Episode 29
جیسے پتھر نکالا پھر تراشاپھر پالش اور پھر سجایا جاتا ہے بلکل ایسے ہی جب میں لاہور آیاگویا کان میں تھا۔۔ مجھے آنٹی شازیہ کی جوہر شناس نگاہوں نےپہچانا گاوں کاصحت مند انیس بیس سالہ لڑکا انہوں نے نکال کر مجھےجھاڑا پونچھا تراشا مجھے زندہ کیا مجھے اپنے ہنر سے نوازا ۔۔ کومل نے اس نو تراشیدہ پتھر کو تھوڑا مشینی رگڑائی دی۔۔ رابعہ نےاپنی بھٹی میں جلا کر مجھے اورپختہ کیا۔۔ تانیہ اس پتھر کی تراش سے متاثر ہوئی اور اپنا ہاتھ کاٹ بیٹھی۔۔
بیلا۔۔۔ وہ سنیاری تھی جو مجھے مارکیٹ میں لائی مجھے ڈسپلے دیا اور رانی سرکار۔۔ وہ تو اس ہیرےکےاندر وہ مرکز تھیں جو سب ذروں کو جوڑے ہوئے تھا۔۔وہ ہیرے کی چمک دمک ۔ انکے خیال سے چمک آئے انکی فکر سے ماند پڑ جائے ۔۔وہ ایسا سنہری ہلکا تھیں جو ہیرے کو تھامےہوئے ہیں ڈسپلے مرر میں۔۔ اگروہ نا ہوں تومیں لڑھکتا پڑوں۔۔ جیسے کبھی میرےجسم کو ورزش کی عادت ہوگئی تھی نا کروں تو جسم میں عجیب سستی رہتی تھی۔ایسے ہی اب میرے جوان جسم کو جسم کی لت لگ گئی تھی۔۔ دو چاردن نا کروں تو جسم ٹوٹنے لگ جاتا تھا۔۔ تانیہ کا پلان بن چکا تھا اگر ویسا نا ہوا تو ؟ کسی بہانے کومل اور رابعہ کے ساتھ ملاقات ضروری ہو گئی تھی بےشک تھوڑی ہو لیکن طوفانی ہو۔۔میں نے طریقے سے ناصر کے گھر کی بات چھیڑی کہ ماما کیسی نائلہ کیسی اور کومل کیسی۔۔
اور وہ مجھے بتانے لگا کہ کومل آجکل عجیب چڑچڑی سی ہوئی ہوئی دو دن سے بخار بھی ۔۔بھائی سے آنے یا اسے بلانے کی ضد کر رہی وہ بتا رہا تھا اور مجھے اندازہ تھا کہ کومل کو کیا۔۔ اسکا بھی میری طرح جسم ٹوٹ رہا تھا پہلے جو بھی تھا دو ہفتےپہلے وہ تین بار چدی ہے اور اب بےقرار ہے ۔۔ اس سے ملنا ضروری تھا میں نے سوچا
اگلے دن میں ابھی مشکل سے تیار ہوا تھا کہ ڈور بیل بجی تھوڑی دیر بعد ٹھک ٹھک کسی سینڈل کی آواز گونجی یہ کون آ گیا صبح سویرے ۔ اور اور آنے والی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ بیلا تھی بڑےطریقے سے بلیک سٹالر سے اپنے شارٹ بالوں کو کور کیے۔ سفید سمپل ڈریس کے اوپر بلیک جرسی اور بلیک سٹالر کالج فائل کو سینے سے لگائے حالانکہ نا لگاتی تو بھی چلتا تھا۔۔۔ وہ بلکل چینی لڑکیوں کی طرح نکو سی لڑکی بنی ہوئی تھیں۔۔میں نے کہا تم کہاں آن ٹپکیں ۔۔ اس نے کہا تمہارے ساتھ کالج جانے۔۔ اور تمہارا ویسپا سکوٹی میں نے پوچھا لو ۔۔ اب ایسے چلاتی اچھی لگوں گی کیا۔۔ اب تمہاری بائیک پر میں نارمل لڑکیوں کی طرح جایا کرونگی سب کہتےتھے نا لڑکی بنو اب بھگتو۔۔ سہی ہے اور جب میں یہاں سے چلا گیا تو۔۔تب کی تب دیکھاں گے ابھی دس دن ہیں اس میں چلو شاباش۔۔ لیکن اب لڑکی بن گئی ہو تو بیٹھنا بھی لڑکیوں کی طرح میں نے اسے تنگ کیا ۔۔ کیوں جیسے میری مرضی تمہیں کیا۔۔ بس ایسے لڑکی کو بٹھایا تو مجھے کچھ کچھ ہوگا نا میں نے اسے چھیڑا۔۔ اسکا رنگ اچانک سے بلش ہوگیا اور اس نے فائل مارنے کی اداکاری کرتےہوئے کہا تمہیں کچھ نہیں ہوتا جیسے ہلکا سا شکوہ ہلکی سی شکایت کہ تمہیں کچھ کیوں نہیں ہوتا۔۔جاتے ہوئے اس نے بڑی ادا سے فائل درمیان میں رکھ کر کمر اور سمال فگر کے درمیان فاصلہ کر دیا۔عجیب لڑکی تھی۔۔کالج میں سب اسے دیکھ کر یوں حیران ہوئے جیسے اسکے سینگ۔۔ کافی لڑکوں نے مڑ مڑ کر دیکھا میں نے پھر شرارت کی اور کہا دیکھا کہا تھا کالج سارا مارے سیٹیاں۔۔ بکو نہیں اس نے شرما کرکہامجھے نہیں چاہییں سیٹیاں۔۔لو لڑکیاں تو خوش ہوتیں۔۔ وہ کلاس روم کے دروازے پر رکی اور بولی میں لڑکی نہیں بیلا ہوں مجھے بس ایک سیٹی والا چاہیے ایسا جو بس میرا ہو اور جسے دیکھ کر میری سیٹی نکلے اگر نا ملا ؟ میں نے کہا تب تک ہار نہیں ماننی جب تک وہ سیٹی نا مارا جانتے ہو نا آخر تک کوشش رکھتے اس نے اک ادا سے کہا اور میں اسکی باتوں کو تھوڑا سمجھنے کی کوشش کی دو دن سے اسکا مزاج بدل رہا تھا جیسے خشک درخت کی جڑ سے نیا پودا اگے ۔۔ خشک چھال کے نیچے سے ملائم نیا شجر ۔
کل والی ریس اور بدتمیزی کے بعد میڈم سے ملاقات نا ہوئی تھی بارہ بجے تھے کہ انکا بلاوا آ گیا کہ جاتے ہوئے ان کی بات سن کر جائیں دونوں۔۔میڈم سے ملاقات ہوئی وہ رسان سے سمجھانے کہ بھاگتی ہوئی ٹرین راستے کے کتوں کے بھونکنے پر توجہ کریں تو انہیں میں الجھ جاتے۔۔لیکن میڈم آپ بارے اسے کمنٹ نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔تو کیا غلط کہابڈھی ہی ہوں میں نے پرواہ کرنی چھوڑ دی اب لوگ جو بھی کہیں۔۔ لو ایویں ہی آپ۔کب بڈھی میں نے معصومانہ انداز میں مکھن لگایا ہماری میڈم سپر لیڈی گریس فل سوپر ۔۔ وہ ہلکا سا مسکرائیں اور کہا اچھا اب بس بس آفس ہے گھر نہیں۔۔ میں نے اسی معصومیت سے کہا تو باقی تعریف کبھی گھر جا کر کر لیں گے انہوں نے ہلکا سا گھرکا اور کہا جی نہیں مجھےپتہ میں کیا۔۔ وہ زمانہ شناس ورکنگ لیڈی تھیں۔۔پھر وہ بتانے لگیں کہ وہ لیوو پر جا رہی گاوں کچھ مسلے ہیں بس ریس کے دو دن بعد وہ جا رہیں۔۔ انکی حالیہ لڑائی اور اسکے ساتھ آتے بلدیاتی الیکشنز عجیب گھن چکر ہیں کبھی بتاوں گی تمہیں۔۔اسبار وہ مجھ سے مخاطب تھیں
کچھ دیر کے بعد ہم گھرکونکل آئے ۔۔اسبار میں نے شرارت سے اس سگنل پر بائیک روکی جہاں میں اترتا تھا اور کہا باے۔۔ کیا مطلب تمہارا۔۔ میں نے کہا تم بھی یہاں تک لفٹ دیتی تھی نا۔۔ ہاں لیکن وہ اور بات تم سیدھے چلو ورنہ تمہارا حشر کر دینا سمجھے لڑکیوں کو گھر تک پہنچاتے ہیں مینرز سیکھو۔۔ حد ہے بھئی لڑکی تم بنی ہو بھگتان ہمیں۔۔
بائیک روکے ہم یہ باتیں کر رہے تھے جب میری نظر سامنے مارکیٹ میں میری طرف ہی دیکھتی تانیہ کی طرف پڑی وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔جیسےہی ہماری نظر ٹکرائی میں نے جان بوجھ کر نظر چرائی اور جلدی سے وہاں سے نکل گیا۔۔ بیلا کو گھر اتارا اور شارٹ کٹ سے سیدھا اپنے گھر۔۔۔ ناصر اندر ہی تھا اسے جلدی سے بتایا کہ کاکے پلان پر عمل کا وقت آ گیا۔۔ اس وقت وہ بولا ہاں ابھی۔۔ رات کو کومل رابعہ کی باتوں سے میری مستی جاگ چکی تھی چھوٹا سا سیکس ٹریلر ضروری تھا
مجھے امید تھی کہ جیسے میں اسے بلکل کھول دیا اور پھر اس سے ملا نہیں آج نظر آیا تو کسی اور لڑکی کے ساتھ۔۔ اسے آنا چاہیے تھا سونے کی مرغی کو گھیرنا ضروری تھا۔۔ وہی ہوا تھوڑی دیر بعد باہر بیل ہوئی۔ بیل سنتےہی ناصر اوپر والےکمرے میں جا کر سکون سے لیٹ گیا۔۔میں نےجاکر دروازہ کھولا اور اسے دیکھ رستہ دیا وہ چپ چپ اندر آ کر بیٹھ گئی جیسے کہیں کھوئی کھوئی سی۔۔ میں اسکے تھوڑا فاصلے پر بیٹھ گیا اور ہیلو ہاے کے بعد تھوڑا چپ رہا۔۔وہ بولی کتنے بے مروت ہوتم میرا حال تک نہیں پوچھا مجھے بخار چڑھ گیا تھا۔۔ اب مجھے کیا پتہ تھا بخار کا میں سمجھا ناراض ہو گئی اور مجھے ایسے روندو لڑکیاں اچھی نہیں لگتیں ۔۔میں نے کہا اگر میرا پکا پارٹنر بننا ہوا تو آ جاے گی میں کب انکارکیا ویسے وہ لڑکی کون تھی۔۔ دوست تھی ۔۔ اللہ کیسے ساتھ چپک کر دونوں طرف ٹانگیں لٹکائے بیٹھی تھی اسکے اندر سے جلن بول رہی تھی۔۔ ہاہا یسسس بس مجھے ایسی بولڈ لڑکیاں ہی۔پسند۔۔اسی لیے مجھےتم پسند آئی اور اسلیے میں تمہارے بارے ماما سے بھی بات کی کہ میں دوست بنائی۔۔ ہاےے اللہ سچ پھر ۔۔میں نے کہا پھر کیا وہ بہت خوش ہوئیں۔۔ اب تم سوچو۔۔ میں کیا سوچنا میں تو سب سونپ چکی تمہیں۔۔میں تمہاری۔۔ یہ سننا تھا کہ میں اٹھا اور اسکے قریب جا کر کہا پتہ تم بہت سیکسی اور ہاٹ ۔۔ تمہارےجسم تمہاری سیکسی لک اور بوبز نے مجھے دیوانہ کردیاتم میری زندگی کی پہلی لڑکی جس سے میں سب حجاب اتارے۔۔ ابھی تک خمار میں سچی بہت اداس تھا اور ڈرا تھا کہیں تم کھو نا جاو۔۔میں نے اسکے ساتھ لگتےہوئے سرگوشی کی۔۔وہ تھوڑا سا کھسکی میں بھی کھسکا اور کہا کہاں جاتی ہویارمیرے بہت قریب رہو نا پلیز مجھے چھوڑو نہیں۔۔کوئی آ جاے گا نا۔۔ کون آئےگا میں باہر سے لاک کر آیا ناصر کو شام کو آنا۔۔ میں اسکےساتھ لگ کر اسکے بالوں کو ہلکا سہلاتے ہوئےبولا۔۔ اور سرگوشی کی تمہیں کیسا لگا میرا ساتھ۔۔ بہہت پیارا۔۔ اچھا تمہارا پاسپورٹ بنا ہوا میں نےیکدم پینترا بدلا۔نہیں یار کیوں۔۔ بس ویسے ہی کیاپتہ ماما آئیں نیکسٹ منتھ تو سب ڈن ہو جاے بس تمہیں جلدی ساتھ لیجانا میں مر رہا تمہارے لیے میری سرگوشیاں دیوانگی اسے خوش کر گئی میں نے اسکے دوپٹے کو ایک سائیڈ کرتے ہوئے کہا یار اتنا سیکسی فگر چھپا کیوں رکھا ہٹاو نا۔۔ نہیں نعیم جانو پھر رکا نہیں جاتا تم سے نا اسکا شکوہ زبان پر آ ہی گیا۔بس ماما آ کر سب ڈن کرتیں تو جلدی سے شادی کر لیتے۔ہاں لیکن تب تک مجھے تمہیں ابھی پیار کرنا بس آخری بار پکا وعدہ اسکے بعد میں نہیں کہوں گا۔۔ پکا۔۔ اچھا لیکن بس تھوڑا سا اسنے دوپٹہ ہٹا کر مجھے کلیویج کا جلوہ دکھایا۔۔ اونہوں ایسے نہیں نا۔۔ پھر کیسے ۔۔ اندر جا کر آرام سے لیٹ کر مجھے یہ سیکسی بوبز چوسنے نا پلیز۔۔نعیم پلیز میری جان پھر کنٹرول نہیں رہتا نا پہلے بھی سب غلط ہو گیا۔۔ پھر غلط وہ پیار تھا تم بس جاو اگر غلط تو۔۔ میں بتایا نا بولڈ بنو ۔۔ باہر جانا کیا وہاں بھی ایسے کرو گی بس مجھے نہیں پتہ جاو تم میں ناراض ۔۔ میں مصنوعی منہ بناتا اندر کمرے میں جا کر اوندھا لیٹ گیا۔۔ اور ہلکی کھلی نظروں سے دیکھا وہ کچھ دیر سامنے صوفےپر ہاتھ مروڑتی کچھ سوچتی رہی ۔۔ پھر اٹھی اور دوپٹہ باہر صوفےپر رکھ کر ناز سے چلتی اندرکو آنے لگی۔۔ افففف اسکا ایسے آنا۔۔ ٹائٹ قمیض میں اسکے چھتیس نمبر جیسے میری شدت کو بھڑکا گئے ۔۔میرا جسم ترنگ میں تھا۔۔ وہ ہلکےقدموں چلتی اندر آئی اور دروازےکو بند کرتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ کر میری پشت پر ہلکا جھک گئی اسکا آفت سینہ میری کمر سے ٹکرایا اور اس نے منہ میرے کان سے لگا کر بولا ناراض ہوگیا چندا
میں کچھ نا بولا۔۔ وہ اپنے بوبز کومیری کمر پر رگڑتے ہوئے مجھے منانے لگی۔۔ اسکی حرکتوں نے میرے تن من کو آگ لگا دی ۔۔۔ اسکے سیکسی بوبز کمر کو جلا رہےتھے۔۔میں ہلکا سا کھسکا اور تھوڑا سیدھا ہوا۔۔ اب وہ میرےسینے پر اوندھی پڑی تھی اسکے کھے گلے سےجھانکتا کلیویج اور انچ اوپراسکے دہکتےہونٹ ۔۔ میں نے اپنےہونٹوں کو ہلکا سا اوپرکیا وہ جھکی اور اپنے ہونٹوں کو میرے لبوں سے ملا دیا افففف اسکی لپسنگ۔۔ بلاشبہ وہ کسنگ کی ماہر تھی اس نے دو منٹ میں میرا حشر کر دیا۔۔ ہاتھ اسکی کمر پر رگڑتے ہوئے شرٹ کے اندر کیا اور اسکی مخملیں کمر کو سہلانے لگا۔۔ آج وہ ساری کسر مٹانے کے چکر میں تھی کہ جیسے ہو مجھے اچھےسے اپنا نشئی کر دوں۔۔ کمر پر میرے ہاتھ کے لمس اور میری لپسنگ سے اب قدرے وہ بھی ہاٹ ہو چکی تھی۔۔وقت کم تھا میں نے ایسےہی اسکا ہاتھ پکڑا اور تنےہوئےلن پر رکھ دیا۔۔اففف جیسےہی اسکا ہاتھ لن پر پڑا وہ ہااے اففف کرتی اسے مضبوطی سے پکڑ کر سہلانے لگی اور بولی بہہت بڑا ہے تمہارا اففف میری بینڈ بجا دی اس نے کل شام تک بہت مشکل سے چلتی رہی ۔۔ وہ شلوار کے اوپر سے ہی لن کو تیز تیز سہلا رہی تھی ۔۔اسکا تجربہ کم عمروں والا تھا جو ایسے چھوٹ جاتے تھے ۔۔میں نےکمر سے ہاتھ پیٹ پر لاتے ہوئے اسکی شرٹ کو ہلکا ہلکا اوپر کرنا شروع کیا۔۔ جاااان اس نے ہلکا سا گریز کیا ۔۔ میں نے جوابی جی جان کہتے ہوئے اسکے لبوں کو لبوں سے چوسا لگا کر کہا بس تھوڑا سا نا جااان آخری بار بسسس ۔۔ اچھا نا وہ اٹھلائی ۔ میرے ہاتھ کی شدت بڑھنے لگی تھی کہ اس نےکہا رکو ناایک منٹ۔۔اور کھڑی ہو کر شرٹ اور برا اتارکر ایک سائیڈ آرام سے رکھ کر بولی کپڑے خراب ہو جانے تھے نا۔۔ اففف اسکے سفید جسم پر اسکا چمکتا سیکسی سینہ۔۔ اب اس نے میری شرٹ کو اتارا اور سینے پر اپنے لبوں کو پھیرنےلگی۔۔ اففف کیا ہی گرم بچی تھی پکی ٹرینڈ۔۔ سینےسے گردن تک۔۔ گردن سے پیٹ تک وہ چوس چاٹ رہی تھی۔۔میں نےکہا یسسس یسسس یہ بات یار اسی لیے دیوانہ نا تمہارا۔۔ افففف تمہارا یہ اوورل سیکس میں جان بوجھ کر اسے اکسایا۔۔ اففف جان نکل رہی میری۔۔ میں نے شلوار کا نالہ کھول کر لن کو باہر نکالا۔۔ جھومتا تنا ہوا لن لہرانے لگا۔۔اففف جیسے ہی اسکی نظر پڑی وہ اففف افففف کرنے لگی اور ہاتھ سے پکڑ کر سہلانے لگی میں نے اسے اوپرکھینچا اور اسکی شلوار کو ہلکا سا کھینچااا۔۔۔ جااااان وہ ہلکا سا سسکی میں ہاتھ سے کرتی نا پلیز ابھی بہت درد نا۔۔اس نے پھر بہانہ بنایا۔۔ نہیں ہاتھ سے نہیں مزہ آتامجھے اففف میں شلوار کو اور نیچےکیا۔۔ اور لن کو اسکی گالوں پر پھیرتے ہوئے کہا بس تھوڑاسا مزہ نا جان ۔۔ اونہوں اس نےلاڈ سے ہونٹ بسورے۔۔اسکی جان جان کرتےمیں ساری شلوار اتار کرہی رکا۔۔ اور اسکے مخمل جسم کو چومنےلگا۔۔ چومتے چومتےمیں رکا اور کہا اورایک چیز تھی تمہارے لیےابھی لایا اور اسے وہیں چھوڑکر باہرنکلا اور حسب پلان اونچی سیٹی مارتے ہوئے ناصر کو اشارہ دیا اور فریج سے امپورٹڈ چاکلیٹ نکال کرلایا اور دروازے کو ہلکا سا کھلا رکھتے ہوئے اسے کہا دیکھو تمہارےانتظار میں نہیں کھائی ۔۔۔ہااااےشونا وہ چمک اٹھی میں نےساری شلوار اتاری اور بیڈ پر لیٹ کر اسے کہا میرے ساتھ ہلکا اوپر آجاو ساتھ ہی طریقے سے اسکے کپڑے بیڈ سے نیچے کھسکا دیے چاکلیٹ کولپس میں دباے وہ لپسنگ کرتے ہوئے چاکلیٹ کو چوسنے چاٹنے لگی اسکی سکنگ ظالمانہ۔ ساتھ ایک ہاتھ سے تنے لن کو مٹھی سے سہلاتی سسکیاں بھرتی وہ فل ٹن تھی۔۔ ادھر چاکلیٹ ختم ہوئی تھی کہ بہت آہستگی سے روم کا دروازہ کھلا۔۔اسکی ساری توجہ لپسنگ اور لن کو سہلانے میں تھی ۔۔ دروازے سے ناصر برآمد ہوا اسکے ہاتھ میں موبائل تھا ۔۔ موبائل کیمرےکو سیدھا کرتے ہوئے اچانک وہ زور سے چلایا کیا بے غیرتی چل رہی ہے یہاں۔۔۔ افففف یہ آواز تھی کہ دھماکہ۔ تانیہ تڑپ کر سیدھی ہوئی سامنے آگ بگولا ناصر اور وہ بھی مووی بناتے ہوئے ۔۔ اسکا رنگ جیسے اڑ گیا وہ بجلی کی تیزی سے اٹھی اور الٹا پوری ننگی کی مووی بنوا لی۔۔ اس پر سکتہ طاری تھا ناصر وہ بھی ایسے ۔۔بولو یہ کیا بدمعاشی ہے ۔۔نعیم بھائی آپ اسکا انداز بیسٹ اداکاری والا تھا پھر وہ تانیہ کی طرف پلٹااور کہا تم بےوفا گشتی چھوڑوں گا نہیں تمہیں۔۔ ابھی سبکو دکھاتا یہ ویڈیو ابھی ۔۔ میرا یقین توڑا تم نے کہتا وہ پاوں پٹختا واپس ایسے بھاگا جیسے ابھی سڑک پر ویڈیو چلا دینی۔۔ تانیہ کا چہرہ فق اور جسم کانپ رہا تھا۔۔ نعیم اب کیا ہوگا اس کی پھنسی آواز نکلی۔۔ میں برباد ہو جاوں گی۔۔ یہ بہت ہی جنونی پلیز اسے روکو۔۔ پلیز جیسے بھی جو بھی کہے بس روکو اسے اسکے آنسووں تھے اور جسم کی لرزش یہ اسکے وہم و گمان میں نا تھا ۔ لیکن یہ تو شاہدرہ تھا شام کو آنا تھا میں نےویسےلیٹے لیٹے کہا۔۔ اوہو آ گیاہوگا ۔۔ جو اسےروکو پلیز اسنے مجھے جیسے دھکا دیا۔۔
fkniazi555.blogspot.com
میں تیز قدموں سے باہر نکلا۔۔ناصر باہرمین گیٹ کےپاس میراہی انتظار کر رہاتھا۔۔ میں نے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور اسے ساتھ والی گلی میں لیتا چلا گیا۔۔۔ جیسے ہی ہم ذرا آگے گئے ناصر بولا مان گئے گرو ۔۔ کیسے ننگا کر رکھا تھا اسے۔۔ میں نے اسکی بات سنی ان سنی کرتے اسے کہا ویڈیو بنائی۔۔ یسسس بوس بنائی اور نکال کرمجھےدکھانے لگا۔۔ واقعی ویڈیو بے شک پندرہ بیس سیکنڈ کی تھی لیکن سوپر بنی ہوئی تھی اسکا چہرہ میری ہدایت کے عین مطابق بلکل واضح تھا۔۔ دو چار منٹ اسے سمجھانے کے بعد میں اسے ایسے لیتا آیا جیسے زبردستی کھینچ کر لا رہا ہوں۔۔ جیسے ہی میں اسے اندر لایا تانیہ لاونج میں بےقراری سے ٹہل رہی تھی اس نے کپڑے پہن رکھے تھے لیکن اسکا چہرہ ابھی بھی انتہائی زرد تھا
ناصر شدید غصے میں تھا۔میں موبائل اپنے دوست کو دے آیا ہوں جس کے ساتھ آیا تھا ۔۔ تمہیں کچھ نہیں ملے گا وہ پکا ایکٹر بنا ہوا تھا۔۔موبائل کے جانے کا سن کر تو گویا تانیہ نےکمر ہی پکڑ لی۔۔ افففف بےوقوف کسکو دے دیا اس نے کچھ دیکھ لیا تو۔۔ تو دیکھ لے میں کل اسے ویسے بھی نیٹ پر ڈال دینا اس نے آج دیکھ لی تو کیا۔۔تانیہ بس گرنے کو تھی ۔۔ ناصر میری بات سنو اس کی واقعی بنا ڈلوائے پھٹ چکی تھی۔۔ کچھ نہیں سننا مجھے تم سے ۔۔ تم تم بے وفا ہو۔۔ میں بتاتا ابھی نعیم کو۔ اچانک تانیہ چیل کی طرح اسکی طرف لپکی اور اسکے منہ کو ہاتھ سے ڈھانپا پلیز آہستہ بولو میری بات تو سنو میں نے ناصر کو آنکھ سے اشارہ کیا۔ اور وہ بازو چھڑاتا اندر کو جانے لگا۔۔ میں تھوڑے وقفے سے اندر گیا ۔۔ ناصر اسکی کوئی بات نہیں سن رہا تھا اگر میں نا ہوتا تو وہ کسی طرح بہلا لیتی تب ناصر بولا ایک شرط ہے میں ویڈیو نیٹ پر نہیں ڈال سکتا۔۔کونسی شرط تانیہ کی پھنسی پھنسی آواز نکلی۔۔تم بلکل ویسے میرے ساتھ چاکلیٹ کھاو گی ابھی اسی وقت ۔۔ناصر نے دھماکہ کیا۔۔ناصر شرم کرو چپ ایکدم چپ۔شرم کی کچھ لگتی ناصر کا غصہ بنتا تھا ۔ اور جوتم اندر کر رہی تھی وہ جلدی فیصلہ کرو۔تانیہ نےمیری طرف دیکھا میں نے کندھے اچکا دیے جیسے میں پکا انگریز ۔بولو یا میں جاوں اسے نے اٹھنے کی ایکٹنگ کی۔۔تانیہ سر جھکائے بس آنسو بہاتی رہی ۔۔ ناصر اسکے پاس گیا اور بولا میں اندر جا رہا ہوں اگر ایک منٹ میں نا آئی تو ڈیل ختم۔۔ اور لمبے ڈگ بھرتا اندر چلا گیا۔۔تھوڑی دیر بعد تانیہ مرے مرے قدموں سے اسی کمرے میں چلی گئی۔۔ دس منٹ بعد میں نے کی ہول سے جھانکا تو ناصر اور وہ سب اتارے کسنگ کر رہے تھے۔۔میں نے دروازہ کھولا تانیہ نے خوفزدہ نظروں سے دیکھا مجھے دیکھ کر بولی آپ باہر جاو میں آکر بتاتی آپکو۔میں نے قدم بڑھاتے ہوئےکہا تم بتالینا جو بتانا مجھ سے کیا پردہ جانو۔۔اور اسکے ساتھ لگ کر اسکی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔۔ اب اسے بھی سمجھ لگ گئی تھی کہ اسکے ساتھ وڈا ڈرامہ ہوگیا ہے۔۔ وہ روہانسی ہو کر بولی کیا چاہتے ہو تم اب۔۔ میں نے کہا تمہیں پتہ ہے اور اسکے بوبز کو ہلکا مسلنا شروع کیا اور ناصر کو اشارہ کیا۔۔وہ جھجکتا اوپر آیا جیسے ہی وہ سامنے آیا میں حیران رہ گیا وہ بہت نازک سا تھا۔۔ اسکی ٹانگیں اور بیک ہلکے بالوں والی تھی بس وہ ہلکے بال اسکی ٹانگوں پر نا ہوتے تو بیک سے لڑکی ہی لگتا۔۔اسکالن بھی ابھی لڑکپن والا ہی تھا۔۔تانیہ چپ سادھے لیٹی تھی اس نے اپنا بازو آنکھوں پر رکھا اور ساکت لیٹ گئی میں نے اسے اشارے سے سمجھایا ناصر نے اسکی ٹانگیں کھولیں اور اپنےلن کو اسکی پھدی پر آہستہ آہستہ رگڑنے لگا۔۔پھر ہلکا ہلکا کر کے اندر گھسانے لگا۔۔ وہ واقعی ابھی بچہ تھا اسے سکھانا پڑنا تھا لیکن اس وقت میں چپ رہا۔دو منٹ بعد ہی ناصر ہانپتا اسکے اوپر گر گیا ۔۔تھوڑی دیر بعد وہ گہری سانسیں بھرتا اترا اور کپڑے پہن کر باہر نکلا میں بھی اسکے پیچھے گیا اسے کچھ سمجھایا اور واپس کمرے میں۔۔ وہ اسی طرح چپ لیٹی تھی۔۔میں نے اسکی برا سے اسکی پھدی اور ٹانگوں کو صاف کیا اور اسکے ساتھ لیٹ کر ساتھ لپٹایا۔۔ اور کہا مجھے ایسی چپ لڑکیاں اچھی نہیں لگتیں تم جانتی ہو نا۔۔ ناصر نےجو کرنا تھا کر لیا۔میں ویڈیو اس سے لے دوں گا۔۔اب جلدی سے دوبارہ سیکسی لڑکی بنو میں نے اسے سہی سے سمجھایا۔۔۔مرتی کیا نا کرتی وہ ساتھ لپٹی لیکن اب وہ بات نا تھی۔۔اس کو شدید خوف تھا ایسا ہونا تھا۔بڑی مشکل سے کچھ بات بنی اور میں زمیں پر کھڑا ہوا۔۔اسکی ٹانگوں کو اوپر سیدھا کھینچا۔۔میرا لن فل جوبن پر آ چکا تھا اور میں ناصر نہیں تھا جس سے جان سستے میں چھوٹ جائے۔۔میں نے ٹوپے کو اسکی مست پھدی پر رگڑا اور دھکا دیا۔۔ ٹوپہ پھدی کےلبوں کو ہٹاتا اندر جا کر پھنسا۔۔ اسکی ہاااے نکلی۔۔ میں رکا اور اگلا دھکا تیز مارا ۔۔ لن آدھے سے اوپر اندر گھسا اور اسکی بلند ہائے نکلی۔۔ یقینا باہر ناصر تک گئی ہو گی۔ اگلے دھکے سے لن فل اندر جا چکا تھا اور اسکی تیز کراہیں ہاااے ہاااے مر گئی۔۔ میں نے باہر نکالا اور دوبارہ سے اندر مارا اور اسی ہاتھ تیز سپیڈ رکھی۔۔میرےہر دھکے پر وہ اچھلتی اس نے آنکھیں بند کر رکھی تھی۔۔ ایسے بنا کسی گرمجوشی کےاسے چودنے کا ککھ مزہ نہیں آ رہا تھا میں نے اسے اٹھایا اورگھوڑی بننے کو کہا اور اسے جھکا کر اسکی گانڈ کو ہاتھوں سے بھنچتے سٹروک مار رہا تھا۔۔اسکی نرم گانڈ میرا دل للچا رہی تھی لیکن میں جانتا تھا اسکی موت ہو جانی ۔۔ گانڈ میں تو آنٹی اور کومل نے بڑی مشکل سے لیا تھا۔ویسےبھی گانڈکا افتتاح ناصر کرتا تو زیادہ اچھا تھا۔۔وہ سر جھکائے بس انتظار کر رہی تھی کب اسکی جان چھوٹے۔۔جب مجھے لگا کہ میں بس ہونے والا میں نے اسکا جھکا چہرہ اٹھایا اور دروازے کی طرف کیا میرا ٹوکن ٹائم تھا میں نوٹ نہیں کر سکا کہ اس پر کیا بیتی جب وہاں ناصر پھر سے ویڈیو بنا رہا تھا۔۔ فل چدائی کی گھوڑی بنے۔۔ میں تیزدھکوں سے اسکے اندر چھوٹتا اسے بیڈ پر لیتے اسکے اوپر گرتا گیا۔۔ آدھے گھنٹے بعد ہم تینوں باہر بیٹھے ہوئے تھے ۔۔ ناصر نے اسے چودائی کی ویڈیودکھائی جانےکب سے بنا رہا تھا وہ۔۔ طئے پایا تھا کہ وہ ناصر کو مہینے میں ایکبارلازمی ملا کرے گی میری طرف سے اسے معافی تھی کہ میں اسے کبھی کچھ نہیں کہوں میرے پاس اور بہت۔۔ یہ ناصر کا گفٹ تھا اسکا بدلہ تھا
اب ناصر میرا پکا شاگرد بن چکا تھاجو سب سے راز رکھ کر میری مکمل مدد کر سکتا تھا۔۔کچھ دیر بعد ناصر جھجھکتے ہوئے بولا بھائی ایک چھوٹا سا مسلہ ہے میں نے کہا ہاں بولو یار۔اماں اور ابا شام کو جڑانوالہ جا رہے ہیں۔۔میں نے کہا تو۔۔ تمہیں گھر جانا ہے تو جاو نہیں نا ایسے آپکو یہاں چھوڑ کر نہیں جانا ۔۔ ارے یار تم جاو میں رہ لوں گا نا۔۔ نہیں بلکل نہیں ایسے مجھے کم از کم آج اچھا نہیں لگے گا۔
میرا عجیب سا مزاج ہو رہا تھا۔۔تانیہ کی چدائی نے بجائے نشہ پورا کرنے کے الٹا چڑچڑا کر دیا تھا۔۔میں نے الجھے ہوئے کہا یار تو کونسا گھر چوروں نے اٹھا لینا بھرا محلہ ہے تم یہیں پڑے رہو باہر سردی بھی بہت۔۔ اوہو ناصر بھائی گھر کس نےاٹھانا کومل بھابھی اکیلی ہونگی گھر کیسے رک جاوں اٹھیں نا۔۔ جیسے ہی اس نے کومل کہا میرا دل دھڑکا اوہ انہیں میں بھول گیا تھامیں سمجھا وہ بھی جا رہی۔۔ ارےنہیں بتایا نا انکی طبیعت خراب ۔۔ بخار ہوا ہوا۔۔میں ہرے کا نعرہ مارتا اٹھا اسے کیا پتہ تھا کہ وہ مجھے نہیں اپنی بھابھی کی دوائی لیجارہا ہے۔۔ہم سردی میں ٹھٹھرتے کوئی آٹھ بجے شاہدرہ پہنچے۔جیسے ہی دروازہ کھلا کومل نے چڑے ہوئے انداز میں کہا ۔۔ پھر دیر کر دی نا کہا بھی تھا اور ساتھ انکی جیسے ہی مجھ پر نظر پڑی انکا رنگ بدل سا گیا وہ کچھ بولتے بولتے رکیں اور فارمل سا ہیلو ہاے کرکے اندر چلی گئیں۔۔۔اب مجھ سے کچھ نہیں بنتا جاو کچھ لے آو باہر سے۔۔میں منع کرنےلگا تھا کہ انہوں نے سمپل مجھے گھورا اور کہا نہیں نہیں کھانے کا وقت ہے کھانا تو لازمی کھانا۔۔ناصر نکلنے لگا تو بولیں بلکہ جا راوی کنارے سے مچھلی لے آ ۔۔ نعیم آیا ہے پہلی بار خدمت کرنا بنتی۔۔ناصر سرہلاتے باہر نکلا اور کومل نے جا کر اندر سے دروازہ بند کر دیا میں سامنے لاونج میں دیکھ رہا تھا۔۔ ٹائٹ جرسی میں انکے بوبز اور گانڈ سیکسی لک دے رہے تھے۔ دروازہ بند کرتے ہی وہ تیزی سے پلٹیں اور کسی بلی کی طرح مجھ پر جھپٹیں۔۔۔سیدھا میرے اوپر کس کے جھپی ماری اور بے تابی سے کس کرتے ہوے بولیں کہاں چلے گئے تم ۔ ہاسٹل کیوں گئے میں اتنا اداس ہو گئ دیکھو نا ایسا کرتے کیا۔۔ دوستی کر کے بھاگنا تھا تو کی کیوں۔۔ میں انکی گرمجوشی سے اور مست ہوا یہ گرم جوشی ہی تو میری تروٹک تھی ۔۔ میں انہیں ساتھ لپیٹتا ہوا صوفے پر ہی گرایا اور پوری شدت سے انکے گالوں کو چوسا اور کہا میں بھی بہت اداس تھا اسی لیے آیانا۔۔ بخار کیسا ۔۔ دوائی لی۔۔نہیں بس سمجھو میری دوائی آ گئی انہوں نے بے تکلفی سے میرے نیم اکڑے لن کو پکڑ کر کہا ٹیکہ لگواوں گی نا۔۔ میں شوخی سے ہنسا اور ناصر۔۔ وہ بولیں اسکی فکر نا کرمیں اسکا ارینج کر دوں گی۔۔کچھ دیر وہ ایسے مستیاں کرتی رہیں اور پھر بولیں چلو باقی بعد میں بات کرتے۔۔ ناصر کافی کچھ کھانے کو لے آیا۔۔کھانے کے بعد کچھ دیر گپ لگائی ۔۔ اتنی دیرمیں کومل چائے بنا کر لے آئی۔۔ دونوں کو چائے دیکر خود بھی وہیں بیٹھ کر باتیں کرنےلگی۔۔ چائے پیئے آدھ گھنٹہ گزر چکا تھا اور میں انتظار میں تھا کہا اب کیا کرنا۔۔ اچانک ناصر نے گہری جمائی لی اور کہا آج اسوقت نیند ابھی سے۔۔ اسکے ان جملوں سے کومل کے لبوں پر ہلکی مسکان سی آئی۔۔ مجھے گڑ بڑ کا اندازہ ہوامیں نے کہا۔ہاں یار مجھے بھی نیند آ رہی کہاں سونا۔۔ کومل بولی بیٹھک میں بستر لگا دیے ہیں۔۔ہم دونوں وہاں سے بستروں پر آ گئے۔۔ ناصر نے ایک اور گہری جمائی لی۔۔میں نے سرگوشی کی اور کہا پہلی چدائی کا نشہ ہے وہ ہنسا اور کہا ہاں گرو بہت نشہ۔۔ افففف آپ کیسے چود رہے تھے ۔۔ مجھ سےتو نا ہوا ایسا۔۔ میں نے اسے تسلی دی اور کہا پہلی بار سب کا ایسے ہی ہوتا۔۔ اور کہا لو بھئی میں لگا سونے اور رضائی اوپر اوڑھ لی۔۔وہ شائد مروت میں جاگ رہا تھا۔۔ دس منٹ بعد اسکے بلند خراٹے پورے کمرے کو لرزا رہے تھے۔۔ عجیب وحشتناک خراٹے تھے اسکے آج تو جیسے کوئی بے سدھ سویا ہو۔۔یہی لمحہ تھا جب دروازے کی نچلی درز سے صحن کے بلب کی ہلکی آتی روشنی یکدم بند ہوئی۔۔ میرا دل دھڑکا۔۔چند لمحے گزرے ہلکی آواز سے دروازہ ہلکا سا کھلا۔۔ کومل نے اندر جھانکا ۔۔ ہماری نظر ملی ۔۔اس نے ناصر کی طرف اشارہ کیا میں نے اسے اشارے سے بتایا کہ سو چکا۔۔ اس نے دو منٹ بعد مجھے آنے کا اشارہ کیا۔۔ دو چار منٹ بعد میں نے ناصر کو ہلایا جلایا ۔۔وہ بے سدھ ایسا سویا تھا کہ اسکی گانڈ بھی مار جاتا تو نا جاگتا۔۔ میں آہستہ قدموں سے باہر نکلا اور احتیاطا کمرے کو باہر سے کنڈی لگا دی۔۔ایسا نا ہو اسبار اصلی چھاپہ پڑ جاے
سامنے کومل اپنے کمرے کے دروازےکو ہلکا کھولے کھڑی تھی ۔۔ اس نے مجھے آنے کا اشارہ کیا اور میں چلتا ہوا اندر جا گھسا۔۔یہ انکا بیڈ روم تھا بہترین انداز کا بیڈ ۔قالین ۔۔ صوفہ سیٹ بڑا سا ڈریسنگ ٹیبل جس پر کئی قسم کے پرفیوم لوشن اور کریمیں پڑی ہوئی تھیں۔۔پورا کمرہ امارت کی نشانی تھا۔۔اور سامنے کومل تھی میں بے تابی سے اسکی طرف بڑھا اور زور سے گلے لگا لیا۔۔ کافی دیر ہم ایسے ہی ای دوسرے کو گلے لگائے محسوس کرتے رہے انکا جسم واقعی گرم ہو رہا تھا۔۔ میں نےکہا آپکو تو واقعی بخار ہے۔۔ وہ بولیں جھلیا بخار نہیں یہ جسم کی تپش ہے ابھی فٹ ہو جانا اس نے۔۔ ناصر کو کیا پلایا ۔۔ وہ ہلکا سا ہنسی اور بولیں ابا کی نیند والی گولی پوری۔۔ صبح تک نہیں جاگے گا اور مجھے لیتے بیڈ پر لائیں۔۔ اور کہا دیکھو آخر لے ہی آئی تمہیں اپنے کمرے
آج تمہیں بتاوں گی کومل کیا چیز
جاری ہے
fkniazi555.blogspot.com
Research, Information+ Stories about Relationship
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں