پیر، 6 ستمبر، 2021

Meri Kahani Meri Zubani Episode 30


   Meri Kahani Meri Zubani

Episode 30

انکا عجب انداز تھا آج۔۔ چہرہ ہلکے بخار سے دہکتا ہوا۔۔ سرخ نائٹی اور سرخ لپسٹک والے ہونٹ آج وہ شعلہ بنی ہوئی تھیں۔۔میں نے وفور شوق سے انہیں دیکھا جسم میں میٹھی انگڑائیاں دوڑنے لگیں۔

fkniazi555.blogspot.com

میں تڑپ کر انکی طرف بڑھنے لگا تو وہ لاڈ سے بولیں نا چندا نا۔۔ آج میری باری ہے۔۔ میرا کمرا میرا یار میری مرضی۔۔آج کی رات تم میرے مہمان ہو۔۔ آج میں تمہاری سیوا کرنی پورے سکون سے۔۔ اپنا راجہ بنا کر۔۔وہ چلتی میرے پاس آئی اور مجھے بیڈ پر لٹاتے ہوئے کہا تم بس بیڈ پر لیٹو۔۔ وہ نرمی سے میری شرٹ کے بٹن کھولنے لگیں۔۔ پوری شرٹ کو سامنے سے کھول کر ہلکا جھکتے ہوئے اپنے ہاتھ کو میرے سینے پر رگڑنے لگیں۔۔ افففف انکے ہاتھ کا لمس انکی گرم سانسیں اور نائٹی سے جھانکتے انکے بوبز۔۔وہ پوری لگن سے مساج کر رہی تھیں اور سرگوشی میں بولیں۔۔ میں بہت شدت سے ہاٹ ہوئی ہوئی آجکل۔۔ پہلی بار خاوند سے لڑی کہ مجھے بلاو بے شک وزٹ پر بلاو۔۔ پتہ جب وہ آتا نا ہم ایسے ساری رات سکون سے مزے کرتے۔۔ آج اسی مزے کو کرنا میں نے۔۔ تو کیا بولا وہ۔۔اس نے کیا کہنا وہی مجبوریاں ۔۔ تم یقین کرو اگر دو چار دن اور نا آتے تو میں خود آ جاتی ادھر۔۔ یا جانے کیا کر لیتی بس میرا گزارہ نہیں اب۔کومل کی یہ صورتحال اچھی نہیں تھی۔۔ اسکو شوہرسے ملانا ضروری تھا۔۔ ایسے اس نے پھنس جانا تھا میں نے سوچا ۔اب اس نے اپنے ہونٹوں کو میرے سینےپر جمایا اور دونوں لپس کو ملا کر سینے کو چوسنے چومنےلگی

اففف انکے لبوں کا وہ چوسنا۔۔اب وہ میری ٹانگوں پر آئیں اور میرےدونوں بازووں کو ہلکا پھیلا کر۔۔ ہاتھوں میں ہاتھ پھنسا کر سینے سے پیٹ پر اپنے رخسار اور ہونٹ بے تابی سے رگڑ رہی تھی ساتھ میری رانوں پر اپنی پھدی کو ہلکا ہلکا رگڑتی ہوئی گرم سانسیں اور آہیں چھوڑ رہیں تھیں۔اور میں جیسے پھٹنے کو تھا انکا یہ رنگ نرالا تھا۔۔میں نے انکے ہاتھوں سے ہاتھ چھڑایا اور انکی کمر کو سہلانےلگا۔۔ ہاتھ اوپر تک گیا اور واپسی پر نائٹی کی بیک زپ کو کھولتا ہوا نیچے آیا۔۔اففف انکی سانسیں۔ انہوں نے ہاتھ سے میرے ہتھیار کو پکڑا ۔۔ افففف ہتھیار جیسے آج فل جوبن پر تھا۔۔ انکی مستیوں نے جیسے ہر طرف آگ بھڑکا دی تھی۔۔ اب میری بھی سسکاریاں نکل رہیں تھیں ہاااے کومل جان آج تو دیوانہ کر دیا تم نے تم واقعی بڑی چیز ہو مست مست ۔میری تعریف نے گویا جلتی آگ پر پٹرول چھڑک دیا۔۔ انہوں نے مستی سے میری شلوار کا نالہ کھولا اور اسے کھسکاتے ہوئے ساری ہی اتار دی۔۔ افففف لن سیدھا کھمبے کی طرح تنا تھا ۔۔ لن کو ایسے جھومتا دیکھ کر وہ جھوم اٹھیں اور دونوں ہاتھوں سے لن کو پکڑ کر ۔ نرم ہاتھوں سے ٹوپے سے جڑ تک مساج کرنے لگیں کرتے کرتے جب انہوں نے لن کے ٹوپے پر ہتھیلی سے مساج شروع کیا تو میں جیسے تڑپنے لگا۔۔ ٹوپے پر انکی ہتھیلی کا لمس اففففف اتنا کرنٹ اتنا نشہ کہ میں واقعی مکمل مست ہو گیا ایسا مست جیسا اب سے پہلے نا ہوا تھا۔۔ٹوپے سے چند قطرے مذی کے نکلے اور اس مذی کی چکناہٹ اور انکے ہاتھ کا لمس لن کا ٹوپہ نشے سے پھول رہا تھا۔میں نے بہکتی سرگوشی کی کووومل جانو تم بھی سب اتار دو نا۔۔ ہااے صدقے وہ اٹھلا کر اٹھیں اور نائٹی کو مکمل اتار دیا۔۔ افففف نائٹی کے نیچے وہ بلکل ننگی تھیں اففف انکا گورا دمکتا جسم واقعی وہ سہی مرد مار زنانی تھیں۔۔ انکی گوری رانیں موٹی گانڈ۔۔ اڑتیس نمبر بوبز قیامت بدن۔۔انکی پھدی پر قطرے چمک رہے تھے۔۔ سب اتار کر وہ پاوں سے سینے تک جھک کر بوبز کو رگڑنے لگیں افففف میں جیسے پاگل۔۔میں نے انہیں بے تابی سے اوپر کھینچا۔۔ جاااان انکی سرگوشی نکلی ۔۔دونوں فل ننگےایک دوسرےمیں الجھےہوئے بہکتے ہاتھ اور پورے کمرے میں مست سسکاریاں آہیں۔۔انکا جسم میرےساتھ لپٹا جارہا تھا۔ میں نے ہاتھ انکی ٹانگوں پر رکھا اورسافٹ مساج کرتےہوئے اندر باہر ہاتھ گھماتے ہوئے جیسےہی پھدی سےٹکرایا اففف کیا بتاوں جیسے ابلتا گرم چشمہ ۔۔ بہہہت گیلی ہو گئی تمہاری۔۔ ہااااں بہہہت اداس تھی نا اور جب سےتم آئے تب سے اور شدت۔۔میں ہاتھ کو ہلکا ہلکا پھدی پر رگڑنے لگا انکی سسکاریاں تیز تیز ہو رہی تھیں۔۔انکا جسم رگڑ کھارہا تھا۔۔ میں بے تابی سے انکے اوپر آنے لگا تو وہ مدہوش بولیں رکو ایک منٹ ۔۔ بولا نا میں کرنا سب۔۔ وہ اوپر آئیں اور اپنی تپتی فل گیلی پھدی کو لن کےٹوپے پر جمایا اور جھک کر میرے سینے پر ہاتھ رکھ کے پھدی کو ٹوپے کے اوپر اوپر رگڑنے لگیں ۔۔ اففف انکی پھدی کی گرپ اور تھوڑا سا ٹوپہ اندر دھنسا ہوا جب آہستہ آہستہ ٹوپہ اندر دھنس گیا تو انہوں نے گہرا سانس لیا۔۔ اور بولی بس ٹوپے کا ہی مسلہ تھا باقی لمبائی میں دیکھ لوں گی۔۔ لن آہستہ آہستہ اندر جا رہا تھا ہونٹ چباتے مزے کی سسکیاں بھرتی پورے لن کو اند لیکر میرے اوپر گر گئیں اور گانڈ کوہلکا ہلکا ہلانے لگیں جس سے انکی پھدی گویا لن پر گول گول گھوم رہی تھی۔۔ اففففف لن جیسے چاروں طرف سے سافٹ گرم مساج کروا رہا تھا۔۔ میں نے آہستگی سے لن باہر کھینچا اور ٹوپے تک لا کر پوری شدت کا دھکا مارا۔۔ لن انکی گیلی پھدی میں پھسلتا جڑ تک اندر گھسا۔۔ انکی ایک تیز ہاااااے نکلی انہوں نے میرے کندھےپر وحشت سے کاٹا میں نے جوابی پھر باہر نکالا اور پھر جڑ تک اندر مارا۔۔ اس بار وہ تھوڑا سا جھولیں ہاااے ایسے ای افففف تیرا ہتھیار اور تیرے دھکے۔۔ مار نا اور تیز وہ جیسے جنونی ہو چکیں تھیں۔۔میں انکے جنون سے اور مچلا اور انہیں ایسے بٹھاے ساتھ لٹایا۔۔ اب انکی ایک ٹانگ میرے اوپر اور دوسری نیچے تھی ۔۔ لن ترچھی مار مار رہا تھا۔۔ انکی پھدی کا کھولنا بند ہونا اففففف۔۔ میں آج نئے رنگ سے آشنا ہو رہا تھا۔۔وہ میرے ننگے بازووں اور کمر کو کھرچ رہیں تھیں۔۔انکی کراہیں بے ترتیب۔۔ دونوں اینڈ پر تھے۔۔گرمجوشی نے ساری ٹائمنگ کو بگاڑ دیا تھا۔۔ دو چار وحشی دھکوں کے ساتھ انکی اوغ آاااہ اففف ہاااں سسکیاں اور تیز سانسوں کے ساتھ انکی پھدی نے لن کو بھنچنا شروع کیا اور اندر جیسے آتش فشان پھوٹ پڑا۔۔ وہ بہت تیزی سے ڈسچارج ہو رہیں تھیں۔۔ میں نا رکا اور ایسے ہی دھکے جاری رکھے بمشکل دو چار دھکوں کے بعد ایک نشیلے مزے کی لہر کے ساتھ میں بھی چھوٹنے لگا۔۔ دونوں ایکدوسرے میں گم

کچھ دیر وہ کسمسا کر سیدھی ہوئی ۔۔ لن پھدی سے پھسلتا ہوا باہر نکلا میں مست لیٹا رہا۔۔ وہ اٹھ کر ایسےہی ننگے چلتی اٹیچڈ باتھ روم میں گئیں۔۔تھوڑی دیر بعد باہر نکلیں اور کیبنٹ سے ڈرائی فروٹ کا پیکٹ نکالتی میرے ساتھ۔۔ بہت پیار سے دانہ دانہ مجھے کھلانے لگیں۔۔اففف مزہ آگیا آج تو میں نے دل سے تعریف کی ۔۔ ہاااے سچی وہ نہال ہوئی ہاں سچی۔۔ تم بتاو کچھ بخار اترا۔۔ وہ مستی سے بولیں بس تھوڑا سا۔۔اچھا جی ابھی سارا اتار دیتے ہم۔تھوڑی دیر بعد ننگے ساتھ جسموں کے ٹکراو اور لمس نے پھر سے بہکانا شروع کر دیا تھا۔۔ میں انکے ہونٹوں پر زبان چلاتا کمر پر ہاتھ سہلاتا انہیں پھر سے بھڑکانے میں کامیاب ہو ہو گیا ۔۔ اب میری باری تھی کہ انہیں ایسا چودوں کہ دو ہفتے سیدھی نا ہوسکیں یہ ضروری تھا ورنہ اس ذہنی حالت میں ان سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی تھی۔۔ انکے بوبز کو چوستا نپلز کو چاٹتا میں انہیں اوپر اٹھاتا گود میں لیتا بیڈ سے کارپٹ پر اترا

انہیں بیڈ پر ایسےلٹایا کہ گانڈ تک وہ بیڈ پر تھیں ۔۔ اور ٹانگیں ہوا میں۔۔ انکی ایک ٹانگ کو اپنے سینے رکھااور ہاتھوں سے انکی گردن کو بازووں میں لیکر ہلکا کمان کیا انہیں ۔ ٹوپہ جمایا اور انکے لبوں کو چوستا دھکا مارا۔۔ ٹوپہ تباہی مچاتے ہوئے اندر پھسلا۔۔ انکی سریلی چیخ بلند ہوئی میں نے اگلا سٹروک اور تیزی سے مارا ۔لن جڑ تک اندر اور انکی ہااااے مر گئی امی جی ۔۔پھر جو میں نے پسٹن چلانا شروع کیا۔۔ معیاری سپرنگوں والے گدے پر انکے جسم کا اوپر نیچے ہونا اور میرے طوفانی دھکے ۔۔ انکی لگاتار ہاااے اففف آاااا رام سے افففففف نننعیم ۔۔لیکن میں جو سوچ چکا تھا وہی کرنا تھا۔ مرے اندر جیسے جن جاگ چکا تھا۔۔۔ لن باہر نکلتا اور اسی سپیڈ سے اندر تک ۔۔انکے ہونٹ کھل چکے تھے اس پوزیشن میں لن کی مار زیادہ ظالم تھی دس منٹ کی دھواں دار چدائی نے انکی پھدی کے چھکے چھڑ دیے اور وہ مستانی ہاے واے کرتی چھوٹنے لگیں۔۔انکا جسم مدہوش ہوچکا تھا۔۔ میں نے ان پر جھکتے ہوئے کہا بولو مزہ آیا۔۔ وہ مدہوش بولیں بسس میں پر ہو گئی ہاے اوے میرا اندر ۔۔ وہ پسلیاں دباتے آہیں بھر رہی تھیں میں نے لن کھینچا اور بیڈ کے ساتھ ڈریسنگ ٹیبل پر نظر دوڑائی ۔۔انہیں الٹا کیا۔۔ جااان وہ لاڈ سے منمنائیں۔۔ میں انکے اوپر جھکا اور انکی کمر کو چومنے لگا ہلکا کاٹنے لگا اور ہاتھ بڑھا کر ویزلین کی شیشی سے ویزلین نکالی۔۔ لن پہلے ہی انکی پھدی کے پانی سے کافی چکنا تھا اس پر جو ویزلین لگا کر تھوڑا ہاتھ گھمایا لن سوپر چکنے پسٹن کی طرح ہو گیا۔۔ میں نے انکی ٹانگوں کو ہلکا اوپن کیا اور اس سے پہلے کہ وہ ہوش میں آتیں میں نے چکنا ٹوپہ انکی گانڈ پر جمایا اور ہلکا سا دبایا۔ٹوپہ پچک کی آواز کے ساتھ اندر گھسا۔۔ ادھر ٹوپہ اندرکیا گھسا وہ مچھلی کی طرح تڑپیں میں انکے اوپر جھکتا لیٹتا گیا وہ ہااااے نعععیم مر جانیا۔۔ اففففف بسسسس کر مر گئی میں ۔۔جان اگے کر لے نا لیکن میں بہرا ہو چکا تھا اسکی ہاے واے چیخوں کو انجوائے کرتے میں نے لن اندر تک گھسا دیا۔۔ جیسے ہی میرا جسم اسکے جسم سے ٹکرایا اسے سمجھ آئی کہ سارا گھس گیا تب وہ کچھ چپ ہوئی۔۔ اسکے کندھوں کو تھام کر میں نے پسٹن کو چلانا شروع کیا۔۔ اففف انکی گرم اور ٹائٹ گانڈ اور انکی سریلی چیخیں۔۔ میں نے ایک ہاتھ انکے پیٹ کے نیچے گھسایا اور کھسکاتا پھدی تک لا کر انگلی سے دانے کو رگڑنے لگا۔۔ انکا دانہ کافی پھولا پھولا تھا۔۔ اسے دبانے اور رگڑنے سے انکی مستی بڑھ گئی اب وہ گانڈ کا درد بھول کر مستی میں تھیں ۔۔گدے کے سپرنگ اسے اوپر اچھالتے اور میں نیچے دباتا ۔۔ میرا وقت بس ہونے والا تھا۔میرے ہاتھ کی رگڑائی نے ادھر بھی یہ ہی حال کر رکھا تھا۔۔میں نے پوری انگلی اسکی پھدی میں گھسائی اور دو چار بار لن کو اندر باہر طوفانی کیا تیز نشیلی لہر ٹانگوں سے نکل کر لن تک آ رہی تھی ایک سناٹا سا ایک مستی سی اور تیز دھاروں سے میں اسکی گانڈ میں چھوٹتا اسکے اوپر گرا۔لیکن انگلی کی حرکت جاری رکھی اور دو چار لمحوں بعد وہ تیسری بار چھوٹ رہیں تھی۔۔ میں اٹھا اور شلوار کوپہن کر باتھ روم گیا۔۔گرم پانی سے سب صاف کر کے واپس آیا تو وہ ویسے ہی مدہوش۔۔ میں نے انہیں ہلایا لیکن وہ اااممم نا کر نا بشششش کرتی پھر مست۔۔ میں شرٹ کو پہنتا باہر نکلا اور دوبارہ سے اسی کمرے میں۔۔ ناصر اسی صورت سو رہا تھا شکر ہے اب خراٹے بہت سلو تھے۔۔ بھرپور چدائی کی مستی جلد ہی مجھے نیند کی وادیوں میں لے گئی

اگلی صبح ناصر کے جگانےپر میں جاگا۔۔ دن کے گیارہ بجنےوالےتھے۔آج کالج سے چھٹی ہوگئی تھی۔۔ناصر دہی لینے باہر گیا تو میں بھاگ کر باہر نکلا۔۔ کومل کچن میں بزی تھی۔میں جا کر اسے گلے لگایا اور بولا سرکار بخار کیسا۔۔ وہ نروٹھے انداز میں لاڈ سے بولیں تمہارے ٹیکے سے آرام ہے۔۔ لیکن تم نے میری گانڈ کی بینڈ بجا دی۔۔ صبح تک ہوش نا تھا ویسے ہی ننگی پڑی رہی میں ۔۔میں کمینی ہنسی ہنسا۔۔ناصر کے آنے سے پہلے میں دوبارہ اسی کمرے میں چلا گیا۔۔ ناصر واپس آیا تو اسکا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا وہیں سے بولا گرو ایک خوشخبری ہے۔۔ میں نے کہا کیا ؟ وہ میرے پاس آ کر سرگوشی سے بولا آج شام کو ہم نائلہ گھر جائیں گے اور وہاں عمبرین بھی آئے گی بلایا ہے آپکو۔۔۔ افففف یہ جملے تھے کہ جیسے زندگی کے رنگ ۔۔وہاں سے جلدی جلدی گھر کو نکلا اور جیسے ہی میں گھر والی گلی مڑا دروازے کےسامنے بیلا کھڑی تھی۔۔میں بائیک سے اترا۔۔ اس نے کٹکھنی بلی کی طرح مجھے گھورا اور کہا کہاں دفع مرے ہوئے تھے صبح سے۔۔کالج بھی نہیں گئے۔۔ وہ شدید غصے میں تھی۔لیکن میرا مزاج اس وقت بہت سہانا تھا میں نے جھک کر اسکی ناک کو چھیڑتے ہوئے کہا اتنا غصہ نا کرو ورنہ مجھے سکتہ ہو جانا۔۔ ہیں وہ کیوں بھلا۔۔کیونکہ کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے میں نےوحید مراد کی نقل اتاری۔۔ اسکا رنگ شہابی ہوا اور شرما کر بولی تم بھی نا۔۔ اورمکا مارکر بولی بتا نا کدھر تھے۔۔ میں نے بہانہ بنایاکہ ناصر کی اماں اسپتال تھیں شکر ہے وہ کچھ بات کو سمجھی۔۔اور پھر الگ ٹون میں بولی کیاواقعی تمہیں میں خوبصورت لگتی ہوں۔۔ میں الگ ترنگ میں تھا میں اسے بچوں کی طرح بازووں سے پکڑا اور اسے گول گول گھمانے لگا۔۔ نعععیم میں گر جاونگی ۔۔ میں اور تیز گھمایا اور اسی شوخی میں چکرا کر لڑکھڑایا۔۔ تھوڑا سنبھلا لیکن پھر بھی اسے لیتا نرم کارپٹ پر جا گرا۔۔ وہ میرے اوپر اور میں اسکے نیچے گرنے کے باوجود جیسے ابھی تک چکرآ رہےتھے ۔۔ بیلا میرےساتھ چپکی ہوئی تھی میں اسےبازووں میں لیا ہوا تھا۔۔ آہستہ آہستہ چکر اترے تو ہوش آیا۔۔ اسکی بند آنکھیں کھلیں اور اس نے پھر شرما کر آنکھیں بند کر لیں مجھے اچانک صورتحال کا اندازہ ہوا میں نے اسے کھسکانا چاہا تو اس نے اور ساتھ چمٹتے ہوئے کہا اونہوں ۔۔ زیادہ بھاری ہوں کیا۔۔میں نےکہا نہیں تو۔۔بس چپ پڑے رہو اس نے میرے سینے پر سر رکھ کر آنکھیں موند لیں اور کہا میں آج تک کسی پر نا اعتماد کیا نا ہی دوستی ۔۔ تمہاری سادگی اور خلوص نے مجھے تمہارا اعتماد اور دوستانہ دیا ۔میں تم پر بہت انحصار کرنے لگ گئی ہوں میں کچھ بولنےلگا کہ اس نے میرے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر کہا شششش چپ میں بول رہی نا تو سنو کیا انداز تھا اسکا۔۔ تم نہیں جانتے صبح سے کتنا پریشان تھی میں۔تم نے مجھے بہت بدل دیا میرے اندر کی لڑکی کو جگایا ۔۔ مجھے اسکی باتیں اور انداز پریشان کر رہے تھے وہ جو بول رہی تھی اسکا اینڈ کیا تھا میں جانتا تھا صرف دکھ کیونکہ میں دلی محبت صرف رانی سرکار سے کرتا تھا ۔۔ اور بیلا صرف میری بہترین دوست تھی نا اس سے محبت ہو سکتی تھی کہ وہ جذبہ بس رانی سرکار کا تھا اور نا اسے دوسری لڑکیوں کی طرح چودا جا سکتا تھا کہ وہ میری اسپیشل دوست تھی جسے استعمال کرنا دوستی کی توہین تھی۔۔وہ بولی میں بہت عجیب ہو بہت عجیب میں اسکے بالوں کو سہلاتا رہا اور پہلی بار بطور لڑکی اسے محسوس کیا۔۔ اس کی اپنی کشش تھی اسکے نقوش بہت پیارے تھے پتلے ہونٹ ۔۔ اسکا فگر قدرے کم تھا لیکن وقت کے ساتھ بہتر ہو جانا تھا۔۔ کافی دیر وہ ایسے لیٹی رہی۔۔ پھر اٹھی اسکا چہرہ لال ہو رہا تھا۔۔ اٹھ کر میرے پاس بیٹھی اور جھک کر میری گالوں کو چومتے ہوئے بولی یاد رکھنا میں تم پر بہت انحصار کرنے لگی ہوں کہتی اچانک سے چلی گئی۔۔اور یہ اسی شام کا منظر تھا۔۔ نائلہ کے گھر جب ہم پہنچے تو اسکی اور اسکی ساس کےعلاوہ گھرکوئی نا تھا۔۔جیساپہلے بتایا جا چکا نائلہ کا کمرہ اوپر والی منزل پر تھا۔۔جب ہم کمرے میں داخل ہوئے نائلہ اور عمبرین آپسی باتوں میں مصرف تھیں ۔۔ مجھے دیکھ کر عمبرین کے چہرے پر ہلکی سی لالی آ گئی۔۔نگاہوں سے سلام ہوا۔۔نائلہ نے چائے بنائی ساتھ کافی کچھ کھانے کو ۔۔چائے پینے کے بعد نائلہ نے ناصرکو ایک بیگ دیا اور کہا جاو یہ اماں کو دے آو ناصر کا تو منہ بن گیا لیکن بولا کچھ نہیں ۔۔ناصر کے جانے کے بعد نائلہ شوخ لہجے میں بولی واہ نعیم جی واہ آپ تو گرو نکلے اصلی والے سچ ہی کہتا ہے ناصر ۔۔ میں نے جھینپتے ہوئے کہا ایسا کچھ نہیں بس۔۔ جی جی عمبرین جیسی ہستی سپیشل تم سے ملنے آئی یہ کمال نہیں تو کیا۔۔ میں بس مسکرا دیا اور کہا یہ انکا کرم ہے جی ورنہ ہم کہاں یہ کہاں۔۔۔ہاےہاے کیا شدتیں ہیں۔۔ نااائلہ انہوں نے اسے گھورا۔۔ اچھا اچھا بھئی سمجھ گئی جا رہی ہوں میں۔۔کدھر جارہی ہو تم یہاں رکو نا عمبرین نے جھجھکتے ہوے کہا۔۔ نوووو میں کیوں رکوں جس کےلیے آئی ہو اسی سے ملو۔۔ نائلہ لہکتی کمرے سے باہر نکلی اور دروازے کو باہر سے بند کر دیا۔۔

کمرے میں گھور خاموشی طاری تھی وہ انگلیوں کو چٹخاتے ہوئے زمین کو گھورے جا رہیں تھیں اور میں پرشوق نگاہوں سے انہیں تک رہا تھا ۔۔ آخر میں اٹھا اورانکے پاس جا کر بیٹھا انکا ہاتھ پکڑا اور آنکھوں سے لگاتے ہوئے کہا سرکار آپ نے آج نواز دیا آج وہ خوشی دی کہ کیا کہوں۔۔ میں نے انکے ہاتھ سہلاتے ہوئے کہا سرکار آپکو گجرے کیسے لگتے ؟ وہ دلنواز لہجے میں بولیں بہہت زیادہ ۔۔ ہاااے سچی میں نے اشتیاق سے کہا ہاں مچی۔۔۔انہوں نے اسی انداز میں کہا ۔۔ آہستہ آہستہ وہ نارمل ہوتی جا رہیں تھیں۔ میں نے کہا آنکھیں بند کریں پھر۔۔ کیوں جی ۔اللہ کریں تو اور جیسے ہی انہوں نے پلکوں کی جھالر گرائی میں نے چادر کے اندر چھپے پولیتھین شاپر نکالا اور تین موتیے اور گلاب کے گجرے نکالے ۔۔ جیسے ہی گجرے پولیتھین سے گجرے نکلے انکی خوشبو سے کمرہ مہکنے لگا انہوں نے آنکھیں کھولیں میرے ہاتھوں میں گجرے دیکھ کر وہ بولیں ہاےےے کتنے پیارے نا۔۔ تمہیں کیسے پتہ مجھے پسند۔۔ میں نے کہا کیونکہ جو دل پر حکمرانی کرتا ہو اسکی پسند کا پتہ ہوتا ہے ویسے بھی گجرے محبت کا اہم تحفہ ۔۔ انکا چہرہ گلال ہو گیا اور بولیں یعنی تم مجھ سے محبت کرتےہو۔۔ لو آپ کو پتہ ہی نہیں ہم آپ سے محبت نہیں عشق کرتے ہیں آپ ہماری سرکار ہم آپکے چاکر۔۔یہ لیں نا۔۔میں نے گجرے بڑھائے۔۔ اونہوں۔۔ سرکار میں نے التجا کی۔۔ وہ ہلکا سا شرما کر بولیں ویسے تو بہت سیانے بنتے ہو یہ نہیں جانتے کہ گجرے دیے نہیں پہنائے جاتے انہوں نے اپنی کلائیوں کو آگے کیا۔۔ اللہ جیسے ہی انکی خوبصورت کلائیاں میرے سامنے آئیں مجھے لگا جیسے دنیا کے خزانے مل گئے ۔۔ میں بہت لاڈ سے انکی کلائیوں پر گجرے باندھے اور انہیں لیے سامنے ڈریسنگ ٹیبل سامنے لے آیا۔۔ تیسرا گجرا میرے ہاتھوں میں تھا۔۔ میں انکے عقب میں کھڑا تھا انکا سر میرے شانوں تک ۔۔ میں نے کہا سرکار بالوں میں گجرہ سجا دوں ۔۔ انکے چہرے کی لالی گہری ہوئی اور انہوں نے چادر کو ہلکا سا سرکایا۔ یہ سرکانا اجازت تھی۔۔ میں نے انکی چادرکو کانپتے ہاتھوں سے سرکایا۔۔ انکے سیاہ چمکتے بال جھلکے میں نے بالوں کو ہاتھوں میں لیا اور ہلکا جھک کر بالوں سے اپنا چہرہ چھوا۔۔ اففف انکے بالوں کی مہک ایک عجیب نشہ جو روح تک سکون دیتا تھا۔۔ انکی آنکھیں بند تھیں اور چادر تلے انکا کلاسیکل جسم جیسے تیز سانسوں کی زد میں تھا۔۔ یہ لمحے محبت کے لمحے تھے یہ لمحے سپردگی کے لمحے تھے اک سحر طاری تھا۔۔میں نے بہت پیار سے انکے بالوں میں گجرہ سجایا اور کہا سرکار آنکھیں تو کھولیں۔بہت شرماتے ہوئے انہوں نے سامنے دیکھا شیشے میں ہم دونوں کا عکس انکا گلابی چہرہ اور چمکتی آنکھیں۔ انہوں نے شرما کر پھر آنکھیں بند کر لیں۔۔دونوں ساتھ لگے جیسے عجیب عالم میں تھے۔۔ کچھ دیر بعد وہ پلٹیں بلکل میرے سامنے انہوں نے چہرہ اٹھایا اور میری نظروں میں دیکھتے ہوے بولیں اب خوش۔۔ میں نے کہا بہہت خوش جیسے خزاں میں بہار جیسے مرنے والے کو زندگی وہ جیسےتڑپ کر میرے ساتھ لگیں اور کہا نعیم ایسے نا کہا کرو۔۔ میں نے انہیں بہت آرام سے بازووں میں لیا اور کہا آج میں مالا مال ہوگیا۔۔ میں نے انہیں ایسے سمیٹاجیسے متاع جان ہوں۔

انہیں ایسے سمیٹے میں بیڈ تک لایا۔۔ اور اپنےساتھ نیم دراز کر لیا انکا سر میرےشانےپرتھا اورمیرا بازو ان پر۔۔ بس چپ ایک دوسرے کی طرف۔۔ کتنا پیار کرتے ہو مجھ سے وہ منمنائیں۔۔ پیار میں کتنا نہیں ہوتا سرکار یہ بس ہوتا ہے یا نہیں ہوتا میں آپ سےایسےپیارکرتاہوں جیسےزندگی سےکرتےآپ ہوتو زندگی ہےآپ نا ہو تو ویرانی ۔ میری آنکھیں ڈبڈا گئیں انہوں نے انگلی سے میرےآنسو کو صاف کیا اوربولیں اب میں پاس تب بھی رو رہے۔۔میں نے کہا نہیں یہ رونا نہیں یہ تو بس اظہار ہے آنکھوں کا خراج ہے۔۔میں نے انہیں بےتابی سے ساتھ لگا لیا وہ جیسے میرے سینے میں چھپ گئیں۔۔ وہ لمحے بہت قیمتی تھے کتنی دیر ہم بس ایکدوسرے کےساتھ لگے لیٹے رہے عجیب بات کہ مجھے ایک سکون تھا ہوس نہیں۔۔ نا ہی جسم میں کوئی حرارت نا ہی لن کی اکڑاہٹ بس ترنگ تھی۔۔انکے گالوں کو چھوتے ہوئے میں نےکہا ۔۔ آپکو ایک کسس کر لوں سرکار۔۔ ہاے اللہ وہ اچانک سے تھوڑا کھسکیں ۔نا جی نا انہوں نے ناک کو چڑھاتے ہوئے کہا ۔۔ کیوں جی ۔۔۔ نا کسس سے گڑ بڑ ہو جاتی نا اور گڑبڑ محبت کو میلا کر دیتی ۔۔ میں تڑپ کر اٹھا اور کہا کیا آپکو ابتک لگا کہ کوئی مرد آپ ساتھ میلا کرنا ہوتاتوکر چکا ہوتا۔۔ یقین نہیں کیا۔۔ ہااے بدھو شہزادے یقین ہے تو یہاں ہوں نا ۔۔ میں نے بچوں کی طرح منہ بسورا انکی ہنسی چھوٹ گئی اور بولیں بہت چالاکو ہو گئے تم ۔۔اچھا لو کرلو کس انہوں نے ماتھاآگےکیا

میں جھکا انکی چمکتی پیشانی اور اس پر ابھرنے والی رگ ۔۔میرے ہونٹوں عقیدت کا پہلا بوسہ ماتھےپر کیا۔۔جیسے کوئی جلتا صحرا اور بارش کا پہلا قطرہ جیسے آبلہ پا پیاسے مسافر کا ٹھنڈی ندی پہ جھک کر پانی کا پہلا گھونٹ۔۔ جیسے میری رگ رگ میں زندگی دوڑ گئی ہو جیسے ڈرپ کا سٹاپر کھولیں تو اچانک سے ہر طرف ڈرپ کا میٹرئیل دوڑنے لگ جاتا ہے نا بلکل ویسے۔۔ جیسے کسی زائرکا وادی عشق میں پہلا قدم اور سجدہ سلامی میرے ہونٹ انکے ماتھے پر جم گئے بہہہت گہرا بوسہ ایسا بوسہ جس میں زندگی تھی

میں نے انگلی سے انکے ماتھے کی لٹ ہٹائی۔انکی انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں اور کہا ایسے ایسے ساتھ رہنا چاہتا آپکے ہر دم ہر لمحہ ۔۔۔ بہہت سوچتا آپکو ۔اتنانا سوچا کرو۔کیوں آپ نہیں سوچتی میں نے الٹا سوال گھمایا ۔انہوں نے ایک ادا سے آنکھیں اٹھائیں اور کہا تمہیں کیا لگتا ہے ہااائے انکی وہ سیاہ آنکھیں انکا اوپر اٹھنا میں جیسے ان آنکھوں میں ڈوب گیا۔۔ نین سمندر ۔۔اکھیاں جو ٹھگ لیں۔ میں نے کہا مجھےپتہ ہے آپ بہت یاد کرتیں ہیں وہ بولیں جھلیا یاد انہیں کرتے جو کبھی فراموش ہوں۔۔ ہاااے انکا ایسے کہنا میں نے انکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا اور مجھے آپ ایک سو بار یاد آتی ہیں ۔۔ میرا دل دھک کی جگہ عمبر عمبر کرتا ہے۔۔ ہاااے شہزادیا ۔۔ اتنا پیار نا کر کیوں نا کروں میں نےتڑپ کرکہا۔کیونکہ جس راستے پر تم چل رہے ہو نا۔۔رانی سرکار نہیں نا میں نے شکوہ کیا میری منزل میرےسامنے ہے میرےپاس۔۔لیکن کب تک مجھے پھرجانا نا۔۔ انکےلبوں پر اداسی سی تیری ۔۔ سرکار آپ حکم کریں کسکی جرات آپکو یہاں سے لیجائے۔ مجھےپتہ ہے شوخیا۔۔لیکن مجھے خود جانا ہے نا۔تم کہاں لیجاو گے مجھے اپنے پنڈ اماں ابا کو کیا بتاو گے تمہیں نہیں پتہ تمہارے ساتھ چلی جانا مسلہ نہیں انکل آنٹی میرا شوہر آنٹی کی بہن تمہاری اماں کی سہیلی پرانےتعلقات وہ مجھے پیار کا وہ رخ دکھا رہی تھیں جو میری نظروں سے اوجھل تھا۔۔کرو گے کیا پڑھ رہے ہو تم میں بس کچھ کر لوں گا۔۔ نہیں جب تم کچھ کر لیا نا تب جب کچھ بن جاو گے تب وہ مجھے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رہی تھیں۔ لیکن اس میں تو بہہت دیر۔ تو جلدی کر لو محنت کرو یہ ریس جیتو پڑھو پھر۔۔پھر بھی بہت وقت نا۔۔ وعدہ کرو میرے سے تمہیں جلد کامیاب ہونا ہے دیر نالگا دینا پھر میں بڈھی ہو جانا انہوں نے ہنستے ہوئے کہا نہیں ہوتیں اور ہو بھی گئی تو مسلہ نہیں مجھے آپ سے عشق ہے جسم سے نہیں۔۔ اوئے ہوئے وہ شوخ ہوئیں ۔۔اور میرے ساتھ لگ کر میری ہمت بندھانے لگیں یہ لمحے حاصل تھے میرے۔۔ مجھے اب بس جلد سے جلد خودکفیل ہونا تھا میں نے دل میں عہد کیا۔ نائلہ نے تعاون کی انتہا کر دی۔۔پورے دو گھنٹے بعد اس نے دروازے کو باہر سے کھولا اور ناک کیا۔۔ دروازہ کھلنے کی آواز سنکر ہم جلدی سے الگ ہو گئے ۔۔ ایسے اٹھنے سے انکی چادر سرکی اور انکا قیامت خیز جلوہ مجھے چندھیا گیا۔۔ گجرے سے چند پتیاں انکے بالوں سے ٹوٹ کر نیچے گریں میں صوفہ پر جا بیٹھا۔۔نائلہ اندر آئی تو عمبرین مصنوعی غصے سے بولی پوچھتی ہوں تمہیں دروازہ کیوں بند کیا تھا اور ابھی ناک کیوں کیا ہیں۔۔تم بعد میں پوچھنا پہلے تم بتاو یہ کمرہ یکدم دولہے کا کمرہ کیسے بن گیا یہ گلابوں کی مہک یہ گجرے یہ بیڈ پر گری پتیاں۔۔ نائلہ نے ایک جملے میں ہی عمبرین کے شکوے کی ایسی کی تیسی کر دی۔۔ عمبرین تو شرم سے لال و لال کمینی مجھے کچھ نہیں پتہ۔۔ آئے ہاے بنو بتاو نا۔۔ اور پھر عمبرین نے مجھے کہا تم جاو ذرا باہر میں اس سے پوچھتی ہوں میں سرجھکائے باہر نکل گیا اندر دونوں ایک دوسرے سے مصنوعی لڑ رہیں تھیں اور پھر یہ شکوے آہستہ آہستہ سرگوشیوں اور پھر نائلہ کی بلند آواز ہااائے سچی اور ساتھ ہی دروازہ کھلا اور میں جو منہ دھیان کھڑا تھا نائلہ نےپیچھے سے مجھے آ جھپا مارا ہاااے نعیم تم اور عمبر محبت کرتے اک دوسرے سے۔۔ جیسے ہی وہ ٹکرائی اسکا سینہ میری کمر سے ٹکرایا۔نئی نئی شادی شدہ لڑکی کا سینہ اسکی اٹھان اور پاس سےآتی اسکی سمیل ۔۔ میرےتو ٹٹے شاٹ ہو گئے میں کچھ بولنے کو تھا کہ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کھینچتے ہوئے اندر لے گئی چونکہ وہ اچانک سے باہر آئی تھی اسکا دوپٹہ مصنوعی لڑائی کے دوران اتر چکا تھا۔۔ اور اسکا قیامت خیز جسم ۔۔ جیسے نویلی دلہنیں ڈریسنگ کرتیں ویسی ہلکا کھلا گلا اور شفاف چمکتا سینہ اففففف میرے لن نے انگڑائی لی سامنے سرکار بھی تھیں میں نے جلدی سے ٹانگوں کو سمیٹا اور جا کر صوفہ پر بیٹھ کہ لن کی منتیں کرنے لگ پڑا۔۔ ادھر وہ کبھی جھک کر کبھی اٹھ کر عمبر سے لگی ہوئی تھی اسکے اندر کی خوشی جھلک رہی تھی واقعی وہ اسکی سچی سہیلی تھی لیکن یہ سچی سہیلی اس وقت میرے لیے مشکل بنی ہوئی تھی اسکی مٹکتی گانڈ پتلی کمر لن کو سمجھانے کے باوجود اور اکڑائے جا رہے تھے۔۔ اس سے پہلے میں اسے کبھی ایسے دیکھا ہی نہیں تھا نا ہی اتنا موقع ملا۔۔وہ منہ دھیان ایکدوسرے سے گپیں مار رہی تھیں۔۔بسس یہ ہے نا میرے اصل بہنوئی اور میں انکی اسپیشل سالی وہ تو نرا کھڑوس تھا پہلے والا۔۔ رک ذرا تجھے بتاتی عمبرین اسے مارنے کو دوڑی۔۔ ہاااے جیجو بچاو اپنی ظالم محبت سے وہ سیدھی میری طرف آئے میں بےوقوف ۔۔گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔ اور وہ سیدھی میرے ساتھ لگی۔۔اففففف مجھے لگا جیسے زمین پھٹ گئی آسمان پھٹ گیا۔۔میرا لن جو اسکی حرکتوں سے تقریبا ٹن تھا سیدھا اسکی پھدی سے ٹکرایا اور جا کر ٹانگوں میں پھنس گیا۔۔ اسکی ساری مستی ہوا ہو گئی اس نے جیسے ایکبار ٹانگوں کوہلکاسا دبا کر اپنا شک چیک کیا اور پھر تڑپ کر دور ہوئی اسکی نظریں میرے لن پر جمی ہوئی تھیں جو قمیض کو تمبو کیے ہوئے تھا اسکی آنکھیں جیسے پھٹنے کو تھیں یہ سب بس سیکنڈوں میں ہوا اگلے لمحے اسکا چہرہ لال ہوا اور وہ سسسسوری کہتے پلٹی اور میں بے دم صوفہ پر ٹانگیں سمیٹے الٹی گنتی پڑھنا شروع سو جا سو جا واسطہ ای سو جا۔۔ کچھ دیر بعد میں نے ایسے ہی آنکھیں اٹھائیں تو وہ میری طرف ہی دیکھ رہی تھی ہماری نظریں ملیں اسکا چہرہ پھر شرمایا اور وہ ابھی آئی کہتی باہر چلی گئیں ۔۔میں نے بہت مشکل سے سانسیں روک روک لن کو بٹھایا اور جیسےہی وہ نارمل ہوا میں فورا کمرے سےباہر جا کرغور کرنے لگا۔۔ نئی نویلی دلہن کو لن کا سہی سے پتہ ہوتا کیونکہ اسکی سب سے زیادہ ملاقات اسی سے ہوتی ۔شکر ہے اس نے مائنڈ نہیں کیا ۔۔ کچھ دیر بعد ناصر بھی آ گیا ۔۔ ہم نکلنے کی تیاریاں کرنے لگے نکلتے وقت نائلہ بولی ناصر کبھی مناسب موقع ہو اور تم ادھر آو تو نعیم کو بھی لیتے آنا میں ناسمجھی سے بول بیٹھا میں تو سمجھا تھا آپ مجھے گھر نا گھسنےدیں گی انکا چہرہ پھر لال ہوا اور بولیں ایسی بھی بات نہیں جی ۔۔

ہوجاتا ہے خیر ہے۔۔ واپسی کے سارےراستے میں یہی سوچتا رہا کہ ایسا کیا کریں کہ جلدی سے خود کفیل ہو جاوں۔۔۔آج رانی سرکار سے ملاقات اس نے گویا مجھے ایک منزل دی ۔۔ جیسے انہوں نے مجھے پیار سے سمجھایا جیسے میرے عشق کو قبول کیا میرے لیے بہت بڑی بات تھی۔۔ سارا رستہ میں خود کو کوستا آیا کہ جتنی توجہ چدائیوں پر دیتا ہوں اتنی پڑھائی پر بھی لازمی دوں۔۔ اپنی آوارگی مجھے شرمندہ کر رہی تھی اب۔۔ سچی محبت جیسے نکھار دے۔۔جب ہم گھر پہنچے تو سامنے گیلری میں روزی کھڑی تھی میں نے ہاتھ ہلا کر ہیلو کیا ۔۔ اسنے ہیلو کرتے رکنے کا کہا۔۔ناصر بائیک لیے اندر اور میں باہر کھڑا ۔کیسے ہو کہاں تھے جیسی باتوں کے بعد روزی بولی تمہاری ریس کب ہے میں نے کہاپرسوں۔۔کہتی ہے گڈ ہو گیا۔۔ پرسوں صبح تم جانے سے پہلے مجھ سے مل کر جانا لازمی ۔۔اور مجھے سسپنس میں ڈال کر یہ جا وہ جا۔۔میں کچھ دیر سر کھپایا کہ کیا ہو سکتا اور پھر دیکھی جائے گی کہہ کر لیٹنے چلا گیا۔۔ اگلا دن بہت سخت تھا۔۔پورا دن بیلا نے مجھے بھگا بھگا کر مار ہی ڈالا۔۔ آخر شام کو انکل کی فرمائش پر مجھے اصل ریس تک مکمل ریسٹ دے دیا گیا۔۔ اورمیں تھکا ہارا گھر آیا۔۔اس رات میں سویا تو ساری رات مجھے عمبرین کی باتیں اسکادلاسہ اسکی امیدیں۔۔ اور ساتھ دھڑکا کہ جانے کل کیا ہو۔اسی دھڑکے میں میری آنکھ لگ گئی خواب میں بھی یہی دلاسے یہی ریس ستاتے رہے۔۔ اگلی صبح میں اللہ کا نام لیکر تیار ہوا ہمیں دس بجے گیریزن ریس کورٹ پہنچنا تھا۔۔میں باہر نکلا اور روزی کے فلیٹ کی بیل دی۔۔ وہ شائدمیرے ہی انتظار میں تھی ۔وہ بھاگتی نیچے آئی اسکے گال خوشی سے تمتما رہے تھے۔وہ بولی نعیم بولو وعدہ یاد ہے نا۔۔ میں نےکہا ہاں یادہے تمہاری بات مانی جاے گی جیسے تم کہو گی ۔گڈ اسکی آنکھیں چمکیں اور وہ بولی بے فکر رہو تمہارا آدھا کام میں نے کر دیا ہے میں نے تجسس سے پوچھا مطلب۔۔ وہ بولی مطلب چیتے کو بکری بنا دیا ہے۔۔ لیکن کیسے ۔۔ بس کر دیا نا۔۔ یار ایسے تجسس رہے گا نا میرا دماغ بٹا رہے گا ۔۔وہ بولی سانس تو لو بتاتی۔۔مجھے اس کی گرل فرینڈ تک رسائی ملی اس نے کہانی گھڑی جبکہ میں جانتا تھا اسکی گرل فرینڈ یہ خود اچھا تو۔۔ یہ ریس سے پہلے سپیشل انرجی سپیڈ کیپسولز لیتا ہے جس سے بندے کا سانس کنٹرول رہتا ہے اور فریشنس بھی رہتی اوہ اچھا تو۔۔ اسبار وہ کیپسول اس نے کھائے ضرور مگر ان میں صرف چینی کا سفوف تھا اس نے دھماکہ کرتے ہوے کہا۔اوہ لیکن کیوں میرے لیے اتنا رسک کیوں۔۔ اسکی وجہ بھی بتاوں گی میں۔۔ ابھی بس میری سنو۔ بہرحال میڈیسن کے بنا بھی وہ ٹف مدمقابل ہے تمہیں اسے ویسے ہی شاک دینا جیسے تم دیا تھا۔۔ سہی اور وہ شاک کیا۔۔ تمہیں اس نے بیلا کا طعنہ مارا تھا نا پتہ چلا مجھے تم اسے جوابی کچھ ایسا کہنا جیسے اسکی فیصل آباد والی منگیتر نادیہ تمہارے ساتھ سیٹ ہے ایسا کچھ سنا انکے درمیان کافی فرینکس لائک چاٹنا چوسنا والا اس نے اوپن بات کی۔۔ بس اب تم جاو میری نیک خواہشات تمہارےساتھ ہیں۔۔اسکے جانے کے بعد میں بیلا کو ساتھ لیا اور ساڑھے نو بجے تک ریس گراونڈ پہنچ گئے ۔۔راستے میں سوچ سوچ کر میں سب پلان کر چکا تھا۔۔ وہاں پہنچ کر میڈم سے ملے۔۔آج وہ غضب ڈھارہی تھیں ہلکے پیازی رنگ کی ساڑھی میں انکا بارعب حسن الگ ہی منظر دے رہا تھا۔۔آرمی کا علاقہ ہونے کی وجہ سے ہر کھلاڑی کے ساتھ بس دس سپورٹر لانے کی اجازت تھی ۔۔ یہ دس بھی بیلا ہی لائی تھی میڈم تو انچارج تھیں۔۔خدا خدا کر کے دس بجے ۔۔ اور میں بیلا اورمیڈم سے الگ ہوتا ہوا گراونڈ میں اترا ۔۔ ریس والی نیکر شرٹ پہنی ۔۔اور بلکل مطمئن گراونڈ میں آگیا مجھےپتہ تھا میرا اصل حریف کاشف ہے جو آجتک نہیں ہارا ۔۔ جسکا کہنا تھا جب ہارا میدان چھوڑ دوں گا۔۔وہ میرےسےدولڑکوں کے فاصلے پر ہم دونوں کی نگاہیں ملیں ۔۔شائد میرا وہم تھا یا حقیقت مجھے اسکی باڈی لنگویج تھوڑی سست سی لگی وہ اس دن کی طرح اچھل کود نہیں کر رہا تھا۔۔میرا دل جیسے اور سکون میں ہوا گویا بکری بنائی جا چکی تھی۔۔سیٹی بجی سب نے پوزیشنز لیں میں نے ایک نظر شائقین پر ڈالی ۔۔ میڈم اور بیلا سے نظریں ملیں بیلا نے انگوٹھا دکھا کر وش کیا۔۔ میں پوزیشن لیتے جھکا۔۔ ہاتھ زمین پر جمائےاور نظریں گراونڈ لائن پر۔۔ میں نے آنکھیں بند کیں عمبرین کا سراپا لہرایا میں نے ان سے خیالوں میں دعا لی اور کان سٹارٹ والے فائر پرمتوجہ۔۔ دل دھک دھک ۔۔ ایک عجیب سی وحشت اب گھیرنے لگی تھی جیسے یہ ریس نا ہو عمبرین کا سوئمبر ہو جو جیتے گا اسے عمبرین ملے گی ۔۔ اور فائر گونجا۔۔میں نےسانس چھوڑ کر حرکت کی۔۔نظریں جیسے سامنے اور دماغ عمبرین کی طرف جیسے ان تک پہنچنا ہے اور انہیں حاصل کرنا ہے۔۔دس نو آٹھ چھ تین اور دو۔۔ اب ہم دونوں دو لائنز کے فرق سے بھاگ رہے تھے۔۔ آگے گراونڈ کو ہلکا سا گولائی میں موڑ آ رہا تھا میں نے اسی سپیڈ سے بھاگتے ہوئے ہلکا پیچھے دیکھا۔۔ باقی کافی فاصلے پر تھے۔۔میں نے غیر محسوس انداز میں بھاگتے ہوئے لائن بدلی اور اسکے قریب ۔۔ اسکا چہرہ پسینے سے چمک رہا تھا اور لگ رہا تھا وہ پورا دھیان قدموں میں لگا کر بھاگ رہا ہے۔۔ہم اسی فیصد فاصلہ طے کر چکے تھے دونوں برابر۔اسی لمحے اسکے قریب جا کر میں نے ہلکی اونچی آواز میں کہا۔۔ بیلا تو نہیں ہاں تیری نادیہ نے سہی سے چوپا لگایا میرا ۔۔آاااا ایسے کر کے میں نے ہونٹوں کو گول کر کے گہرا سانس بھرتے ہوئے اسے مثال دی۔۔ جیسے ہی میں نے نادیہ اور چوپا کہا اسکا دھیان میری بات کو پلٹا دھیان نادیہ چوپا اور پھر اسکے چوپا لگانے کی تصویر میں الجھا۔۔اس نے مجھے گھورا ۔ہاں ہاں وہی لائلپور کی گشتی ۔۔ ان الفاظ نے گویا اسے گہرا دھچکا دیا ۔میں لاہور کا وہ لائلپور کی بھلا اگر سچ نا ہو تو کیسے جانوں میں اسکا دھیان اور بٹا ۔۔ اور یہ دس گیارہ سیکنڈ ہی اہم تھے ادھر اسکا دھیان ادھر گیا اور میں نے پوری ہمت سے یکدم سپیڈ تیز کر دی۔۔اس سےپہلےکہ وہ سنبھلتا سمجھتا اورسپیڈ پکڑتا میں اسی فیصد فاصلے کو طئے کرتے ہوئے اس سے دو میٹر کا مارجن لے چکا تھا اور دو میٹر بہت ہوتے ہیں۔۔ہر طرف سناٹا تھا۔۔

فنشنگ لائن مجھ سے پانچ فٹ دور تھی جب میں نے پیچھے دیکھا وہ شرابور چہرے کے ساتھ لیکن یہ دو میٹر بہت تھے میں نے شعیب اختر کی طرح بازو پھیلائے اور سامنے دیکھا۔۔ بیلا کرسی پر کھڑی ہو چکی تھی میرا دایاں قدم فنشنگ لائن پر پڑا اور میں لائن کراس کرتے آگے کو بھاگتا جا رہا تھا سپیڈ کو سلو کرتے کرتے میں نے فاتحانہ نظروں سے پیچھے دیکھا وہ فنشگ لائن سے دو فٹ آگے رکوع کی حالت میں رکا اپنے الجھے سانس سیدھے کر رہا تھا یا کیا۔۔میں بھاگتا بھاگتا رکاہی تھا کہ بیلا بھاگتی ہوئی آئی اور بچوں کی طرح چھلانگ ماری میں نے اسے ویسے ہی ہوا میں دبوچا اور ایک گول چکر دیکر اتارا۔۔ وہ بلند آوازوں میں یسسسس یسسسسس نعیم ہم جیت گئے ۔۔ اسکی آنکھوں سے آنسو سے جاری تھے اسکی نسوانیت کو قرار ملا وہ بے ساختہ میرےساتھ لپٹ گئی۔۔ کالج کے باقی نو سپورٹر بھی سکتے سے نکل کر میری طرف بھاگ رہے تھے۔۔میڈم باقی ٹیچرز کےساتھ مدبر بنی کھڑی تھیں لیکن انکا کھڑا ہونا انکی خوشی بتا رہا تھا ۔۔ ٹیچر نا ہوتیں تو وہ بھی بھاگتی آتیں۔۔ کچھ دیربعد میں گولڈمیڈل گلے میں سجائے اپنے کالج کے سپورٹرز کے ساتھ پھرسے گراونڈ میں اعزازیہ بھاگ رہا تھا۔۔بھاگتے بھاگتے میں نے گولڈ میڈل اتارا اور اسے بیلا کے گلے میں پہنا دیا افففف وہ تو جیسے خوشی سے پاگل۔۔ وہ میرا ہاتھ پکڑے میڈم پاس لےکر آئی اور کہادیکھا میڈم۔۔ میڈم کا چہرہ چمکا اور کہا ہاں دیکھا واقعی نعیم میں کچھ بات ہے کہتے پاس آئیں اور مجھے ساتھ لگا کر بولیں ویل ڈن۔۔۔ اففففف انکا ایسے ساتھ لگنا۔۔ پیازی ساڑھی میں انکا سراپا ۔۔ مجھے کرنٹ لگا اور میں بے ساختگی سے انہیں اورکھینچا یہ لمحاتی غلطی تھی ادھر میں کھینچا وہ بلکل ساتھ چپکیں انکا سینہ میرے تیز تیز دھڑکتے سینے سےٹکرایا وہ کرنٹ کھا کر پیچھے ہوئیں سسسسسوری میڈم میں نے دل سے سوری کی واقعی یہ جوش کی غلطی تھی۔۔انہوں نے عجیب سی نظروں سے مجھےدیکھا اور مسکرا دیں۔ واپس کالج پہنچےتو آگے ساری کلاس اور کافی طلبا میرے لیے اکھٹے تھے۔۔یکایک میں مشہور ہوگیاتھا میں نعیم جس نے کاشف چیتے کو پورے پانچ میٹرکےمارجن سےہرا کر اسکاچھ سالہ ریکارڈتوڑا اور وہ بھی پہلی ریس میں۔۔شام تک یہی ہلہ گلہ رہا۔۔ بیلا کے اصرار پر میڈم ہمارےساتھ ہی بیلا گھر گئیں۔۔ انکل آنٹی نے بہترین چائے کا بندوبست کر رکھا تھا۔۔انکل نے بہت سراہا۔وہاں سے میں گھر پہنچا تو ناصر سارہ اور روزی گویا میرا انتظار ہی کر رہے تھے ناصر چونکہ دوسرےکالج سے تھا اسےپاس نا مل سکا جسکا اسےکافی دکھ تھ لیکن آرمی کے اپنے اصول۔۔سارہ نے پھولوں کے بوکے کے ساتھ مجھے وش کیا۔ روزی ہنس کر بولی میں کچھ نہیں لائی کیونکہ میں جو کیا تم جانتے ہی۔۔ میں نے کہا یسسسس جانتا۔۔ وہ بولیں اور اب انکی آنکھیں جیسے وحشی شیرنی کی طرح چمک رہیں تھیں۔۔میں نےکہا اب جو اور جب آپ نےکہا میں حاضر۔۔تھوڑی دیر بعد ناصر نے بتایا کہ اماں ابا تو آ گئے لیکن اسے جانا کیونکہ عمبرین کا خاص حکم تھا اسے خبر دی جاے۔۔میں نے اسے واپس آنے سے منع کیا کہ کہاں سردی میں ذلیل ہوتا رہے گا ویسے بھی میں کافی تھک چکا تھا مجھے سونا تھا۔۔اسکےجانےکےبعد روزی بولی تم یہاں اکیلے سو گے ؟ میں نے کہایسسس۔وہ سرگوشی سے بولیں تو کچھ دیر بعد بتانے آ جاوں۔۔ میرا دل دھڑکا اور کہا آ جانا۔۔۔وہ چمکتی نظروں سے دیکھتی باہر نکل گئی۔۔میں کھانا کھا کر چائے پی کر کافی انتظار کیا لیکن روزی نا آئی۔۔ ساڑھے دس کا وقت ہو گا جب ہلکی سی ڈور بیل بجی میں باہر نکلا دھند نے موسم آفت بنا دیا تھا۔ میں نےپوچھا کون۔۔جواب آیا روزی جلدی کرو یار۔ میں نے جلدی سے دروازہ کھولا وہ سیاہ چادر میں لپٹی میرے پاس سے گزری اور ہاے سردی کرتی اندر بھاگی ۔۔میں لاک لگا کر واپس آیا تو وہ ویسے ہی چادر میں ٹھٹھر رہی تھی۔۔ میں نے بولا ہاں اب بتاو یار بہت سسپنس۔۔ اس نے ظالم مسکراہٹ سے نوازا اور کہا۔۔تم پوچھا نا میں کیوں مدد کی ۔۔ میں نے کہا ہاں۔۔وہ بولی اس دن جو تم نے کاشف کی گرل فرینڈ والی بات بتائی تھی کہ اس نے شرط لگائی یاد ہے۔۔ میں نے کہا ہاں اس نے کہا تھا اگر میں جیتا تو وہ اپنی گرل فرینڈ کومیرے ساتھ سلائے گا۔۔ میرا دل دھڑک رہا تھا۔۔ دماغ کچھ اشارہ دے رہا تھا۔۔وہ ویسے ہی چادر میں لپٹے اٹھی اور بولی تو سنو تم جیت چکے اب تمہیں اسی کے ساتھ سونا ہے ۔۔۔ککک کیامطلب میں شاک میں تھا۔۔ مطلب کہ اسکی وہ احمق گرل فرینڈ کوئی اور نہیں میں ہوں اور تمہیں آج حسب وعدہ میرے ساتھ سونا ہے ۔۔لیکن ۔میں کچھ بولنے لگا تھا کہ اس نے کہا پہلے دیکھ تو لو۔۔کہتے انہوں نے اس بڑی چادر کو سرکا دیا۔۔ چادرپھسلتی کارپٹ پر جا گری ۔۔۔ اففففف میرا دل جیسے اچھل کر باہر آ گیا۔۔ وہ صرف بلیک برا اور بلیک پینٹی میں تھیں انکا جسم آفت تھا آفت بلکل ترشا ہوا جیسے ماڈل کوئی۔۔انکا گورا بدن دمک رہاتھا

fkniazi555.blogspot.com

جاری ہے

Research, Information+ Stories about Relationship

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں