Meri Kahani Meri Zubani
Last Episode 43
ہم دونوں ساتھ ساتھ لیٹے ایکدوسرے کو دیکھ رہے تھے ایسی نظروں سے جیسے نڈھال مدہوشی ہو۔۔ عجیب ملن بھری رات تھی وصال ہو چکا تھا ایک مدہوشی سا عالم تھا
fkniazi555.blogspot.com
اچانک مجھے لگا جیسے فون کی بیل بج رہی مجھے حیرت کا جھٹکا لگا ۔۔۔ یہاں فون کرنےوالی تو میرےساتھ تھی تو اب کون کال کھڑکا رہا۔۔ میں تیزی سے اٹھا اور فون ریسیو کیا دوسری طرف نائلہ تھی کہنےلگی عمبرین کدھر ہے میں نےکہادوسرے کمرے میں کیوں ۔۔مجھے اسکا لہجہ عجیب سا لگا وہ بولی ایک مسلہ ہو گیا ہے بہت بڑا ۔دلاور کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے بہت تشویشناک حالت اسکی ۔ اسکی بات نے جیسے مجھے دہلا کر رکھ دیا۔سرکار اب واپس جانا ہوگا۔میں فورا پلٹا عمبرین بھی تب تک دروازے تک آ چکی تھی اسکے چہرے پر پریشانی سی آئی کہنےلگیں کیا ہوا کسکا فون تھا۔۔ میں نےرک رک کر انہیں وہ خبر سنائی ۔۔ دلاور کے ایکسیڈنٹ کا سنتےہی انکا رنگ زرد سا ہو گیا اور وہ کانپتےلہجے میں بولیں مجھے فورا نکلنا ہوگا ۔۔ برادری کے لوگوں کےآنے سے پہلے ۔۔میں تابعدارانہ انداز میں انکےپیچھے ہو لیا۔۔وہ جلدی سے کپڑے بدل کر چہرے کو صاف کر کے میرے ساتھ نکل پڑیں ۔۔جب ہم اسپتال پہنچے دلاور ایمرجنسی میں تھا آنٹی ناصر اور نائلہ کےعلاوہ بھی محلے کے کچھ لوگ تھے عمبرین مجھ سے الگ ہو گئی اور الگ ہوتے ہوے کہنےلگیں ایک بات یاد رکھنا ہمارے بیچ ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا تھا کچھ بھی نہیں سمجھے ۔۔ میں تو تھا ہی انکی ماننے والا۔۔ دلاور کی حالت بہت بری تھی ڈاکٹرز اپنی پوری کوشش کر رہےتھے صبح پانچ بجے کا وقت تھا جب دلاور نے آخری سانس لی ۔۔ جیسا بھی تھا آخر عمبرین کا شوہر تھا آنٹی کا بیٹا تھا دونوں کا برا حال تھا آنٹی تو رو رو کر ہلکان ہو گئیں ۔ عمبرین بس چپ ساکت سی۔سب کہہ رہے تھے کہ سکتہ ہو گیا مجھے حیرانی تھی کہ سکتے والا لگاو نہیں تھا ان کے درمیان دلاور کا دکھ جیسے انکل اور آنٹی کو نچوڑ گیا۔۔۔ عمبرین عدت بیٹھ گئیں ۔۔ گھر میں ایک سناٹا سا تھا۔۔ایسےہی ایک شام آنٹی میرے پاس آئیں اور ادھر ادھرکی باتوں کےبعد اصل بات پر آئیں ۔۔ کریدنے لگیں کہ اس رات کہاں تک ہوا۔۔ مجھے عمبرین کا حکم یاد تھا۔۔ میں نے کہانی گھڑ دی کہ عمبرین وہاں جا کر کافی دیر اماں ابا کی باتیں کرتی رہی ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ یہ حادثہ ہو گیا اور واپس آنا پڑا۔۔ آنٹی کا منہ جیسے اتر گیا۔۔اور بولیں لو ۔۔ تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا دو پھیرے لگا چکا ہوتا۔۔ساری ترتیب کا ستیاناس ہو گیا۔۔۔اب تو وہ کبھی مانے گی بھی نہیں ۔انکا افسوس اپنی جگہ بنتا بھی تھا۔۔
دسویں کے ختم تک میں ادھر متواتر جاتا رہا۔۔ اس دوران عمبرین مجھے بلکل نظر نہیں آئی ۔ایک عجیب سا سناٹا مجھ پہ چھایا ہوا تھا۔۔سب کچھ پا کر جیسے سب کچھ کھو دیا ہوا ۔۔ایک عجب خالی پن سا۔۔لگا بندھا فیکٹری کے کام دیکھتا اور فیکٹری کے بعد ادھر ادھر لاہور کی سڑکوں پر موٹر سائیکل دوڑاتا پھرتا۔۔جہاں سے دل کرتا کھانا کھاتا اور رات گئے واپس فیکٹری ۔۔اسی روٹین میں مہینہ بھر گزر چلا تھا جب میری پکڑائی ہو گئی۔۔۔ فیکٹری بند ہونےوالی تھی جب مجھے انٹرکام پر چوکیدار نے کسی بیلا نام کی لڑکی کے آنے کی اطلاع دی اور کہا وہ آپ سے بات کرنا چاہتی۔۔میں چونکا بیلا اور میں نے جلدی سے کہا ہاں بیلا۔۔ تم اگر اگلے دو منٹ میں یہاں میرے پاس نا آئے تو میں تمہارا حشر کر دونگی بیلا نے ہلکی لیکن مخصوص ضدی انداز میں مجھے دھمکی دی اور میں جانتاتھا وہ ضد کی پکی ۔۔۔میں جلدی سے نیچے گیا سامنے مین گیٹ کے پاس چوکیدار کے کیبن کے سامنے وہ کھڑی تھی۔۔میں اسے قریبا دو تین ماہ بعد ایسے غور سے دیکھا ۔۔ وہ کافی بدل سی گئی تھی آسمانی رنگ کی شلوار قمیض میں وہ پہلی بار مجھے لڑکی لڑکی سی لگی ۔۔اس نے جیسے ہی مجھے آتے دیکھا وہ میری طرف لپکی ۔۔ اسکا کوئی پتہ نا تھا سیدھا مجھے گلے لگا لیتی جو میں یہاں فیکٹری میں افورڈ نہیں کر سکتا تھا میں جلدی سے آگے بڑھا اور اسکا بازو پکڑ کر جلدی سے پیچھے رہائش کو چلتا گیا۔۔ فیکٹری کےعقب میں رہائش کے سامنے میں نے اسے چھوڑا اور کہا تم رکو میں آتا ہوں اور فورا واپس لوٹا ۔ واپس آ کر چوکیدار کو رشتہ دار ہے میری کا بہانہ بنایا اور اسے ادھر کسی کو نا آنے کا بتا کر واپس لوٹا۔۔وہ سامنے برآمدے میں ہی کھڑی تھی جیسے ہی اسکی مجھ پر دوبارہ نظر پڑی وہ تیزی سے میری طرف آئی اور میری توقع کےعین مطابق سیدھی میرے گلے آ لگی اور ساتھ ہی میرے شانے پر مکا مارتے ہوئے بولی تمہیں تو بیلا بول ہی گئی ۔۔جیسے ہی وہ میرے ساتھ لگی پہلی بار مجھے کرنٹ سا لگا۔۔میں نے اسے طریقے سے تھوڑا ہٹایا اور اندر مین کمرے میں لےآیا۔۔اور صوفے پر تھوڑا وقفے سے ہوکر اسے لیے بیٹھ گیا۔۔ وہ دوبارہ بولی نہیں آئی نا یاد ۔۔ میں کافی دنوں بعد پورے دل سے مسکرایا اور کہا نہیں یار یاد تو آتی ہے لیکن میں کچھ پریشان تھا۔۔۔وہ فورا کھسک کر میرے ساتھ آ لگی اور بولی کیا ہوا تھا کیوں تھے پریشان ہمم بتاو مجھے۔۔ جیسے ہی وہ میرے قریب ہوئی وہی الارمنگ کرنٹ پھر شروع ہو گیا ۔کچھ نہیں یار بس عجیب سی طبیعت تھی میں نے اسے طریقے سے بہانہ سنایا تم تھک چکے ہو اصل میں ۔ہاں میں تھک گیا ہوں شائد میں نے فورا اسکی ہاں میں ہاں ملائی ۔ ابھی بھی سر درد ہورہا ۔۔ کہیں بخار تو نہیں بیلا نے مرے ماتھے کو چھوا افففف اسکے ہاتھ کا نرم گرم لمس میں نے اسے دیکھا آگے جھکنے سے اسکا شانہ اور کچھ سینہ جھلکا۔۔ وہ خود سے لاپرواہ میرےساتھ لگ کر بولی چلو تمہارا سر دباتی ہوں۔۔ نن نہیں یار رہنے دو بس ٹھیک ہے ۔۔ کیسے رہنے دوں چلو اٹھو شاباش وہ کب کسی کی سنتی تھی لیکن مجھے پتہ تھا جیسے وہ مجھ پر صدقےواری تھی اور جیسےہم تنہا تھے میری آوارگی جاگ گئی تو بڑا مسلہ ہو جانا۔۔میں نے بہت کوشش کی لیکن کون سنتا۔۔دو منٹ میں تمہارا سر درد ختم ہو جانا بس دیکھنا تم ۔۔۔اس نے مجھے بیڈ پر لٹایا اور خود ساتھ بیٹھتے ہوئے میرے سر کو دبانے لگی بالوں میں انگلیاں چلاتی وہ مجھ پر جھکی ہوئی اور ایسے جھکنے سے سر دباتے آگے پیچھے ہونے سے اسکا جسم جیسے بول رہا تھا۔کسی نوجوان لڑکی سا جسم اسکے بوبز کی ہلچل اسکا شانہ ۔۔ میں نے آنکھیں گھمائیں اور اسکو دیکھا اسکا چہرہ جیسے چمک رہا تھا شائد وہ باخبر تھی کہ میں اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ اسی لیے اب اس نے تھوڑا زیادہ جھکنا شروع کیا ۔۔ اور جھکنے سے اسکی کلیویج اوربوبز کا اوپری حصہ جلوہ مارنے لگا ۔۔اسکے بوبز بھی کافی بدل چکے تھے مجھے انکا سائز بڑھا بڑھا سا لگا۔میں نے گھبرا کر آنکھیں بند کر لیں لیکن بند انکھوں میں بھی وہی نظارہ لشکارے مارنے لگا۔لیکن میں آنکھیں نہیں کھولیں۔اچانک مجھے محسوس ہوا کہ بیلا کے ہاتھ اب ماتھے اور سر کے علاوہ میر ے پورے چہرے پر پھر رہے ہیں میں نے آنکھیں کھولیں ہماری نظریں ملیں بیلا کا چہرہ ہلکا سرخ سا ہو رہا تھا میں نے اٹھنے کی کوشش کی یہ آگ اور پٹرول کا کھیل تھا اس سے بچنا ابتدا میں ہی ممکن تھا لیکن اس نے میرے اٹھنے کی کوشش ناکام بنا دی اور میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر مجھے واپس لٹایا اور بولی چپ لیٹ جاو ورنہ بہت ماروں گی مجھے سر دبانے دو چلو آنکھیں بند۔۔ مجبورا میں دوبارہ لیٹ گیا اسکا ہاتھ میرے چہرے پر پھرتا رہا ۔۔دوسرا ہاتھ سے اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور انگلیوں میں انگلیاں گھمانے لگی ۔۔ بیلا یااار میں نے کچھ بولنا چاہا تو وہ پھر بولی تم بس چپ رہو ۔۔ کچھ دیر مجھے سر دبانے دو بس میں نے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا ۔۔ تمہیں پتہ ہے تھکاوٹ کے لیے مساج ضروری ہوتا اور میں کرونگی تمہارے سر اور شانوں کا مساج ۔۔میں تو جیسے گھبرا اٹھا اور کہا جی نہیں تم نہیں کرو گی ۔۔میں کرونگی اسنے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔۔۔اگر تم کرو گی تو پھر میں بھی کرونگا ایسے تو ایسے سہی میں نے اسے ڈراوا دیا۔۔ وہ اسی ٹون میں بولی مجھے کرنے دو پھر تم کر لینا بے شک ۔۔میری تو جیسے بولتی بند ہو گئی۔۔بیلا کاہاتھ اب میری شرٹ کے بٹنوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا۔۔اسکی انگلیاں میرے سینے سے ٹکرانے لگیں ہاتھ کی گستاخیاں بڑھتی گئیں ہاتھ پورےسینے پر پھر کر آگ بھرنے لگا ۔۔ میرے جسم میں جیسے انگارے دوڑنے لگے۔۔ کافی دنوں کی بور زندگی کے بعد آوارگی کا جھونکا آیا۔۔لیکن میں ہوش نہیں کھونا چاہتا تھا۔۔اور اس جھونکے کو جلد روکنا چاہتا تھا۔۔میں نے آنکھیں کھولیں بیلا کی آنکھیں فل سرخ ہو چکیں تھیں میرے اوپرجھکی ہوئی ۔۔ہماری آنکھیں ملیں ۔۔اسکا چہرہ جیسے آگ بھڑک رہی۔۔ہماری آنکھیں جیسے ایکدوسرےمیں گم تھیں ۔۔اس نے میرے سینے اور شانے پر ہتھیلی کی رگڑ جاری رکھی ۔۔ واقعی وہ مساج جانتی تھی اسکے ہاتھ کے لمس میں عجب نشہ تھا اسکی انگلیاں میرے سینے کے بالوں میں گھوم رہیں تھیں۔۔آج وہ کھل کر سامنے آ چکی تھی واضح اظہار اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے سینے پر رکھا افففف کیاگداز تھا اسکی دھڑکن دھک دھک تیز۔۔لو تم بھی کر لو مساج ۔۔اس نے اپنے ہاتھ سے میری ہتھیلی کو سینے پر رگڑا ۔۔آوارگی کا جھونکا تیز ہوا۔۔سینےاور کلیویج پر ہتھیلی گھمانے کا تو میں ماہر تھا میں نے ہاتھ اسکی گرفت سے آزاد کرایا اور پہلی بار اپنی مرضی سے ہتھیلی کو اسکےشانے سے دوسرے شانےپر پھیرا۔۔ یہ ہتھیلی نہیں گویا دیا سلائی تھی جو اچانک سے بھڑک اٹھی۔۔ادھر وہ میرے سینے پر ہاتھ پھیرتی ادھر میں اسکے شانے سے دوسرے شانے تک آتا۔۔وہ میرے اوپر جیسے جھکی پڑی تھی ۔۔میں نے اسے ساتھ لٹایا اور خود اوپر آیا۔۔وہ اسوقت شدید جزباتی ماحول میں تھی اسے نا میں سختی سے دھتکار سکتا تھا اور نا ہی حد سے گزر سکتا تھا۔۔ اسلیے ضروری تھا کہ اپنی مہارت سے اسکی آگ کو ٹھنڈا کر دوں۔۔میرا ہاتھ اب جوابی تھرک رہا تھا ۔۔ہاتھ آہستہ آہستہ مزید بہکا۔۔انگلیاں شرٹ کے گلے سے ٹکراتیں اور اندر سے ہوتی ہوئی اسکے بوبز کو چھوتی ہوئی شانے تک جاتیں اور وہ جیسے مدہوش سی ۔۔نعععیم آئی لو یوو۔اسکی سرگوشی نے گویا سارے رازکھول دیے ۔۔میں ششدر اسے دیکھتا رہ گیا ۔۔وہ جیسےمیرے ساتھ لپٹی جا رہی تھی۔۔ مجھے تمہاری بہت عادت ہو گئی نہیں رہ سکتی میں تم کیوں دور جاتے ہو کیوں بھاگتے ہو ۔۔وہ میرے ساتھ لگتی بے ترتیب بولتی جا رہی تھی میں تمہیں کہیں نہیں بھاگنے دینا کہیں نہیں جانے دینا۔۔ اب اسکے ہونٹ میرے شانوں سے ٹکرا رہے تھے اس نے بارہا بار کہا تھا کہ وہ آخری سانس تک کوشش جاری رکھنے والی لڑکی ہے اور شائد آج اسی لیے وہ مجھے جکڑ رہی تھی اور میری آوارگی کے جھونکے جیسے تیز ہواوں میں ڈھل رہے تھے۔۔ اس نے میرے چہرے کو تھاما اور کہا بولو نا لوو یو ٹو۔۔ اس نے ماہر کھلاڑی کی طرح مجھے ٹائی لاک کر دیا تھا۔۔ میں نا انکار کر سکتا تھا نا اقرار۔۔بیلا تم میری بہت اچھی دوست۔۔چپ اس نے مجھے گھورا بولو لو یو ٹو یا منع کر دو بس وہ مجھے جکڑے فائنل بال پر آچکی تھی۔۔ میں اسکا دل توڑ نہیں سکتا تھا میں نے اسے وقتی طور ٹالنے کی سوچی اور اسکو دیکھتے ہوئے کہا لو یو ٹو بیلا۔۔ جیسے ہی میرے الفاظ نکلے اسکا چہرہ گلنار ہوا اور وہ بہک کر بولی پھر کس کرو مجھے اس نے ہونٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا لوو کس کرو بدھو ۔۔وہ سمجھتی تھی کہ میں رومانس میں کورا میری نظریں اسکے گلابی کنوارے ہونٹوں پر پڑی ۔۔ ہلکی لائنز والے گلابی ہونٹ ۔۔میں جھکا اور بڑی آہستگی سے اسکے ہونٹوں کو ہلکا سا چھوا۔۔ ہونٹ سے ہونٹ ٹکرائے میں اوپر ہوا اور کہا لو کر دی ۔۔اس نے سرخ آنکھوں کو جما کر کہا یہ لوو کس ہے ؟ میں نےکہا تو ۔۔اففف ہو تمہیں بدھو ہی رہنا۔۔ اس نے اپنےہونٹ آگے بڑھاے اور ہلکا سا کھول کر میرے ہونٹوں کو چوسا افففففف اسکی یہ لپسنگ ۔۔۔میرے اندر جیسے بادل گرجے۔۔ وہ مرے ہونٹوں کو چوس کر پیچھے ہٹی اور بہکی سانسوں سے بولی ایسے کرتے ہیں۔۔میں نے مخمور نظروں سے اسے دیکھا اور اسکی طرف جھکا اسکے نچلے ہونٹ کو انگوٹھے سے ہلکا باہر کو دبایا اور اندر سے باہر تک پورا ہونٹ کسی ٹافی کی طرح چوسا میری زبان اسکے پونٹ پر پھرنے لگی ۔۔ شاگرد بہت سیانا تھا میری لپسنگ نےاسے تڑپا کر رکھ دیا اسکا جسم جیسے تڑپنے لگا اسکے ہاتھ مرےشانوں سے میری کمر تک بہکنے لگے ایک لمبی کسسسس کے بعد میں نے ہونٹ ہٹائے ۔۔دونوں کی نظریں پھر ملیں اور وہ پھر میری طرف جھکی اور میرے دونوں ہونٹوں کو چوسنے لگی ۔۔وہ مکمل مجھے میں پیوست ہو چکی تھی دونوں ایکدوسرے کے ساتھ جڑے ہونٹوں کو چوس رہے تھے۔۔اسکےہاتھ میری شرٹ کے اندر کمر کو کھرچ رہے تھے ۔۔ میں نے ہاتھ اسکی کمر پر رکھا اور پھیرتے ہوئے شرٹ کے اندر کیا۔۔۔میں ہوش کھونے کو تھا ۔بیلا کانشہ سب سے جدا تھا۔ خالص کنواری کا نشہ۔میں اسکی محبت تھا اور وہ مجھے پوری چاہت سےخود میں سما رہی تھی ۔۔میرے ہاتھ شرٹ کو ہٹاتے اسکی کمر پر گئے وہ سسکی میرے ہاتھ اور اسکی نازک کمر ۔۔دونوں بے تابانہ ایکدوسرے کو دریافت کر رہے تھے۔۔ میں مانتا ہوں اقرار کرتا ہوں کہ تمام تر تجربہ کاری کے باوجود میں بیلا کے نشے میں آوٹ آف کنٹرول ہو چکا تھا۔۔ یہ اسکا پیار تھا ہمارا دوستانہ تھا کافی دنوں کی بوریت تھی یا کیا تھا۔میرا حال واقعی کسی فرسٹ سیکس بوائے جیسا تھا ۔۔دریافت کا سفر بڑھتا گیا ۔میرے ہاتھ اسکی چوٹیوں کو سر کر چکے تھے۔۔میرا ایک ہاتھ اسکے بوبز کو دبا رہا تھا اور دوسرا کمر کو سہلا رہا تھا۔۔ ہاتھ کے انگوٹھے سے بیلا کے نپلز کو سہلاتا تو وہ جیسے تڑپ سی جاتی۔۔دونوں کی شرٹس اتر چکیں تھیں ۔۔ بیلا کا برا ڈھلک چکا تھا اور اسکے گلابی نپلز اور سفید چونتیس نمبر بوبز میرے ہاتھوں میں کسی بال کی طرح ۔۔میں انہیں دبا رہا تھا اور وہ اور ابھر رہےتھے ۔
بیلا سسک سسک کر میرے ساتھ لگتی اور لووو یووو لووویو۔۔۔ مجھے تم سے شادی کرنی ہے کرو گے نا ۔۔ اس نے ماہر کھلاڑی کی طرح اگلا پتہ بہت وقت پرکھیلا۔۔ساتھ اس نے نپل کو ہلکا ابھار کر میرے سینے سے رگڑا ۔۔ بولو رہو گے نا تاعمر میرے ساتھ۔۔ہمممم بولو نا۔۔ اور میں کیا بولتا ۔۔ بولے وہ جو ہوش میں ہو۔۔ میں جھکا اور اسکے نپل کو لبوں سے نچوڑا ۔۔ آاااہ وہ تڑپی اور کہا ہاں میں رہوں گا تاعمر تمہارے ساتھ میں نے گول مول بیان دیا۔۔میں تمہیں بہت پیار کرونگی نعیم اس نے اقرار سننے کے بعد نوازنے کی خبر سنائی۔۔۔ہمممم میں اسکے بوبز کو چہرے سے رگڑنےلگا۔۔۔ہتھیار فل جوبن پر ہو چکا تھا ہتھیار نے اسکی ٹانگوں پہ دستک دی ۔۔ جیسے ہی یہ دستک ہوئی اسے اگلے راونڈ کی وسل جیسا جھٹکا لگا وہ تڑپ کر پیچھے ہٹی ۔۔لیکن میرے بازو کی گرفت نے اسے روکا۔۔ بس نا نعیم اس سے آگے نہیں نا اس نے لاڈ سے مجھے پچکارا۔۔ ہممم کچھ نہیں ہوتا یار میں ٹھنکا اور اسے خود پر کھینچا جو آگ وہ لگا چکی تھی وہ کیسے جانے دیتی۔ ہتھیار نے اسکی ٹانگوں پر دوبارہ دستک دی اور خود ہی منہ اٹھاے ٹانگوں میں گھسا۔۔میں نے اسکے لپس کو جکڑا اور اسےخود سے لپٹا لیا۔میں کسی کنوارے لڑکے کی طرح بہک چکا تھا۔۔ اس نے مجھے پیچھے دھیکلا اور میرے اوپر آ بیٹھی اور میرے چہرے کو چوم کر بولی بسسسس نعیم باقی شادی کے بعد ۔۔اس نے کسی ٹرافی کی طرح سینے کو میری آنکھوں کے سامنے لہرایا اور اپنی شرٹ کو اٹھاتی تیزی سے بیڈ سے اترکر صوفے پر جابیٹھی میں حیرت سے اسے دیکھے گیا ۔۔واقعی اس نے زنانہ سیاست کا بہترین سٹروک کھیلا تھا۔۔ مجھ سے اقرار کروا کر جسم کے جلوے دکھلا کر میرے اندر آگ بھڑکا کر تشنہ چھوڑ دیا۔۔وااااہ واقعی وہ کھلاڑی تھی جانتی تھی کب کہاں کیسے کس حد تک کھیلنا۔۔اگر وہ بیلا ناہوتی تو میں دیکھتا کیسے وہ چدوائے بنا یہاں سے جاتی لیکن بیلا کے ساتھ زبردستی نا ممکن ۔۔کچھ دیر بعد آہستہ آہستہ میں نارمل ہوا۔۔ دونوں کی پھر نظریں ملیں اس نے شرما کر آنکھیں جھکا لیں اور میں جیسے الو کا پٹھا۔۔گیم سلجھانے کی بجائے الجھا بیٹھا تھا ۔۔اب تو اسکے پاس میرا اقرار نامہ موجود تھا ۔۔ اور ہم شادی طئے کر چکے تھے۔ اس کے بعد اس کی نظر میں میرا فرار نا ممکن تھا۔۔ اور ادھر میں تھا جو عمبرین اور بیلا کے درمیان پھنس چکا تھا۔۔
fkniazi555.blogspot.com
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں