگرام سیٹ کرنے کے لیے اسکی تلاش میں تھا۔میں باہر لان میں بیٹھا وقت گزار رہا تھا جب آواز ائی چائے پیو گے میں نے دیکھا تو گیلری میں روزی اور سارہ مجھ سے مخاطب تھیں۔۔ چائے کو کون منع کرتا ہے بھلا میں نے سر سے ہاں کا اشارہ کیا اور پوچھا ادھر یا انکی طرف اس سے پہلے کہ روزی بولتی سارہ بولی ادھر۔۔اور کچھ دیر بعد وہ چائے کی ٹرے اٹھاے آن ٹپکیں۔۔ایسے کیوں چپ بیٹھے ہو روزی نے پوچھا تمہارا سیکرٹری کدھر آج اسکا اشارہ ناصر کی طرف تھا۔۔اسی کا غم ہے وہ کچھ دن کے لیے کام سے جارہا اور میں اکیلے یہاں میں نے منہ لٹکایا ۔۔ اوہو واقعی یہ تو بری بات نا ایسے ۔۔ہاں لیکن مجبوری نا اسکی ۔۔ویسے بھی اس ویک اینڈ میں نے گاوں جانا ہے اماں ابا سے ملنے دو تین دن کی بات ہے کر لیں گے گزارہ اور حل بھی تو نہیں کوئی۔۔چلو کوئی بات نہیں ہم ہیں نا تمہیں کمپنی دینے کے لیے ۔۔ میں نے شرارتی انداز میں کہا آپ تو ہیں لیکن مجھےاکیلے نیند نہیں آتی ناصر تو مجھے تھپکیاں دے کر سلاتا تھا۔۔ روزی کا بلند قہقہ نکلا اور اب تھپکیاں میں تو دے نہیں سکتی ہاں سارہ سے پوچھ لو اسے ویسے بھی اسے بہت شوق آجکل راتوں کو جاگنے کا۔۔ دفع مر سارہ نے شرما کر اسے فضائی مکہ مارا۔ویسےمجھےکوئی اعتراض نہیں میں نے سارہ کو چھیڑتے ہوے کہا ویسے بھی سارہ ہمیں کہاں لفٹ کرواتی ہیں میں نے اسے چھیڑا

کچھ دیر ایسے ہی مستی ہوتی رہی ۔ایک دو بار میں نے روزی سے آنکھ بچا کر سارہ کو اشارہ بھی کیا کہ کیاپروگرام اور اس نے آگے سے منہ چڑا دیا۔۔اچھا بھئی آپ لوگ بیٹھو میرا تو صبح ٹسٹ ہے سارہ نے اٹھتے ہوے کہا ۔۔ اسکے جانے کےبعد روزی اور میں ادھر ادھر کی ہانکتے رہے میں نے ایسے ہی کہا تو پھر آپ کی طرف سے تھپکیاں پکی کینسل سمجھو وہ پھر ہنسی اور بولی میں جانتی نا بات تھپکیوں تک نہیں رہنی ۔۔ میں نے کہا تو کیا ہوگیا۔۔ وہ ہولے سے بولیں مینسز ہیں ورنہ میں خود آ جاتی تمہیں تھپکیاں دینے۔۔ سارہ کا کہا تھا آپ نے میں نے انہیں یاد دلایا۔۔ ہاں مجھے یاد ہے ۔۔ یہ جو میں نے کہا نا راتوں کو جاگنے کا۔۔ تمہاری ہی باتیں کرتی رہتی سمجھو یہ ہوتا نا ایک اس ایج میں دلچسپی سی وہ۔۔بس کسی دن کھل جاے گی میں نے کہا وقت آیا تو کھول میں خود بھی لوں گا وہ پھر ہنسیں اور بولیں لوفر انسان اس کی بات نہیں کر رہی مطل سمجھو بس ایک جھجک سی جیسے ہی ہٹی وہ تمہیں منع نہیں کرے گی وہ خود ایکبار انجوائے کرنا چاہتی واپس جا کر تو وہی روٹی سالن کرنا اس نے۔۔ روزی خود بھی عجیب تھی اور اس نے اس کو بھی اپنے سا کر لیا تھا۔۔چلو تم ریسٹ کرو میں ذرا مارکیٹ تک ہو لوں ۔ دوسرا گھر فون بھی کرنا ہے پی سی او سے کر لوں گی۔۔ اسکے جانے کے بعد میں اندر آیا ۔۔ شام ہونے والی تھی لیکن ناصر نہیں آیا تھا۔۔شام کے سائے گہرے ہو چکے تھے جب ناصر اچھلتا کودتا آیا اور کہنےلگا بھائی تانیہ بس آ رہی یہ پیچھے پیچھے۔۔ انہی باتوں کے دوران تانیہ بھی آ گئی اسکا رنگ اڑا ہوا تھا اور وہ منت کرتے ہوے بولی آپ میری پہلے بات سن لیں پلیز۔۔میں نے روکھے انداز میں کہا جی جی سننےکے لیے بلایا ہے شروع ہو جا۔۔

اور اگر ایک لفظ بھی جھوٹ بولا تو میں وہ کرونگا جو تم سوچا نا ہوگا۔۔ میرے بلند لہجےسے وہ روہانسی ہو کر بولی مجھے ککھ پتہ نہیں تھا۔۔اسکے دوست آئےہوے تھے وہ اٹک اٹک کر بول رہی تھی میرا اسکے ساتھ دوستانہ پچھلے سال ہوا۔۔ اسے بھی دی ہے میں نے ٹوکا ننن نہیں بس تھوڑا سا۔۔اچھا پھر باتوں میں تمہارا ذکر چھڑا ریس سے پہلے میں نے بتایا کہ میرے ایریا کا ہی ۔۔ اللہ قسم مجھے تھا اس نے تمہارےساتھ بس بات کرنی اسے کچھ پوچھنا تھا تم سے ۔۔میں یہی پتہ کرنے کے لیے پوچھا تھا مجھے اس سے آگے کچھ نہیں پتہ وہ جانے کیا کیا قسمیں کھاتی رہی۔۔ میں نےاندازہ لگایا واقعی اسےنہیں پتہ تھا ورنہ وہ ایسا جان بوجھ کر نا کرتی۔۔میں نےکہا چلو جو ہو گیا سو ہو گیا اس معاملے کو ختم سمجھو اس نے سکھ کا سانس لیا اور بولی وہ ویڈیو۔۔ میں نے کہا وہ سیو رہے گی مجھے تم سے کچھ نہیں لینا دینا ناصر کومنا لو تم کہتے وہاں سے نکل آیا۔۔تانیہ چوٹ کھائی ناگن تھی اس سےبچنا بہتر تھا کیاپتہ خود چدوا کر بعد میں زیادتی کا الزام لگا دیتی۔۔ میں باہر جا کر لان میں ٹہلنے لگا۔۔ کچھ آدھ گھنٹہ بعد ناصر ہشاش بشاش باہر نکلا اور بولا واہ گرو آج سہی مزہ آیا اسے جھوٹا وعدہ کیا کہ ویڈیو اگلی ملاقات پر لوٹا دوں گا۔۔ خود ہاتھ سے پکڑ کر اندر ڈالااس نے اسکی خوشی بنتی تھی۔۔میں نے کہا چلو کر لو ایک آدھ بار اور اس معاملے کو ختم کرو بس۔۔ اور یہ تانیہ کدھر رہ گئی۔۔بلا رہی آپکو کہتی بات کرنی ۔۔ آپ لوگ باتیں کرو میں تو جا رہا بہت دیر ہوگئی۔۔ناصر کے جانے کے بعد میں اندر گیا تو وہ لاونج میں ہی بیٹھی تھی۔ہاں جی بولومیں نے اسےکہا۔۔وہ ایک ادا سے چلتی ہوئی میرےپاس آئی اور بولی بہت سخت ہوتم ۔۔خود تو پوچھا ہی نہیں ناصر کو مجھ پر سوار کرا دیا تم نے۔۔ تمہیں خود شوق تھا اس سے پنگا لیا وہ کھسیا گئی اور بولی چلو تم بھی تو ملونا تھوڑا مزہ بھی تو آے نا۔۔ ناصر مجھےپورا نہیں کیا۔۔میرا دل ایکبار دھڑکا لیکن مجھے جو خدشہ تھا اس نے روک لیا اور میں نے بہانہ بنا کر اسے ٹال دیا۔۔میں کھانا کھا وغیرہ کھا کر لیٹنے کی تیاریوں میں تھا جب ایکبارپھر بیل بجی ۔۔ میرے اٹھنے تک ایکبار پھر بیل بجی میں تیز قدموں سے باہر گیا اور روزی کو دیکھ کر حیران رہ گیا ۔۔ اسکا چہرہ کافی پریشان لگ رہا تھا

میں نے پوچھا کیا ہوا وہ تو روہانسی بولی اماں کی طبیعت بہت خراب ہے یار ۔۔ مجھے جانا ہے تم مجھےپلیز گاڑی پر بٹھا آو گے میں نےکہا کیوں نہیں یار تم تیار ہو فورا میں جیکٹ پہن کر آتا۔۔ چند منٹ کے بعد میں نے بائیک نکالی تو اتنی دیر میں روزی ایک چھوٹا سا بیگ اٹھاے نیچے اتری۔۔ رات کےساڑھے نو کے آس پاس میں نے اسے قصور والی گاڑی پر بٹھایا۔۔ وہیں اس نے بوتھ سے فون کر کے اپنے انکل کو گاڑی کا وقت بتایا۔۔ اس نے میرا بہت شکریہ ادا کیا اور جب میں واپس پلٹنے لگا تو اس نے پھر بلایا اور سرگوشی میں بولی سارہ کو بھی ڈر لگتا ہے اکیلے تم جا کر اس سے پوچھ لینا شائد اسے بھی تھپکی کی ضرورت ہو میں چونکا تو وہ پھر کہنے لگی بس ذرا سی ہمت کرنی ہوگی سمجھے اور میرے لہو میں جیسے پھر سے مستی چھانے لگی۔۔میں گنگناتا بائیک بھگاتا واپسی کو روانہ ہوا۔۔اور سیدھا گھر ۔۔ بائیک روکی ہی تھی ابھی کہ سارہ گیلری پر نمودار ہوئی اور پوچھنے لگی ۔۔ میں نے کہا ذرا رکو بائیک اندر کر کے بتاتا آرام سے اور بائیک اندر لیجا کر دروازے کو بند کرتا اوپر انکے دروازے کو ناک کیا۔۔ اس نے ہلکا سا دروازہ کھولا جی بولیں اسکا انداز قدرے روٹھا ہوا تھا۔۔جی بٹھا آیا ہوں روزی کو یہ بتانا تھا۔۔ بتا دیا اب جاو تم ۔۔ مجھے دھچکا سا لگا کہ اسے کیاہوا۔۔میں نے کہا چائے پلا دو پلیزاتنی ٹھنڈ میں آیا۔۔ جی نہیں جاو اسی سے پیو چاےجو شام کو آئی ہوئی تھی۔۔اوہ وہ تو ناصر کا پوچھنے آئی تھی میں تو خود تھپکیوں کی تلاش میں اسکا چہرہ شرمایا اور کہتی آ جاو کیا یاد کرو گے چائے پلاتی تمہیں ۔۔ میں اندر جا کر صوفے پر بیٹھ گیا۔۔سامنے ہی چھوٹا سااوپن کچن تھا

وہ میری طرف کمر کیے چائے بنا رہی تھی جبکہ میری نظر اسکی کمر اور جسم کا جائزہ لے رہی تھی اسکاسراپا بھی لشش تھا۔ تانیہ سے ملتا جلتا بلکل جوان سا۔۔پکے پھل کی طرح للچاتا ہوا۔اسے شائدمیرے گھورنے کا احساس ہوا اس نے پلٹ کر دیکھا ہماری آنکھیں ملیں اور اس نے جلدی سےپھر واپس منہ چائے کو گھما لیا۔اور دو کپ اٹھاے واپس پلٹی۔۔دونوں چپ چاپ چائے پینے لگے۔میں نے پھر کہا سچی وہ ناصر سے ملنے آئی تھی میری تو کوئی گرل فرینڈ ہی نہیں اسکا چہرہ ہلکا چمکا اور بولی اچھا جی مان لیا۔۔ ایک خاموشی طاری تھی جیسے دونوں بولنے کو جھجھک رہے ہوں اور بولنا بھی چاہیں۔۔کچھ دیر بعد وہ بولیں تمہیں واقعی ڈر لگتاہے میں نے سر جھکایا اور بولا تمہیں نہیں لگتا کیا آج تو تم بھی اکیلی وہ جیسے کانپی اور بولیں ہاے میں تو کب کی ڈری ہوئی جب تک تم نہیں آئے میں گیلری میں ہی رہی ۔۔تو پھر کیسے رہو گی وہ کچھ نا بولی بس انگلیاں مروڑنے لگی۔۔ میں اٹھا اور بولا چلو میں چلتا ہوں۔۔ تمہیں کچھ مسلہ ہوا تو آواز دے لینا میں لاونج میں ہی سوتا ہوں ۔۔ میں اسکے اگلے لائحہ عمل کو سوچتا باہر نکلا اور سیڑھیاں اترتا اپنے گیٹ تک پہنچا گیٹ پر جا کر اوپر دیکھا وہ گیلری میں ہی کھڑی تھی دو لمحے نظریں ملیں میں دروازہ کھول کر اندر جانے لگا ہی تھا کہ اس کی آواز آئی نعیم میں پلٹا اور اشارے سے پوچھا کیا ۔۔ وہ بولی ڈر لگتا ہے ۔۔میں ادھر آ جاوں تم لاونج میں سوتے نا میں اندر کمرے میں سو جاوں گی پلیز۔۔ میں مسکرایا اور اسے آنے کا اشارہ کیا۔۔کچھ دیر بعد ہم دونوں لاونج میں تھے۔۔میں نے اسکو کمرے میں بستر سیٹ کر کے دیا اور خود کارپٹ پر ڈبل میٹرس بچھا کر لیٹ گیا۔۔اور سوچنے لگا آگے کیا کریں ۔۔روزی کا انتظار یا خود سے کوشش جیسا کہ روزی نے خود بتایا بس ہمت کرنی تھی لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ جلدبازی میں کام بگاڑ لوں۔۔لاونج میں ہلکی روشنی تھی میں یہی سوچ رہا تھا جب دیوار پر سایہ سا لہرایا میں نے اٹھکر دیکھا تو کمرے کے دروازہ میں سارہ کھڑی تھی۔کیا ہوا وہ سرگوشی میں بولی وہ چھت پر چھپکلی ہےمجھ سے نہیں سویا جاتا۔۔ تو تم یہاں آ جاو میں اندر چلا جاتا۔۔۔وہ۔چلتی آئی اور بولی میں یہاں صوفہ پرلیٹ جاتی نا۔وہ کچھ فاصلے پر صوفہ پر لیٹ گئی اور میں اس کی طرف منہ کرکے ۔۔ کچھ دیر بعد وہ بولی تمہاری واقعی کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے ۔۔سچی میں نے گردن کو چھوتے ہوے کہا اور تمہارا بوائے فرینڈ ہے میں نے پوچھا وہ شرما کر بولی نہیں تو۔۔آہستہ آہستہ میں نے بات کو گھمانا شروع کیا اور اسے کہا ایک لڑکی ہے میری نظر میں جسے گرل فرینڈ بنانے کا دل لیکن ڈرتا ہوں کیا پتہ وہ ناراض ہو جاے۔۔کون ہے بتاو تو شائد نا ناراض ہو۔۔ میں کچھ دیر رکا اور کہا صوفہ پر سردی میں جو لیٹی ہے اور اسکا ری ایکشن دیکھنے لگا ۔وہ کچھ دیر سمجھی پھر شرم سے سرخ ہو کر بولی کون میں۔۔ہاں تم میں نے چند ڈائیلاگ مارے اور کہا بتاو نا بنو گی گرل فرینڈ اور ہاتھ بڑھایا۔۔وہ چپ رہی میں نے خاموشی کو رضامندی سمجھ کر اسکا ہاتھ تھاما اور کہا بولو نا۔۔ وہ بولی مجھے سردی لگ رہی کمبل دیا نہیں اور گرل فرینڈ بناتے ہو ۔۔ میں ہنسا اور تھوڑا کھسک کر کہا آ جاو نا وہ شرماتی ہوئی میرے ساتھ آ بیٹھی ۔۔ میں نے اور جگہ بنائی اور کہاآو لیٹ جاو نا ۔۔ میری تو تم گرلفرینڈ نا بےشک میں تمہارا نا سہی ۔۔

وہ کمبل میں منہ چھپا کر بولی بنایا ہے تو ساتھ آئی نا ورنہ تھوڑی آتی۔۔ افففف میں اس پر جھکا اور کہا ہاے سچی اس نے اندر سے ہی جواب دیا ہمممم ۔۔ منہ تو باہر نکالو نانانا اس نے سر نفی میں ہلایا اچھا نا سہی میں نے کمبل کھینچا اور اسکے ساتھ لیٹ کر کمبل منہ تک اوڑھ لیا کمبل کے اندر ہم دو۔۔ ہماری سانسیں ۔۔ میں نے کہا پتہ ہے میں کب سے سوچ رہا تھا کیسے ہمت کروں ڈر لگتا تھا۔۔ میں ڈائیلاگ مارتا مارتا اچانک بولا تھپکی تو دو نا اب وہ شرمائی اور میرےساتھ لگ کر میری کمر کو سہلانے لگ گئی۔۔میں ساتھ لگا اور میرے ہونٹ اسکے چہرے سے ٹکرائے اور میں نے سرگوشی کی کنجوس گرل فرینڈ کس تو دو نا۔۔ ہاے اللہ وہ شرمائی لیکن اب مجھے کون روکتا۔۔ میں اسکے گالوں کے ساتھ گال رگڑتا ہوا اسکے رخساروں کو لبوں سے چھوا۔۔ افففف جیسے ہی میرے ہونٹ اور رخسار اسکے چہرے سے ٹکرائے اس نے تیز جھرجھری سی لی۔۔ کنواری جوانی پہ آوارہ کا پہلا لمس تڑپا ہی گیا اسے۔۔میں اسکی کمر کو ہلکا ہلکا سہلاتا جاتا اور ساتھ اسکے چہرے کو ہونٹوں کو آہستگی سے چومتا گیا۔۔ وہ بلکل میرے ساتھ چمٹی ہوئی تھی اسکی سانسیں تیز ہو رہیں تھیں جوانی کی ہنڈیا کے نیچے جذبوں کی آگ جل چکی تھی۔سارہ جانو میں نے سرگوشی کی ۔۔۔اپنی زبان نکالو نا۔۔ اس نے موندی آنکھیں کھولیں ۔۔اففف اسکی آنکھیں سرخ بوجھل ہو رہیں تھیں۔۔ اس نے اپنی زبان کو باہر نکالا ۔۔میرے پیاسے ہونٹ کھلے اور میں نے زبان کو ہونٹوں میں لیکر جب قلفی کی طرح چوسا تو وہ جیسے پھڑک اٹھی اسکے ہاتھ میری کمر پر جم گئے ۔۔ انگلیاں اور ناخن کھب گئے۔میں صدیوں کے پیاسوں کی طرح اسکی زبان اور ہونٹ چوستا جا رہاتھا۔۔ اب اس نے بھی میرے ہونٹوں کو دبانا شروع کیا ۔۔ دونوں جیسے تیز طوفان میں تھے۔۔ میں نےہاتھ کمر پر پھیرتے ہوئے اچانک سے اسکی ننگی کمر پر جالگاے اففف جیسے ہی اسکی ریشمی کمر پر میرے ہاتھ لگے اسکی سسکاری نکلی ۔۔روزی کو دیکھ دیکھ کر اس کے اندر جیسے ایک طوفان تھا جو پھٹنے کےلیے بےتاب تھا اور اب یہ رات اور اسکا طوفان مجھے سنبھالنا تھا اور میرا لن اٹھ اٹھ کر اپنی تیاریاں بتا رہا تھا

اسکا لرزتا جسم اور گہری سانسیں مجھے اکسا رہیں تھیں کہ فتح کر لو یہ کنوارا بدن۔۔ میں اوپر کو کھسکا اور اسکی گردن اور کان کی لو کو چوستا ہوا ہاتھ اسکی کمر سے پیٹ تک لاتا ہوا آگ اور بھڑکاتا گیا۔۔میرے ہاتھ کھسکتے ہوے اسکی شرٹ کو اوپر کرتے برا تک آئے ۔۔اور دوسرے ہی لمحے برا کو روندتے ہاتھ سیدھے اسکے بوبز پر اور میں نے شدت سے بوبز کو دبایا۔ اسکے منہ سے ایک سریلی سی نکلی ہاتھ کچھ سخت ہوگیا تھا۔۔میں نے نرمی سے اسکے نپلز کو سہلانا شروع کیا اسکی گویا جان نکل رہی تھی اسکی گہری سسکیاں اور آوازیں۔۔میں بازووں کے زور اوپر ہوا اور شرٹ کو اوپرکرتا اچانک سے اسکے بوبز کو لپس سے چھوا ۔۔یہ گویا تیز کرنٹ تھا اسکا بدن اچھلا ۔۔ ناااا کر نعععععیم کککچھ ہو رہا مجھے ۔۔میں کہا رکنا تھا میں نے بوبز کو ہاتھوں میں پکڑ کر آم کی طرح چوسنا شروع کر دیا وہ مکمل مدہوش تھی میرے ہونٹ بوبز گردن سے پیٹ تک سفر کرتے اسکا جسم سکڑتا سمٹتا تڑپتا ۔میرے ہاتھ کھسکتے ہوئے جیسے ہی ٹراوزر کے اندر گھسے اس نے ایک تیز سسکی لی اور پھر بولی نننننعیم میری جان نکل رہی یہ کیا ہو رہا ۔۔ اس نے ٹانگوں کو بند کیا اور بسسس نا نعیم بشش نا۔۔ وہ۔مدہوش بول رہی تھی اچھا نا کرتا بس میں نے اسکے نپلز کوپھر سے چوسنا شروع کیا۔۔ اسکا دھیان بہکا اور وہ۔پھر سے سسکیاں لیے لگی میں نے اسبار اچانک ہاتھ تیزی سے نیچے کیا اور میری ہتھیلی اسکی پھدی کے ہلکے بالوں کو رگڑتی انکی چھبن محسوس کرتی سیدھا پھدی پر اور میں نے ہاتھ کو مٹھی بنا کر جیسے ہی پھدی کو دبایا اسکی ایک تیز آہ نکلی اس نے رانوں کو پھر سے دبایا لیکن اب ہاتھ جم چکا تھا۔۔ میں نے ہاتھ کا مساج جاری رکھا۔۔اچانک اسکا جسم تیزی سے کانپا اور اسکی کراہ کے ساتھ مست سرگوشی بلند ہوئی نننعیمم مجھے کککککچھ ہو رہا آاااہ اس نے ٹانگیں زور سے دبائیں اور اسکی پھدی میرے ہتھیلی کے نیچے جیسے پھڑکنے لگی اور جسم کے جھٹکوں کے ساتھ اسکی پھدی نے ڈسچارج ہونا شروع کر دیا۔۔اوہ شٹ میں بھول گیا تھا کہ کنواری کوپہلا لمس جلدی منزل تک پہنچا دے گا۔۔جیسے ہی وہ ڈسچارج ہوئی وہ کچھ دیر نیم مدہوش پڑی رہی میں ہلکا سا اوپر ہوا اور آہستگی سے اسکے گالوں کو چومتا اپنی شلوار اتار دی ۔۔ لن تڑپ کر باہر نکلا۔۔میں نے اسکا ہاتھ پکڑا اور بھپھرے لن پر جا رکھا۔۔ جیسے ہی اسکا ہاتھ لن پر لگا اس نے تڑپ کر آنکھیں کھولیں اور پھر شرما کر بند کرلیں ۔۔بسسس نا اب۔۔ میں نے اسکا ہاتھ سے لن کو دبایا اور کہا کیسا لگا میری گرل فرینڈ کو۔۔مجھے نہیں پتہ کہتی وہ جلدی سے اٹھی اور واش روم کوچلی گئی۔۔ اور میں کھڑے لن کے ساتھ انتظار کرتا رہ گیا

پانچ دس منٹ بعد وہ دوبارہ شرماتی واپس آئی اور میرے ساتھ لگ کرلیٹ گئی اسکے پسینے اور پرفیوم کی خوشبو مجھے جلا رہی تھی۔۔بتاو نا کیسا لگا جان کو۔۔ بہہہت اچھا بہہت مزہ ۔۔میں نے اسکا ہاتھ لن پر رکھا اور کہا میرا مزہ تو رہتا نا۔۔افففف اسکا ہاتھ کانپا ۔۔ہاااے اللہ کتنا بڑا ہے یہ تو اففففف۔۔۔تم نہیں ہوے اس نے معصومیت سے پوچھا نہیں تو۔۔ کچھ دیرکی ایسی سرگوشیوں کے بعد میں نے اسے پھر چومنا شروع کر دیا اسبار اسکا رسپانس اچھا تھا وہ بند آنکھوں سے لپس کو چوسنے لگی۔۔میں نے ہاتھ پھر سے شلوار میں ڈالا اور انگلی کو پھدی کے اوپر اوپر پھیرنے لگ افففف بسسس نا ۔۔اوہو بس تھوڑا سا نا میں نے ہاتھ کو کھسکاتے ہوے رانوں تک کیا اور رانوں کو مساج کرنے لگا۔۔ اسکی گہری سانسیں پھر سے بہک رہیں تھیں۔۔ہاتھ کو گھماتے میں اسکا ٹراوزر کھسکاتا گیا۔۔وہ مزے سے لن کو سہلا رہی تھی ۔۔آمنے سامنے لیٹے میں نے لن کو اسکی رانوں سے ٹکرایا اور وہ پھرکانپیں۔۔ میں نے اسکی رانوں کو ہلکا کھولا اور اسکی رانوں میں پھدی کےساتھ رگڑ کرواتے ہوے لن کو آگے پیچھے کرنا شروع کیا۔۔ اسکی ٹانگیں بلکل مل چکیں تھیں اور لن کی پھدی پر رگڑ اسکو مدہوش کر رہی تھی۔۔ میں کیپ کوپھدی لپس سے رگڑتا اور آگے کو ہوتا پورالن پھدی سے باہر باہر رگڑ کھاتا اسکے سسکا رہا تھا۔۔ اسکی پھدی تپ کر تندور ہوچکی تھی ۔۔ پھدی پھر سے بھیگ چکی تھی۔۔میں ایسےہی اوپر ہوا اور کمبل کے اندر اور اسکی ٹانگوں کو ہلکا سا کھولا اورانکے درمیان آکر اوپر سے اسکے ہونٹوں کو چومتا لن کو ہاتھ سےپکڑ کر اسکی پھدی لپس کو سہلانے لگا ۔۔۔افففف افففف یہ کیسا نشہ افففف اسیلیےروزی مرتی تھی کاشف پر اففف ۔۔وہ مزے میں گم تھی اب مرحلہ تھاکہ لن کو اندر ڈالا جاے اور یہ کافی احتیاط والا کام تھا۔۔ وہ تانیہ نہیں تھی کہ اس پر غصہ ہو وہ گرل فرینڈ بن کر آئی تھی لیکن درد تو ہونا تھا ۔میں نے جب دیکھا کہ وہ مکمل مست میں نے جھک کر اسکے ہونٹوں کو ہونٹوں میں لیا اور ٹوپےکو پھدی دانےپررگڑتے ہوے تیز کرنٹ دیا اور ہلکا سا پشش کیا۔۔ افففف اسکی پھدی تھی بہت ہی ٹائٹ۔۔لن پھسلا اسکا جسم پھر لرزا۔۔

fkniazi555.blogspot.com

اس نے ہونٹ اللگ کیے اور بولیں جان جیسے پہلے کر رہے تھے نا ویسے کرو نا۔۔کرتا نا ایسے زیادہ مزہ لینا نا میں نے دوبارہ اسکے ہونٹوں کو لپس میں لیا اور اس بار سہی جما کر پش کیا۔۔ میرے ہونٹوں کے اندر اسکی چیخ پھنس سی گئی ۔۔ ٹوپہ اسکی کنواری پھدی کے لبوں کو چیرتا اندر جا پھنسا تھا۔۔ افففف اسکی پھدی اتنی ٹائٹ جتنی ہوسکتی تھی۔۔اسکاجسم لرزا میں کچھ دیر رکا اور اسے سہلایا۔۔اور پھر پس کیا لن تباہی مچاتا تھوڑا اور کھسکا۔۔ وہ میرے نیچے تڑپی مچلی میں نے اگلےپش میں آدھا گھسا دیا جیسے ہی آدھا اسکے اندر گیا اس کے ہونٹ میرےہونٹوں سے پھسلے اور اسکی ایک تیز چیخ پورے لاونج میں گونج اٹھی اووئیءی ماااااں میری۔۔۔میں وہیں رکا رہا وہ کراہتی رہی اور میں اسکو سہلاتا رہا۔۔تھوڑی دیر بعد وہ کچھ نارمل ہوئی میں نے وہیں ہلکا ہلکا موو کرنا شروع کیا اسکی پھدی کی دیواریں جیسےمیرےلن کو جکڑے ہوے تھیں۔۔ اسکی پھدی سے شائد منی شائد خون رس رہا تھا ہلکی روشنی میں اندازہ نہیں کر سکا اسوقت۔۔میں نے لن کو ہلکا سا باہر کھینچا اور دوبارہ اتنا ہی اندر کیا وہ پھر تیز کراہی اوووہ مائی گااااڈ۔اس نے مزے کی باتیں سنیں تھیں شائد اسے کیا پتہ تھا مزے سے پہلے درد ہے۔۔آہستہ آہستہ میں لن کو آدھے تک اندر باہر شروع کر دیا وہ اب بھی کراہ رہی تھی آہستہ آہستہ اسکی کراہوں میں مزہ آنے لگا اب وہ مستی والی سسکیاں بھر رہی تھیں ۔ ااااف اووووئی آااااہ ااااہ کرتی ۔۔ اسکی پھدی کی دیواروں نے لن کو قبول کر لیا تھا۔۔ آاااا یسسسس ااااففففف آاااہ کھل گئی میری آج افففف ۔۔میں اسے رواں کرتا گیا۔لن ٹوپی تک باہر آتا اور آدھا تک جاتا۔۔ اب وہ خود بھی حرکت کر رہی تھی ۔۔میں نے اسکی ٹانگوں کو پھیلایا اور اسکےکان کی لو کو چوسا اور پوچھا سارا مزہ آ رہا نا۔۔ ہممم آااااہ بوہہت افففف ۔۔تو سارہ کر دوں سارا۔۔۔ آاااہ اففف ابھی رہتا ہے کیا اس نے سسک کر پوچھا۔۔ ہممم بس تھوڑا سا۔۔ اووووہ کتنا بڑا ہے ۔۔اتنا بہہہت ہے نا افففف۔۔ جاان ایسے مزہ نہیں آتا نا ۔۔ سارہ کو سارا دینا۔۔ہممم ۔۔آااہا اچھا پھر اچانک سے کر لینا ایکبارہی افففف۔۔ لن کو اشارہ ملا میں تھوڑا اوپر کوہوا اسکےگالوں کو سہلاتے اسکےلبوں پر ہتھیلی کو رگڑا آرام سے اور اسبار آدھے تک آیا اور ایک سیکنڈ رکا ہونٹوں کاسبار ہتھیلی سے ڈھانپا اور فائنل سٹروک مارا۔۔ لن پھدی کوچیرتا

fkniazi555.blogspot.com

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں