منگل، 7 ستمبر، 2021

Meri Kahani Meri Zubani Episode 32


   Meri Kahani Meri Zubani

Episode 32

اگلے دن ناصر آیا تو اسکا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔۔اس نے بتایا کہ عمبرین میری جیت سےبہت خوش ہے اور جلد ہی ملاقات کا وعدہ سنایا ہے۔۔ عمبرین کی ممکنہ ملاقات نے جیسے میرے اندر تازگی بھر دی۔اور ساتھ ہی مجھے یاد آیا کہ مجھے کچھ ایسا کرنا ہے کہ میں اپنے پاوں جلد کھڑا ہو سکوں لیکن کیا ؟ انہی سوچوں کے درمیان ناصر سے ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔۔ میں نے غیر محسوس انداز میں کومل کا ذکر چھیڑا اور اسکی طبیعت کا پوچھا ۔۔ ناصر بتانے لگا کہ بخار اتر گیا ہے لیکن مزاج میں چڑچڑا پن باقی ہے ۔۔ میں نے طریقے سے بات کو اصل موضوع کی طرف لایا اور کافی دیر کی بحث کے بعد اسے اس بات پر قائل کر لیا کہ کومل کو کچھ دنوں کے لیے شوہر کے پاس وزٹ پر بھیجنا چاہیے ۔۔ ناصر تو مجھے گرو مانتا تھا اس نے وعدہ کیا کہ وہ نائلہ سے بات کرے گا
fkniazi555.blogspot.com
ہم انہی باتوں میں مصروف تھے کہ ڈور بیل ہوئی۔۔ناصر بیل سن کر دروازے کوگیا۔آنیوالی بیلا تھی اسنے آتے ہی ہانک لگائی پتہ تھامجھے آرام سے پڑے ہوگے ۔ یہ نہیں ہوا بندہ ٹریٹ ہی دے ۔ ہیں ٹریٹ کیسی میں نے سوال کیا۔۔ لو جی اتنی محنت سے تمہیں ٹریننگ دی بڑے نالائق بندے ہوبھئی۔۔ میں ہنس دیا اور کہا جناب آپ حکم تے کرو ۔۔حکم کرنے ہی آئی ہوں جناب تم مجھے لانگ ڈرائیو پر لیکر جاو گے اور ڈنر بھی کرواو گے ۔۔ میری مجال جو انکار کرتا میں نے کہا کب ۔۔ ہممم کل شام کو ۔۔ڈن ہو گیا صاحب۔۔ لیکن کل شام کیوں آج شام کیا مسلہ میں نے اسے ایویں ہی چھیڑا ۔۔کل شام کی ایک خاص وجہ ہے بدھو ۔۔اور یہ میں نہیں بتاوں گی اس نے میرے تجسس کو ہوا دی۔۔ یہ کیا بات ہے یار جانتی ہو مجھے سسپنس سے شدید الرجی۔۔اس نے الٹا مجھےچڑا کر کہا ہاں اسی لیے تو سسپنس رکھا نا اب سوچتے رہو۔۔اس نے مجھے ٹھینگا دکھایا اور جانےکو اٹھ کھڑی ہوئی۔۔میں کچھ دیر سوچتا رہا اور تنگ آ کر پھر سے ناصر کے ساتھ گپوں میں مصروف ہوگیا۔۔
شام تک ناصر رکا۔۔اسکے جانے کے بعد کچھ دیر میں بور ہوتا رہا اور تنگ آ کر وہیں لاونج میں صوفے پر ٹانگیں جما کر ڈنڈ نکالنے لگ گیا۔۔دن ڈھلنے والاتھا جب میں تھک کر کارپٹ پر لیٹا اور گہرے گہرے سانس لیتا ریسٹ کرنے لگا جانے کتنی دیر لیٹا رہتا جب باہر پھر بیل بجی۔۔ مرتا کیا نا کرتا اٹھا اور دروازہ کھولا سامنے روزی تھی۔۔ہم دونوں کی نگاہیں ملیں۔۔مجھے گزشتہ رات کے سہانے پل یاد آئے مجھ سے ابتک چدنےوالی تمام خواتین میں سے وہ سب سے منفرد تھی ۔۔ جس نے مجھے سکنگ سے آشنا کروایا جس نے بدلے کی آگ میں جسم کو میرے حوالے کیا اور جو پورے مزے کے ساتھ وقت گزارا۔۔ میں انہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا جب اس نے میری آنکھوں کے سامنے چٹکی بجا کر مجھے ہوش کرایا۔۔ اوہ جناب یاد بھی ہے کچھ۔آج آپکی ٹی پارٹی ہے ہماری طرف۔۔ جلدی سے آ جاو بھلکڑ۔۔اسکے یاد دلانے پر مجھے یاد آیا ورنہ میں سچ میں بھول چکا تھا۔۔ کچھ دیر بعد نہا دھو کر میں انکے ساتھ تھا۔سٹوڈیو فلیٹ گو چھوٹا تھا لیکن اسکی سیٹنگ میں سلیقہ تھا۔۔ ایک طرف سٹنگ پورشن بنایا گیا تھا۔۔لوازمات سارے ہی اچھی اور معیاری بیکری کےتھے۔۔ہم تینوں چائے پیتے ہوئے آپسی گپوں میں بزی ہو گئے۔۔ سارہ آج بھی مجھے چپکے چپکے سے تاڑ رہی تھی۔۔چائے پینے کے بعد سارہ بولی کہ اسکے ٹسٹ سٹارٹ ہیں اسلیے وہ لگی ہے پڑھنے۔۔ یہ سن کر میں اٹھنے لگا تو روزی بولو مجھے تم سے کچھ ڈسکس کرنا ہے چلو تمہارے لان میں جا کر بیٹھتے ہیں۔۔وہاں جا کر روزی بتانے لگی کہ اس نے آج کاشف کو فون کیا اور گزشتہ رات کا سارا قصہ نمک مرچ لگا کر ایسے سنایا کہ وہ آپے سے باہر ہوگیا۔سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اس نے مجھے ۔۔ اسکا چہرہ ہلکا پریشان نظر آیا۔میں نے اسے تسلی دی کہ کچھ نہیں ہوگا دفع مارو اسے اور ساتھ ہی طریقے سے ذومعنی انداز میں پوچھا اس سے تو بریک اپ ہو گیا اب کوئی نیا بوائے فرینڈ بناو گی کیا۔۔وہ کھلکھلا کر ہنسی اور بولی کیا پتہ بنالوں لیکن تمہیں نہیں بنانا۔۔ ہاااا کیوں مجھے کیوں نہیں۔۔ اس نےہلکا مسکرا کر کہا میں نے سوچا ہے اب اسے بوائے فرینڈ بنانا جس سے شادی ہو سکے بس اب بہت آزاد پھر لیا ۔۔تم اچھے اسپیشل دوست ہو میرے ۔۔یعنی اب تم مجھے پاس نہیں آنے دینا ۔۔ میں تو کل سے دیوانہ ہوگیا۔۔ وہ کھلکھلا کرپھر ہنسی اور کہا اوے ہوے مجنوں ۔ تمہیں پاس بلا لیں گے نا جب موڈ ہوا۔۔ ابھی کچھ دن ریسٹ کرو۔۔میں نےمنہ بسورتے ہوئے کہا اور میں بنا گرل فرینڈ رہوں کیا ۔۔وہ پھر ہنسی اور بولی تو تم بنا لو نا اسی لڑکی کو جو تمہارے ساتھ اکثر ہوتی ابھی کچھ دیر پہلے بھی تھی۔۔ کون بیلا رہنے دو بھئی ۔۔میں نے ہاتھ جوڑے کیوں اس میں کیا برائی ہے بلکل ینگ ہے اچھی ہے گڈلکنگ ہے ۔۔ یار سب ہے لیکن تم جانتی نا میرا سیکس کیسا وہ مجھے سہ نہیں پاے گی مروانا ہے کیا میں نے بات کو ٹالا اور دوسرا وہ صرف دوست ہے۔۔تم کوئی اور سوچو نا پلیز ۔۔وہ میری بے صبری سے محظوظ ہوتے بولی بات تو تمہاری سچ ہے تمہارا ٹول واقعی اس کی ہمت سے باہر۔۔ یہی نا تو پلیز۔۔ وہ کچھ سوچی اور بولی ایک لڑکی ہے تو سہی ۔۔ اور تمہیں لائیک بھی کرتی ۔۔ کون کون میں نے بےصبری سے پوچھا بتاتی ہوں لیکن ایک شرط ہے۔۔ میں نے پوچھا بولو کونسی شرط۔۔ اس نے کہا تمہیں وعدہ کرنا ہوگا کہ جیسے میں کہوں گی ویسے کرو گے بولو منظور۔۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر کہاوعدہ پکا والا۔۔ وہ سرگوشی میں بولی سارہ۔۔۔ واٹ مجھے جیسے کسی نے لٹھ دے ماری ہو۔۔ یسسسس حیران ہوے نا۔۔میں حیران بھی تھا اور پرجوش بھی۔۔لیکن وہ تو ان میریڈ نا ۔۔ تو کیا ہوا تم نہیں جانتے اسے میں جانتی ہوں۔۔دو سالوں سے میرے ساتھ ہے کاشف اور میرے چکر کو بھی جانتی یہ بھی جانتی ہم سیکس کرتے تھے۔اکھٹے سوتے رہتے ہم۔۔تم نہیں جانتے اوپر سے بہت شرمیلی اور اندر سے پورا سیکس بم ہے وہ۔۔اسکا ہرجملہ مجھے حیران کر رہا تھا۔اسکے آخری دو ماہ ہیں یہاں لاہور۔۔مجھے دیکھ دیکھ کر اسکا بہت دل کرتا تھا کہ اسکا بھی بوائے فرینڈ ہو۔۔میں اسے منع کرتی رہی نظر رکھتی رہی کیونکہ مجھے ڈر تھا وہ کہیں بری جگہ نا پھنس جاے۔۔ تم پہ مجھے اعتماد ہے ۔۔ تم نے جیسے میرا ساتھ دیا۔ جیسے راز رکھا اور اوچھے نہیں بنے ۔ روز ہزاروں بندوں سے ملتی ہو جاب کے دوران ۔بندے کا پتہ چل جاتا مجھے۔۔۔ لیکن میں تمہارے ساتھ بھی اسکے ساتھ بھی۔۔اوہو یار ۔۔ میں تمہاری گرل فرینڈ نہیں ہوں بس ہمارا ضرورت کا رشتہ تھا۔۔تمہیں جیتنا تھا مجھے بدلہ لینا تھا۔۔ہم اچھے دوست بس۔۔ کبھی موقع ملا تو دیکھیں گے دوبارہ ۔ اب تم بتاو ۔۔۔ میں کیا بولتا ایک کنواری لڑکی کسے چودنا پسند نہیں۔۔میں نے کہا اوکے ہوگیا لیکن کیسے۔۔یہ میں بتاوں گی۔۔میرے لن میں ابھی سے ہی نشہ چھانےلگا۔۔وہ اٹھی اور جانےلگی کہ دروازے کے پاس رک کر بولی لو اصل بات بھول گئی۔۔ وہ لڑکی یاد جس سے میں منع کیا تھا ۔۔ جی جی کیوں کیا ہوا۔۔ اس نے اسبار غلط بندے کو چنا ہے۔۔ مطلب۔۔ مطلب یہ کہ شائد تم نہیں جانتے اسکا کالج اور کاشف کا کالج ایک ہی ہے۔۔ آجکل کاشف اسکے نخرے اٹھا رہا۔۔لیکن اسے نہیں پتہ کہ یہاں کام بس بوبز دبوانے تک نہیں ہونا۔۔ نخروں کے بعد ٹانگیں بھی لازمی اٹھاے گا کاشف۔۔ہاہاہا میں زور سے ہنسا اورکہا کاشف یہاں بھی ہار گیا۔۔اسکی ٹانگیں میں تمہاری مخبری کے بعد کب کی اٹھا چکا۔۔ وااٹ اسکی آنکھیں حیرت سے پھٹیں اور بولی امیزنگ یار پھر۔۔ پھر کیا تم جانتی تو میرا ٹول کیسا۔ تباہی مچا دی اسکی۔۔۔ ہاہاہاہاہا تم بہت تیز ہو میسنے ۔۔ سچی اچھا لگا ہاہاہا ۔۔ بس تم تیار رہو جلد ہی تمہاری اور سارہ کی ترتیب بناتی
اگلا دن کالج کا روٹین دن تھا۔پندرہ بیس دن بعد پورا دن پڑھنا پڑا 😐 اور اس سے وڈا دکھ کہ پروفیسرز اور طالبعلموں سے مبارکاں تو میں اکیلے ہی وصول کیں لیکن جب کچھ لڑکیوں نے مجھے مبارک دینی چاہی اور میں تو ترسا ہوا تھا ایسے موقع کا ۔۔ عین موقع پر بیلا ٹپک جاتی اور ایسے مبارک آگے ہو کر خود وصول کرتی کہ اگلی بندی کو اندازہ ہو جاتا زنانہ حس۔۔الٹا ایوارڈ وہ خود کو دیتی کہ یہ اسکی گوہر شناس نظروں اور سخت ٹریننگ کا کمال ۔۔مجھے آہستہ آہستہ اسکے اندر کچھ تبدیلی محسوس ہو رہی تھی لیکن کیا اسکی مجھے اسوقت سمجھ نا آئی شام کو آئی ۔۔اس دن کالج کے بعد وہ مجھے کھینچتی جینٹس سیلون لے گئی۔۔ وہاں ایک کھسرا ٹائپ فیشنی سا منڈا تھا بیلا نے اسے کچھ بتایا اور۔۔ اس نے جانے کیا کیا الم غلم میرے منہ پر ملا۔ میں نے کچھ سوالات کرنے کی کوشش کی مگر میرا حال اس بچے کی طرح تھا جسکے ساتھ اسکا سخت چاچا ہو۔۔ جانے کیوں وہ مجھ پر شروع سے حق جتاتی تھی اور میں جو مزاجا ضدی اور اکھڑ تھا اسکی بات مان جایا کرتا تھا شائد یہ کمال کا دوستانہ تھا۔اس دوران وہ کچھ دیر کے لیے باہر گئی اور واپسی پر کچھ شاپرز اٹھائے عقب میں دھرے لیدر صوفوں پر بیٹھ کہ میگزینز پڑھنےلگی۔۔ کوئی دو گھنٹے بعد میری جان چھوٹی اور جب میں نے آئینے میں خود کو دیکھا تو ششدر رہ گیا میں بلکل فیشنی منڈا بن چکا تھا۔۔ رنگ اور صحت تو تھی ہی اچھی ۔باقی کسر سیلون نے پوری کر دی۔بالوں کا سٹائل بدل چکا تھا چہرہ چمک رہا تھا۔ اسکے بعد بیلا نے وہیں ڈریسنگ روم میں مجھے دھیکلا اور جو شاپرز وہ باہر سے لائی تھی مجھے تھمائے ۔۔ نیو جینز شرٹ اور شوز کے بعد جب پھر جائزہ لیا تو ڈریسنگ نے میری شخصیت کو اور نکھار دیا تھا۔۔ اب میری لک ایسی ہوگئی تھی کہ جو لڑکی بھی دیکھتی ایکبار دوبارہ ضرور دیکھتی۔ اس نے کچھ دیر میرا ناقدانہ جائزہ لیا اور سمائل دیکر بولی یسسس یہ چینج۔۔میں اسکے اس خلوص پر دل سے خوش ہوا وہاں سے مجھے گھر چھوڑا اور بولی شام کو یاد رکھنا تم نےمجھے ڈنر لیجانا۔۔ ہیں وہ تو فائنل ہونا تھا نا ابھی ۔۔ تو کر رہی نا فائنل اس نے باس کےانداز میں کہا۔۔ اور وہ کونسی چیز تھی جسکی وجہ سے تم رات کو نہیں بتایا ۔۔ یہ تمہاری تیاری شیاری ۔۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ ہم جلدی فری ہو جائیں گے۔ اب ڈنر کراو گے مجھے تو ایسے پینڈو شکل میں لیجاتے کیا۔۔ میں نے تنک کر کہا تو ہوں پینڈو تم کسی شہری منڈے کو لےجاو۔میں نہیں لیجانا جاو۔۔ اس نے فورا انگلی میری طرف کی اور کہا بیلا ہوں میں ہر ایک ساتھ نہیں کرتی ڈنر میں۔۔ تم دوست ہو میرے پکے والے آخری والے۔۔آئندہ یہ نا کہنا اور رہی بات نہ لیجانے کی تو میں تمہاری ایسی کی تیسی مار دونگی سمجھے تم۔۔ ریڈی رہنا بھاری بٹوے کے ساتھ سمجھے ۔۔ جی بہتر میں نے مجبورا کندھے اچکاے۔۔ گڈ بوائے اس نے مجھے چڑایا اور چلی گئی
کچھ دیر بعد ناصر آیا اور میری شکل دیکھ کر حیران رہ گیا ۔میرے ارد گرد گھوم کر میرا جائزہ لیا اور بولا واہ نعیم بھائی کیا بات ہے۔۔ آپ تو بلکل پہچانے ہی نہیں جا رہے۔ اور ساتھ ہی بولا آپکے لیے ایک گڈ نیوز ہے۔۔میں نے کہا وہ کیا۔۔کل آپکی حاضری ہے نائلہ گھر عمبرین آئے گی۔۔ ہااے سرکار کے پاس حاضری میرے رگ و پے میں جیسے تازگی بھر گئی۔۔موڈ ایکدم فریش ہو گیا جیسے میں کھل اٹھا ہوں
موڈ تو میرا کھل ہی چکاتھا سو شام کو میں پورے دل سے تیار ہوا ۔۔ساڑھے چھ بجے کے آس پاس میں نے بائیک نکالی اور جینز شرٹ کے اوپر گرم چادر اوڑھ کر بیلا کے گھر ۔۔ کچھ دیر انتظار کے بعد جب وہ واپس آئی تو مجھے بلکل ویسے ہی جھٹکا لگا جیسے دن میں اپنی شکل دیکھ کر لگا تھا۔۔ وہ بھی پارلر سے ہو کر آئی تھی شائد ۔۔ چوڑی دار پجامے والے سوپر فٹنگ والے کپڑے پہنے کندھوں تک آتے بالوں کے ساتھ وہ سولہ سترہ سال کی لڑکی پٹاکہ لگ رہی تھی۔۔ میرے ایسے گھور کر دیکھنے سے اسکا چہرہ چمکا اور بولی کیسی لگ رہی میں۔۔میں نے دل کھول کر تعریف کی اور ہم دونوں باہر آگئے۔۔ بائیک سٹارٹ کی تو آج خلاف توقع وہ آرام سے لڑکیوں کی طرح ایک سائیڈ ٹانگیں کر کے بیٹھ گئی۔۔ واووو تبدیلیاں میں نے اسے چھیڑا ہاں اس نے میری کمر پر مکا مارتے ہوئے کہا ہاں اب میں پوری والی لڑکی بن گئی ہوں۔۔ ادھر ادھر گھماتے جگہ ڈھونڈتے اور ہر بار بیلا کی ریجیکشن کے بعد کوئی ساڑھے آٹھ بجے ہم ایک اوپن ائیر باربی کیو سلیکٹ کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے ۔۔ یہ ایک وسیع اوپن ائیریا تھا جہاں وقفے وقفے پر ٹیبلز اور کرسیاں دھری تھیں۔ درمیان میں لکڑی کی انگھیٹیاں اور آس پاس سامنے ہی باربی کیو کی تیاریاں کرتا عملہ ۔۔ فضا میں سردیوں کی رات کی ٹھنڈک۔انگھیٹیوں کی آتی تپش اور باربی کیو کی مہک ۔۔جیسے ہی ہم اندر کو جانے لگے میں نے نوٹ کیا کہ بیلا میرے بازو کو ادا سے پکڑ کر میرے ساتھ لگ کر چلنے لگی کافی لوگوں نے بڑے غور سے ہمیں دیکھا ۔۔ سب کو یہی لگا ہو گا میں کسی ٹین ایجر کو پٹا لر لایا۔۔فٹنگ والے کپڑوں میں اسکا نوخیز سینہ اپنی سی قیامت ڈھا رہا تھا۔ میں نے آج پہلی بار اسکا جائزہ لیا وہ واقعی بہت پیاری تھی ہاں میری بس دوست تھی نا اس سے محبت تھی نا ہوس بس دوستانہ تھا۔۔ عمبرین محبت یہ دوست اور باقی سب ہوس ہی تھی۔ڈنر کے بعد ہم پھر کافی دیر ادھر ادھر گھومتے رہے۔۔ اب موٹر سائیکل پر اسے سردی لگ رہی تھی۔۔ وہ میرے ساتھ لگی جا رہی تھی۔۔میں اسکی حالت پر ہنسا تو وہ تنک کر بولی مجھے سردی لگ رہی تم ہنس رہے ۔۔تو پہن لیتی نا جرسی چادر لیکن نا جی پھر سوٹ کون دیکھتا میں نے اسے شرارت سے چھیڑا۔اب کیا ہو سکتا۔وہ کچھ دیر سوچ کر بولی ہو سکتا ہے نا تم بائیک روکو ابھی میں نے بائیک روکی تو وہ نیچے اتر کر بولی اپنی چادر دو۔ میں نے کہا واہ بھئی تو میں کیا لوں پھر اوہو دو تو اس نے مجھ سے چادرلی اور اسبار لڑکوں کی طرح بیٹھ کر میرے ساتھ چپک کر چادر کو ہ دونوں پر اوڑھ لیا۔۔ اب ہم دونوں کندھوں تک چادر میں تھے ۔۔اس نے چادر کو لیکر اپنے ہاتھ میرے سینے کے گرد لپیٹے تو میں بھی سینے تک چادر میں آیا۔۔ دو چار سیکنڈ کے بعد ہی مجھے حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔۔میں نے بولا بیلا ایسے مناسب نہیں لگتا ایویں کوئی دیکھ لیا تو ۔۔ تم چادر لے لو اور واپس لڑکی ہو کر بیٹھو۔۔ وہ میرے کندھے کے اوپر ٹھوڑی رکھ کر بولی پولیس کی تم فکر نا کرو میرے پاس اسکا حل ہے ۔کیا حل ۔ بس ہے نا تم جانتے تو میں جگاڑ نکال لیتی۔یار پھر بھی لوگ دیکھیں گے تو انہیں لگے گا ہم ڈیٹ پر آیا کپل۔۔ تو سمجھ لیں ہم ڈیٹ پر ای اوکے اب چپ اس نے دوبارہ سے میرے شانے پر سر رکھ لیا۔۔اسکے بتیس نمبر میری کمر کے ساتھ رگڑ کھا رہے تھے اس نے مجھے بلکل عقب سے مجھے گلے لگا رکھا تھا اور اسکی ٹانگیں میری ٹانگوں کے ساتھ لگی ہوئی۔۔میرے جسم میں شرارہ دوڑا۔۔ عجیب مصیبت تھی نا میں اسے عام لڑکی کی طرح چود سکتا تھا اور نا ہی اس نظر سے دیکھا تھا لیکن یہ اسکے جسم کا حدت بھرا لمس ۔۔ پتہ ہے یہ رات بہت خوبصورت ہے آج میں بہت خوش ہوں۔تمہارے ساتھ میں بہت ایزی رہتی ہوں یار پتہ نہیں کیوں۔ اچانک مجھے لگا میرے سینے پر اسکا ہاتھ ہلکا ہلکا مساج سا کر رہا۔۔ میں سوچنے لگا یہ کیا ہو رہا ہے میں اسکا مزاج شناس تھا مجھے علم تھا وہ بہت ضدی کھلاڑی جو پورے جوش سے آخری سانس تک لڑتا۔۔ اسکی مجھ میں بڑھتی ہوئی پرجوش دلچسپی۔ ایسے لڑکی بن جانامجھے چینج کرنا اور اب اس وقت۔۔وہ بلکل وہ کر رہی تھی جو ایک عام لڑکی کسی ڈیٹ پر کرتی ہے تھوڑا سا ٹچ تھوڑا سا لاڈ۔۔ لیکن میں کب اسے لڑکی سمجھ کردیکھا تھا۔ میں نے بائیک کی سپیڈ بڑھائی ۔۔ اوہو کیا جلدی ہے یار ہوا بہت تیز آرام سے چلو۔ لیکن میں ان سنی کر دی میں نہیں چاہتا تھا کہ اسکا ایسا لمس مجھے بہکا دے میرے اندر کے آوارہ کو جگا دے وہ جاگ جاتا تو بیلا کی واٹ لگ جانی تھی ۔۔صرف ٹوپے نے ہی چیر دینا تھا سب کچھ وہ ابھی نوخیز سی کلی تھی بھلے عمر زیادہ تھی۔سردی کا بہانا کر کے وہ اور ساتھ چمٹی اففففف وہ کچھ منٹ بہت مشکل تھے ۔۔ اسے شائد اندازہ نہیں تھا وہ بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے۔ سپیڈاں مارتے میں اسکے گھر کے سامنے جا بائیک روکی۔۔وہ آرام سے اتری اور میرے سامنے آکر مجھے چادر پکڑاتے ہوے بولی آج بہت مزہ آیا سچی تم بہت اچھے ہو اسکی آنکھوں میں ہلکی نشیلی سی چمک تھی ۔۔آج تو لگا جیسے واقعی ڈیٹ ماری ہو ۔۔میں ہنسا اور کہا تمہارےساتھ میری ڈیٹ کیسے ہو سکتی بیلا۔۔کیوں نہیں ہو سکتی دونوں ینگ ہیں کلاس فیلو ہیں اس نے میری بولتی بند کر دی۔ وہ اسلیے کیوں کہ میں تمہیں بس دوست سمجھا کبھی لڑکی بن کر دیکھا نہیں۔۔اس نے ایک سمائل دی اور بولی تو دیکھ لینا منع کس نے کیا ہے ۔۔ اسکا انداز جارحانہ تھا وہی انداز جس سے وہ کورٹ میں مخالف کے چھکے چھڑا دیا کرتی تھی۔۔
گھر آ کر میں کافی دیر اسکے رویے میں بدلاو کے بارے سوچتارہا۔۔اسکو طریقے سے سمجھانا ضروری ہوگیا تھا۔۔اگلی صبح میں بیلا سے تھوڑا چپ رہا ۔۔اس نےایک دو بار کوشش کی کہ فرینک ہو لیکن میں لیے دیےرہا۔شام تک ناصر بھی آ گیا اور ہم بائیک نکال کر عمبرین کے گھر کو چل دے ۔۔اپنی گلی کی نکڑ تک پہنچے تھے کہ سامنے سےآتی تانیہ نظر آئی ۔اس نے رکنےکا اشادہ کیا اور پوچھنے لگی کدھر جا رہے اس سےپہلے کہ میں کچھ بولتا ناصر بولا تاجپورے ۔۔ کیوں تم کہتی ہو تو میں رک جاتا ہوں ۔۔ نہیں نہیں تم جاو میں تو ویسے ہی پوچھا ۔میں نے شکر کیا اور سپیڈ و سپیڈ ۔۔۔ جب ہم نائلہ گھر پہنچےتو پہلے ناصر آگے گیا کچھ دیربعد اس نے اوپری منزل سے مجھے لگائی ۔۔۔میں جب اوپر گیا تو سامنے ہی وہ کھڑا تھا اس نے مجھے روم میں جانے کا اشارہ کیا اور خود واش روم کو ہو لیا۔۔ میں جیسے ہی اندر داخل ہوا سامنے نائلہ تھی ۔ واووو اس نے ہونٹ گول کر کے واوو کیا۔۔ بھئی کون ہو تم ہیرو۔۔ انہوں نےمیرے چینج پر خوشی کا اظہار کیا۔۔ واااہ یار تم تو بہت ہینڈ سم ہو۔۔میں جھینپ گیا۔۔ بیٹھو عمبرین تو ابھی آئی نہیں ۔۔ میرا دل اچانک سے اداس ہو گیا۔۔ کچھ دیر بعد نائلہ اور ناصر دونوں آگئے ۔۔ نائلہ چائے لا چکی تھی۔۔ وقت گزر رہا تھا اور میرے اندرجیسے شدت سی اداسی۔ اؤر سنائیں میاں کیسے میں نے دھیان بدلنے کے لیے بات شروع کی ۔۔ ٹھیک ہیں آجکل شیخوپورہ ہیں سائٹ وزٹ ۔۔گھر خالی تھا موقع تھا تو سوچا ملکر بیٹھتے سب ۔۔ یہ عمبرین ابھی تک آئی کیوں نہیں ۔۔میں نے ناصر کے ساتھ کی گئی پلاننگ کے مطابق نائلہ سے بھی کومل کی بات کی۔۔ نائلہ ناصر نہیں تھی کہ چپ گرو کی بات سن لیتی وہ بیاہتا لڑکی تھیں ۔ انہوں نے کہا تمہیں انہوں نے کہا۔۔ نہیں یار میں نے سو بہانوں سے بات ٹالی ۔نائلہ کا شک خطرناک تھا اس سے عمبرین کو پتہ چل سکتا تھا اور انکا اعتماد مجھ پر ختم ہو جاتا۔۔اچانک فون کی گھنٹی بجی۔۔نائلہ ہمم ہاں اچھا اوہ کرتی سنتی رہی۔۔ فون بند کر کے بولی بیڈ نیوز عمبرین نہیں آ سکتی۔مجھےلگا جیسے ہر طرف سناٹا چھا گیا ہو۔۔ جیسے یکدم لائٹ جاے تو ٹی وی بند ہو ویسے منہ تاریک۔۔دلاور نے جدھر جانا تھا وہ پروگرام کینسل ہو گیا الٹا مہمان آ گئے اسکے۔۔ ہنہہ مہمان میں جانتا سب مہمانوں کو ناصر نے تنفر سے کہا۔۔ جو بھی ہے اب اسکی مجبوری ہے۔۔ مجھے شدت سے بے چارگی کا احساس ہوا۔۔ میں اٹھنے لگا تو ناصر بولا یار رکو تو۔۔ میرا موڈ غارت ہو چکا تھا۔۔میں نے کا نہیں یار تم رکنا تو رکو بلکہ بائیک تم رکھو میں رکشے سے جاتا آرام سے اور اسکے بولنے سے پہلے ہی اٹھ آیا ۔میرا جو موڈ کل سے کھلا تھا یکدم مرجھا گیا۔۔ دل کررہا تھا دلاور سامنے ہو اور میں اسکا منہ توڑ دوں میرے اندر کا اکھڑ نعیم جاگنےلگا۔۔ میں چلتا جا رہا تھا جب مجھےلگا میرے پیچھے کوئی ہے میں پلٹا تو ساکت رہ گیا۔۔وہ تین چار لڑکے تھے جو شائد سامنے والی گاڑی سے اترے تھے ۔۔ ایک کے ہاتھ میں ہاکی بھی تھی لیکن کیوں ۔ میں پلٹا اور سپیڈ تیز کی۔میں الجھنا نہیں چاہتا تھا۔انہوں نے بھی سپیڈ تیز کی اور دو لڑکے مجھے کراس کرتےآگے آکر سلو ہو گئے۔۔میں انکے پاس سے گزرنے لگا تو ایک نے مجھےہلکا سا دھکا دیا میں پہلے ہی بھڑکا ہوا تھااور انکے ارادے واضح تھے وہ دنگابنانا چاہتے تھے لیکن کیوں ۔۔ میں نے ترش لہجے میں کہا کیا مسلہ ہے تمہیں۔۔ وہ بولا مسلہ ہمیں نہیں تمہیں ہے۔۔تمہیں پنگے لینےکا بہت شوق ہے نا ۔۔ دیکھو تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔ نا کوئی غلط فہمی نہیں۔۔ تمہارا نام نعیم ہے نا ۔۔بہن چود کہتے ہی اس نے ہاکی گھمائی۔۔جو سیدھی میرے سینے سے آ ٹکرائی ۔۔ درد کی شدت نے مجھے بھڑکا دیا۔۔ اس سے پہلے کہ وہ پھر ہاکی مارتا میں تیزی سے آگے بڑھا اور بہت تیزی سے اپنا سر اسکی ناک پر دے مارا۔۔ اس سردی میں ناک پر میرا سر جو ٹکرایا وہ چکرا اٹھا۔۔دوسرے لڑکے نے مجھے پیچھے سے جھپا مارا۔۔ اتنی دیر میں پیچھے والے دونوں بھی آ پہنچے۔ یہ فلم نہیں تھی نا میں سلطان راہی کہ سب کو لمبا لٹا لیتا۔۔میں نے تیزی سےخود کو جھکایا اور پیچھے والے کے پاوں کو کھینچ کر اسے گرایا اورپورے وزن سے اسکے ساتھ اسکے اوپر گرا۔۔ اسکا سر بہت زور سے سڑک سے ٹکرایا اور اسکی گرفت ڈھیلی پڑتے ہی میں نے خود کو چھڑایا۔۔ ہر طرف سنسانی تھی ۔ایک طرف خالی کھیت اور جھاڑیاں تھیں میں نے اچانک سے کھیت میں چھلانگ لگا دی اور جب تک وہ سنبھلتے جینز اور جوگرز کےکمال سے میں کھیتوں میں تیزی سے بھاگنے لگا۔۔ وہ رک بہن چود تیری ٹانگیں توڑ دینی آج انکے للکارے۔۔ اچانک ایک فضائی فائر کی آواز آئی اور آواز آئی رک ۔۔ حالات سنگین ہو چکے تھے میں نے پیچھے پلٹ کر دیکھا وہ کافی فاصلے پر تھے گولی کی رینج سے میں کافی آگے تھا فائر صرف مجھے روکنے کے لیے کیا گیا تھا۔۔ میں اچانک سے سامنے آتی گلی میں گھسا ۔ میرے اندر کا ریسر آج جان بچانے کے لیے بھاگ رہا تھا۔۔ لیکن وہ کمبخت پیچھے ہی تھے۔۔ میں دو چار گلیوں میں ادھر ادھر بھاگا اورپھر یکدم ایک سائیڈ کوڑے کے ڈرم کے پیچھے جا چھپا۔۔ کچھ دیر بعد وہ دونوں ادھر ہی گیا کرتے آگے نکل گئے جیسے ہی وہ گلی مڑے میں واپسی کو بھاگا اور جلدی سے دو چار گلیاں بدلتا سڑک پر آ نکلا۔۔میں نے ادھر ادھر دیکھا دور ایک گلی کی نکڑ سے وہ بھی ادھر ادھرہی دیکھ رہے تھے ۔میں جلدی سے واپس گھسا اور سامنے کی مارکیٹ سے گزرتا سوچنے لگا کدھر جاوں ۔ جب میری نظر سامنے سڑک کے اس پار ایک محفوظ پناہ گاہ پر پڑی۔۔ رات کے آٹھ بجنے والے تھےمیں جلدی سے سامنے اسی بلڈنگ میں جا گھسا۔۔سامنے ڈیسک پر کوئی خاتون سر جھکائے کچھ لکھ رہی تھیں ۔۔ میں نے اس سے پوچھا کیا نرس رابعہ آن ڈیوٹی ہیں ۔۔ جی ہاں میں ایکبار پھر اسی اسپتال پہنچ چکا تھا۔۔ میرے دشمن سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ میں کسی اسپتال کے پرائیویٹ کمرے میں ایڈمٹ ہوں گا۔۔اسپتال دیکھتے ای میرا پلان بن گیا ۔۔ اگر رابعہ آن ڈیوٹی ہوتی تو آج رات مجھے سہانی پناہ گاہ مل سکتی تھی۔۔ جو دشمنوں سے بچانے کے ساتھ ساتھ میرے اندر کے دکھ کو بھی مرہم لگا سکتی تھی۔

جاری ہے

fkniazi555.blogspot.com

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں