اتوار، 12 ستمبر، 2021

Meri Kahani Meri Zubani Episode 42


    Meri Kahani Meri Zubani

Episode 42


کچھ دیر ہم ایسےہی ساتھ ساتھ پڑےرہے پھر باری باری دونوں نے آنکھیں کھولیں۔۔ وہ میرے ساتھ دراز مدہوش سی کیا دیکھ رہے ہو وہ ہلکا سا بولیں۔۔تمہیں دیکھ رہا ہوں یاار بہہت تیکھی ہو تم سواد آ گیا۔۔ اسکا چہرہ چمکا اور آنکھ مار کر بولی میں تو بس تیکھی ہوں تمہاری سرکار تو پورے بارہ مصالحے کی چاٹ ہے۔۔میں ہنسااور کہا میں کیا ہوں۔۔ وہ کچھ دیر سوچ کر بولی تم دوری کا ڈنڈا ہو جو ساری مرچی سارا تیکھا پن رگڑ کر رکھ دے۔۔بہت مزہ آیا یار واقعی تم کڑی لاہور دی ہو ۔۔ وہ ہنسی اور بولی واقعی عمبرین سچ کہتی بہت شوخے ہو تم۔۔ پھر بولی ایک بات بتانا سچ سچ۔۔ کس کےساتھ زیادہ مزہ آیا میرے ساتھ یا کومل کےساتھ یہ عورت کا عورت سے مقابلہ بول رہا تھا۔ میں نے سرگوشی کی سادہ پلاو کا اور کراچی کی بریانی کا کیا مقابلہ تم تو لششششش بیوٹی ہو ۔۔تمہارا جسم بہت سیکسی۔۔ ہاااے سچی۔۔ ہمم ہاں پتہ کیسا تمہارا جسم ۔۔ مجھے کافی مہینوں کی تروٹک تھی بچی بھی سیکسی تھی اور میری سرکار کی چابی تھی مجھے سرکار کے بارے اور جاننا تھا۔۔کیسا ہے میرا جسم۔۔ میں نے کہا آ کر بتاتا ہوں ۔۔ پورا دیکھ کر میں اسے آنکھ مارتا کمرے سے باہر نکل آیا

fkniazi555.blogspot.com

میں باہر آیا۔ کچھ دیر چھت پر گھومتا رہا ۔۔کمرے میں جھانکا ناصر گہری نیند سو رہا تھا کوئی عجیب ہی نیند تھی اسکی بھی کچی عمر کی پکی نیند۔۔میں جب واپس کمرے میں پہنچا تو نائلہ قدرے ایزی ہو کر صوفے پر بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی۔۔ میں اسکے اس گیا اور بولا کیا سوچ رہی ہوکہنے لگی یار یہ کچھ زیادہ ہو گیا نا آج۔۔۔میں نے شرارت سےکہا ہوگیا تو ہو گیا تم یہ بتاو مزہ آیا۔۔ وہ کہنے لگی بہہت زیادہ یار بس نہیں ہونا چاہیے تھا ویسے۔۔ کچھ دیر میں اسے باتوں سے ایزی کرتا رہا۔۔ اور پھر طریقے سے بات عمبرین کی طرف موڑ دی۔۔وہ بتانے لگی کہ شادی سے پہلے اکثر وہ اور عمبرین انڈین رومانٹک سونگز سنتے تھے۔۔میں نے کہا مجھےتو بر سی لگتی ہے وہ۔۔ نائلہ مجھے آنکھ مارتے ہوے بولی میسنی ہے اندر سے بہہت رومانٹک ہے ۔۔ اگر تمہاری اس سے شادی ہوگئی یا تم نے ویسے فل پیار کیا تو تمہیں پتہ چلےگا۔۔بہت گرم جوانی ہے 😉بس کافی کنٹرول ہے اسے خود پر جانے تم سے کیسے کھل گئی ویسے ایک بات کہوں اگر برا نا مانو۔۔ ہااں یار بولو میں برا نہیں مانوں گا تمہاری بات کا۔۔تم اگر اس سے سب کر لو نا تو ڈبل فائدےہیں۔۔ مجھے جھٹکا لگا اور کہنے لگا نہیں یار ۔۔اوہو سنو تو۔۔ پہلا فائدہ یہ کہ دونوں پیار کرتے ہو تو فل پیار کر سکو گے ایک دوسرے کےساتھ فل انجوائے کر سکو گے یقین کرو تم سوچ نہیں سکتے وہ کیسی۔۔ میں نے کہا ایک بات پوچھوں تم سے ۔۔ یہ عمبرین اور اسکے شوہر کا کیا مسلہ ۔۔ بچہ بھی کوئی نہیں۔۔۔مجھے اندازہ تو تھا لیکن کچھ سوال ایسے تھے جو میں عمبرین سے نہیں پوچھ سکتا تھا۔۔ انکا اگر آپسی روز کا بھی تعلق ہوتا میری محبت تب بھی ویسی ہی ہونی تھی جیسے اب ہے۔۔ یہ ویسے جاننا تھا

ارے یار بچہ تھوڑی جھولے سے آئے گا۔۔ دلاور کو سمجھو انٹرسٹ ہی نہیں۔۔ شائد ایک آدھ بار شروع میں کچھ ہوا ہو گا۔۔ اسکی ضدیں فضول ۔۔پھر بھی کیا اب مجھ سے کیا شرم۔۔ یار وہ عمبرین سے بیک سے کرنا چاہتا صرف اور عمبرین مانتی ہی نہیں وہ کہتی ہے جب اسے حق نہیں دیا جاے گا تو وہ صرف یکطرفہ تسکین کے لیے کھلونا نہیں بن سکتی۔۔اب کیسے بتائے کہ بچہ کیوں نہیں ہوتا۔۔تمہیں پتہ ہے عمبرین بہت اداس تھی کل سے آج بھی کافی پریشان تھی۔۔پتہ دلاور اپنی اماں سے کہہ رہا تھا بےشک کسی سے بچہ لے لے ۔۔ عجیب بے غیرت آدمی ہے عمبرین نے سن لیا ۔ بہت سخت تذلیل لگی اسے اور ہے بھی۔۔بڑی مشکل سے میں نے اسے ایزی کیا اور پتہ میں اسے کیا کہا ۔ بتاو میں نے جوابا کہا۔۔ میں نے کہا کہ تم پیار کی نشانی رکھ لو نا۔۔ایسی نشانی جو تمہاری کوکھ سے نکلے اور تم اسے محبت کی یاد سمجھو تمہاری اولاد ۔۔پہلے تو وہ بہت غصے ہوئی لیکن آہستہ آہستہ تمہاری باتوں کے ذکر میں میری پھر سے آفرپر وہ غصے کی بجائے شرما سی گئ۔۔ میں نےتو اسے یہ بھی آفرکی کہ تم دونوں جب چاہے میرے گھر پروگرام سیٹ کر سکتے 😉 اوراس نے مجھے مکا مارا ۔۔ہاہاہاے میں نے اسے ساتھ لگایا اور پوچھا پھر ۔۔پھر اسکا عجیب جواب تھا ۔۔نہیں اگر ایسا پروگرام بنا جب مجھے لگا کہ اب معاملات عجیب ہو گئے تب میں اپنے پیار کی نشانی کو ضرور لوں گی اور میں جانتی ہوں وہ کونسی جگہ ہوگی ۔مجھے لگا جیسے وہ کچھ سوچ رہی ہے ۔۔بہت پیار کرتی ہے وہ تم سے کاش تم کچھ سال پہلے ملے ہوتے اس سے ۔۔وہ مجھے عمبر کے مزاج کے بارے بتاتی رہی میں سنتا رہا۔۔

کئی بارتھرل والی زندگی کے فورا بعد جیسےسکون آ جاتا ہے نا بلکل ویسے سکون چل رہا تھا۔۔میں بیٹھا عمبرین سرکار کے بارے سوچ رہا تھا۔

سوچتے سوچتے جیسے یکدم ہڑک اٹھتی ہے میں اٹھا اور گلبرگ والے گھر چلا گیا۔۔ کافی دنوں بعد ادھر آیا۔۔اندر گیٹ کے پاس ایک لفافہ پڑا ہوا تھا۔۔ میں نے کھولا یہ سارہ کا رقعہ تھا۔۔روزی کی والدہ کی ڈیتھ ہوگئی تھی۔۔وہ دو بار آئی لیکن نا ملاقات ہوئی یہ شکوہ انگیز رقعہ تھا ۔۔ زندگی اس انداز سے بدلی تھی کہ سوچا نا تھا آہستہ آہستہ عشق مجھے لگام ڈال رہا تھا۔۔ میرے اندر ٹھہراو آ رہا تھا

آج مجھے سرکار کی یاد بہت زیادہ آ رہی تھی ۔ میں نے سوچا محبت آزمائی جاے سنا ہے سچے دل سے پکارا جاے تو دل کی آواز میلوں دور پہنچ جاتی ۔۔ میں نے آنکھیں بند کیں اور عمبرین کا چہرہ سوچ کر دل و جان کی شدت سے پکارا ہم بہت اداس ہیں سرکار رابطہ تو کریں ہمیں بہت کچھ کہنا بہہت کچھ سننا۔۔۔

اندر کافی دنوں کی گھٹن جمع تھی میں ادھر ادھر گھومتے ہوئے عمبرین کے بارے ہی سوچ رہا تھا کہ دیکھو کیا ہوتا آج دل سے پکارا ہے۔۔رات ڈھل چکی تھی امیدیں بس دم توڑنے والی ہی تھیں ۔۔۔ جب مجھے لگا فون کی بیل بج رہی ہے مجھے جھٹکا لگا واقعی فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔۔ میں تیزی سے اوپر کو لپکا جیسے ہی میں دروازے کو کھول کر فون کے پاس پہنچا بیل بند ہو گئی۔۔ بیل بند نہیں ہوئی میرا دل بند ہو گیا تھا۔۔یہاں صرف ایک ہی فون آ سکتا تھا۔۔میں مایوس وہیں بیٹھ گیا میرا پورا جسم جیسے سماعت بن گیا تھا۔۔ اچانک پھر بیل بجی میں تیزی سے ریسیو کیا اور پھولی سانسوں سے کہا ہیلوووو۔کیسے ہو یہ آواز نہیں جیسے اثر تھا دعا ۔۔ ممم میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں میرا دل جیسے پاگل ہو رہا تھا۔۔ عمبرین کا فون آنا یعنی میری محبت کی سچائی تھی۔آج میں نے تمہیں بہت یاد کیا اتنا یاد کہ مانگ کر فون لائی اسے کیبل سے جوڑا اور فون کیا۔۔میں بھی آپکو بہت یاد کیا۔۔ آج وہ خلاف توقع بہت پرجوش تھیں۔۔انکی آواز میں محبت بول رہی تھی۔۔ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔۔میں نے انیلہ سے لیا علم استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور بولا۔۔ آپ کبھی ہمارے فیوچر کی بات نہیں کی ہماری شادی کے بعد کی سہانی باتاں۔۔ تب ایسے میں آپ کے ساتھ لگ کر آپ سے باتیں کرونگا اووور آپ کو بہہت پیار کرونگا۔۔ اچھا کتنا پیار کروگے۔بہت پیار جیسے کوئی صدیوں کا پیاسا مسافر ٹھنڈی جھیل پہ ۔۔ اس وارفتگی اور شدت سے۔۔ ہاااے اللہ اتنی شدت۔۔ ہاں جیسے پیاسے صحرا پہ بارش تیز طوفانی بارش ایسے برسنا اتنا جذب ہونا کہ جل تھل کر دینا۔۔ ساری پیاس چوس لینی پتہ ہے کیسے چوسنی مجھے پتہ انکی بوجھل آواز گونجی ۔۔ مجھے پھر بھی بتانا ہے آپکے انگ انگ کو قطرہ سمجھ کر پیاسے ہونٹوں سے چھونا۔۔ اور برسنا۔۔ افففف انکی آواز میں مدہوشی چھا رہی تھی۔۔ تمہیں کیا لگتا میں صحرا ہوں یا بادل۔۔انہوں نے کہا۔۔ آپ صحرا بھی ہیں بادل بھی ہیں لیکن یہ بادل برسنے تب جب کسی نے آپکی روح کی پیاس کو دیکھا وہ چپ ہو گئیں اور بولیں تم بلکل سچ کہا ہے۔۔اور مجھے آپکی روح سے جسم تک ہر پیاس کا اندازہ ہے۔۔ہممم مجھے پتہ ہے اسلیے میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ۔۔ وہ کچھ دیر چپ رہیں اور بولیں کہ تم نے روح کی پیاس کو دیکھا نا تو اب بادل بھی تم ہی دیکھو گے پتہ ہے کیسے ہیں بادل ۔۔کیسے ہیں میں نے شدت جذبات سے پوچھا۔۔ ایسے بادل ہے جو تمہیں بہا کر لیجا سکتے۔۔طوفان سمجھ سکتے ہو نا تم وہ ۔۔میرے اندر نشہ سا پھیلنے لگا اور یہ طوفان کب برسے گا۔۔بسسس برس جاے گا جب وقت آیا۔۔مجھے کیا پتہ میرے سامنے تو آپ بلکل سادہ مسکین بنی رہتیں ۔۔ وہ ہنسیں اور بولیں بس اسے چھوڑو تم میرے دوسرے رنگ سے نہیں واقف۔۔ اچھا جی چلو ہو لیں گے واقف آپکو بھی میرا نہیں پتہ۔۔ مجھے پتہ ہے تمہارا وہ شرما کر بولیں۔۔نا جی نا وہ تو ٹریلر بس فلم تو زیادہ چسکے دار۔۔۔ اچھا جی جتنا بھی چسکا ہے نا سارا میرے ایک تل پر پاگل ہو جاتا ابھی تو دو تل اور بھی ہیں۔۔ ایک تو کمر پر اووور تیسرا۔۔ وہ خود دیکھ لینا نا وہ جھجھک کر بولیں۔۔ آہستہ آہستہ گفتگو ایک لہر کی طرح بہے جا رہی تھی۔میں نے کہاتو آج کیسے خیال ہے بادل برسانے کا۔۔ وہ کچھ دیر چپ رہیں اور بولیں بس آ گیا ۔تمہاری محبت نے فتح کر لیا یہ سمجھو بس تم۔۔عورت ہر ایک پر نہیں کھلتی اس پر کھلتی ہے جو اس قابل ہو اور تم نے میرےیقین کو قائم رکھا تم نے اپنے وعدے نباہے اسلیے ۔دوسرا مجھے بھی تم سے محبت ہے میرے جذبے بھی ہیں۔۔ اور تم بھی کہا تھا نا کہ جی بھر کر پیار کرنا تو بس سمجھو تمہاری بات مان لی میں نے۔۔میں کچھ لمحے زندگی کے تمہارے ساتھ جینا چاہتی ہوں میں تھک گئی ہوں وہ لاچاری سے بولیں۔۔ کچھ لمحے کیوں ساری زندگی کا ساتھ کیوں نہیں میں نے پھر وہی بات کی۔۔ پلیز شہزادے جو میں کہہ رہی ہوں وہ سنو بس۔بہت مشکل سے میں کہہ رہی تو سنو تم سرکار کہتے نا تو بس میرا حکم ہے سنو ۔جی سرکار سن رہا ۔۔ شاباش شہزادے ۔۔۔ حالات بدلتے وقت نہیں لگتا شہزادے۔میں چاہتی ہوں کہ ۔۔ وہ کچھ چپ ہوئیں۔۔ چاہتی ہوں کہ میرے بچے کے باپ صرف تم ہو ۔۔ ہمارے پیار کی نشانی جو تاعمر ساتھ ہو میرے ۔۔ بسسس یہی میرا فیصلہ ہے۔۔انکی بات نے جیسے دھماکہ کیا

لیکن سرکار میں شادی کے بنا آپ کونہیں چھو سکتا یہ میرے عشق کی توہین ہے ایسا کرنا ہوتا تو کئی بار مواقع تھے۔۔ جانتی ہوں اسی لیے کہا ۔۔ کہ تم ہی تمہاری طرح کا وعدہ وفا اور مضبوط بنے وہ ۔۔باقی رہ گئی شادی والی بات بتاو کیسے رہیں گے ایسے ساری عمر ۔تم بتاو مجھے میری مدد کرو گے مجھے جو کمی فیل ہوتی اسے بھرو گے بولو وہ میری کمزوری سے کھیلیں۔۔ کیا تم چاہتے ہو سب مجھے ایسے ہی رحم بھری نظروں سے دیکھیں بولو۔۔ نا سرکار ایسے ہو سکتا لیکن شادی کا۔۔ یار میری بات سنو شادی کے لیے کیا کروگے رشتہ مانگو گے نا میرا۔تو ٹھیک ہے تم آنٹی سے کل آ کر بات کر لینا انکی بات نے جیسے مجھے گھما کر رکھ دیا۔۔بس یہی تمہاری بات کا جواب ہے ۔۔ یار ایسے کیا کہوں وہ میری لاچاری پر ہنسیں اور کہا میرے شہزادے میں نے کہا نا میں تمہارےساتھ کچھ دن گزارنا چاہتی تو میں سب سوچ رکھا سمجھو شادی ہی ہوگی۔ تم باقاعدہ آنٹی سے مجھے گھمانے اورڈاکٹر سے چیک اپ کے لیے لیجاو گے باقی وہ خود کرلیں گی تم سے بات ۔۔ ابھی میں نے کوئی نہیں بتانا۔۔اچھا تو کب آوں آنٹی سے بات کرنے میں سمجھا وہ مذاق کر رہیں۔۔ دو چار دن میں تمہیں بتا دونگی اب باقی بات بعد میں ہوگی انہوں نے فون بند کرتے ہوے کہا

اب مجھے شدت سے اس پہیلی کے کھلنے کا انتظار تھا۔۔اور میرے پاس اس پہیلی کی چابی تھی جسکا انہیں نہیں پتہ تھا ۔۔ انہیں تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ آنٹی سے میں ہر قسم کی کھل کر بات کر سکتا۔۔ اس دن آنٹی بھی عجب باتیں کر رہیں تھیں گھتی کچھ کھلی تھی لیکن کھل کر بھی پچیدہ تھی۔میں نے اس چابی تک رسائی کا سوچا۔اور سیدھا ناصر کی اکیڈمی جا پہنچا۔ناصر جب چھٹی کے بعد باہر نکلا تو مجھے دیکھ کر حیران ہوا۔میں اسے ساتھ بٹھایا اور بولا یار مجھے نائلہ سے فوری مشورہ کرنا ہے کوئی جگاڑ لگاو۔۔وہ بولا جگاڑ لگا لگایا ہے آپی آج ادھر ہی ہے چلیں گھر چلتے۔۔میں خوشی سے اسکے ساتھ چل دیا۔۔ گھر پہنچے تو پتہ چلا وہ عمبرین گھر گئ ہے۔۔میں اور ناصر چھت پر ہی چلے آئے مجھے شدت سے نائلہ کا انتظار تھا۔۔ آخر شام ڈھلے وہ نازل ہوئی اور مجھے دیکھ کر حیران رہ گئی ۔ناصر اسے طریقے سے اوپر لے آیا۔۔یار مجھے بہت ضروری بات کرنی تم سے۔۔مجھے بھی اس نے بھی کہا۔۔ میرا خیال ہے میں بیچ میں مسلہ ہوں ۔۔ ناصر نے کہا آپ لگ باتیں کرو میں اندر سٹور میں ذرا ریسٹ کر لوں اسکے جانے کے بعد نائلہ بولی یار تم کیا چیز ہو۔۔میں نے کہا انسان ہوں کیوں کیا ہوا۔۔ بولی عجیب قسمت ہے تمہاری پتہ مجھے عمبرین نے بلایا تھا ۔۔وہ مان گئی ہے تم سے بچے کےلیے۔اور یار کیا پلان بنا ہے اس لیے تو میں کہہ رہی کیا قسمت ۔۔اوہو بتاو تو ۔۔ سنو پہلے بھی جن میں لوو چل رہا ہوتا ان میں سیکس ہوتاہے لیکن سب سے چھپ کر رائٹ ؟؟ اسکی سہیلی کو بھی پتہ ہوتا ہے یہاں تک بھی ٹھیک ہے لیکن سیکس کے لیے اسکی خالہ اور ساس بھی اجازت دیں یہ کمال ہے۔۔ توہوا یو کہ آنٹی کو وہ بتا چکی تھی کہ اس نے دلاور کی بات سنی اور اسے برا بھی لگا۔۔ تو آنٹی نے خالہ بن کر اسے ٹٹولا اورخالہ سہیلی بن کر کہا کہ ویسے ایسا ہو جاے تو کیا ہے تھوڑا تم بھی انجوائےکر لو گی بچہ بھی مل جاے گا رونق بھی ہو گی اور ہو گا بھی تمہارا۔۔عمبرین پہلے تو کافی غصہ ہوئی ان سے بھی لیکن پھر تنگ آ کر کہنے لگی تو کہاں سے لاوں بچہ ۔آپکو پتہ ہے اس میں کتنا رسک اب وہ تمہارا ذکر کیسے کرتی یہ سوچ رہی تھی کہ الٹا آنٹی نے دھماکہ کیا بولیں بندہ ہے قابل اعتماد ہے بس تم مانو تو۔۔ عمبرین بہت حیران ہوئی اور بولی وہ کون تب انہوں نے تمہارا نام لیا بقول عمبرین کےوہ چکرا کر رہ گئی تب خالہ نے کہا تم پریشان نا ہو اسے کیسے منانا میں جانتی ہوں۔۔تم بس اپنا بتاو۔۔اور عمبرین نے کچھ حیلوں کچھ شرطوں کے بعد بات مان لی۔۔۔ گھتی سلجھ چکی تھی۔۔ آنٹی کوتو پتہ تھا میرا اچھی طرح وہ با آسانی کہہ سکتیں تھیں لیکن اس بات کا عمبرین کو نہیں پتہ تھا۔۔۔سمجھو اس بات کا آنٹی عمبرین اور تمہیں ہی پتہ ہو گا۔۔ میرا آنٹی کو اور تمہیں بلکل نہیں پتہ سمجھےتم۔۔ بس تیار ہو جاو ایک اچھے وقت کے لیے یاااا مجھے سچی بہت خوشی ہو رہی۔۔کچھ دن تک تمہیں بلاوا آ جاے گا۔۔

وہ پوری رات میں اسی معاملے میں سوچتا رہا ۔اسی سوچ میں سارا دن گزرا ۔۔ سہ پہر کو اچانک ملک خاور اور ملکانی دونوں آ گئے ان سے باتوں کے دوران بھی میں کھویا کھویا رہا۔۔ کچھ دیر بعد جب خاور کسی کام میں بزی ہوا تو میڈم نے مجھ سے پوچھا کدھر کھوئے ہوئے ہو میں نے پہلے توٹالا لیکن انکے اصرار اور پھر نے سوچا ان سے اگلی زندگی کا مشورہ لے لوں۔۔میں نے انہیں مختصرا بتایا کہ جس سے مجھے محبت وہ مجھ سے بچہ چاہتی وہ پوری بات سنیں اور بولیں ایک مشورہ دوں ٹیچر بنکر تمہاری فلاح کے لیے کیونکہ تمہارا بھلا اسی میں ہے میں نے کہا کیا۔ کہنے لگیں تم اسکی بات مان لو اور شادی کچھ دیر بعد کہیں اور کر لینا وہ بھی میں مشورہ دونگی تمہیں جب موقع آیا۔۔ مجھے انکی باتوں سے کچھ حل ملا

وہ کہنے لگیں ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے ابھی کچھ سال میں اپنا مقام بناو ترقی کرو یہ نوکری تو بس تمہارا آغاز ہے۔تمہیں زیادہ ترقی کرنی۔۔ انکے جانے کے بعد انہی سوچوں میں دو دن گزر گئے خدا کا شکر کہ ان دنوں بیلاکے ٹسٹ چل رہے تھے اور وہ اپنی پوزیشن کو قائم رکھنے کے لیے رات دن پڑھ رہی تھی۔۔یہ جمعرات کا دن تھا جب ناصر نے مجھے پیغام دیا کہ آج سیکنڈ ٹائم انکے گھر لازمی پہنچوں۔۔ خدا خدا کر کے سیکنڈ ٹائم آیا اور میں انکے گھر جا دھمکا۔۔ گھر میں صرف آنٹی تھیں ۔۔ کافی سنجیدہ سی ۔۔انکل کا پوچھا تو بتانے لگیں اندر سو رہے ۔عمبرین ناصر کی اماں کے ہاں گئی ہوئی تھی۔۔رسمی علیک سلیک کے بعد آنٹی بولیں مجھے تم سے ایک کام ہے بہت اہم اور بہت خفیہ تم پر اعتماد کروں۔ میں نے کہا عجیب بات کرتی ہیں ہمارے درمیان سب کچھ تھا کیا میں کبھی دھوکہ دیا۔۔ وہ چپ ہوئیں اور کہا اسی لیے تم سے کہہ رہی ہوں۔۔ تمہیں پتہ ای ہے تمہارے انکل کی طبعیت خراب رہتی ہے دلاور بھی باہر رہتا اوپر سے بچہ بھی کوئی نہیں جو رونق لگائے۔۔میں نے کہا تو میں کیا مدد کر سکتا ہوں۔۔وہ کہنے لگیں دلاور ویسے ٹھیک ہے لیکن وہ باپ نہیں بن سکتا انہوں نے کہانی گھڑی۔۔اور میں چاہتی ہوں کہ تم میرے لیے مدد کرو ۔۔ جہاں اتنا مزہ میرے ساتھ لیا وہاں اسکے ساتھ بھی لو بس ایک پوتا چاہیے اسے تم استانی کی فیس سمجھ لو۔۔ میں مصنوعی ہچکچا کر بولا لیکن عمبرین وہ بولیں اسکی فکر نا کرو میں تمہیں طریقہ بتاتی ہوں دلاور کچھ دنوں بعد کراچی جانا ہے اسکی بھی ڈیٹس قریب ہیں۔۔ ڈیٹس کے بعد بچےکا امکان زیادہ ہو جاتا ہے ۔۔تم اسے یہاں سے کسی ڈاکٹر کے بہانے یا کسی اور بہانے لیجانا میں نے اسے کہا ہے کچھ گھوم آئے بس آگے تم جانتے ہی ہوطریقے سے سب کر لینا۔۔ اور جتنا تمہارا ہے لازمی ہوجانا بچہ ۔۔ وہ مستی سے بولیں جاو انجوائے کرو۔۔ اور میرا پوتا بھی پھر تمہاری طرح وڈےلن والا ہوگا نا 😉 وہ مجھے چھیڑتے ہوئے بولیں میں ہنسا وہ بھی ایزی ہو کر بولیں اب ایک استانی کی ہدایت سن لو۔۔ تمہارا واسطہ صرف مجھ سے پڑا ہے جو پرانی پاپی تھی وہ شادی شدہ ہے لیکن نکی ہے۔۔ وحشی نا بن جانا آرام نال کرنا میں ہنسا انہیں کیا پتہ تھا میں انکے علاوہ کومل رابعہ تانیہ سارہ روزی ملکانی نائلہ کو چود چکا تھا جس میں دو کنواریاں ہی تھیں ۔۔ میں نے اسی ٹون میں کہا تو پھر سکھا دیں کیسے کرنا آرام سے استانی جو ہیں وہ ہنس کر بولیں بڑے شیطان ہو تم ویسے۔۔اب تو میں تمہاری ساس بننے والی شرم کرو میں نے اسی ٹون میں کہا ایک تو آپ میری اصلی ساس نہیں دوسرا ساس داماد کے چکر کافی ہوتے رہتے ۔۔ وہ پھر ہنسیں اور بولیں بہت تیز ہو گئے ہو تم اتنی سوہنی کڑی انعام میں دی لیکن تم اب بھی بڈھی کے پیچھے ہو۔ہاااے استانی جی پرانی شراب کا اپنا مزہ ۔۔ میں انہیں خوش کر رہا تھا۔۔ وہ مجھے اور عمبرین کو ملا رہی تھیں انکا حق بنتا تھا۔۔وہ میری تعریف سے کھل اٹھیں سچی لیکن یار ابھی میرا دل نہیں عجیب سا بجھا بجھا۔۔میں ضد نہیں کی اور کچھ چیزیں ڈسکس کرنے کے بعد وہاں سے اٹھ آیا

مجھے بہت کچھ پلان کرنا تھا میرے لیے تو شادی جیسی خوشی ہی تھی ورنہ صرف چودنا ہو تو اور بھی ہو سکتا تھا کچھ۔اگلے دن میں ملکانی سے ملا اور انہیں سارا پروگرام بتایا۔۔ اور ان سے کچھ ایڈوانس کی بات کی۔۔ تب وہ بولیں تم ایڈوانس کی بات کر رہے ہو اور میں سوچ رہی کہ تمہاری خوشی کو اچھے سے مناوں یہ پروگرام سمجھو ملکانی کرے گی۔۔ دوپریمیوں کے لیے۔۔میرے انکار پر وہ کافی غصہ ہوئیں اور بولیں تمہیں پتہ نہیں ملکوں کا ہماری جس سے بن جاے نا تو ساتھ نباہتے ہر کام میں۔۔بس تم سمجھو یہ میرا کام ہے اب۔ انہوں نے مجھے کہا کہ مری میں انکا ایک کاٹیج ہے وہ وہاں سارا انتظام کروا دیں گی وہاں ہی ہم رہیں گے ۔۔ وہ چاہتی تھیں ہم یہ دن سب سے کٹ کر صرف اکھٹے جئیں ۔ مجھے انکا آئیڈیا پسند آیا لاہور میں واقعی کافی مسائل ہو سکتے تھے بیلا آ سکتی تھی۔انہوں نے مجھے کچھ شاپنگ کامشورہ دیا کچھ گفٹ عمبرین کے لیے ۔۔ انکے ساتھ ہی میں نے شاپنگ کی۔۔میں نے ایک ہلکا زرتار باس لیا جو اسکا لباس عروسی ہونا تھا میں پوری چاہ سے ویلکم کرنا چاہتا تھا انہیں بتانا چاہتا تھا کہ میں واقعی پوری چاہ سے انہیں اپنا رہا بے شک کچھ وقت سہی۔۔وہیں سے عمبرین کے لیے ایک گولڈ کا لاکٹ خریدا۔ جس میں دل شیپ کا ڈیزائن تھا

ہر دن ایک ترنگ میں گزر رہا تھا انتظار کے لمحے کاٹنا مشکل ہو رہا تھا۔۔ایسی ہی ایک بھید بھری رات تھی جب عمبرین کا فون آیا۔ اور پوچھنے لگیں بولوکیسا لگا ہو گئی بات ۔۔ میں پورے دل سے مسکرایا اور کہا بس میں آپکو چھپ کر نہیں پوری چاہ سے اپنانا چاہتا تھا۔۔ اکتوبر کی چھ تاریخ عمبرین کی سالگرہ تھی اور آج ستمبر کی انتیس تھی۔ طئے ہوا کہ جنم دن سے نئی زندگی کا نئے رشتے کا آغاز ہوگا۔۔ وہ شرماتے ہوے بولیں اپنی دلہن کو کہاں لیجاو گے۔۔ میں نے ہنس کر کہامیں تو اپنے گاوں بھی لیجانے کو تیار تھا ۔۔ مری لیجانا ہنی مون پروگرام ۔۔واپسی پر آ کر آنٹی نے بتانا تھا کہ ڈاکٹر نے عمبرین کو دوائی دی ہے اور اس سے امید ہے یہ بہانا بنایا جانا تھا دلاور سمیت سب کے سامنے۔پانچ اکتوبر سے انیس اکتوبر تک پورے چودہ دن کا پروگرام طئے ہوچکا تھا تب عمبرین بولی ایک بات کہوں ۔۔میں پہلی رات گلبرگ والے گھر اپنے کمرے میں گزارنا چاہتی وہ کمرہ جہاں میں رہتی رہی جہاں ساری سہانی یادیں ۔یہ سہانی یاد بھی وہاں ہی ہوگی اس کمرے میں جہاں میرے خواب ہیں۔۔ میں نے کہا جو حکم سرکار تو اس کمرے کی چابی کہاں میں آج تک ادھر نہیں گیا ۔۔ مجھے اسکو سجانا۔۔ عمبرین بڑا حیران ہوئی اور بولی تم واقعی حجلہ عروسی بنانی۔۔میں نے کہا یس لازمی اور آپ کے لیے جوڑا بھی لیا ۔۔ عمبرین میری وارفتگی سے بہت خوش ہوئی اور بولی اتنا نا کرو کہ بعد میں رہنا مشکل ہو۔۔ میں نے کہا سرکار بعد کی بعد میں دیکھیں گے ابھی تو جینے دیں۔۔ان سے چابی کا پوچھ کر انہیں راضی کر ہی لیا۔۔ تب وہ کہنے لگیں اگر کمرہ سجانا ہواتو صرف گلاب اور موتیے سے سجانا بس۔۔ اور اب آج سے چھ اکتوبر تک نو رابطہ۔۔سمجھو مایوں بیٹھ گئی میں۔۔میں دل سے ہنسا اور کہا ٹھیک ۔۔ چھ اکتوبر آپکو لینے آوں گامیں۔۔ اور وہ شرما کر بولیں ہممم

اگلے دو تین دن شدید مصروفیت میں گزرے ۔۔ فیکٹری کا سارا کام ترتیب سےسمجھایا ۔عمبرین کے کمرے کی سیٹنگ کی ۔۔ ٍڈیکوریشن والے کو آرڈر دیا اور پھر جا کر سکون کا سانس آیا۔۔ کافی دن ہو گئے تھے میں بیلا سے نہیں ملا تھا اس شام وقت تھا تو میں ادھر چلا گیا۔۔ آنٹی ہمیشہ کی طرح مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئیں البتہ بیلا کا منہ سوجا ہی رہا۔۔ اسکی خفگی بجا تھی۔اتنے دن بعد جو ملا تھا اس سے۔۔ باتوں ہی باتوں میں آنٹی نے کہا اب تم خیر سے کام پر لگ گئے ہو اپنےوالدین کو بلاو کبھی ملاقات کرواو انکی دعوت وغیرہ ہو۔۔ میں نے نوٹ کیا کہ آنٹی کی اس بات پر بیلا کا چہرہ سرخ سا ہوا۔۔ میں کچھ سمجھا کچھ نا سمجھا میں نے کہا جی ضرور ابھی میں کچھ دن کے لیے لاہور سے باہر جا رہا تو جیسے ہی واپس آتا ہوں انہیں آپ سے ملواتا ہوں بلکہ آپ سب میرے ساتھ چلیں میرے گاوں۔۔ آنٹی نے کہا ضرور تم ہو آو پھر بناتے پروگرام۔۔آنٹی کے بعد بیلا نے مجھ سے پوچھا کہ میں کدھر جا رہا ہوں میں نے اسے فیکٹری کے بہانے سے مطمئن کیا۔۔اس شام میں ڈنر تک ان کے گھر ہی رکا۔کافی دنوں بعد سب سے نوک جھونک ہوئی۔وہ میرے آنے سے بہت خوش خوش تھی۔ڈنر کے بعد وہ مجھے گیٹ تک چھوڑنے آئی اور بولی خیر سے جاو اور خیر سے آو ۔۔ تمہاری واپسی کا بہت انتظار رہےگا۔۔ میں اسکے گالوں کو تھپتھپاتا واپس نکل پڑا۔۔

یہ دن کیسے کٹے اسکا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو کسی کو ٹوٹ کر چاہے اور اسکا انتظار کرے۔۔ پانچ اکتوبر کا سنہرا دن موسم معتدل تھا ہلکی خوشگوار ہوا چل رہی تھی جب ناصر مجھے ملنے آیااور کہا آپکے لیے آنٹی کا پیغام ہے کہ آپ کل شام کو پانچ سے چھ کے درمیان آ کراپنا سامان لیجائیں۔۔ میرا دل تو جیسے پاگل ہو گیا بس گھنٹوں کی بات رہ گئی تھی۔۔ناصر نے کہا گرو کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے نائلہ بھی بہت خوش آجکل آپ بھی ہو گئے میں نے اسے کہاجانی ویسے ہی خوش ہوں یار اسی بہانے عمبرین کو دیکھ لوں گا۔۔ ناصر رات تک میرے ساتھ رہا اسکے جانے کےبعد میں کتنی ہی دیر کل کا سوچتا رہا کہ کل اس وقت عمبرین میرے ساتھ ہو گی۔۔کئی وسوسے ستا رہے تھی کسی انہونی کا ڈر تھا۔۔ یقین کریں مجھے انکے جسم کی طلب کی خوشی سے زیادہ انکے ساتھ رہنے کی خوشی تھی چودہ دن پورے کے پورے ہم ساتھ ہونگے لمحہ بہ لمحہ یہ خیال ہی نشیلا تھا۔۔انہی خیالوں میں رات کٹی اور صبح ہوئی۔۔ میں پہلے فیکٹری گیا وہاں سے کچھ دیر کلوزنگ کے بعد فری ہوا ہی تھا کہ ملکانی آ گئیں اور مجھے کہا جلدی سے کلوزنگ کر لو پھر نکلنا ہے۔۔ وہ مجھے لیکر بازار گئیں ۔۔ میرے لیے اچھا سا ڈریس لیا اور کہا یہ اپنے دوست کے لیے ۔۔ پھر بتایا کہ رینٹ اے کار سے گاڑی آ جاے گی چار بجے تمہارے گھر۔۔میں آ جاتی لیکن ایسے مناسب نہیں شائد تمہاری عمبرین کو برا نا لگے مجھے اندازہ تھا کہ ایسے ہو سکتا اسلیے میں نے انہیں کہا آپ بے فکر رہیں مجھے آپکی محبت کا اندازہ ہے۔۔گھر آ کر میں اچھے سے تیار ہوا۔۔کھانا وغیرہ آرڈر ہو چکا تھا۔۔ ڈیکوریشن والا روم سجا چکا تھا جب چار بجے گاڑی والا بھی آ گیا۔۔ میں ابھی تک جیسے بے یقینی میں تھا۔۔ مجھے وسوسے ستا رہے تھے کہ جانے کیا ہو کیا نا ہو۔۔انہی خیالوں میں سو پانچ بجے میں آنٹی کے گھر پہنچا میرا دل جیسے بھاگ رہا تھا۔۔ دل کو سنبھالتے میں اندر گیا ۔۔ توقع کے مطابق آنٹی سامنے برآمدے میں میرا ہی انتظار کر رہی تھیں۔۔کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد انہوں نے دوبارہ مجھے کافی اونچ نیچ سمجھائی اور کہا کہ اب انکی عزت میرے ہاتھ میں ہے ۔ میں نے انہیں سو قسموں سے یقین دلایا کہ بے فکر رہیں یہ راز ہم میں ہی رہے گا۔۔مجھے عمبرین کو دیکھنے کی جلدی تھی جبکہ وہ نظر نہیں آ رہی تھی۔۔جب کافی وقت ہوگیا تو میں نے پوچھ ہی لیا کیا پروگرام ہے تو وہ بولیں بس کچھ دیر۔۔ اور مجھے سمجھاتے ہوے بولیں عمبرین کا خیال رکھنا ۔۔مجھے امید ہے ہمارا مقصد پورا ہو جاے گا کیونکہ تین دن پہلے ہی عمبرین کے دن ختم ہوے۔۔ افففف جیسے ہی انہوں نے بتایا مجھے وہ وقت یاد آیا جب نائلہ کےگھر مینسز کےبعد عمبرین بہت جذباتی ہو گئی تھی یہ فطرتی تھا۔۔ اس دن میں رک گیا تھا میں نے انہیں روک لیا تھا لیکن آج تو منتوں مرادوں کی رات تھی آج تو پیار کی رات تھی۔۔پھر آنٹی اٹھیں اور کہا میں اندھیرا پھیلنے کا انتظارکر رہی تھی۔۔ وہ کمرے میں گئیں اور ایک سوٹ کیس برآمدے میں رکھا میں وہ سوٹ کیس گاڑی تک لایا اوور جلدی سے واپس نکلا۔۔ تھوڑی دیر بعد ایک بڑی چادر میں عمبرین کمرےسے نکلی فل نقاب میں۔۔ہماری نظریں ملیں اور انہوں نے شرما کر نگاہیں جھکا لیں۔۔ آنٹی نے اسکا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھمایا۔یہ وہ لمحہ تھا یہ وہ اعزاز تھا جو میں چاہتا تھا ۔جیسے بھی سہی لیکن میں عمبرین کو اسکے گھر سے اسکی خالہ کی سرپرستی میں ساتھ لیجا رہا تھا۔۔گاڑی چل پڑی سارا راستہ خاموشی رہی ۔۔بس دل بولتے رہے۔۔ گلبرگ پہنچ کر میں اسے اندر لے گیا ۔۔ اسی کے گھر نئی زندگی کے آغاز کے لیے ۔۔ سالگرہ کی رات شروع ہونے والی تھی اوور کیک بھی آرڈر ہو چکا تھا

اب ہم لاونج میں اکیلے تھے وہ ابھی تک ویسے ہی بڑی چادر میں چھپی ہوئی تھیں ۔میں نے نظر بھر کر انہیں دیکھا اور کہا سرکار اب یہ چادر اتار بھی دیں۔۔ چادر کے اندر سے انکا سر انکار میں ہلا اور وہ بولیں نہیں ابھی نہیں ابھی مجھے تیارہونا ہے تم یہیں رکو گے میں کچھ دیر بعد تمہیں بتاتی ہوں سنیں تو آپ والا کمرہ لاک ہے وہاں نہیں جا سکتی آپ۔۔ میں بابا والے روم میں ہونگی ۔۔کچھ دیر بعد آواز آئی اب تم آ سکتے ہو میں دل سنبھالتا اوپر گیا اور دروازہ کھولا جیسے وقت تھم گیا جیسےبہار آ گئی سامنے سرخ لباس میں عمبرین پوری دلہن سی تیاری میں تھی انکا حسین چہرہ ہلکی تیاری سے چمک رہا تھا سرخ فٹنگ والے ہاف سلیو ڈریس میں وہ آفت لگ رہیں تھی یہ وہی سوٹ تھا جو میں نے ملکانی کی مدد سے خریدا تھا اور ناصرہاتھ بھجوایا تھا ۔انکے ہلکے کھلے بال۔ انکے بازو مہندی سے سجے تھے اور ایک ہاتھ میں کانچ کی چوڑیاں وہ بلکل میری دلہن لگ رہیں تھیں ۔میں آہستہ آہستہ چلتا انکے پاس پہنچا اور کہا سرکار یہی جگہ ہے جہاں میں نے آپ سے عہد محبت کیا تھا اور اسی جگہ میں پھر بتا رہا ہوں کہ مجھے آپ کے جسم سے نہیں دل سے محبت ہوئی ہاں جسم سے بھی ہے لیکن صرف جسم سے نہیں۔۔ میں آپکو آج پورے دل سے آپکو بیوی مانتا ہوں دل کا دل سے عہد ہے یہ ۔۔اوور یہ بھی میں آپکے حکم پر مانا۔۔میں نے انکا ہاتھ تھاما اور ہاتھ کی پشت پر بوسہ دیکر کہا یہ نیا سال آپ میرے پہلو میں گزاریں گی یہ چودہ دن ایک ایک لمحہ پیار کا ہوگا چاہ کا ہوگا بسسس وہ بولیں مجھے تم پر یقین ہے نعیم میں نے بھی بہت محبت کی ہےتم سے میری روح اور دل کے کورے کاغذ پر صرف تمہارا ہی نام ہے ۔۔میں اسلیے یہ سب کر رہی کہ میری زندگی میں خزاں تھی میں اس قفس کی عادی ہو چکی تھی تم نے اس خزاں میں اپنے خلوص سے شجر محبت اگایا ہے لیکن افسوس یہ شجر کسی کی چاردیواری میں یے ۔۔ کچھ ٹہنیاں باہر کو تھیں تم نے وہاں سے اندر تک نقب لگا دی مجھے پتہ ہی نہیں چلا ۔۔ میں اس رات تمہیں مایوس نہیں کرنا چاہتی بس اتنی وضاحت دینا چاہتی ہوں کہ میں یہ سب سوچ سمجھ کر ہی کر رہی ہوں سمجھو میں کچھ دن بہار کے گزارناچاہتی ہوں میں چاہتی ہوں کہ تمہاری محنت سے آیا پھل تم بھی چکھو ۔۔بس اب اگلے دو ہفتے تمہیں میں بتاوں گی کہ پیاس کیا اور بادل کیا ۔۔ انکی بات سے میرا دل دھڑک اٹھا۔میں انکا ہاتھ پکڑے نیچے لے آیا۔۔ہال کے ایک طرف پردہ ہٹایا سامنے کینڈل لائٹ ڈنر و کیک کا انتظام ہو چکا تھا ۔۔ کینڈلز کی روشنی میں انکا چہرہ جھلملا رہا تھا ۔۔انہوں نے کیک کاٹا اور ایک پیس ہلکا سا چکھ کر مجھے دیا اور کہا میرا گفٹ ۔۔میں نے کہا وہ کمرے میں ملے گا وہ بولیں جی نہیں وہ تو دلہن کا گفٹ ۔۔ میں عمبرین کی برتھ ڈے کا گفٹ ؟؟ اوہ شٹ وہ تو میں بھول گیا یار۔۔ وہ مصنوعی خفگی سے بولیں پھر تو جرمانہ ہوگا اور وہ بھی ڈبل ۔۔ میں نے کہا سرکار آپ حکم کرو وہ بولیں ابھی نہیں رات بارہ بجے بتاوں گی 😉۔۔ کھانے کے بعد ہم کچھ دیر وہیں بیٹھے باتیں کرتے رہے

وہ مجھے اپنی باتیں سناتیں رہیں میں سنتا رہا ۔۔پھر میں نےکہا اب آپکی رخصتی کا وقت ہونےوالاہے وہ شرمائیں اور بولیں چلو ۔۔ میں انکا ہاتھ پکڑ کر انکے کمرے تک لایا دروازہ کھولا اور جھک کر کہا میری ملکہ سرکار آئیے؟ کمرہ گلاب اور موتیے سے مہک رہا تھا ہلکی نفیس ڈیکوریشن نے فضا کو معطر کر دیا تھا ۔۔انہوں نے بے پناہ محبت سے میری طرف دیکھا اور اندر کو آ گئیں ۔۔میں انہیں بیڈ تک لایا اور بٹھا کر کہا حضور آپکا گفٹ۔۔ دراز سے لاکٹ نکالا اور انکی طرف بڑھایا وہ ادا سے مسکرائیں اور بولیں نرے بدھو ہوتم ۔ تمہارا گفٹ ہےتو پہنا بھی دو نا۔۔ انہوں نے اپنادوپٹہ سرکایا ۔۔جیسے ہی انکادوپٹہ سرکا انکا جلوہ چمکا ۔۔ کافی کھلے گلے میں انکا وہ سرخ تل چمک رہا تھا انکی گہری کلیویج جان لیوا تھی شائد باڈی لوشن یا ویکس سے انکا جسم جیسے لشکارے مار رہا تھا اور انکےشانےکی وہ ہلکی ابھری ہڈی اس پر انکا چہرہ میں جیسے رک سا گیا ۔۔مدہوش سا ہو گیا۔وہ بولیں رک کیوں گئے ابھی تو ایک تل ہے انکی مستانی بات نے مجھے اور بہکایا۔۔ آج وہ اور ہی رنگ میں تھیں بادل والے رنگ میں۔میں نے انکے گلے میں لاکٹ پہنایا۔۔ میرے ہاتھ انکی گردن سے لگے اففففف یہ لمس تھا کہ چنگاری انکی ہلکی سی سسکی نکلی ۔۔ میں انکے ساتھ بیٹھا اور کہا یہ ایک تل ہی مجھےپاگل کر رہا ہے میں نے پھولوں کی کچھ پتیاں ان پر پیار سے پھینکیں اور ان کے شانے کو بوسہ دیا جیسے ہی میرےہونٹ انکے شانے سے ٹکرائے انکی پھر سسکاری نکلی میرے ہاتھ پر انکا ہاتھ مضبوط ہوا۔بہہہت پیار کرتا ہوں میں آپ سے وہ میرے ساتھ لگیں اور کہا میں بھی بہت پیار کرتی ہوں میں انہیں ساتھ لگا کر بیڈ پر لٹا لیا اور کہا میرا دل کرتاہے آپکے انگ انگ کو چوم لوں وہ شرما کر بولیں تو چوم لو نا ۔۔ یہ اجازت ملنی تھی کہ بارش کا پہلا قطرہ پیاسی زمین پر گرا میرےہونٹ انکے تل سے ٹکرائے انکا جسم کانپا ۔۔یہ ہونٹ کسی پیاسے کے ہونٹ تھے اور تل جیسے پہلا قطرہ پوری شدت سے تل کو چوسا ہونٹ تل کو نچوڑتے ہوئے اوپر آئے اور اسبار کلیوج پر جمے زبان کو ہلکا سا باہر نکال کر میں نے انکی کلیوج کو چکھا اور ہونٹ پھیرے انکا جسم نیچے سے اوپر کو تڑپا اور میرے بازو پر انکے ہاتھ مزید جمے ۔۔ قطرے برستے گئے ایک ایک دو دو پھرتیز تیز۔۔ وہ مدہوش ہوتی گئیں پیاسے ہونٹ انکے ہونٹوں سے ٹکرائے انکے ہونٹ بھی جوابی مچلے یہ گویا انکے برسنے کی پہلی کڑک تھی ۔۔ایک دوسرے کو وارفتگی سے چوم رہے تھے چوس رہے تھے ۔۔ انکے بال کھل چکے تھے سانسیں بڑھ چکی تھیں انکی زبان شدت سے میری زبان سے ٹکرا رہی تھی۔یہ ملن کی رات تھی پورےجسم میں عجیب ہی نشہ تھا انکی خوشبو جیسے تیز نشہ سا۔میرے ہاتھ انکی سےپر پھرتے ہوئے کمر تک آئے اور میں نے ہاتھ انکی شرٹ میں کیا افففف جیسے ہی میرا ہاتھ عمبرین کی کمر سے لگاجیسے تیز جھٹکا انکا لمس اورگداز جسم نرم گرم جلاتا ہوا۔بہہت ہی چکنا سا میرے ہاتھ کےلمس سے انکی تیز سسکی بلندہوئی ہم دونوں ہوش کھو رہے تھے اور آج سب پابندیاں ختم تھیں بس ملن کا نشہ تھا۔۔ہاتھ کی گستاخیاں بڑھتیں گئیں انکی شرٹ کا گھیراو تنگ کرنے لگا۔۔ میں نے آہستگی سے انکی شرٹ کو اوپر کرنا شروع کیا انکے بازو بلند ہوئے جیسے اجازت دے رہی ہوں جیسے ہار مان رہی ہوں جیسے کہ رہی ہوں آو فاتح تمہیں اجازت ہے تم دل قلعہ سے جسم تک پہنچو ۔انکا دمکتا سفید جسم لشکارے مار رہا تھا ۔ سرخ برا میں انکا چھتیس نمبر فگر غضب ڈھا رہا تھا اور اسبار ہونٹ انکے پیٹ سے سینے تک سینےگردن تک پھر رہے تھے اور وہ تڑپ رہیں تھیں ۔ہونٹوں کی گستاخیوں نے سرخ برا کو بھی شکست دے دی۔دو خوبصورت تنی ہوئی چوٹیاں دعوت دے رہی تھیں انکے سرخ نپلز نشہ آور تھے میرے ہونٹ جھکے اور شراب کے ان پیالوں سے سیراب ہونے لگے میں نپل کو چوستا اورساتھ پورے نپل کےگرد زبان سے راونڈ کرتا انکی سسکیاں اب بلند ہو چکی تھیں میرے دونوں انگوٹھے انکےنپلز پر پھرنےلگےاور ہونٹ ہونٹوں پر انکےہاتھ میری شرٹ کو کھینچنےلگے میں تڑپ کر پیچھےہوا اوراپنی شرٹ اتار دی ۔۔ دونوں کے اوپری ننگے بدن آپس میں ٹکرائے بجلیاں کڑکیں ہاتھوں کی گردش تیز ہوئی۔۔ دونوں ایک دوسرےپر برس رہےتھے انکے بوبز میرے سینے سے ٹچ ہو کر پٹرول کاکام کررہےتھے۔۔ہاتھ انکی کمر سے ٹراوزر سے ٹکرائے اور اندر کو گھسے ۔۔ افففف ہاتھ انکی بیک سے رانوں تک گئے جیسے گرم تندور میں دے لیا ہو ہاتھ ۔۔انہوں نے دونوں رانوں کو آپس میں ملا لیا اور سسک کر بولیں ہاےےےے شہزادے یہ کیسانشہ ۔۔میں نے سرگوشی کی پیار کا نشہ۔ہاتھ انک رانوں کو سہلا رہےتھے انکی نرم ٹانگیں بہہہت چکنی تھیں۔۔آہستہ آہستہ ہاتھ رانوں میں جگہ بنا کر قلعہ کے دروازے پر جما افففف وہاں جیسے اندر آگ لگی تھی بھٹی فل تپ رہی تھی میرے ہاتھوں نے دروازےکو پیار سے رگڑاوہ ہاااے میں مر گئی شہزادےکہتی تڑپیں میری ہتھیلی مخصوص انداز میں گھوم رہی تھی انکی سسکیاں قدرے بلند ہو رہیں تھیں ہاتھ کے نیچے پھسلن شدید ہو چکی تھی میں ہلکا ہٹا اور اپنے ٹراوزر کو نیچےکیا۔۔میری طرح لن بھی مدہوش دیوانہ جھوم رہا تھا۔۔ میں نے عمبرین کا ہاتھ پکڑااور اسےلن پہ رکھا۔۔ جیسے ہی انکاہاتھ لن پر لگا وہ پھر بلند سسکیں ہااائے شہزادے مار ہی دو گے ۔۔ہاتھوں کی بہکی حرکتیں بڑھ گئیں اب ہم دونوں ہی بس ایک دوسرے کا لباس تھے۔۔وہ بار بار لن کوٹٹول کر بولیں اب تمہیں گفٹ دوں ہممم دیں نا۔۔ وہ بولیں دلاور نے بس تھوڑا سا کیا تھا خون بھی سمجھو تھوڑا سا نکلا۔۔نیم کنواری ہے تمہاری سرکار وہ میرےساتھ لگ کر بولیں۔۔مجھے پہلے بھی اندازہ تھا سن کرتو جیسے نشہ ہوگیا۔۔ وہ سسک رہی تھیں لن انکی رانوں میں پھنسا ہوا تھا وہ بولیں بہہت سخت ہے شہزادے ۔۔میں انہیں چومتا اوپر آیا اور انکی ٹانگوں کےدرمیان آکر انکی ٹانگوں کو کمر کے گرد قینچی کیا۔۔ جھکا انکےکان میں سرگوشی کی اور کہا جان بس تھوڑا سا دردہوگا میں آرام سے کرونگا۔۔ آپ بتاتی جانا ۔ہمم وہ مدہوش بولیں۔۔میں نے پیار سے ٹوپہ قلعے کے دروازےپرپھیرا۔دروازہ ہلا ٹوپہ پھسلا اور پھنسا انکی تیز آہ نکلی انکے ناخن میرے بازووں میں گڑے۔

میں نے ہلکا سا دباو ڈالا ٹوپہ دروازےکو کھولتا پورا اندر جما۔۔ انکی آہ بلند ہوئی۔۔ ششششہزادے آااہ میں بہت طریقے سکون سے تھوڑااور آگے کیا اور رکا۔۔انکا چہرہ لال ہو چکا تھا انکے ہونٹ ہلکے کھلے تھے میں اوپر ہوا ہونٹ چوسے اور ہلکے دھکے سے آدھا اندر پہنچا دیا۔۔وہ تیز آہ سےسسکیں اور شششہزادےہاااے دردہو رہانا۔۔ انکی عمر تئیس چوبیس تھی مجھے اندازہ تھا وہ جھیل لیں گی۔۔ میں انکے ہونٹ چوستے بولا بس نا جان ۔۔ اس سے آگے یقینا کنوارہ علاقہ تھا میں دلاور کو اچھا بھلا دیکھ چکا تھا اس سے آگے اسکے لیے جانا مشکل تھا۔۔ میں نے انکے ہونٹ ہونٹوں میں لیے اور سکون سے دھکا مار کر جڑ تک اندر پہنچا دیا۔۔ انکی تیز چیخ میرے ہونٹوں میں گونجی میں کچھ دیر رکا اور ہونٹ چھوڑے انکی گرم سانس نکلی ہااااے افففف شہزااادے ہو گیا نا پورا۔۔ ہممم جی جااان ہوگیا۔۔آہستہ آہستہ میں روانی لاتا گیا انکی سسکیاں نشیلی ہونے لگیں ۔۔ اب وہ برسنے والی تھیں انکی حرکات اور سسکیاں گڈ مڈ ہو رہیں تھیں

آاااہ شہزادے ااااف مززززہ آاااہ جااان۔۔میرے نعیم ۔۔ افففف انکے بلانے کا انداز یہ پہلا میچ تھا ۔۔انہیں زیادہ تھکانا نہیں تھا۔۔انکاجسم اکڑنےلگا آااہ شششہزادےےےے ججااااان نننکلل رہی میری انکی مدہوش آواز جسم کی اکڑن اور پھدی کی جکڑن ۔۔میں مدہوش برس رہاتھا۔۔اب لن پوری رفتار سے رواں تھا۔ انکی سسکیاں بڑھیں اور اندر سے طوفان پھوٹا آااااہ سسسسس جاااان انکی گہری سسکیاں ۔ میرا لن اس طوفان کو بمشکل روک رہا تھا جو اندر سے جانے کب کا رکا آج بند ٹوٹا ہو جیسے۔۔لن بھی اب طوفان مچانا چاہتا تھا رفتار بڑھی بجلیاں کڑکیں انکی آاااہ جااان کی آوازیں مجھے دیوانہ کرتی گئیں اووور میرے اندرسے طوفان پھوٹا۔۔ سرور چھایا میں جھٹکے لیتا انکے اوپر گر سا گیا۔۔ دونوں چھوٹ رہے تھے ۔۔ ایک دوسرے میں جذب ہو رہے تھے

fkniazi555.blogspot.com

اگلی قسط آخری ہوگی

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں