جمعرات، 2 ستمبر، 2021

Meri Kahani Meri Zubani Episode 24


   Meri Kahani Meri Zubani


Episode 24


میں اگلے دن کالج جانا چاہتا تھا لیکن بیلا کے اصرار پر ایکدن ریسٹ کیا۔۔ ناصر گھر جا چکا تھا ۔۔ عمبرین کو بتانے۔۔میں باہر لان میں بیٹھا ہوا تھا ۔۔ جب سامنے والے مکان کی گیلری پر وہ لڑکی پھر برآمد ہوئی۔۔ بلکل فیشنی لڑکی جیسی لاہور کی فیشنی لڑکیاں ہوتیں۔۔گیلری اور اسکے پیچھے والا روم نظر کچھ کچھ نظر آ رہا تھا۔۔ اس روم میں ایک اور لڑکی نظر ا رہی تھی

گھریلو ٹراوزر شرٹ میں۔ اچانک اس گیلری والی کی نظر مجھ پر پڑی۔۔ بجاے نظر چرانے کے وہ نظر جما کر دیکھتی رہی ۔۔ پورے اعتماد سے۔۔ دو چارسیکنڈ نظر جمانے کے بعد اس نے ایک ویلکم سمائل پاس کی اور اندر چلی گئی

میں باہر بیٹھا ہوا عمبرین بارے سوچ رہاتھا جب باہر والا دروازہ تیزی سے کھلا ۔۔ اور مجھےیوں لگا جیسے بہار آ گئی ۔۔۔

کیا کہا ہے نا فیض صاحب نے جیسے صحرا میں چلے ہولے سے باد نسیم ۔۔ جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جاے۔۔ لیکن میری وجہ تھی۔۔دروازے سے تیز تیز قدموں سےآتی عمبرین۔۔ جسکا ہر قدم گویا مجھے زندہ کر رہا تھا۔۔ جیسے مرتا ہوا مریض اور قطرہ قطرہ جاتا گلوکوز جو اسے زندہ کر رہا ہو۔۔ سیاہ سکارف کے نقاب میں جھانکتی وہ بڑی سیاہ آنکھیں۔۔

وہ آنکھیں جو عجب مقناطیسی کشش رکھتی تھیں جس نے میرے اندر کی تمام اداسی کھینچ ڈالی۔۔ اسکی آنکھیں جو زندہ کر دیں۔۔ میں بےساختہ انکے استقبال کے لیے اٹھا۔۔سمجھیں جیسے دونوں طرف سے تیزی تھی وہ دروازے سے جلدی میں میری طرف بڑھیں اور میں کرسی سے اٹھا ۔۔ وہ ایسے بڑھیں جیسے گلے لگنا ہو ۔۔ دو قدم دور ٹھٹھک کر رکیں ایک عجیب عالم تھا۔۔ ان سے کچھ قدم پیچھے نائلہ اور ناصر تھے۔۔ نائلہ کے چہرے پر ہلکی حیرانگی سی تھی۔۔عمبرین کی آنکھیں ڈبڈبائیں ہوئی تھیں لیکن لب خاموش تھے کچھ دیر بعد وہ بولیں کیسے ہو ۔۔ٹھیک اس بےساختگی کے بعد وہ میرے سامنے آ کر پھر خموش سی ہو گئیں۔۔ اندر آ کر لاونج میں ہم سب بیٹھ گئے ۔۔ انکا ملیح چہرہ جس پر قدرے افسردگی طاری تھی۔۔نائلہ میں چائے بنا کر لے آوں کہتی کچن کو بڑھی اور وہیں سے ناصر کو بہانے سے بلا لیا۔۔اب ہم دونوں لاونج میں اکیلے تھے۔۔

زیادہ لگی کیا کچھ دیر بعد وہ منمنائیں۔۔بہہت زیادہ ۔۔ وہ جیسے تڑپ اٹھی۔کہاں زیادہ درر۔۔ میں نے کہا دل میں۔۔ وہ کراہیں نعیم کیوں کرتے ہو ایسی باتیں۔۔ میں انکی طرف دیکھا اور کہا آپ کیوں کرتیں ہیں ایسا۔۔کیوں برداشت کر رہیں یہ بےقدری۔۔ وہ تلخ سی مسکرائیں اور کہا ۔۔ یہی میری قدر ہے۔۔ مجھے جیسے کسی نے کاٹ ڈالا میں تڑپ کر بولا۔۔آپکی قدر ہمیں ہے ہم جویہاں موجود ہم تینوں کو۔۔وہ سرجھکائے پاوں کے انگھوٹے سے کارپٹ کو کریدتیں رہیں۔۔مجھے جانے کیا ہوا میں اٹھا اور انکے ساتھ قدرے فاصلے پر بیٹھا۔۔ وہ ویسے سر جھکائے ۔۔ میں نے کہا عمبرین ادھر دیکھیں ورنہ میں یہ سامنے والا گلدان اپنی اسی ٹانگ پر مار لوں گا۔۔انہوں نے جھٹکے سے سر اٹھایا اور بولیں نہیں تم وہ گلدان میرے سر پر مار دو ۔۔ قصہ ختم کرو۔۔ کیا چاہتے ہو تم۔۔میں کیا کروں۔دو سال بعد تم نے واپس چلے جانا۔۔ میں انہی لوگوں کے ساتھ رہنا ہے نائلہ کا اپنا گھر۔میں ادھر سکون سے رہ رہی ہوں ۔ چھوٹی موٹی لڑائیاں ہر گھر میں ہوتیں ہیں تم پتہ نہیں کیا سمجھ رہے ہو۔۔میری غلطی ہے سب وہ بےبسی سے سسکیں ہوں جیسےمیں نے ہاتھ بڑھایا اور انکا گود میں رکھا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا میں ہوں آپکے ساتھ ۔۔ ہر لمحہ ہر لحظہ ۔۔ آپ نہیں جانتی آپ میرے لیے کیا ہیں ؟ سمجھیں میں ایک سیارہ ہوں جسکا مدار ہی آپ ہیں مجھے آپکے گرد ہی گھومنا ہے جیسے ہی آپکے مدار سے نکلا میں فنا ہو جاوں گا بکھر جاوں گا۔۔نعیم ۔۔ آج مجھے بولنے دیں میں نے انکو کچھ کہنے سے پہلے روک دیا۔۔آپکو خالہ کا خیال ہے وہ انکا ویسے بھی رکھ سکتیں ہیں۔۔ لیکن یہ غلامی کا پٹہ اتار دیں۔۔ میں کچھ زیادہ ہی تلخ ہو گیا ۔۔ چپ بسسس ایک لفظ نہیں ۔۔ میرا شوہر ہے وہ اسکی تابعداری کا حکم دیا گیا ہے مجھے تمہیں کوئی حق نہیں ہمارے پرسنل معاملات میں بولنے کا وہ اونچا بولیں۔۔شکریہ بتانے کا کہ میرا حق نہیں۔۔ آپ نے عہد طالبعلمی کیا تھا اس کا حق سمجھ کر بولا۔۔ وہ میری غلطی تھی اب میں طالبعلم نہیں شادی شدہ گھریلو عورت ہوں اسلیے براہ مہربانی مجھے پھر سے پڑھنے نا ڈالو میں جتنا پڑھ بیٹھی اتنا ہی بہت ۔۔انہوں نے میرے ہاتھ سے ہاتھ چھڑا کر کر انہیں جوڑ کر کہا۔۔۔ اور اٹھ کر اوپر چلی گئیں۔۔ میں وہیں صوفےپربیٹھا انہیں جاتا دیکھتا رہا۔۔ انکی اونچی آواز سن کر نائلہ بھی آ گئی اور مجھ سے پوچھنے لگی۔۔ میں نے بیزاری سے کہا کچھ نہیں یار ۔۔ عجیب لڑکی ہے بولتی ہی نہیں جب بولتی ہےتو مایوس بولتی ہے اب آئی بھی اور حال بھی سہی سے نہیں پوچھا۔۔ لیکن تم نےایک بات نوٹ نہیں کی ۔۔کیا ؟،جیسےہی اسےپتہ چلا وہ کیسے دوڑی چلی آئی کیسے لپک کر آئی تھی تمہاری طرف جیسےپانی نشیب کو آئے ۔۔پوری شدت سے ۔۔لڑکیاں بہت گہری ہوتیں ہیں نعیم اور عمبرین تو بہت ہی گہری ہے تمہیں وقت دینا پڑے گا اسے ۔۔ ویسے مجھے تم دونوں کے دوستانے کی سمجھ نہیں آرہی ۔میں نے کہا سمجھا دوں گا کبھی ویسے آپکی بات قابل غور ہے۔۔ وہ نہیں بولیں لیکن انکا آنا بولا ہے انکا احساس بولا ہے انکا انگ انگ بولا ہے۔۔ آپ رکیں میں آتا ہوں۔۔ میں اوپر کی طرف بھاگا۔۔۔وہ اسی کمرے میں سامنے لگی تصویر کے سامنے کھڑی تھیں۔۔ میں چپ چلتا ہوا انکے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔۔ انہیں یقینا پتہ چل گیا تھا لیکن نا بولیں نا مڑیں۔۔ میں نے ہولے سے کہا۔۔ سوری عمبرین میں کچھ تلخ ہوگیا۔مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے وہ کچھ نا بولیں۔۔ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ ضبط کے دھانے پر۔۔میں نے کہا عمبرین لیکن آج مجھے کہنے دیں ۔۔ اور یہ بات میں انکل اور آنٹی کی تصویر کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں۔۔میں آپکو بہہہت شدت سے چاہتا ہوں اتنی شدت سے کہ ۔۔لیلی مجنوں سوہنی مہینوال سسی پنوں شیریں فرہاد ہیر رانجھا سب کی محبتوں کو ملا کر اکھٹا کریں اس سے بھی زیادہ۔۔میں نے گویا دھماکہ کیا۔۔ وہ جیسے کانپیں میں نے انکے شانے پر ہاتھ رکھا اور کہا۔میں بس یہ چاہتا ہوں آپ یہ خود ساختہ قید کو ختم کریں ۔۔ کھل کر جئیں ۔کسی سے نا ڈریں۔۔میں ہوں آپکے ساتھ پوری طرح ۔۔انکی آنکھوں سے آنسووں کی لڑی جاری تھیں۔۔ میں نے کہا۔۔ دیکھو انکل آنٹی بھی یہی چاہتے ہونگے نا کہ تم دل سے آباد رہو۔ انکےلیے میرے لیے ۔۔میں نے وعدہ کیا ہے انکل اور آنٹی سے کہ انکی عمبرین کو آباد کرنا ہے ۔۔ روح سے دل سے سکھ سے۔۔ کیا ہمیں شرمندہ کرو گی ؟؟؟وہ جیسے کانپیں ۔۔ بولیں میری طرف دیکھ کر بولیں۔۔ میری آواز بھاری ہو چکی تھی۔ لفظ جیسے اندر کی کیفیت بتا رہے تھے۔۔

انکی آنکھوں کی روانی بڑھ چکی تھی۔۔میرے دل کو جیسے کچھ ہوا۔۔ میں جھکا اور جھکتا جھکتا انکےپاوں جھکا اور کہا روئیں نا پلیز۔۔ آپ چپ ہو جائیں میں واپس چلا جاتا ہوں۔۔ بس ہو گئی پڑھائی بہت پڑھ لیا میں نے۔۔آپکے پاوں پکڑ کر معافی مانگتا ہوں ایسے رو کر مجھے اور خلش نا دیں۔۔وہ تڑپ کر پیچھے ہٹیں کیا کررہے ہو نعیم تم پاگل ہو۔ ہاں ہوں پاگل آپکے لیے ہوں۔ میں شائدواقعی اس وقت پاگل ہو چکا تھا۔ میری آنکھوں سے بھی آنسو رواں تھے۔۔ روتے روتے میں بےچارگی سے زمین پر بیٹھ گیا۔۔ مجھے واقعی دل کی لگی لگ گئی تھی۔وہ نیچے بیٹھیں۔۔ دونوں رو رہے تھے۔۔انکی چادر سرک چکی تھی۔انکی شفاف گردن ۔۔ انکی ہنسلی کی ہڈی چمک رہی تھی وہ بےمثال تھیں۔۔ لیکن مجھے انکے جسم سے زیادہ انکی روح سے طلب تھی۔۔ میں کیا کروں بولو میں کیا کروں میں کسی اندھے ابابیل کی طرح جتنی بھی کوشش کروں اندھے کنویں میں ٹکراتی پھروں گی۔ تم جو باتیں کر رہے ہو نا بہت دیر ہو چکی انکے لیے اب۔۔میں نے ہمت کر کے ہاتھ بڑھایا اور ہتھیلی سے انکے آنسو صاف کرتے ہوئے ہوئے کہا۔۔ دیر ہوئی اندھیر نہیں۔۔ ایکبار بس ایکبار مجھے کوشش کرنےدیں روکیں نہیں۔۔ دیکھیں میں زمین پر بیٹھا انکل اور آنٹی کی موجودگی میں یہ وعدہ ہے میرا مر جاوں گا پیچھے نہیں ہٹوں گا۔۔ وہ جیسے تڑپ اٹھیں اور میرے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیے بولی چپ ۔۔ مرنے کی بات نا کرنا ورنہ میں مر جانا ۔۔ آج دیکھا نہیں تھا کتنی پریشان تھی میں وہ روتے ہوئے بولیں۔ہم آمنے سامنے بیٹھے بے ربط بول رہے تھے۔۔میں نے کہا تو بولیں ۔۔ کرنے دیں گی کوشش۔۔بولیں سونپ دیں اپنی ذمہ داری مجھ پر میں آپکے گھر میں آپکے مرحوم والدین کےسامنے پوری نیت سے حاضر ہوں۔۔ نعیم وہ سسکیں میں نے انکا جھکا سر اوپر اٹھایا آنسو خشک کرتے ہوے بولا بسسسس۔۔۔ اب اور نہیں۔۔ جتنا رونا تھا رو لیا۔۔بسسس میں نے انکا ہاتھ پکڑ کر ہلکا سا کھینچا اور لچکیلی شاخ کی طرح میری طرف جھکیں۔۔ ہمارے ماتھے ایک دوسرے کے ساتھ ٹچ تھے۔۔آنکھیں بند۔۔ میں نے انکا چہرہ پیچھے کیا اور انکی تابندہ پیشانی پر پیار کا پہلا بوسہ دیا۔۔ بوسہ تھا کہ مرہم۔۔ وہ بوسہ جس میں اپنائیت تھی چاہ تھی۔۔ ہوس نا تھی۔۔ وہ ایسے ہی میرے ساتھ میرے شانے پر سر رکھ کر ہلکا ہلکا سسکتیں رہیں انکا قرب انکی خوشبو میرے لیے جیسے سب جہاں سے بڑھ کر تھی۔۔بلکل سامنے میرے شانےپرسررکھے وہ خاموشی سے بس آنکھیں بند کیے۔۔ جیسے انہوں نے رضا دےدی ہو۔۔ جیسےسپر ڈالی ہو۔۔ میں نے انہیں ایسے سنبھالا جیسے کل جہاں کی دولت ہو۔۔ میں نے جب انہیں ہلکے سے ایک بازو میں لیا یا سمیٹا مجھے ایسے لگا جیسےمیری تکمیل ہو گئی۔۔ جیسے وقت رک گیا جیسے جلتے صحرا پر بادلوں کا چھانا جیسے اندھیرےمیں پہلی کرن۔۔ انکا گداز وجود۔۔ انکا دلکش سراپا۔۔ پورے آن بان شان اور جوبن کےساتھ میرے بلکل ساتھ تھا لیکن میرے اندر ہوس تک نا تھی۔۔ بس میرا دل تھا وقت رک جاے اوروہ ایسے میرے ساتھ لگی رہیں۔۔ میں چاہتا تو انہیں مزید چھو سکتا تھا لیکن یہ حد عشق سے بڑھنا تھا۔۔یہ عشق نا ہوتا۔۔ اورمجھے ان سے عشق تھا روح سے دل سے۔۔ ہاں میں اس دلکش مورت کو چھونا چاہتا تھا انکے انگ انگ کو چومنا چاہتا تھا لیکن ایسے نہیں۔۔ پوری سپردگی سے پورے حق سے۔۔ وہ عمبر تھیں انکو مہکا کر محسوس کرنا تھا۔۔ وہ جام حیات تھیں انکو ضائع نہیں کرنا تھا اور میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کچھ ایسا کروں کہ انکی سرکار سے گناہگار ٹھہروں۔۔بہکنے کے لیے اور بہت۔۔ وہ آوارگی تھی یہ زندگی ہے۔۔ جانے کتنی دیر ہم ساتھ لگے رہے انکا سر میرے شانے پر ٹکا رہا۔۔ انکے جسم کی مہکار مجھے مسحور کیے رہی وہ عجیب لمحے تھے۔۔اچانک دروازےپر دستک ہوئی اور ہمیں حال میں لے آئی۔۔ جیسے ہی حال میں آئے انہیں احساس ہوا۔۔ انکی رنگت شہابی ہوئی پلکیں لرزیں اور میں انکی اس ادا پر مرمٹا تھا۔۔اس سےپہلے کہ میں کچھ کہتا یابولتاوہ شرما کر اٹھیں اور تھوڑا دورجا کرکھڑی ہو گئیں۔۔ دستک نائلہ نے دی تھی۔۔اور شائد اس نے کچھ دیکھ بھی لیا تھا لیکن مجھے قطعی مسلہ نا تھا۔۔ میں جیسے جی اٹھا تھا میرے اندر ایک جوش تھا ۔۔ جیسے زندگی کا مقصد مل گیا ہو۔۔۔ میں نے انکی طرف دیکھا۔۔ انکی رنگت ابھی تک دہک رہی تھی جیسے ابھی انہیں میرے اتنے قریب آنے کا احساس ہوا ہو۔۔ انکی لو دیتی رنگت مجھے اور پاگل کر رہی تھی۔۔ وہ اپنا جواب دے چکیں تھیں ۔۔ زندگی گلزار ہو چکی تھی۔۔ اب آگے کیاکرناتھا۔۔ یہ ابھی سوچنا تھا

کچھ دیر بعد وہ جانے لگیں تو میں انکے ساتھ چلتا ہوا دروازے تک آیا اور کہا۔۔ میں رات کو فون کا انتظار کروں گا بہت شدت سے۔۔ وہ کچھ نا بولیں بس نظر بھر کر میری طرف دیکھا۔۔ اففففف انکی وہ نظر ۔۔ انکی آنکھوں میں ٹھاٹھیں مارتی امید اور چمک ۔ وہ مسکرائیں اور پلکوں کا چلمن گرا کر اشارہ دے دیا ۔۔۔ انکے جانے کے بعد بھی پورے گھر میں انکی مہکار تھی انکی یاد تھی۔۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی میں کیا کروں۔۔ ناچوں یا گاوں۔۔ پوری دنیا کو بتاوں کہ ہم مالا مال ہو گئے

#fkniazi555.blogspot.com

اس دن جب میں بیلا کے گھر گیا تو خلاف توقع بیلا کچھ خاموش خاموش تھی اپنی عادت کے برعکس لیکن چونکہ میں الگ جہان میں تھا اسلیے غور نہیں کیا۔۔ اس دن میری رننگ کمال کی تھی۔۔ جیسے میں عمبرین کو کہیں بھگا کر لیجا رہا دور بہت دور۔۔ شام تک میں نے ڈٹ کر پورے دل سے محنت کی۔۔۔ شام کو واپسی پر بیلا بولی چلو تمہیں چھوڑ آتی۔۔ مجھےپتہ تھا اسے کچھ بتانا۔۔گلبرگ کی شام ۔۔ کھلی سڑک پر وہ راستے کے پتھروں جوس کے ڈبے یا کسی شاپر کو فٹبال کی طرح پاوں سے اچھالتی ۔آخر تنگ آ کرمیں بولا بیلا ۔۔ کیا بات ہےیار پھوٹو منہ سے کیا مسلہ ہے آخرکیوں اسے چپ۔وہ بولی مسلہ میرا نہیں ۔۔ مسلہ میڈم رفعت کا ہے۔۔ ہیں انکا کیسا مسلہ ۔۔۔ یار آج جب میں کالج گئی تو نان سٹاپ شروع ہوئی ۔۔ جسکا خلاصہ تھاکہ۔۔ میڈم رفعت کوگاوں سے کوئی خبر ملی تھی۔۔ انکے بھتیجے کی کسی سے لڑائی ہوئی تھی ۔ زمیندار گھرانہ تھا۔۔ خود میڈم کےنام کافی زمین تھی ۔۔لیکن وہ بس ٹیچنگ تک محدود رہ گئیں اب کیوں رہ گئیں وہ جانتی تھیں۔۔ تو ۔ تم کیوں پریشان ہو ۔۔ گاوں میں ایسا ہوتا رہتا۔۔ میں اسلیے پریشان نہیں کہ انکے بھتیجےکی لڑائی ہوئی۔۔۔ تو ؟ میں اسلیے پریشان ہوں کہ میڈم کو لگتا وہ لوگ جوابا کوئی اوچھی حرکت کریں گے۔۔ انہیں ڈر سا۔۔یار انہیں کیا ڈر ۔ لڑکوں کی لڑائی میں میڈم کو کون کچھ کہےگا۔۔ دشمنی کے اصول ہوتے ہیں۔۔ عورتوں پر نا ہاتھ اٹھایا جاتا ہے نا ان پر نظر۔۔تم پریشان نا ہو ۔۔ کل بات کرتے ۔۔ اسے دلاسہ دیا۔۔ وہ چلتے چلتے میری والی روڈ کی نکڑ تک آئی اور بولی نعیم ایک اور بھی مسلہ ہے۔۔ اب وہ کیا۔۔ اب مجھے ڈر لگنے لگ گیا ہے اب تم مجھے واپسی چھوڑ کر آو۔۔ حد ہےیار ویسے تو بہت بہادر بنتی ہو اور تمہیں کس نے کچھ کہنا تم تو پندرہ سالہ سکول بوائے لگتی ہو میں نے تو مذاق کیا لیکن جانے مجھ سے کیا غلطی ہو گئی بیلا کا چہرہ یکدم لال ہوا۔۔ حالانکہ وہ بہت بڑےدل کی مالک تھی ۔۔ اس کی آنکھیں جیسے بھر آئیں ۔۔ اس نے انگلی اٹھائی اور بولی بسسس تم بھی۔۔ وہ پلٹی اور تیز قدموں مڑ گئی۔۔ مجھے گڑ بڑ کا اندازہ ہوا اور اسکے پیچھے بھاگا۔۔ اررےیار رکو تو سہی سوری نا ۔۔۔ میں نے کان پکڑتےہوئے کہا۔۔ کہو تو مرغا بن جاوں ۔۔ بڑی منتوں سے اسکے ساتھ چلتے اسکے گھر تک جا کر منا ہی لیا۔۔ اور میں پھر سے واپسی کو پلٹا۔۔۔ فردوس مارکیٹ سے جب میں گھر کو مڑا اسی وقت اندر سے دو لڑکیاں نکلیں اور میرے سے دو قدم پیچھے چلنے لگیں۔۔ میں نے دیکھا ان میں سے ایک لڑکی تو یقینا گیلری والی تھی لیکن دوسری شائد کمرےوالی یا شائد کوئی اور۔۔ لانگ کورٹ کے اوپر مفلر اوڑھے وہ بلکل ڈراموں کی لڑکیوں جیسی لگ رہی تھیں۔۔سنیں اچانک مجھے آواز آئی۔۔ جی میں تھوڑا جھجھکا۔۔ آپ وہی ہیں نا جو۔۔جی میں وہی ہوں میں نے اسکا جملہ مکمل کیا۔۔ دیکھا میں کہ رہی تھی نا اس نے دوسری لڑکی سے اپنے اندازے کی تصدیق چاہی۔۔آپ رینٹ پر آئےہیں ۔۔نہیں میں نے اسے بھی وہی سٹوری ڈالی جو ناصر سے پلان کی تھی۔۔ ذاتی مکان اکلوتا لڑکا والدین باہر۔۔ یہاں رہتا پڑھتا۔۔ اپنے کلاس فیلوز کو نہیں چھوڑنا چاہتا وغیرہ۔۔۔ساتھ چلتے تعارف کا مرحلہ شروع ہو چکا تھا۔۔ گیلری والی کا نام سارہ تھا وہ فورتھ ائیر میں تھی۔۔ دوسری کا نام روزینہ تھا لیکن سب اسے روزی کہتے تھے وہ کال سنٹر میں جاب کرتی تھی۔۔ دونوں رینٹ پر تھیں۔۔ انکاتعلق قصور سے تھا۔بااعتماد لڑکیاں۔۔ روزی تو کال سنٹر میں جاب کر کر کے کافی اوپن بولنے والی ہو چکی تھی ذرا نہیں لگ رہا تھا کہ پہلی بار ملے۔۔ گھر کے سامنے دو منٹ رکے اور کبھی آرام سے باتیں کرنے کا وعدہ کر کے الگ الگ ہو گئے۔ میں نے نوٹ کیا تھا کہ سارہ بولی کم تھی لیکن اس نے مجھے تاکا زیادہ تھا۔۔۔ گھر ناصر واپس موجود تھا۔ آج اس سے بھی باتیں کرنی تھیں اس کو اعتماد میں لینا تھا کیونکہ نائلہ اور ناصر کی مدد کے بنا کچھ ہونا ناممکن تھا۔۔ اور دس بجے کے بعد انتظار تھا روح و جاں کے فون کا


جاری ہے

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں