اتوار، 5 ستمبر، 2021

Meri Kahani Meri Zubani Episode 28


   Meri Kahani Meri Zubani

Episode 28

میں چلتاچلتا گراونڈ کے کے ایک سائیڈ بنے درختوں کے جھنڈ کے پیچھے پرانے متروک عمارت کی سیڑھیوں پر جا بیٹھا۔۔ انگریز کےزمانے کی بنے پہلے کالج کا حصہ تھی دو چار ٹوٹے پھوٹے کمرے جو کبھی آباد تھے۔۔ مجھے ہارنے کا دکھ نہیں تھا۔۔ مجھےاسکی باتوں کا دکھ تھا۔۔جیسے اس نے بیلاکامذاق اڑایا یہ مذاق نہیں توہین تھی۔۔یہ ایموشنلی فاول تھا۔۔ اور اسکا جواب اسے دیناضروری تھا۔۔ بیلا میری دوست پکی گہری سچی۔اسکی توہین ناقابل برداشت تھی۔۔ مانا وہ قدرے چھٹکلو تھی ۔۔ اسکا نسوانی حسن دبا ہوا تھا اوپر سے اسکا اول جلول حلیہ لیکن وہ کافی دلکش تھی اسکا اپنا رنگ تھا۔۔ میں کافی دیر سیڑھیوں پر سرجھکائے بیٹھا رہا۔۔طلبا کا شور تھم چکا تھا جب مجھے لگا کوئی دبے قدموں چلتا میرے سامنے آیا ہے
میں نے سر اٹھا کر دیکھا وہ بیلا تھی۔۔ اففف اسکاچہرہ جیسے شدید تپ چکا تھا۔۔میں سمجھ سکتاتھا ۔۔وہ بولی اب پتہ چلا کیوں چڑ مجھے ۔۔ یہ مجھے ایسے ہی ہوٹ کرتا تھا اور بہت کچھ یہ تو کچھ بھی نہیں۔۔اور تم بس چپ ہو لیے ۔میں نے کہامیں اسکا سر پھاڑ دیتا بس میڈم کا لحاظ تھا۔۔ اور اس نے بہت کیا نا میڈم کا لحاظ ۔۔اوووور اسکا سر نہیں پھاڑنا اسےہرانا ہے سمجھے تم اسی گراونڈ میں اور بہت مارجن سے۔سمجھےتم وہ جیسے ہسٹریائی انداز میں چلائی میں اٹھا اور کہا ہراوں گا یااار ۔۔اسے سزا ملے گی۔۔تب وہ عجیب سے انداز میں بولی ویسے لگتی توکھسری ہی ہوں نا۔۔ اسکا۔لہجہ بہہت تلخ ہو چکا تھا۔۔ ارے نہیں یار کون بولامیں بوکھلا گیا ۔۔اسکی ذہنی رو عجیب ہوچکی تھی۔۔ تم بہت پیاری بہت نازک اور کومل سی لڑکی ہو ۔۔ ایسی لڑکی جو چھوئی موئی سی۔۔ یہ تمہارا حلیہ اگر تھوڑا سالڑکی والا رکھو تو یقین کرو پورا کالج سیٹیاں مارے ۔۔ میں نے اسکو نارمل کرتے ہوے کہا۔۔ سسسچ اسکی جیسے آنکھیں چمک اٹھیں۔۔ہاں سچ تم بہہہت پیاری ہو اسی لیے تو تمہارا غنہ بنا ہوا۔۔ میں اس بات سے بے خبر کہ میری باتیں اس اس کی ذہنی رو کو اور طرف لے جارہیں۔۔
اسکا چہرہ جگمگایا جیسے اور وہ بولی چل اب ۔۔۔اگلا پلان کرتے وہ مجھے کھینچتے ہوئے بولی۔۔ ویسے تمہاری سپیڈ اچھی تھی اچانک مدہم کیوں ہوئی ۔۔ بس یار ویسے ای میں نے ٹالا۔۔ ویسے تو نہیں میں جانتی اس نے کچھ فضول بولا ہوگا یہ اسکا انداز ہے۔
راستے میں اسے مالٹوں کا فریش جوس پلاتے کافی نارمل کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔جب میں سگنل پر اترا تو بیلا بولی۔۔ واقعی میں اگر حلیہ بہتر کروں تو اچھی لگوں گی۔۔ میں نےکہا اچھی تو اب بھی لگتی لڑکیوں سا حلیہ کرو تو قیامت ڈھاو مجھے کیا پتہ تھا یہ جملے میرے لیے عذاب بن جانے
میں وہاں سے ٹہلتا گھر پہنچا ابھی پہنچ کر کچھ دم ہی لیا تھا کہ ڈور بیل بجی۔۔میں نےدروازہ کھولا تو سارہ اور روزی سے سامنا ہوا۔۔ ہم وہیں لان میں بیٹھ گئے۔۔۔کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد سارہ بولی۔۔ آج ہم بھی آئے تھے تمہارے کالج۔۔ اچھا میں نے حیرت سے پوچھا۔۔کچھ کام تھا کیا۔۔ ارے نہیں بس ویسے ہی سپورٹس میلہ کے ساتھ مینا بازار کے لیے ہم بھی سٹال لگا رہے نا۔ ریس سے اگے دن۔۔ پھر ریس بھی دیکھی ہم تم اچھا بھاگتے ہو۔۔ اور محنت کی تو ممکن جیت سکو سارہ نے روزی کی طرف دیکھتے ہوے کہا۔۔ اسی وقت میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔۔ کاشف کے فاول کا جواب فاول سے دینے کا۔۔ میں نےکہا جیت تو میں آج بھی شائد جاتا لیکن ۔۔ کیا لیکن سارہ نے لقمہ دیا۔۔ ارے یار جو لڑکا جیتا نا ۔۔ اس نے بہت فضول بات کی ۔۔ ایسی بات کہ بہت ہی فضول ۔۔مجھے تو اسکی گرل فرینڈ پر ترس آ رہا۔۔ ہیں وہ کیسے میرا وار کامیاب رہا ۔۔ اسبار روزی بے ساختہ بولی۔وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ میں ان دونوں کو لوو کپل کے انداز میں مارکیٹ گھومتے دیکھ چکا۔۔ میں جھجکا اور کہا وہ شروع میں بولا ریس کامزہ شرط میں ہے لگاو شرط ۔۔ میں ٹال دیا۔۔ جب ریس شروع ہو گئی تو شائد تم نوٹ کیا ہو وہ میرے برابر آیاتھا جسکے بعد میری سپیڈ سلو ہوئی ہاں ہاں سارہ نے تائید کی۔۔ تب وہ بولا اگر تم جیت گئے تو میں اپنی گرل فرینڈ کو تمہارے نیچے لٹا دوں گا۔۔بہہت گرم بچی ہے اوے اب تو جیتو ۔۔میں نےدیکھا یہ سن کر روزی کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔۔ سارہ نے اسکی طرف دیکھا اور مجھے کہا سچ۔۔ میں نے کہا مجھے کیا ضرورت جھوٹ بولنے کی میں تو بس ویسے بتا دیا کہ کتنا فضول وہ بھلا ایسے کوئی کہتا اپنی گرل فرینڈ کے بارے میں اور جو اس نے بکواس کی گرل فرینڈ کی مستیوں کی میں نہیں بتا سکتا یار۔۔میرا بس چلے تو میں اس گرل فرینڈ کو جا کر بتاوں کہ اسکی محبت کی باتیں وہ چسکے لیکر بیان کرتا۔۔مرا مقصد کامیاب ہو چکا تھا۔۔ روزی کا چہرہ پیلا اور آنکھوں میں غصہ 
میں آہستہ آہستہ اسکے اندر کی زنانہ انا اور خودی کو ضرب لگانے لگا۔کچھ دیر بعد وہ اچانک سے اٹھیں اور پھر آنے کا کہہ کر چلی گئیں۔۔ میں نے بیج بو دیا تھا اب نتیجہ جانے کب نکلتا۔۔
اسکےبعد روٹین میں بیلا کے گھر گیا۔۔انکل نے میری کافی ہمت بندھائی کہ اچھا ہوا پتہ چل گیا کہ کون کتنے پانی میں ۔۔ اب تم سب چیزوں کو بھول کر صرف سپیڈ پر توجہ دو کافی دیر وہ مجھے گر کی باتیں بتاتے رہے۔میں نے بیلا کاپوچھا تو کہنے لگےوہ باہر مارکیٹ تک گئی ہے تم جاو رننگ کرو آ جاتی میں نیچے بیسمنٹ میں جا کر رننگ کرنےلگا کافی دیر ہو گئی لیکن بیلا کی بچی نہیں آئی ۔۔ میں تھکن سے چور صوفےپر لیٹا آرام کر رہا تھا جب کسی نے میری آنکھوں پر ہاتھ رکھا۔۔چھوٹے سے نرم ہاتھ بیلا بوجھی گئی میں نے ہاتھ کو آرام سے پکڑا اور اسے سامنے لیتا آیا اور جب میری نظر اس پر پڑی میں حیران رہ گیا۔۔ اسکے شولڈر کٹ بال اسکا چہرہ اسکی بھنویں وہ کسی اچھے بیوٹی پارلر سے ہوکر آئی تھی شائد ۔۔کیسا اس نے میرےسامنے آ کر اپنا آپ دکھاتے ہوئے کہا۔۔ اس نے اچھی تراش خراش والا سوٹ پہن رکھا تھا اور بلکل کسی پندرہ سولہ سالہ لڑکی کی طرح لگ رہی تھی جو لڑکپن اور جوانی کی سرحد پر اسکا شباب ہلکا ہلکا ابھرا ہوا تھا ۔۔ وہ ایک چائنیز گڈی لگ رہی تھی۔ میں نے کہا اواااووو بہت پیاری بہت دلکش میں نے شرارت سے اسے آنکھ ماری۔۔ نعیم وہ حیرت انگیز طورپر بلش ہوئی حالانکہ شرمانا اسکی فطرت نا تھا شائد یہ زنانہ روپ کااثر تھا۔۔ میں اسکا ہاتھ تھام کر اپنے پاس بٹھایا اور کہادیکھو بیلا۔۔ تم جو ہو نا وہ ہی سوپر ہو۔۔کسی واہیات کے جملوں سے روپ چینج نا کرو اپنی مرضی سےکرو تمہاری اصل خوبصورتی تمہارا اخلاص ہے میں نے بچوں کی طرح پچکارا۔۔ نہیں میں کسی کی واہیات بات سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے سب کیا۔۔ روز ماما کہتی تھیں اور پرسوں جب میڈم رکی وہ بھی بولیں۔۔ لڑکی ہوں تو لڑکی لگنا چاہیے نا اس نے آنکھوں کو پٹپٹاتے ہوے کہا
آج اسکے رنگ ہی اور تھے۔۔ وہ بتانے لگی کہ چونکہ ہم دو بہنیں تھیں تو اماں اسے شروع سے ہی لڑکوں جیسے سوٹ پہنائے کچھ وہ جسمانی طور بھی ایسی ہی تھی جدھر جدھر ابا ٹورنامنٹس کےلیےجاتےیہ لاڈلے بیٹوں کی طرح ساتھ جاتی اسے کبھی فیل نہیں ہوا کچھ عجیب
یہ جو کاشف ہے اس کو لگتا تھا جو لڑکی بھی اسے دیکھے گی مرمٹے گی ۔۔ ہاں کافی لڑکیاں اسکے گرد منڈلاتیں تھیں ۔۔ اس نے مجھے ہوٹ کرنا شروع کر دیا اسکے ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ تھی میں نے اسکے چہرے کو اوپر کیا اور کہا اب تم اس فضول انسان پر کیوں اپنا لہو جلا رہی ہو۔۔ چل تمہیں آئس کریم کھلا کے لاتا سردی میں آئسکریم کون کا اپنا مزہ چلو اٹھو وہ فورا تیار ہوئی بلکہ تم رکو آج تمہیں میں رائیڈ پر لے چلتا آخر آج نئی نئی لڑکی بنی ہو میں نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا نعععیم کے بچے مذاق اڑاتے ہو میرا میں بتاتی ہوں تمہیں وہ مجھے کشن مارتے ہوئے بولی اور میں بھاگ کر باہر آ گیا۔۔خدا گواہ ہے میرے لیے وہ صرف بیلا تھی بس دوست میں صرف اسے بہلانےکے لیے سب کر رہا تھا میں بھاگا بھاگا گھر نکلا اور مانگی ہوئی ہیوی بائیک نکالی ۔میں نے ہارن دیا پھر ہارن دیا ۔۔ دس منٹ ہو گئے بیلا نکلی ہی نہیں ۔۔ آخر تپ کر میں بائیک لاک کرتے اندر گیا اور اسے آواز دی۔۔ آ رہی ہوں بس پانچ منٹ۔۔ اوہ یار جلدی کر۔۔ مرو نہیں آج پہلی بار تم آفر کی ورنہ ابتک میں ہی تمہیں ڈھوتی آئی ہوں اندر سے اسکی سچی لتاڑ آئی۔کچھ پندرہ منٹ کے بعد وہ کمرے سے باہر نکلی تو میں حیران رہ گیا۔۔کپڑے تو وہی تھے لیکن ہلکی سی لپسٹک کانوں میں چھوٹے چھوٹے بندے کیسی لگ رہی میں۔۔ بہت پیاری جیسے سویٹ کیوٹو گرل ۔۔ اسکے گال دمک اٹھے ۔۔میں نے بائیک سٹارٹ کی تو وہ جھجھک کر بولی وہ نعیم میں نا لڑکیوں کی طرح ایک سائیڈ ٹانگیں کرکے نہیں بیٹھ سکتی ۔تو لڑکوں کی طرح بیٹھ جاو کیا۔مشکل میں نے لاپرواہی سے کہا۔۔
لیکن ایسے لڑکیوں والی تیاری میں عجیب لگے گا نا اس نےنیا نکتہ نکالا۔۔ تم نےجانا ہے یا نہیں میں نےریس دیتے ہوئے کہا۔۔ تم جا کرتو دکھاو میں کسی بھی وقت دوبارہ وہی بیلا بن سکتی ہوں اسنے مکا بناتے ہوئے کہا اور میں ہنس دیا۔۔ اب وہ لڑکوں کی طرح میرے پیچھے بیٹھی تھی۔۔ہم کافی دیر ادھر ادھرسڑکوں پرگھومتےرہےوہ جیسےپہلی بار باہر نکلی ہو ایسے بات بات پہ ہنس رہی تھی۔۔ جیسےخود سےتعارف کی ابتدا۔۔ جیسے پندرہ سولہ سالہ عمر کی ترنگ۔ وہیں سے میں نے پہلی شہری آئسکریم کون کھائی اور مشین سے نکلتی کون دیکھ کرحیران رہ گیا رنگ برنگی کونز۔۔ ہمارےگاوں میں تو صرف سرخ رنگ کی میدہ نما آئس کریم ہوتی تھی جب سائیکل والا پھیری پہ آتا۔۔رات نے پر پھیلا دیے جب ہم واپسی کو پلٹے ۔۔ سردی بہت بڑھ چکی تھی وہ بلکل بچوں کی طرح مجھ سے چمٹی دانت بجا رہی تھی۔۔ ایسے اسکے ساتھ لگنے سے اسے ٹین ایجر بوبز میری کمر کے ساتھ پیوست تھے ۔۔یہ واحد لڑکی اور بوبز کا واحد ٹکراو تھا جس نے مجھے ذرا برابر بھی ہوس محسوس نا ہونے دی۔۔ وہ لڑکی اوردوست تھی لکن گرل فرینڈ نہیں۔۔۔اسے گھر کے باہر اتارا۔۔وہ جمپ مار کر نیچے اتری اور بازو پھیلا کر بولی آج بہت مزہ آیا سچی۔۔ اگر میں اسوقت میٹرک کا الہڑ منڈا ہوتا تو یقینا اس پر فریفتہ ہو چکا ہوتا۔۔میں اسے سمائل دیتا گھر کونکل گیا۔جب میں گھر پہنچا ناصر حسب پروگرام پہنچ چکا تھا۔۔مجھے دیکھتے ہی بولا گرو تانیہ آئی تھی مجھے دیکھ کر کافی پریشان ہو گئی آپکا پوچھا تو میں نے کہا آپ بیلا گھر گئے ہیں۔۔وہ اور پریشان ہو کر بولی بیلا کون۔ میں نے کہا نعیم کی فرینڈ ۔اسکا منہ دیکھنے والا تھا۔۔کہتی کب آنا میں نے کہا پتہ نہیں ۔ اسے آفر کی لیکن وہ بدک کر بولی نہیں میں کل پتہ کر لوں گی۔۔حیرت ہے اندر بھی نہیں آئی اندر آکر انتظار کر لیتی تو شائد کچھ کلاس مل جاتی ۔۔ میں نے ہنستے ہوے کہا اب وہ اکیلے کسی ساتھ اندر نہیں جاتی اور کلاس کی فکر نا کرو میں تمہیں اسکا وائیوا پریکٹیکل سب اکھٹا کروا دوں گا سچی ناصر کے لیے یہ ایک ناقابل یقین سی بات تھی ہاں سچی۔۔ لیکن کیسے اور میں نے اسے اگلا پلان بتایا۔۔ کل والے دس ہزار بھی اسکے تھے اور اس سے پہلے کتنی فیسز موبائل فون اور ایزی لوڈ پک اینڈ ڈراپ جانے کیا کچھ۔۔ اسکا حق بنتا تھا کہ اب جب شکار ہو چکا اسے جی بھر کر کھانے کو ملے۔۔میرا پلان سنتے ہی اس نےکہاواہ گرو کیاپلان ہے

fkniazi555.blogspot.com

اس رات راوی چین لکھتا تھا نا فون رانی سرکار کا اور نا ہی کسی کی تفتیش ہونی تھی۔ہم دونوں لاونج میں ہی انگھیٹی تاپ کر گپوں کا پروگرام بنایا لیکن لکڑیاں کہاں سے لائیں اچانک جیسے ناصر کو کچھ یاد آیا اور وہ کہتا لوہو گیا انتظام آپ بیٹھو اور میں ابھی آیا۔۔اور یہ جا وہ جا۔۔کچھ دیر بعد وہ ایک بوری میں پہاڑی کوئلے اور کچھ چھوٹی لکڑیاں لیے مجھے حیران کر گیا۔۔ اوئے باندر یہ کہاں سے لائے ۔ اسے نے کمال اطمینان سے کہا آیا کے گھر سے۔۔مجھےپتہ انکے گھرکوئلہ ہونا انکل سردیوں میں کوئلہ سپلائی کرتےدکانوں پر کیسا ۔۔ سوپر اب جاو انگھیٹی جلا کر لاو ۔۔ اندر دھوویں سے پینٹ پر نشان پڑ جانے شاباش اور کھانے کا کیا کرنا میں وہ لے آتا۔۔ اففف یاد آیا آپ کے لیے بریانی لایا ہوں بھابھی نے بھیجی ہے اس نے کہا اور میں اچھل بیٹھا بھئی واہ اور تم اب بتا رہے ہو اسے کیا خبر جب محبوبہ کچھ کھانے کو بھیجتی ہے اسکی کیا ویلیو ہوتی ہے ۔۔ میں نے کہا سب چھوڑو آو پہلے بریانی کھاتے۔۔خوشبو اڑاتی بریانی اوون سے گرما گرم۔ساتھ بہترین رائتہ رانی سرکار کے ہاتھ کا ذائقہ ۔۔ زندگی میں کئی بار بریانی کھائی لیکن وہ پہلی بریانی سجنی کی اسکا ذائقہ ہی کمال تھا۔۔ اس میں انکا پیار انکی توجہ انکا خیال سب تھا۔۔کھانےکے بعد میں حسب عادت چائے بنانے لگ گیا اور ناصر باہر آگ جلانے کی کوششیں ۔۔میری چائے بن بھی گئی اس سے کوئلے نا دہکے الٹا آنکھوں کا ستیاناس کر دیا۔۔ ہم اسی فکر میں تھے کہ آواز آئی۔۔ یہ دھواں سا کہاں سےاٹھتا ہے۔۔ میں نےاسی انداز میں میر کےشعر کا بیڑہ غرق کرتےہوئے کہا چھڑوں کے مکان سے اٹھتاہے۔۔ سامنے گیلری میں سارہ اور روزی کھڑی ہماری آگ جلانی پہ ہنس رہیں تھیں۔۔جلی سارہ نے پوچھا نہیں میں نے بےچارگی سے نفی میں سر ہلایا ۔۔ رکو اس نےکہا آواز دی اور کچھ دیر بعد دونوں ہماری طرف آ دھمکیں۔۔ چلو بھئی آج تمہیں روزی بتاتی ہے آگ کیسے لگاتے ہیں ۔۔ہیں کیوں روزی آگ لگانے میں ماہر ہیں میں نے جملےکو ذومعنی کیا۔۔ہی ہی جی نہیں ففےکٹنی نہیں اس وقت یہ غصے سے جل رہیں۔۔ روزی نےہلکا سارہ کو گھورا اور تھوڑی بہت لکڑیوں کی سیٹنگ بدلنے کے بعد اس نے پھر آگ لگائی تو دو چار کوششوں سے کوئلے دہک اٹھے۔۔ دیکھا سارہ نے فخر سے روزی کا شانہ تھپتھپاتے ہوئے مجھ سے پوچھا بائی دا وے کیا سین ہے کچھ پارٹی ہے کیا۔۔ میں نے کہا نہیں بس ایویں ہی انگھیٹی سینکنے اورکچھ دیر باتاں کرنے کا پروگرام تھا۔۔ وااو یعنی جسٹ ٹائم پاسنگ۔۔ میں نے کہا جی وہی۔۔چلو ملکر کچھ دیر گپ لگاتے ۔۔ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔۔ کچھ دیر بعد ہم چاروں اندر لاونج میں کوئلے دہکائے ادھر ادھر کی ہانکنے لگے سارہ اور روزی دونوں قصور سے تھیں پرانی واقفکاری تھی۔۔ روزی کے ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائی ۔۔ باپ عرصہ دراز سے بیمار تھا۔اور اب سب روزی کی جاب پر ہی تھا۔۔وہ پہلے وویمن ہاسٹل رہتی تھی۔جب سارہ لاہور آئی تو دونوں نے ملکر ادھر یہ سٹوڈیو روم کرائے پر لے لیا۔۔ساتھ رہنے سے دونوں کڑک سہیلیاں بن چکی تھیں۔ سارہ سمجھو روزی سے سے کافی متاثر تھی اور اسکی طرح اوپن مائنڈڈ اور صاف گو بننا چاہتی تھی لیکن اسکے اندر کی شرم یا بقول روزی کے کم ہمتی اسے پھر سے ریزرو کر دیتی تھی لیکن تھی بہت شوخ سی۔۔روزی کبھی چپ ہو جاتی کبھی کھو جاتی ایسے ہی اچانک اس نےپوچھا تمہارے نزدیک گرل فرینڈ کا مقام کیاہے۔۔ میں فورا چونکا اچانک سے گیم شروع ہو چلی تھی ۔ میں نے معصومیت سے کہا جی میری تو بنی نہیں آج تک کوئی ہاں یہ جانتا جسے بنایا اسے دل سے عزت مقام ما ن دوں گا میں نے وہ وہ جملے مارےجو میں عمبرین کے لیے سوچتا تھا۔۔ سارہ کے چہرے پر فخر اور روزی ک چہرے پر ہلکی خلش سی نمایاں تھی۔۔تمہاری کوئی گرل فرینڈ نہیں تعجب روزی نے کہا۔۔ ہاں میری واقعی کوئی گرل فرینڈ نہیں۔۔اورعمبرین واقعی میری گرل فرینڈ نہیں میری روح و جاں تھی۔بس جب ملی بنا لیں گے میں نے اگلا داو چلا۔۔ اچھا ایک بات بتاو ۔۔کیا تم یہ ریس جیتنا چاہتےہو ۔۔ میں نےکہا ہاں میں یہ ریس ہر صورت جیتنا چاہتا ہوں لیکن فئیر بنا کسی فاول کے۔ سپورٹس سمجھ کر جنگ نہیں۔۔ یہ بات ناصر نے میری ہاں میں ہاں ملائی۔۔ اس نے کہا اور اگر میں تمہیں ریس جتانے کا گر بھی بتاوں اور مدد بھی وہ بھی بنا فاول کے۔۔ تو ۔۔ میں نے کہا مجھے اور کیا چاہیے میں آپکو وڈی ساری ٹریٹ بھی دوں گا۔۔ نووو روزی لالچ سے نہیں دل سے کرتی دل سے سنگھاسن پر بٹھاتی اور دل سے جب اتارتی تو ایساپھینکتی کہ اسے یاد رہتا۔۔اسکے اندرکی تریا چلتر عورت بیدار ہو چکی تھی۔۔پھر تم میری ایک بات مانو گے کیونکہ اس بات سے وہ فائنل ہی نہیں ریس فیلڈ سے بھی دور ہو جاے گا۔۔ دفع دور۔۔میرا دل جیسے دھمال ڈال رہا تھا۔۔ اسے خبر تک نا ہوئی ہم نے اسکی ایسے للی کاٹ ڈالی جیسے بچپن میں نائی کاٹ دیتا۔کافی دیر کے بعد وہ دونوں بااائے کرتی چلی گئیں۔ انکے جانے کےبعد ناصر حسرت سے بولا کیا قسمت ہے گرو ۔۔ ایک رات میں تانیہ کی پھاڑ دی۔۔ بیلا آپکی دوست۔۔ اب یہ روزی آپکی مدد کر رہی اور سارہ تو سمجھو آپکو ہی میٹھی میٹھی نظروں سے دیکھتی رہی پکی لائن والی نظروں سے اور عمبرین بھابھی مطلب ہٹلر دیدی جیسی خاتون بھی آپکی بات مان جاتی کیا گیدڑ سنگھی ہے ؟؟ اب اسے میں کیا بتاتا کہ میں آنٹی شازیہ'اسکی سگی بھابھی کومل اور مسکین باجی رابعہ کو بھی رگڑ چکا تھا۔۔اففف کومل سے ملے کافی دن ہو گئے اور رابعہ ہاے کیا نمکین جسم تھا اسکا ۔۔یہ سب سوچتے مجھے عجیب سا ترنگ محسوس ہوا

جاری 
fkniazi555.blogspot.com

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں