Episode 26
طوفان تھم چکا تھا۔۔ ہمارا حال کسی ایسے تھا جیسے سمندری طوفان سے سے ساحل پر آ گریں۔۔ایک مستی والی تھکن۔۔ دونوں ہانپ چکے تھے۔۔ آہستہ آہستہ انہوں نے میرے گرد قینچی نرم کی اور انکی نرم ٹانگیں جسم سے رگڑ کھاتیں سیدھی ہو گئیں۔۔ گھوڑا منزل تک پہنچ کر اب آرام میں تھا۔۔ اسکی اکڑاہٹ ختم ہو چکی تھی ۔۔وہ سواری کی گرفت کمزور پڑتے ہی باہر نکلا اور میں انکے اوپر سے ڈھلکتا ہوا انکے ساتھ لیٹ گیا۔۔ انکی تیز سانسیں ۔ آنکھیں بند اور ہلکا ہلکا لرزتا جسم ۔۔میں انکے ساتھ لگا۔۔وہ سرمستی سے میری کمر کو آہستگی سے سہلانے لگیں ۔۔ جیسےپیار سے پچکارتے گھوڑےکو۔۔۔ انکے اس سہلانے میں پیار تھا داد تھی کہ تم بہت مزے سے منزل تک لائے۔۔ میں اٹھا۔۔شلوار پہنی وہ ویسے ہی مست پڑی رہیں آج پہلی بار وہ فورا نا اٹھیں۔۔
آنٹی کاجسم اب بھی کمال تھا بے شک قدرے گولومولو تھا۔۔۔ انکی جوانی کا سوچ کر مجھے پسینہ آ گیا سچی انکل کی بینڈ بجی۔۔میں آرام سے دروازہ کھول کر باہر نکلا واش روم جا کر لن کو دھویا اور بالوں اور چہرے پر گیلا ہاتھ پھیر کر کچن گیا پانی لیا اور واپس کمرے میں۔۔ وہ اب رضائی اوپر کھینچ کر قدرے آرام سے لیٹیں تھیں۔۔میں انکےپاس بیٹھا آرام سے کہا پانی کا گھونٹ بھر لیں استانی جی۔۔ وہ میرے ساتھ لگ کر بیٹھیں اور بےتابی سے دو چار گھونٹ بھرے۔پانی کے کچھ قطرے انکی ٹھوڑی سے گردن تک پھسلے ۔۔ میں انہیں آج کسی رعایت دینے کے موڈ میں نہیں تھا۔لبوں نے اس قطرے کا تعاقب کیا اور گردن ہول کے پاس جا کر چوس لیا۔۔ اففف وہ سسک اٹھیں اور مستی سے بولیں تم بہت سخت ہو گئے ہو ۔۔اصلی کے مرد بن گئے تم اب۔۔ مرے ہونہار شاگرد۔۔ ایسا شاگرد جیسے کسی میٹرک کی کلاس کے ٹیچر کا محنتی سٹوڈنٹ ایم اے کر کے استاد سے کچھ زیادہ ہو جاے۔۔ جیسے کسی پرانے پہلوان کا نیا نیا پٹھا جو مزید داو خود سے بنائے۔۔۔عمبرین والے معاملےمیں مجھے انکی بھی ضرورت تھی اسلیے ان سے زیادہ قربت ضروری تھی ۔۔ انکی کمزوری بن جاو۔۔وہ اٹھیں اور بیڈ سے اتریں۔۔ اففف انکی موٹی تھرکتی گانڈ اور موٹی رانیں تھرا رہیں تھیں۔۔ وہ باہر نکلیں اور میں نے شلوار کو پھر سے اتار کر رضائی کندھوں تک اوڑھ لی۔۔واپسی پر انکےہاتھ میں دودھ کا گلاس تھا۔۔
میں نے مصنوعی سہم کر کہا نا میں یہ دودھ نہیں پینا پھر کچھ ملا دیا ہونا آپ نے وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بولیں میری توبہ بھئی بنا دوائی ہی بینڈ بجا دی ۔۔۔ میں ہنس پڑا اور کہا آج میرا دل ہے لمبے میچ کا تو آپ بھاگ رہی
پہلے ٹی ٹونٹی تھا اب ٹسٹ میچ ۔۔ میری شوخی پر وہ صدقے واری ہوئیں اور لاڈ سے بولیں ہاے ہاے جو کرنا کر میں تجھے آج استانی والا تھاپڑا مار دیا۔۔ تم پاس ہو ۔۔ بس تمہاری کلاس ختم سمجھو بس اب کچھ لاڈ کرنے تھوڑے سے۔۔ ہیں میں نے مصنوعی حیرت سے کہا کلاس ختم مطلب اب کچھ نہیں کرنا کیا۔۔وہ ہنسیں اور کہا کرنا کیوں نہیں ۔۔ تم سے ہی تو کرنا اب بس۔۔ استانی کا سبق ختم بس اب تم میرے سویٹ سہیلے ہو ہم دونوں کھکھلا کر ہنسے۔۔اور بولیں اب بس تمہیں اپنی خوشی سے اپنے من سے تھوڑا مزیدار پیار کرنا۔۔ وہ دودھ کا خالی گلاس پکڑ کر میز پر رکھتے ہوئے بولیں۔۔اور میرےساتھ لیٹ کر اپنی نرم ٹانگ میری ٹانگ پر رکھ کر بوبز کو سینے سے لگا کر مجھے لاڈ سے دیکھنے لگیں۔۔ ہاااے نعیم بڑا سیکسی منڈا ہو گیا تو۔۔ جس کےساتھ تیری شادی ہو گی نا اسکا شروع میں حشر ہوجانا وہ کمینی ہنسی ہنسیں۔۔ میں نےکہا کیوں۔۔ بولیں اتنا وڈا لن ہوگیا تیرا اور اب تو تیرے دھکے تیرا انداز اندر تک جاکر لگتا۔۔ سواد آ جاتا۔۔۔
کچھ دیر بعد انکےبدن کالمس پھر سے مجھے مست کرنے لگا۔میں انکے ساتھ ہلکاہلکا جسم رگڑنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد آنٹی دوبارہ گرم ہوچکی تھیں۔۔میرےہاتھ انکی موٹی گانڈ کو دبا رہے تھے اور لن تقریبا اٹھ کر انکی ٹانگوں میں پھنسا ہوا تھا۔۔ میں ایسے ہی آگے پیچھے ہلتا رہا۔۔ انکی رانوں کے دباو سے لن اکڑ چکا تھا۔میں اٹھا اور اسبار انکی نقل کرتےہوئے لن کی ٹوپی کو انکے جسم پر گھمانے لگا۔۔ افففف جیسے جیسے ٹوپی پھرتی وہ اور گرم ہوتیں۔۔ فل گرم کر کے میں اٹھا اور انکا ہاتھ پکڑ کر انہیں لیتا ہوا صوفے تک لایا۔۔اور صوفے کی ہتھی پر انکے ہاتھ رکھوا کر انہیں گھوڑی بنایا۔۔ ٹانگوں کو تھوڑا سا کھلوا کر ۔۔ انکی گانڈ بلکل اوپر کو ابھری تھی میں پیار سے انکے چوتڑوں کو ہاتھ سے دباتا اور مسلتا اور وہ مممم ممم کرتی گانڈ کو مٹکاتیں۔۔ اسبار میرا ارادہ گھوڑی پر سواری کا تھا۔۔ میں نے ایک ہاتھ سے انکے شانے کو پکڑا ۔ لن کو پھدی پر جمایا اور دوسرے ہاتھ سے انکے چوتڑ پر نرم سا طمانچہ مارا۔۔ ہااااے سسسسی ظالما وہ سسکیں ۔۔انکی پھدی پھر سے گیلی ہو چکی تھی ۔۔میں نے شانے اور کمر کوپکڑ کر ہلکا سا دباو ڈالا۔ ٹوپہ جانے پہچانے راستے پر پھسلتا اندر گھسا۔۔افففف ہاااے انہوں نے گردن موڑ کر مجھے دیکھا اور کہا تیرے لن کا سب سے اہم کمال یہ پھولا ٹوپا ہے افففف کھولتا جاتا سب کچھ۔۔میں نے ہلکا سا پریشر بڑھایا۔۔ اور لن آدھے سے کچھ پیچھے تک گھسا۔۔ میں رکا اور انکی کمر کو پکڑ کر ہلکا ہلکا ہلنا شروع کیا جیسے ڈرلنگ ہو۔۔ انکی مست آہیں کراہیں کمرے کو سیکسی بنا رہیں تھیں۔۔ ہلکا ہلکا آگے پیچھے کرتا میں نے اچانک گھوڑی کو ایڑ لگائی اور ٹوپہ سب کھولتا اندر تک۔۔۔ میں پورے وزن سے انکے ساتھ لگا۔۔ وہ ہااااے مر گئی اج کہتی صوفہ پر گریں میں نے ویسے ہی لن کو کھینچا اور پھر اندر کیا۔ وہ اٹھیں پھر گریں۔۔ اندر تک جا کر لن ہلکا سا پھر گھمایا۔۔ موٹے ٹوپے نے وحشت سے پھدی کی دیواروں کو رگڑا۔۔ ہااااے افففففف ۔۔۔ اففف کرتی وہ سسکیاں بھر رہیں تھیں۔۔میں نے انہیں ایسا چودا ایسا چودا کہ انکا انجر پنجر ڈھیلا کر دیا ۔۔وہ میرےدھکے سے لپک کر آگے جاتیں اور پھر واپسی میرے کھینچنے سے میرےساتھ لگتیں۔۔ انکی ہاےواے انکی سسکیاں۔۔ انکی کراہیں اور میری دھکے ۔۔۔ وہ جانے کتنی بار چھوٹیں مجھے کچھ علم نہیں میں تو بس جنگلی گھوڑا بنا ہوا تھا انکی ٹانگیں کانپ رہیں تھیں میں انہیں وہیں سیدھا کیا صوفہ سیٹا پر اور انکی ٹانگوں کو کندھوں پر رکھ لیا انکی پھدی بلکل نیچے تھی اور اوپر سے میری پمپنگ نے انکے سارے کس بل نکال دیے تھے۔۔وہ کچھ بول رہیں تھیں کچھ رکنے کا یا وقفے کالیکن میرا اینڈ یونے کو تھامیں نے تب تک دھکے جاری رکھے جب تک میرا گھوڑا انکی پھدی میں ڈسچارج نا ہوا۔۔ آج کی چدائی نے انکی ساری مستی نکال دی تھے۔۔ کچھ دیر وہ روہانسی اٹھیں اور پھدی کو ہاتھ سے دباتے باہر کو بھاگیں۔۔ میں فاتحانہ انداز اورکمینی خوشی سے بیڈ پر گرا اور جاے کب سو گیا
اگلی صبح انہوں نے مجھے جگایا اورکہا اٹھ جاو سوہنیا عمبرین آنے والی ہو گی۔۔ ناشتے کے بعد میں انکے ساتھ اسپتال گیا اور وہاں سے کالج ۔۔ امید تھی آج انکل اسپتال سے گھر شفٹ ہوجاتے۔۔میں نے جاتے ہوئے شرارتی انداز میں آنٹی سےکہا۔۔ آج ویک اینڈ ہے توکلاس دینی پھر۔۔ انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور کہا جی نہیں میری ابھی تک درد کر رہی کمینہ منڈا انکے غصے میں بھی لاڈ تھا۔۔کالج سے واپسی کے بعد میں اور بیلا میڈم سے ملنےگئےمیڈم قدرے ریلیکس تھیں۔۔ بیلا نے میڈم کو ویک اینڈ گزارنے کےلیے اپنےگھر آنے کی دعوت دی میڈم نے بہتیرا انکار کیا لیکن بیلا نے انہیں رام کر ہی لیا اور طئےپایا کہ وہ شام کوآ جائیں گی۔۔وہاں سے واپسی پر ہم جا رہے تھے جب اچانک بیلا چونکی ۔۔۔اس نےویسپا روکا اور اور سڑک کے دوسرےکنارے چلتے لڑکا اور لڑکی کو دیکھا۔۔ لڑکا کافی لمبا چوڑا تھا ورزشی مضبوط جسم اسکےساتھ لڑکی اسکا بازو تھامے چل رہی تھی۔۔ لڑکی کا چہرہ بازو کے عقب میں تھا۔۔ میں نے کہاکیا ہوا کہتی وہ دیکھو وہ کاشف ہے ۔۔ کاشف چیتا۔۔۔ اور اسکے ساتھ۔۔ میں نے پوچھا۔۔ پتہ نہیں ہوگی کوئی گرل فرینڈ اسکی ۔۔ ایسا ہی ہے لچا سا۔۔ کہتے اس نے ویسپا آگے بڑھا دیا۔۔بیلا کی توجہ اب سڑک پر تھی اور۔میری ان دونوں پر ۔۔ عین اسی لمحے لڑکی نے کاشف کو سامنے شوکیس میں سجی کسی چیز کی طرف اشارہ کیا اسکا چہرہ ذرا دیر کو واضح ہوا ۔ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔۔ وہ روزی تھی۔۔ بیلا کا ویسا سگنل پر تھا اسکی نظر سگنل پر اور میری نظر ان پر تھی
وہ کسی بات پر اس سے بحث کررہی تھی اور نظر آ رہا تھا کہ کاشف اسکی بات سے انکاری آگے بڑھتا جا رہا تھا اسکے منہ پر دور سے مایوسی نمایاں تھی۔۔میں نے روزی والی بات دل میں ہی رکھی میں بہانے سے فردوس مارکیٹ اترا اور اسے کہا تم چلو میں تھوڑی دیر تک آتا اور تیز قدموں سے اپنے گھر کو چلا۔۔ گھر کے سامنے رک کر میں نے ایک لمحہ سوچا اور سامنے والے گھر کی اوپری منزل کی بیل بجا دی۔۔ کچھ دیر بعد اوپرسے سارہ نے جھانکا
میں نے ہیلو ہاے کے بعد روزی کاپوچھا وہ چمک کر بولی ہمیں بتا لیں جی۔۔ میں نے اسی ٹون میں کہا کہ جناب آپ دونوں کو ہی بتانا ہے وہ رکنے کا اشارہ کر کے نیچے آئی اور بولی جی جناب۔۔ میں نے کہا کل روزی جی نے اچھا مشورہ دیا تھا انکا تھینکس بولنے کے لیے آیا تھا اور آپ دونوں کو اگر برا نا لگے تو کسی دن ملکر چلتے شیشہ ہاوس ۔۔وہ بولی ڈن ہو گیا روزی تو شائد نا آئے اتنی جلدی اسکا بوائے فرینڈ آیا ہوا ہے سارہ نے ہلکی سرگوشی کی ۔۔ اوہ واہ جی۔۔ چلیں آئی تو دونوں سو کر بتانا مجھے ۔۔ میں مڑنےلگا تو وہ بولی ویسے یہ دعوت ہم دونوں کو ہے یا اکیلے بھی جا سکتے ہم ۔۔ مجھےتھوڑا جھٹکا لگا لیکن سنبھل کر بولا میں تو کہنے لگا تھا لیکن لگا آپ مائنڈ نا کر جاو میں نے بھولے منہ سےکہا۔۔ وہ ہنس کر بولی لو ہم ہمسائے ہیں اور دوست بھی تو مائنڈ کیسا۔۔ اچھا جی میں قدرے شوخی سے بولا اور کہا فرینڈز اور ہاتھ آگے بڑھایا۔۔ اففف اسکا ہاتھ کسقدر نازک تھا ۔۔۔ خالص برگر بچی۔۔ کچھد دیر ہیلو ہاے کے بعد ہم اپنے اپنے گھر چلے گئے ۔ اندر جاتے ہوئے وہ مڑی اور ایک سویٹ سمائل دیکر بھاگتی اوپر چلی گئی۔۔میں اندر پہنچا تو حیران رہ گیا ناصر میری امیدوں سے بھی بہتر کارکردگی دکھا رہا تھا۔۔ لاونج صاف ستھرا چمک رہا تھا۔۔ سامنے اس زمانے میں امارت کی نشانی سونی کی ایل سی ڈی جو وہ اپنے کسی دوست سے ادھار مانگ کر لایا تھا ۔۔۔میں نےاسے گڈ کا اشارہ کیا تو وہ بولا ۔گرو جی نئےماڈل کی ہیوی بائیک کا اس نے بتایا شام تک آ جاےگی۔۔ یہ سب جال تھا ۔۔ فراڈن یعنی تانیہ کے لیے۔۔گرو جی وہ آئے گی تو نا۔۔۔ اسکے اندر مجھ سے زیادہ جلدی تھی۔۔۔امید تو ہے ۔۔ ابتک اسے ایکبار کنفرم کرنے آنا چاہیےتھا۔۔جو سسپنس اسکے اندر میں جگا چکا تھا اسےآنا تھا۔۔۔ میں اسے شاباشی دیتا چینج کرنے روم میں چلا گیا۔۔۔ٹراوزر شرٹ پہن کر میں باہر آیا۔۔ اور اسے ایکسرسائز کا بتا کر بیلا کے گھر کو روانہ ہوا۔۔ میرا ذہن پلان بنا رہا تھا ۔۔۔ابھی میں گلی کی نکڑ پر پہنچا تھا کہ سامنے سے تانیہ آتی دکھائی دی۔۔میں نے گھائل مجنوں کی طرح اسکو ہیلو کی اور کہا جناب کدھر کو سیریں۔۔ میں انتظار کر کر کےکہ آپ کب آو گی یا نہیں آو گی اور میرا ویک اینڈ جانےکیسا ہوگا۔۔ وہ سسپنس چھپاتے ہوئے بولی تم کہاتھا کل بتاوںگا ۔۔ تو مجھےکیاپتہ کیا پروگرام۔۔۔ میں نے کہا ہمارا کیا پروگرام ہونا ہے۔۔۔جس بات کے لیے میں ویٹ کا کہا وہ ہو گیا۔۔ ہیوی بائیک لی ہے میں نے ۔۔ اس پر لاہور گھومنا۔۔ سچی اس نے بے یقینی سےکہا ۔۔ چند دن کے لیے بائیک لے لی۔۔ ہاں تو کیا ہوا جاتے ہوئے ناصر کو دیتا جاوں گا میں نے سخاوت کے ریکارڈ برابر کیے۔۔ واہ بھئی اور کیا پلان۔۔ اور تو سب آپ پر ہےنا۔۔ آپ بتاو کدھر جانا کدھر گھومنا۔۔ کچھ شاپنگ کرنی (اسکے پیسے بھی ناصر سے لیےتھے ظاہرہے اسکا کام تھا ) اور گھر میں باربی کیو اب آپ بتاو۔۔۔وہ مصنوعی کچھ سوچا اور میں اس کی مصنوعی سوچ کےدرمیان معصوم بچوں کی طرح پلیز پلیز کرتا رہا۔۔ کہتی ناصر کب جانا شاہدرہ۔۔میں نے کہا شام سات بجے۔۔ اوہ کافی لیٹ ہو جانی نا۔۔ ماما ناراض ہونگی اسکی اداکاری جاری تھی اورمیری پلیز بھی۔۔جیسےوہ دنیا کی واحد لڑکی ہو اور میں بلکل سادہ۔۔۔آخر وہ بولی میں شام کو بتاتی۔۔ میں نےکہاپتہ آج میری برتھ ڈےہے پلیزسوپر باربی کیو کرتے نا۔۔واو ہیپی برتھ ڈے یارا۔۔۔ چلو میں بتاتی شام کو۔۔ اس نے مجھے جان کر اور جلایا
بیلا کے گھر روٹین کی ایکسرسائز کی میری رننگ کافی اچھی ہو چکی تھی ۔۔ دو دن بعد ٹرائل ریس تھی ۔۔ ٹرائل ریس کا آئیڈیا بیلا کاتھا اور اسی نے اس طریقے سے اس ریس کا پروپیگنڈا کیا کہ مذاق مذاق میں دو تین کالجز سے ریسر لڑکے ریس سے پہلے ایکدوسرے کا لیول دیکھنے کے لیے شامل ہونے لگے ۔۔ دو دن بعد کالج گراونڈ میں ہی ریس تھی رننگ کے بعد ہم بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ میڈم بھی آ گئیں۔۔اپنے لمبے بالوں کو ہلکے کھلے انداز میں باندھے بنگالی ساحرہ کے انداز میں داخل ہوئیں ہیلو ہاے کے بعد وہ اور بیلا ادھر ادھر کی ہانکنے لگیں۔۔۔ میں چونکہ اب میڈم کو نوٹ کر رہا تھا مجھے لگا میڈم جیسے آج زیادہ لاڈ کر رہیں بیلا کے ۔۔
انہوں نے مجھے بہت روکا لیکن میں انکل کی طبیعت کا بہانہ بنا کر نکل آیا۔۔ کل لازمی انکل کی طرف بھی جانا تھا یہی سوچتے میں گھر پہنچ گیا۔۔شام کے ساڑھے پانچ بجنے والے تھے میں گھر پہنچا تو ناصر پھر دیوانہ وار میرا ہی انتظار کر رہا تھا۔۔ یار گرو آج پھر ایک اچھی اور ایک بری خبر ہے بولو۔۔میں نے کہا جگر پہلے بری وہ بولا انکل کی طبیعت کا سن کر دلاور واپس آگیا ہے اسکا چہرہ بڑا عجیب سا ہو رہا تھا۔اوہ ۔۔ رقیب کیا ہوتا ہے یہ عاشق سے پوچھے وہ پہلے دور تھا اب اسی گھر جہاں اسکی بیوی اور میرا عشق میری رانی سرکار۔میری سوچیں ادھر ادھر بھٹکنے لگیں بے فضول کی باتیں اسکا خاوندانہ حق عمبرین کی خدمت اسکا غصہ عمبرین کا سہم اور اسکے کھردرے اور انکا مرمریں بدن ۔ یکایک میرے اندر جیسے اندھیرا پھیلنے لگا ۔۔ ناصر سے سنی باتیں دلاور کا ان سے رویہ جانے کیسے بیتیں گے ان پر یہ لمحے ۔۔ میں سناٹے میں تھا جب ناصر نے مجھے کہا کہ اچھی خبر یہ ہے کہ کچھ دیر پہلے تانیہ آئی تھی پہلے تو مجھے دیکھ کر تھوڑا حیران ہوئی حالانکہ اسے خوش ہونا چاہیے تھا نا اور میں نے موقع اور کمرہ دیکھ کر اسے کہا تھوڑا بیٹھو تو جیسے نولفٹ تھی گرو اسکے لہجے میں مایوسی اور حیرانی تھی کہ میرا اندازہ کتنا پرفیکٹ۔۔ تو کیا بولی مجھے ایسے لگا جیسے میری آواز کہیں دور سے آرہی میرا بی پی اچانک سے جیسے سلو ہوگیا۔۔مجھ سے پوچھا تو میں کہنےلگا میں بس نکل رہا جیسے نعیم آتا۔۔ آپکی ہیوی بائیک اس نے سامنے پورچ میں کھڑی لششش پشش کرتی بائیک کی طرف اشارہ کیا۔۔ بڑے شوق سے بائک کو دیکھا اس نے اوور کہہ رہی تھی اچھا نعیم آئے تو اسے کہنا اسکا کام شام سات بجے ہو جائے گا ۔۔ میں نے جان کر پوچھا تو بولی کچھ نوٹس مانگے آپ نے ۔۔اور وہ رہا آپکا برتھ ڈے کیک اس نے فریج کی طرف اشارہ کیا۔۔ اور گفٹ اس کمرے میں اس نے لاونج کے ساتھ اٹیچڈ چھوٹے کمرے کی طرف اشارہ کیا جو آپریشن روم تھا۔۔ جیسا بھی تھا اب میں اس فراڈن کو عمبرین کے کمرے یا اسکے والدین کے کمرے میں تو نہیں بٹھا سکتا تھا وہ بس باہر کی حد تک کے قابل تھی ۔۔ لیکن میرا دل جیسے اچانک سے اچاٹ ہو چکا تھا۔۔جیسے چلتے کھلونے کی چابی رک جائے ایسے ۔۔ میرے اندر کی خوشی اندر کا سکون بس انہی کے ہونے سے تھا۔۔ آج رات تو بات نہیں ہو سکتی تھی اس سوچ نے مجھے سن کر دیا۔۔ ناصر بولاکیا بات ہے بھئی میں نے کہا کچھ نہیں یار میں نہیں چاہتا تھا کہ اس سے ذکر کروں اور وہ پھر سے دلاور نامہ شروع کرے اور مزید سلگائے۔۔ اب میں کیا کروں۔۔ناصر نے مجھ سے پوچھا۔۔ میں نے کہا تم گھر چلے جاو اب میں ٹھیک ہوں۔۔دو دن ہو گئے ۔ میرا دل ہر چیز سے اچاٹ ہو چکا تھا بسس چاہتا تھا کہ کوئی نا بولے اور وہ تانیہ اس نے جھجھک کر پوچھا۔۔اس میں کچھ دن لگیں گے یار میں نے جام چھڑائی مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ اس سے کیا کہنا بسس مجھے وہ کمرہ ۔۔ عمبرین کا صوفہ پر سونا اسکا بیڈ پر ۔۔ عمبرین کے پاوں دبانا ۔۔۔۔۔۔ ایک ایک حرکت مجھے ستا رہی تھی ۔۔کب ناصر گیا کب اندھیرا ہوا مجھےعلم نہیں۔۔ لاونج میں ہلکا اندھیرا تھا اور میں چپ صوفے پر لیٹا ہوا جب ایسے لگا جیسے باہر کھٹکا ہوا۔۔میں نے دیکھا تو باہر لاونج کے دروازے کے پاس کوئی سایہ تھا میں چونکا جب آوازآئی نعیم ۔۔۔ میں کچھ دیر جیسے سن سناٹا رہا پھر آواز آئی کوئی ہے نعیم یہ تانیہ تھی ۔۔ کیا مصیبت ہے یار اسکا اس مزاج میں آنا ۔۔ یہ پلان اب مجھے سخت کوفت زدہ کر رہا تھا میرا جسم جیسے عجیب سا۔مجبورا میں نے کہا آو نا تانیہ میں ادھر بیٹھا ہوں ۔۔ دروازے کےساتھ بورڈ ہے لائٹ جلالو۔۔وہ آگے بڑھی اور لائٹ آن کر کے بولی ۔۔ لو مجھے دعوت پر بلا کر خود لائٹیں آف کر کے چھپے بیٹھے ۔۔۔ ناصر کہاں۔۔ بسس یار طبیعت عجیب سی تھی تو لیٹ گیا سستی نے اٹھکر لائٹ نہیں جلانے دی ۔۔ اور ناصر تو چلا گیا ہوا۔۔ اوہ کیا ہوا وہ میرے سامنے آ کر بیٹھی۔۔تمہارا رنگ بھی عجیب سا ہو رہا۔۔ کچھ نہیں بس سر درد سا۔۔ سر دبا دوں اس نے دوست کا اس نے لاڈ کیا۔۔نہیں یار میں نے اکتاہٹ سے کہا۔۔ ارے تکلف نا کرو اس نے اوپر پہنی بڑی شال کو اتار کر صوفے پر رکھا اور کرسی کو گھسیٹ کر میرے سر کی طرف آئی۔۔افففف جیسے ہی اس نے شال اتاری لگا جیسے اسکا شباب امڈ آیا۔۔ سپر فٹنگ والی شرٹ اور پاجامہ کے ساتھ وہ غضب ڈھا رہی تھی بلاشبہ وہ ماڈرن خوبصورت اور سیکسی تھی۔۔جیسے ہی وہ کرسی کھینچ کر میرے پاس آئی اور میرے ماتھے کو سہلایا ۔۔ہلکا سا آگے کو جھک کر۔۔مناسب کھلے گلے میں اسکا شانہ اور گردن چمکی اسکے ہاتھ کالمس ماتھے سے لگا اسکا چنگھاڑتا جسم اور خوشبو ۔۔میں جو عجیب کیفیت میں تھا ۔۔ اب وہ اداسی وہ چڑچڑاپن آہستہ سے وحشت میں ڈھلنے لگا۔۔ مجھے شدت سے اسکی چڑ لگی کہ کیسے صرف عیاشی کے لیے ٹریپ کر رہی ناصر کو اور کیسے میرے اتنے قریب آ گئی۔۔اسکے ہاتھوں کا لمس آہستہ آہستہ سرور دینے لگامیری وحشت کو گھٹن کو راستہ نظر آ گیا۔۔ دنیا کو آگ لگاتا یا نا ۔۔ اس کی لازمی بجانا لازمی تھی ۔۔ اور وہ بھی اس وحشت میں۔۔میں نے ہاتھ بڑھایا اور اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہا پتہ میں کیوں اداس تھا۔۔ کیوں اس نے پوچھا۔۔ آج میری برتھ ڈے ۔۔ سوچا تھا کھل کر انجوائے کروں گا تم بھی نہیں آ رہی تھی میں بہت اداس تھا میں نے ڈرامہ شروع کیا۔۔ اوہو سویٹو اس نے بھی مصنوعی لاڈ سے کہا ۔۔ چلو اٹھو ۔۔ میں نے ہاتھ سے بازو تک ہاتھ کو گھماتے ہوے کہا کدھر۔۔ اس نے بڑی ناز سے میرے رینگتے ہاتھ کو تھام کر طریقے سے پیشقدمی روکی جیسے کہہ رہی ہو نا جی بس اتنا ہی بہت ۔۔اس نے کہا تمہیں گھمانے تم باہر بائیک لیکر آو مجھے نکڑ سے لے لینا ایسے آس پاس سو بندہ ہوتا اس نے دوبارہ شال لیتے ہوئے کہا۔ اب چور بلی کا کھیل شروع ہو چکا تھا۔۔ میں اٹھا اور تھوڑا فریش ہو کر نکلا۔۔ بائیک نکالی اور نکڑ سے اسے اٹھایا۔۔وہ میرے ساتھ جڑ کر بیٹھی اور بولی اب موڈ فریش کرو دیکھو تمہارے لیے سہیلی کی برتھ ڈے کا بہانہ بنا کر رکی۔۔اب مجھے سہیلی کے گھر چھوڑ دینا بعد میں۔ میں نے کہا جو حکم اب کدھر چلیں کسی اچھی سی جگہ جہاں سکون سے کچھ کھا سکیں کچھخرید سکیں۔۔ وہ مجھے ساتھ لیے ایک سپر مال لے آئی ۔۔ ایسا مال میں تو بس ڈراموں میں ہی دیکھا تھا۔۔ ادھر ادھر گھومتے وہ ایک جگہ رکی سامنے برانڈڈ بوتیک کا ڈسپلے تھا۔۔ میں نے نوٹ کیا اسکی نظر ایک فینسی شرٹ پر جمی ہوئی ایک سکن ٹائٹ تقریبا سلیولیس شرٹ اور ساتھ پاجامہ ۔۔ اسکی قیمت سات ہزار نمایاں تھی۔۔ میں نے کہا کیا ہوا پسند آگیا کچھ۔۔وہ ناز سے بولی ہاں بہت زیادہ لیکن مہنگا بہت ہے اس نے چال چلی۔۔ اور میں نے وہی کیا جو بنتا تھا۔۔ ارے یار پلیز جو پسند ہو لے لو جیسے بھی ۔۔ میں نےکہا۔۔ تم کہہ سکتے ہو بھئی ہم غریب بندے اس نے چال کولمبا کیا۔۔ پلیز ایسا نا کہیں ۔۔ میرے ساتھ ہیں مری سالگرہ پر تو میری مرضی چلنی جو پسند وہ لینا چلیں لیتے۔۔ ارے نہیں نعیم بہت مہنگا ہے۔۔ میں نے ڈرامہ جاری رکھا اور اسکی اوپری اوپری نا کے باوجود وہ سوٹ پیک کروایا۔۔سوٹ کے بعد تو جیسے اسے یقین ہوگیا کہ میں ناصر سے کہیں اوپر کی چیز ۔۔پہلی ملاقات میں ایسا گفٹ۔۔وہاں سے ہم ادھر ادھر گھومتے جوس پیتے ایک شرٹ اپنے لیے لیتے واپسی کو لوٹے باہر دھند پڑ چکی تھی اففف کتنی سردی ہو گئی بس اب یہاں سے سہیلی گھر چلتے ۔۔ میں نے ان سنی کر دی اور کک ماری ۔۔ سوٹ کے بعد وہ بہت لاڈ کر رہی تھیں ۔۔ افففف سردی کہتے وہ اسبار بلکل میرے ساتھ لگ گئیں۔۔اتنی موٹی شال کےہوتے سردی میں بے چارہ صرف جرسی میں بائیک چلا رہا وہ ہنسیں اور بولیں تو میں چلاوں کیا اب۔۔ ساتھ لگنے سے وہ میرے ساتھ جڑی تھیں۔۔
#fkniazi555.blogspot.com
اسکا چنگھاڑتا شباب میری کمر سے ٹکرا رہا تھا اور میری وحشت عروج پرتھی۔۔وہ ہلکاسا میری کے ساتھ رگڑ کھاتی تھوڑا ادا سے پیچھے ہٹتی اور پھر ساتھ جڑ جاتی وہ جانتی تھی میں ناصر سے بڑا ہوں مجھے بڑی کلاس پڑھانی ۔۔کہاں بازو چھڑا لیا کہاں سینہ رگڑ رہی اسکی حرکتوں سے غصہ اور وحشت دونوں عروج پر تھے۔۔ جب میں واپس اپنے گھر کی گلی کو مڑا تو اس نے کہا ارے مجھے چھوڑنا ہے ۔۔ میں نے کہا جی یاد ہے ایک گفٹ ہے جو لیا میں نے آپ کے لیے۔۔ میرے لیے وہ خوشی سے ہلکا چیخیں۔ ہاں آپکے لیے ۔۔ بہت پہلے لیا تھا کہ اسکو دوں گا جو میرا برتھ ڈے اسپیشل کرے گی اور وہ آپ ہو ۔۔ اور برتھ ڈے سے یاد آیا کیک بھی تو کاٹنا نا۔۔ میں اسے لالچ دیا۔۔ اوہ کیک یسسس کیک تو کاٹنا نا۔۔انہیں گفٹ کا لالچ متجسس کیا جو بندہ عام انداز میں سات ہزار کا سوٹ لے دے اسکا اسپیشل گفٹ کیا ہو گا یہ کم تجسس نا تھا۔۔اور اس نے جال میں قدم رکھ دیا۔۔ اندر لاونج میں اسے بٹھایا۔۔ہیٹر جلایا ۔۔ اور فریج سے کیک نکال کر لایا۔۔ کیک کاٹ کر وشز کے بعد میں نے کہاآپ رکو ایک منٹ اور اندر کمرےسے پہلے سے تیار شدہ ایک ڈبہ اٹھا لایا اور اسکے سامنےجا کر کھول دیا۔ بہترین جیولری باکس میں سجا ایک خوبصورت سا نیکلس جگمگا رہا تھا یہ اور بات کہ آرٹیفیشل نیکلس ہم نے ناصر کے کسی دوست سے ڈبے سمیت ادھارا مانگا تھا۔۔ اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔ میں اسکی توقع سے زیادہ بدھو تھا۔۔ یہ میرےلیےہے ۔۔ ہاں اصل موتیوں کا ہے یہ میں نے لے رکھا تھا ۔۔ پچاس ہزار کا دکان کا سب سے قیمتی سیٹ۔۔اس کے لیے جس نے زندگی کے نئے سال کا آغاز دلکش کر دیا۔۔اس نے کانپتے ہاتھوں سے چھوا اور پھر فورا للچاہٹ سے بیگ میں رکھنے لگیں تو میں بولا یہ زیادتی ہے ۔۔ وہ بولیں کیا ہوا۔۔ اب وہ میری سخاوت کے سحرمیں تھیں ایسا کاٹھ کا الو بھلا کہاں ملنا تھا۔میں نےکہا یہ دونوں گفٹ مجھے پہن کر دکھائیں نا۔۔مجھے بس دو لمحے خوش ہو لینے دیں پلیز میں نے فدیہ ہوتے التجا کی۔۔ میں تو اتنا خوش ہوں کاش کاش آپ کا مسلہ نا ہوتا تو ناردرن کو نکل جاتے برفباری دیکھنے میں نے جال کو لپیٹتے ہوئے کہا۔۔ افففف سچی وہ جیسے چمک اٹھیں ہاں مچی اب جائیں اور چینج کر آئیں۔۔ ہیٹر کی وجہ سے لاونج کا موسم بہتر ہو چکا تھا۔ آپ چینج کر آئیں نیکلس ہم خود ایڈجسٹ کریں گے ۔۔ پلیز پانچ منٹ بسس۔۔ اللہ تم بھی نا وہ مسکراتیں اٹھی اور سامنے کمرے میں چلی گئیں ۔۔ اور جب وہ لوٹیں ایسا لگا جیسے بجلی چمکی ۔۔ تقریبا سلیولیس سکن ٹائٹ شرٹ میں انکا سراپا قیامت ڈھا رہاتھا یہ شرٹ شائد مارچ کے حساب سے بنائی گئی تھی ۔۔ ہلکی سی باریک شرٹ جس میں انکا سیاہ برا اور انکا شباب چھلک رہا تھا۔۔ وہ ایک ادا سے چلتی میرے پاس آئیں۔۔ کھیل سنسنی ہو چکا تھا۔۔۔
جاری ہے
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں