Meri Kahani Meri Zubani
Episode 25
میں گھر داخل ہوا تو سمجھیے ناصر بےتابی سے میرا انتظار کر رہا تھا۔۔جیسے ہی مجھ پر اسکی نظر پڑی اسے سکون آیا۔۔
اب وہ مجھے کسی گرو کا مقام دیتا تھا۔۔میں صوفے پر بیٹھا اور وہ میری ٹانگوں کو دبانے لگا ۔۔ سکون ہی آ گیا۔۔۔
ہاں بھئی سناو ملے اپنی سہیلی سے
وہ ہلکاشرماکر بولا ہاں جی۔۔ پہلے تو بےچاری بہت پریشان تھی ۔۔جب میں نے بتایا کہ میرا کزن اور دوست آیا ہوا لندن سے شادی کے لیے آجکل گلبرگ ہے آوٹنگ کے لیے بہت تگڑی آسامی ہے اور ہمارا پلان لاہور گھومنے کا ۔۔ روز شام کو ہم شیشہ ہاوس جاتے ہیں(ان دنوں بلکل نیا نیا شیشہ آیا تھا پاکستان میں اور انتہائی برگر لوگ شیشہ پینے جایا کرتے تھے ) تو کہنے لگی بھئی موجیں تمہاری میں نے اسے بھی آفر کی ہے کہ اگر اس نے آوٹنگ کرنی ہو تو شیشہ ہاوس آ جاے ۔۔اسکا دل تو ہے اگر گھر سے اجازت مل گئی۔۔۔ میں سمجھ گیا کہ اجازت تو بس بہانہ ہے وہ آئے گی بس اس بدھو کو ڈرامہ کیا۔۔ شام کے چھ ہونے والے تھے اور اس نے ساڑھے چھ کا وقت دے رکھا تھا اسی لیے وہ دیوانہ وار میرا انتظار کر رہا تھا۔۔مجبوری تھی اور مجبوری کے ساتھ شائد مجھے لت سی لگ گئی تھی۔۔خوش تو میں تھا ہی بہت اور پرجوش بھی۔۔میں نے انگڑائی لی اور اچھے سے تیارہو کر پرفیوم سہی سے چھڑک کر باہر نکلا۔۔ لک تو میری اچھی تھی ہی دیسی خوراک اور لہور سے پہلے کی کسرت کیوجہ سے صحت بھی اچھی تھی ۔۔ ظاہرا بھولی سی شکل ۔۔ اور اندر کا بھولپن تو آنٹی نے ایسا اتارا کہ اب واپس نا آتا۔۔جب میں اسکے ساتھ شیشہ ہاوس پہنچا تو میرا سارا اعتماد ہوا ہو گیا ایکبار تو۔۔ برگر لڑکے لڑکیاں شیشہ کے مرغولے ۔۔میں اندر سے کنفیوز تھا یہ ماحول میرےلیے پہلی بار تھا ۔۔ہم ایک سائیڈ پر بیٹھ گئے۔۔۔ ناصر البتہ پہلے ایکبار آچکا تھا۔۔کچھ دیر بعد اچانک ناصر چونکا اور کہا وہ دیکھیں آ گئی۔۔ میں نے اسے مڑ کر دیکھا تو دیکھتا رہ گیا۔فیشنی تو وہ شادی پر بھی تھی لیکن ابھی اس فرکوٹ براون بال کھولے وہ بلکل انگریزنی لگ رہی تھی۔۔ناصر مجنوں کا بچہ دوڑا اور اسکے استقبال کو آگے بڑھا البتہ میں لاپرواہی سے بیٹھا رہا۔۔ ناصر اسکو لیے آیا اور میرا اور اسکا تعارف کروایا ۔ اسکا نام تانیہ تھا۔۔میں نے بلکل ولائتی منڈوں کی طرح ہیلو کرتے ہاتھ بڑھایا ۔۔ اس نے بلا جھجھک میرا ہاتھ تھاما اور بڑی گرمجوشی سے ہاے کیا۔۔شیشہ سرو ہو چکا تھا۔۔میں گاوں میں حقہ ہی ایک آدھ بار پیا تھا اسلیے بےجھجک ایک کشش لیا۔۔ کچھ ذہین تو تھا ہی میں نے ادھر ادھر تاک کر دیکھ لیا تھا کہ کیسے کشش لے رہے لوگ۔۔۔یہ جانے کیسا حقہ تھا۔۔ جیسے میٹھا سا دھواں ۔۔اسکا تو مسلہ ہی نہیں تھا دیسی تمباکو کا حقہ کجا یہ شیشہ کجا۔میں نے اس بار تانیہ کی طرف شیشہ بڑھایا اس نے بڑی ادا سے گہرا کشش لیا اور سرخ لپسٹک والے سیکسی ہونٹوں کو گول کر کے اوپرکودھواں پھینکا۔۔ اب ہلکی پھلکی فرینکنس ہو چکی تھی۔۔ میں نےحاتم طائی بنتے ہوئے گہری چال چلی اور ناصر کو بولا کہ بھئی تمہاری مہمان ہیں کوئی خدمت کرو ہماری ہوتیں تو ہم پوچھتے ۔۔ اسکے ہونٹ مسکرائے ۔ اسنے بات کو سمجھ لیا تھا۔۔ اسے لگ رہا تھا کہ مرغا چھری کے نیچے آنے کو بےقرار۔ یہ ایک کیفے کا بیک ہال تھا ۔۔اندر مناسب حرارت تھی ۔۔ شیشہ کا خوشبو آلود دھواں ۔۔ باہر والی سردی کی بجائے یہاں کافی سکون بخش ماحول تھا۔۔ناصر اٹھ کر اگلے حصہ کیفے کچھ آرڈر کرنے گیا اب ہم دونوں آمنے سامنے تھے یہاں کافی حرارت سی نا۔۔ اس نے بڑی ادا سے فرکوٹ کے کچھ بٹن کھولتے ہوئے کہا افففف اسکا کوٹ کھلنا تھا کہ جیسے مجھے کرنٹ لگا کوٹ کے نیچے اس نے ٹائٹ ہائی نیک سی پہنی ہوئی تھی جس میں اسکا سوپر فگر نمایاں تھا۔۔ ہائی نیک میں اسکے بوبز بلکل ٹائٹ تھے کم از کم چھتیس کے ہونگے۔۔ میرے دل نے گواہی دی کہ یہ بچی ناصر کو ناسہی کسی نا کسی اور کو ضرور بوبز دبوانے والی کلاس دے چکی تھی۔۔اسکا انگ انگ چیخ رہا تھا۔۔ میں نے اپنے کردار اور اپنی شکل کے مطابق ایسے تاثرات دیے جیسے مرغا پھڑکنے کو۔۔
اس نے مجھ سے پوچھا کہ ناصر سے تمہارا کیسا یارانہ ہے میں پاگل تھا جو بتاتا کچھ۔۔ میں نے کہا بس نارمل سا۔۔ اور کوئی ہے نہیں نا جو لاہور گھما سکے میں نے شطرنج کی بساط پر اگلی چال چلی ۔۔ پتہ میں رہا باہر ضرور لیکن سخت نظروں میں۔۔ یہ کچھ دن میں جینا چاہتا ۔۔ آ جا کر ناصر ہی ہے اسی ساتھ گھومتا رہتا۔۔اور ناصر تو بس گزارا ای ۔۔ ہاں یار اس نے میری توقع کے عین مطابق بولی۔۔اب کل سے اسکی اماں کا فون آ رہا کہ واپس آو مجھے بھی بلا رہی۔۔ لیکن یاار میں نے بے تکلفی سے کہا مجھے نہیں جانا شاہدرہ میری جان جاتی میں تھوڑا اوپن مائنڈڈ بندہ سا۔۔میرا تو ایک سوپر پروگرام تھا سارا ستیاناس ہوگیا۔۔کیسا پروگرام اس نے اشتیاق سے پوچھا۔۔ ایک تو لانگ ڈرائیو دوسرا شاپنگ اور اسکے بعد ایک ویک اینڈ کا بھی ہے جسسکا کل پتہ چلے گا۔۔ کل کیوں آج کیوں نہیں۔۔ بسسس یار کچھ کنفرمیشن رہتی میں نے اسے ادھورا چھوڑا ساتھ اگلی پلاننگ کے لیے کل تک کا وقت لیا۔کچھ دیر بعد ناصر کچھ اسنیکس وغیرہ لے آیا اور اسکے بعد ہم واپس اٹھ آئے۔۔ناصر میری ہدایت کے مطابق مجھے مکمل وقت دے رہا تھا۔۔تانیہ مجھ سے لندن کی باتیں پوچھتی رہی اور میں ادھر ادھر کی سنی پھینکتا رہا۔۔ اب ہم روڈ پر شانہ بشانہ چل رہے تھے ہمارے شانے آپس میں ٹکراتے اور وہ کوئی اعتراض یا فاصلہ کیے بنا ایسے ہی ٹکراتی رہی۔۔اسکا گھر روڈ کی دوسری طرف تھا۔۔اپنے گھر والی گلی کے پاس سے گزرتے ہوئے میں نے اسے باہر سے اپنا گھر دکھایا۔۔ اندر لیجانے کے لیے کچھ چیزیں ضروری تھیں ۔۔ گلی کے موڑ کےقریب ناصر واش روم کا نعرہ مارتے گھر کو بھاگا اور میں اسکے ساتھ رکا اور کہا۔۔آپسے ملکر بہت اچھا لگا ورنہ ناصر تو بس بور ہی کرتا ہے۔۔ ہاہاہا واقعی وہ نرا گھگھو گھوڑا ہے جب اس نے ایسا کہا میرے اندر تک جل گئی کہ یہ وقعت اسکے پیار اسکے خلوص کی۔۔ ساتھ ہی اس نے بے تکلفی سے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔۔ ہاتھ مارنے کے بعد میں نے ہولے سے اسکا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔ تعجب اس نے چھڑوایا بھی نہیں۔۔میں نے ہاتھ پکڑے بلکل معصومانہ انداز میں کہا۔۔ اگر آپکو برا نا لگے تو کل تھوڑا وقت نکالیں ۔۔میں کچھ آوٹنگ کرنا چاہتا لیکن سمجھ نہیں آتا کیا کروں تھوڑا مشورہ دے دیں گی پلیز میں نے التجا سی کی۔۔ہممم چلیں کوشش کروں گی اس نے ہونٹ دبا کر گویا اپنی طرف سے مجھے مار ہی ڈالا۔۔۔اسے گھر چھوڑ کر میں نے ناصر سے اگلا پلان کیا۔۔ہم یہ باتیں کرتے اپنی گلی کی نکڑ تک پہنچے تو شیشہ کیفے سائیڈ سے سارہ اور روزی برآمد ہوئیں ۔۔ آپسی ہیلو ہاے ہوئی ۔۔ میں نے کہا کدھر سے آرہیں آپ۔۔ وہیں سے جہاں آپ تھے کچھ دیر پہلے سارہ نے شوخی سےکہا ۔۔اوہ شیشہ سنٹر۔۔ دیکھا نہیں آپکو۔۔ جی جی کیسے دیکھتے وہ پھر بولی آپکے ساتھ تھی نا دیکھنے والی اس نے عجیب سے انداز سے کہا۔۔ نہیں وہ میرے ساتھ نہیں اسکے ساتھ تھی میں نے گولی دی ناصر میری طرف حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ استاد دو دو۔۔ میں نے نوٹ کیا تھا سارہ نے جیسے سنا وہ میرے نہیں ناصر کے ساتھ تھی اس کو تھوڑا اچھا سا لگا۔۔چلتے چلتے گھر کے سامنے آے ناصر دروازہ کھولنے لگا تو روزی میرے پاس آ کر ہلکے سے بولی تم رکنا ایک منٹ۔۔ اور خود سارہ سے کوئی بات کرنے لگی۔۔ میں نے ناصر کو اندر جانے کا کہا اور خود رک گیا۔۔ روزی کال سنٹر کےانداز میں صاف صاف بولی شائد تمہیں برا لگے لیکن اسلیے بتا رہی کہ تم شکل سے بھولے لگتے اور یہ تمہارے ساتھ والا لڑکا تو بچونگڑا ۔۔اس لڑکی سے بچ کر رہو یہ تمہارے ٹائپ کی نہیں ہے۔۔ کیا مطلب۔۔ اب مطلب بھی میں سمجھاوں اس نے تنک کر کہا۔۔اور واشگاف بولی۔۔ وہ سیمی کرپٹ ہے ۔۔ ایک حد تک کلوز ہوتی اور سنبھال بھی رکھا۔۔ بڑے بدھو لوٹے اس نے۔۔ اسکی باتوں نے میرے اندازے پر مہر لگائی۔۔ باقی تمہاری مرضی ہے۔۔ میں آزادی کی قائل ہوں۔۔ اور بیسٹ وشز کہتے اندر چلی گئی
جب میں واپس لاونج پہنچا تو نو بجنےوالے تھے۔۔ کچھ دیر ناصر سے اگلا پلان کیا کچھ عمبرین کی باتیں کچھ اسکی دس بجنے کے قریب میں اٹھااور اسے کہا وہ لاونج میں بستر وغیرہ سیٹ کرے میں آتا۔۔ اور میں دھڑکتے دل کے ساتھ اوپر آ گیا۔۔ کمرہ کھولا ۔۔ وہی کمرہ جہاں آج میں مالا مال ہوا تھا۔۔ ابھی تک کمرے میں گویا انکی مہک تھی۔۔سوا دس کے قریب بیل بجی۔۔ بیل بجی شادیانے بجے میں نے بے تابی سے ہیلو کیا۔۔ کیسے ہو انکی سرگوشی گونجی ۔۔آج انکی سرگوشی میں ہلکی سی شرماہٹ غالب تھی۔۔کچھ دیربعد وہ ہی رضائی نیم اندھیرا۔۔ وہ دائیں کروٹ میں بائیں کروٹ۔۔میں نے لہر میں بہتے ہوے کہا رانی سرکار۔۔ پتہ آپ کمال ہیں کمال ۔۔ آپکی خوشبو آپکا سحر مجھے ۔۔ وہ شرما کر بولیں ایویں ای ۔۔ انکی اس ایویں ای نے مجھے اور دیوانہ کیا اور میں بولا سرکار آج جب آپ میرےشانےپر سررکھے بیٹھیں تھی نا میرا دل کیا کہ آپکو بازووں میں بھر لوں۔۔ ہاے اللہ توبہ کر نعیم انہوں نے گھبرا کر کہا۔۔ لو آپ میری سرکار ہیں رانی ہیں ہم آپکے چاکر۔۔ نااا تم چاکر نہیں تم شہزادے ہو پتہ کیسے۔۔ انہوں نے میرے ہی انداز میں کہا۔۔ کیسے ۔۔ وہ شہزادہ جو سوئے ہوئے محل کی شہزادی کو جگا دے۔۔ تم تو شہزادے ہو ۔۔وہ شہزادے جسکے ہاتھوں میں امید کا پھول۔ آج میرے والدین کےسامنے جب تم بات کر رہے تھے نا تمہارا لہجہ انداز آنسو سب مجھے جیسے نرم کر گئے ۔۔ تم چاکر نہیں ہو۔۔۔ اففف میں شوخی سے بولا اتنی پیاری بات کی آپ نےکہ ۔۔ کہ وہ بولیں۔۔ کہ آپکے ہونٹ چوم لوں میں نے وارفتگی سے کہا۔ ہاے اللہ انکی قاتل آواز نکلی ۔۔ ایسے نا کہا کرو شہزادے۔۔ میں اس قابل نہیں میں مسلی برتی ہوئی انکی آواز گویا سسکیں۔۔۔نااااا۔۔۔ آپ شہزادے کی ملکہ ۔ملکہ جو شادی شدہ ہو کر بھی ملکہ ہے جسکی آن ہے شان ہے ہممم انہوں نے ہنکارا بھرا۔۔ اچھا تو پھر چوم لوں ۔۔ میں کون سا بات بھولا تھا۔۔ افففف تم بھی نا بلکل بھی نہیں۔۔ ملکہ ایسے تھوڑی نوازتی انہوں نےجوابی شوخی اپنائی ۔۔تو کیسے نوازتی ۔۔ ملکہ جب اسکا دل ہوتا تب نوازتی انہوں نےمجھے انتظار کی سولی پر چڑھا دیا۔کافی دیر ہم سرگوشیاں کرتے بے نام اظہار کرتے رہے۔اگلی صبح کالج جاکر پیریڈز لیے۔۔ساری کلاس کا میں ہیرو بن چکا تھا یہ بیلا کا کارنامہ تھا بقول اسکے میں کالج کے علاوہ اسپیشلی ہماری کلاس کےنمائندہ ہو۔۔ آف ٹائم کےبعد میں آدھی کلاس کے گھیرے میں گراونڈ پہنچا ۔۔اور سب کے اصرار پر راونڈ لگایا پورے میدان کا۔۔ بیلا تو تھی ہی اعتراض کی بچی لیکن باقی لوگوں نے کافی سراہا۔۔اسکے بعد بیلا اور میں ایڈمن آفس چلے گئے ۔۔ میڈم کا چہرہ واقعی کافی سنجیدہ تھا وہ اسوقت آفس کے فون پر کسی سے بات کر رہی تھیں اور انکے چہرے پر کبھی کبھی تشویش دوڑ جاتی۔۔ فون رکھنے کے بعد وہ چپ ماتھے کو ہلکا سا مسلیں ۔۔ بیلا انکی سہیلی کی طرح انکے پاس گئی اور بہت خلوص سے انکے سر کو سہلانے لگیں۔۔ انہیں بھی شائد بیلا کیصورت میں ایک سہارا سا مل گیا تھا ایسا سہارا جو ہم جنس بھی ہو اسکے گھرانے سے سابقہ شناسائی بھی ہو اور اخلاص بھی ۔۔ اور میں تو تھا ہی غنہ ساتھ ساتھ۔۔انکی باتوں سے پتہ چلا کہ انکے بھتیجےکا دوسری برادری کی لڑکی سے کچھ افئیرتھا ۔۔ جانے کیسےچلا پتہ نہیں۔۔ بس اچانک ایکدن یہ جہلم کسی جگہ اکھٹے دیکھ لیے گئے۔۔ جہلم چکوال کےساتھ دوسرا ضلع ہے انہوں نے بتایا۔۔وہ لوگ بہت غصے میں ہیں۔۔ ویسے بھی بہت ہی اوچھے بندے ہیں اس نے گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال لیا۔۔ انہیں ڈر تھا کہ جوابی اب انکے گھر کی کسی عورت کو نا ہاتھ ڈالیں جس میں وہ خود بھی تھیں۔۔ اکیلی باہر ۔۔وہ کچھد دن کےلیے واپس جانا چاہتیں تھیں اور ادھر والے چاہتے تھے کہ ان حالات میں وہ نا آئے۔۔۔وہ کافی ڈپریسڈ تھیں۔۔ سردبا دوں آپکا بیلا نے پوچھا۔۔ درد تو بہت کر رہا لیکن آفس ہے گڑیا انہوں نے پیارسے بیلا کو پچکارا۔۔تو چلیں اٹھیں آپ ۔۔ ویسے بھی جمعہ ہے سب جا ہی چکے ۔۔ گھر جا کر آپکو چائے بنا کر دیتی اور سر بھی سہلا دیتی ۔۔ اور بیلا منا تو لیتی ہی تھی۔۔ میڈم نے پرس اٹھایا اور دونوں اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔ بیلا نے مجھے آنکھ ماری اور فالو کا کہا۔۔وہ دونوں مگن آگے آگے۔۔ میں انہیں پرائیویسی دیتے تھوڑا فاصلہ رکھا۔۔جب میں انکے تعاقب میں اندر گیا تب میڈم کمرے میں جا چکی تھیں اور بیلا ان سے کہ رہی تھی آپ لیٹیں میں آتی چائے لیکر۔۔ اورمجھے چپ رہنے کا اشارہ کرتے کچن کو بلایا۔۔ چائے بناتے بولی یار میڈم بہت پریشان اور ڈپریسڈ شائد تمہارے سامنے نا کھلیں تم ذرا سائیڈےرہنا۔۔ مجھے ویسے بھی ضرورت نہیں تھی الٹا میں نے اس سے اجازت چاہی کہ میں چلا جاوں لیکن کہاں ملنی تھی۔۔ وہ چائے کا کپ مجھے دیے دو کپ لیکر اندر چلی گئی۔۔ اور میں ادھر ادھر کی باتیں سوچتا چائے پیتا رہا۔۔ان دونوں کی ہلکی ہلکی آوازیں آتیں تھیں لیکن غیر مبہم۔۔کافی دیرگزر گئی ۔۔ میں بور ہونےلگا اور اٹھ کر سامنے شیلف میں پڑی کتابیں دیکھنے لگا کمال کولیکشن تھی انکی بھی۔۔یونہی چلتا ہوا میں میڈم کےکمرے کے قریب سے گزرتا ہوا دوسری طرف بیک لان کو چلا گیا۔۔یہ میڈم کے کمرے کی پچھلی طرف بن گئی۔۔پچھلی سائیڈ والی کھڑکی کھلی تھی ۔۔ کھڑکی کے اندر جالی لگی ہوئی تھے اور پردے کسی حد تک گرے ہوئے تھے۔۔میری بدقسمتی یا خوش قسمتی میری نظر ہلکے سرکے پردے میں کمرے کا منظر نظر آیا۔۔ میڈم الٹی لیٹیں ہوئی تھیں۔۔ انکا چہرہ میری طرف ہی تھا لیکن آنکھیں بند تھیں۔۔ انکے ایک طرف میری بیلا پروفیشنل طریقے سےانکے سر سے کمر تک اور پھر ٹانگوں کو دبا رہی تھیں اور ساتھ انکا چہرہ ریلیکس تھا۔۔بیلا کے ہاتھ انکے شولڈر پر تھے اور وہ سافٹ مساج کر رہی تھی انکے شانوں کو کمر کو دباتےہوئے۔۔ میری نظر میڈم کے چہرےپر تھی ۔۔ انکے چہرےپرکچھ عجیب سے تاثر تھے ۔ کیسے تاثر مجھے اسوقت سمجھ نا آئے لیکن ان میں ایک پراسراریت سی تھی۔۔ میں وہاں سے ہٹا اور واپس اسی بارے سوچتا رہا بیلا بلکل عام سے انداز میں تھی لیکن کچھ تھا جو میڈم میں الگ تھا۔۔ خدا خدا کر کے بیلا نکلی اور بولی میڈم سو گئیں ۔۔ بہت سٹریس تھیں۔۔چلو نکلو اب۔۔۔
#fkniazi555.blogspot.com
گھر آ کر کھانے کے بعد ہم دونوں کچھ دیر سستانے بیٹھے اسی بیسمنٹ میں انہی کرسیوں پر۔۔ وہ مجھے اپنی فیملی پکچر دکھانےلگی۔۔ اور کہنے لگی پتہ نہیں میں کس پر چلی گئی میں نے کہا کیا مطلب کہتی دیکھو میری بہن کیسے لڑکیوں والی پرسنیلٹی۔۔ پہلے مجھے فیل نہیں ہوتا تھا اب ہوتا ہے۔۔ میں نے مسکرا کر کہا یار تم میرےلیےسب سے سوپر ہو بس اب اداس نا ہونا پلیز۔۔پانچ کے بعد میں گھر پہنچا تو ناصر میرا ہی منتظر تھا کہتا پائی دو خبریں ہیں ایک اچھی دوسری بری کونسی پہلے سناوں۔۔ میں نےکہا بری پہلے سنا دو۔۔وہ بولا بری یہ کہ انکل کا شوگر لیول ہائی ہو گیا ہے وہ ہاسپٹل ہیں ۔۔ اوہ اور اچھی۔۔ اچھی یہ کہ آپ اپنےپلان میں بلکل فٹ جا رہے۔۔ تانیہ آج ملی تو آپکا پوچھتی رہی۔۔۔اب کیا کرنا۔۔ میرا دل کیا اسکا سر توڑ دوں۔۔ میں نے کہا اب اسپتال مرنا ہے اور کیا کرنا ہے چلو۔۔انکل کی عیادت کے ساتھ عین ممکن عمبرین کا دیدار بھی ہو جائے۔۔بس یہ بات دلکش تھی۔۔۔ہم وہاں سے سیدھا اسپتال آئے۔۔انکل کے پاس صرف آنٹی اور عمبرین ہی تھیں ناصر انکو چھوڑکر مجھے بتانےآیا تھا۔۔ آنٹی تو مجھے دیکھ کر جیسے کھل اٹھیں اور لپک کر میرےساتھ لگتے ہوئے بولی دیکھو نا کیسی پریشانی آ گئی۔۔عمبرین نےایک ادا سے مجھے دیکھا اور قاتل نگاہوں سے مجھےسلام کیا اور ظاہرا سنجیدگی سے بولیں کیسےہونعیم ۔۔میں نے بھی بلکل ویسے ہی جواب دیا۔۔کچھ دیر بعد ناصر کے ابا اور اماں بھی آ گئیں۔۔میں نے محسوس کیا جب سے میں آیا تھا آنٹی کچھ دیر سوچتی رہیں اور پھر کچھ بعد ناصرسے بولیں وے پترا جا میرے لیے کچھ پینے کو لے آ ۔۔ دل گھبرا رہا میرا اوئے ہوئے اسپتال میں دم گھٹتا میرا۔۔ ناصر کی اماں کی ہویا آپا کہتیں انکےپاس گئیں ۔۔۔کچھ دیربعد وہ نکلنے لگے تو آنٹی نےکہا عمبرین پترتم انکے ساتھ چلی جاو جوان لڑکی راتیں اسپتال نہیں رکتیں ہم تینوں ہیں نا ۔۔کوئی ایک رک جاے گا میں نے بے بسی سے عمبرین کی طرف دیکھا تو انہوں نے چپکے سے میرا شرارتی مسکراہٹ پھینکی۔۔پرائیویٹ کمرہ سامنے بسترپر انکل انسولین لگوائے بےسدھ تھے اور ہم تین۔۔اچانک آنٹی بولیں مجھے تو بھوک لگی جا ناصر کچھ لیکر آ ۔۔ آنٹی نے اسے پیسے پکڑائے۔۔ جیسے ہی ناصر نکلا آنٹی اٹھ کر انکل کے قریب گئیں اور انہیں دیکھ کر میری طرف پلٹیں اور بولیں اب جو میں نے کہا وہ ہی کرنا ہے میرا دل مچلا ۔کچھ ہونے کو تھا۔تمہاری استانی کا حکم ہے یہ جیسے ہی انہوں نے استانی کہا انکے اصلی شاگرد یعنی میرےلن میں بیداری پیدا ہوئی۔اور وہ مجھےاپنا منصوبہ سمجھانےلگیں۔۔۔ نو بجے کے آس پاس انکے پلان کے مطابق وہ اپنی گھبراہٹ سے ناصر کو قائل کر چکیں تھیں کہ وہ قربانی کا بکرا از خود تیارہوا۔۔کہ خالہ آپ جاو پائی نے بھی صبح کالج جانا ۔۔ میں رکتا ۔اور آنٹی اپنے شاگرد کو کان بلکہ لن سے پکڑ کر اپنے گھر لے آئیں ۔۔ جانے گھر تک کیسے انہوں نے صبر کیا جیسے ہی دروازہ بند ہوا وہ بھوکی بلی کی طرح جھپٹیں کمینے شاگرد ۔۔ پلٹ کر پوچھا بھی نہیں۔۔انکے ارادوں کاتو مجھے وہیں استانی کے حکم سےہوگیا تھا۔۔ اور تب سے میرے اندر ترنگ جاگ چکی تھی۔۔ میں انہیں جوابی جھپٹا اور کہا واہ مری کلاسیں انکل کو دیتیں رہیں اور مجھے شکوہ وہ ہنسیں اور کہا کیسی کلاسیں ۔۔مجھے بھی ترسا ترسا مار دیا خود بھی شوگر بڑھا بیٹھے۔۔ بتایا نا پنگا بھی لیتے اور ادھورا بھی چھوڑتے وہ کھینچے کھینچےکمرے میں لے آئیں ۔۔اور بیڈ پر میرے ساتھ گرتے ہوئے بولیں بہہت اداسی بہت پیاس ۔۔ جب سے تم ملے نا اب برداشت نہیں ہوتی۔۔ پہلے صبر کرلیاتھا۔۔ ساتھ وہ ہاتھ سے میرےلن کو رگڑنے لگیں۔۔ اففف انکی ہتھیلی کی رگڑ نے لن کی تباہی بولا دی۔۔ وہ ایک لگن سے ہتھیلی پھیر رہیں تھیں۔۔ لن استانی کےاحترام میں راڈ ہو چکا تھا۔۔میں نےایک ٹانگ ان پر چڑھائی اور دوسرےہاتھ سے انکی چادر کو ہٹاتےہوئے انکے سینے اور بڑے بڑے بوبز کو چوسنے لگا وہ مستیں سے کراہیں بھرنےلگیں اور میری ٹانگ کے نیچے سے ہی اپنی پھدی کو لن سے رگڑنے لگیں ۔۔ افففف انکی پھدی گویا تندور۔۔ وہ واقعی جوبن پر تھیں۔لن کی رگڑ سے انکی شلوار کچھ دیر میں کافی گیلی ہو گئی۔۔ وہ مجھےاوپر کھینچ رہیں تھیں ۔۔ انکی آنکھیں بند تھیں اور چہرے ر عجیب سی چمک تھیں عجیب سی پیاس۔۔ یکدم میرے ذہن میں چمک پیدا ہوئی بلکل ایسے تاثرات تھے میڈم کے ۔ اور یہ تاثرات میں رابعہ کے چہرے پر دیکھے تھے یعنی وہ دوسری رابعہ تھیں ۔۔ بنگالی ساحرہ کا یہ رنگ مجھے چونکا گیا۔۔ میں جھکا اور انکے تپتے گالوں کو چاٹا ۔۔ اففف وہ کانپیں میں نے سرگوشی کی۔۔ آج آپکا چہرہ بہت تپا ہوا اور عجیب سا چمک رہا ۔۔ استانی جی یہ کیسے رنگ۔۔ وہ سسک کر بولیں لن کی پیاس کا رنگ۔ جب انتہائی گرم دنوں میں عورت کو چھوا جاے تو یہ چمک ہوتی بدھو۔۔ ساری گھتیاں سلجھ چکی تھیں باقی سلجھانے کےلیے کل کا دن کافی تھا۔۔ میں نے وحشت سے انکی گردن کو چاٹااور کہا اگر ان دنوں میں کسی عورت کو چھوا جاےتو۔۔ تو جسے بھس میں آگ ۔۔ سمجھو بس چھونے کی دیر اور عورت کسی تھان کی طرح کھل جائے۔۔۔ اففففف میرے اندر کی وحشت کو اور شکار ملا۔۔ بنگالی ساحرہ کا سحر آنٹی نے مجھے نیچےلٹایامیری ٹانگوں پر بیٹھیں اور میری شرٹ کو کھول کر میرےسینے کو بے تابانہ چاٹنےلگیں اور لن کو ہاتھ میں لیکر دبانے لگیں اور نالہ کھول کر لن کو باہر نکالا ۔۔ انکی آنکھوں میں انوکھی چمک تھی ۔۔ لن فل جوبن پر ۔ رہی سہی کسر انکے ہاتھوں کے لمس نے کر دی۔۔انہوں نے اپنی قمیض اتاری اور برا بھی کھول دی۔۔ افففف انکے چالیس نمبر بڑے بڑے دودھ لٹک رہے تھے موٹے نپلز اکڑ کے میرےسینے سے ٹکرا رہے تھے وہ بوبز کو میرے جسم پر پھیرتیں لن تک لائیں اور لن کو بوبز میں دباکر لن کا مساج کرنے لگیں۔۔ میں جیسے تڑپ اٹھا یہ انداز نیا تھا۔۔ لن ان کے بوبز میں دبا اففف انکا گداز اور نرمگیں۔۔میرا لن پاگل ہو چکا تھا۔۔ میں انکو نیچےلایا۔۔اور بےتابی سےہونٹ چوستا انکی شلوار کو اتار دیا۔ انکی موٹی رانیں مجھے اکسا رہی تھیں۔۔ میں انکے درمیاں گیا اور انہون نے قینچی مار لی۔۔ اور کہا ۔۔سیٹ کر کے اکو دھکا مار ۔۔ یکدم ہااااے
میں نےایسےہی کیا انہوں نے قینچی کو جکڑا جیسے میں نے لن کو پھدی پر سیٹ کیا۔ انہوں نے پاوں سے میری کمر کو سہلایا گویا گھوڑے کو ایڑ لگائی ۔۔ ٹوپہ لبوں کو کھولتا اندر دھنسا۔۔ پھدی پانی پانی تھی۔۔ گھوڑا پھسلا اور پورے زور سے تباہی مچاتا اندر تک گھس گیا۔۔ شکر ہے گھر مکمل خالی تھا انکی ایک تیز کراہ نکلی ہاے مر گئی ۔۔اففففف میں نے ہلکا باہر نکالا اورپھر دھکا مارا۔۔ اب رحم کی گنجائش نہیں تھی۔۔ وہ جتنا چیختیں اتنی زور سے قینچی کو سخت کرتی اور پاوں سے کمر کو رگڑتیں۔۔ اور ہاااے کرتیں میں کھینچتا اور مارتا۔وہ اچھلتیں ۔۔ ہاااے ایسے ہی ہاااے مزہ آ گیا۔۔ پورا کڈھ کے پا۔۔ اور میں ایسےہی کرتا۔۔ دونوں شدید شدت میں تھے منزل قریب تھی ۔ انکی اسی ہلاشیری میں انکی پھدی سکڑنا شروع ہوئ انہوں نے اور کسا۔۔ میں نے لن کو ہلکا گھمانا شروع کیا وہ سسکیں اور بلند کراہوں سے چھوٹنے لگیں میں نے اور سپیڈ کی میں بھی بس نڈھال تھا ۔ دو چار طوفانی جھٹکوں کے ساتھ میں بھی چھوٹنا شروع ہو گیا۔۔
جاری ہے
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں