Meri Kahani Meri Zubani
Episode 40
اسکی بات نے مجھے چونکا دیا تھا۔۔ میں نے کہا پتہ نہیں اب یہ تو کوئی آپ جیسا تجربہ کار بندہ بتا سکتا نا۔۔ اپنا تو سب ہی کو اچھا لگتا
وہ بنا کسی جھجھک اٹھی اور جیسے میں کوئی مریض ہوں اور اس نے زخم چیک کرنا ہو ۔۔ نارمل انداز میں میرےپاس آکر میری قمیض کو ہٹایا اور نالے کو کھول دیا۔۔ میں نے لن کو ٹانگوں میں بڑی مشکل سے جکڑا ہوا تھا۔۔ دیدار مناسب وقت پر کرایا جاتا ہے۔۔وہ پرانی نرس تھی اسکے انداز میں کوئی جھجک نا تھی جیسے ہی شلوار کھسکی میں نے بڑی ٹائمنگ سے ٹانگوں کو کھولا ہتھیار کسی سپرنگ کی طرح اچھل کر باہر آیا۔۔جیسے کسی وحشی نے پوری شان سے میدان میں چھلانگ مار کے انٹری دی ہو۔۔ وہ جھکی ہوئی تھی جب ہتھیار نیچے سےاوپر کو آیا اور ٹوپہ پوری شان سے اسکے چہرے کے بلکل سامنے جھومنے لگا ۔۔ وہ دو قدم پیچھے کھسکی اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور دوسری نظر لن کو۔۔ بتاو اب میں نے اسے اکسایا ۔۔ واقعی اصلی لن ہے ایسا لن بڑے ٹائم بعد دیکھا آج کل کے لونڈےتو بس ایویں ای
میں صوفے پر تھا وہ سامنے اکڑوں بیٹھیں ۔۔اورلن کو مٹھی میں پکڑا اور کہا سوادی لن ہے اور پھر بلکل نارمل ہو کر شلوار کو اوپر کرکے دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئی جیسے چیک اپ مکمل ہو گیا یہ چنگا مذاق تھا 😐 میں نے چپ کر کے نالہ باندھا اور کہا اب بولو وہ کہنے لگیں بتاتی ہوں بلکہ سناتی ہوں ایک قصہ ۔۔ ذرا تمہارےملک کو دیکھ آوں ۔۔ سارے ملازمین فیکٹری کی طرف تھے ۔۔ ہم چلتے چلتے ملک کے پاس واپس آئے وہ پرسکون سو رہا تھا۔۔ اس نے قریب جا کر دیکھا اور بولی آو یہ اب صبح تک سوتا رہے گا ۔۔ واپس اسی کمرے میں آ کر کہنےلگی یہ تب کی بات ہے جب میں سترہ اٹھارہ سال کی تھی ۔۔ملک خاور کا چاچا ملک نواز جانتے ہوگے اسے۔۔ جی تھوڑا بہت ۔۔میری اماں دائی تھی اور میں اس سے کام سیکھا اور پھر مڈ وائف کورس کیا اس زمانے میں مڈ وائف ہی وڈی ڈاکٹر سمجھی جاتی تھی سمجھو چوبیس پچیس سال۔پہلے تب وہ ملک نواز تیس سال کے آس پاس تھا فل عروج پر ۔۔
اس وقت اسکی شادی نہیں ہوئی تھی یا چھپ کر باہر ہوتو پتہ نہیں ۔۔ اسکی شادی کافی لیٹ ہوئی کیونکہ ملکانی رفعت جانتے اسے ۔۔ جی انہی کے کالج میں ہوں۔۔ اوووہ اچھا اچھا ۔۔ ملکانی رفعت اسکے مامے کی کڑی تھی ۔۔پورے بیس بائیس سال نکی اس سے۔۔ ملک نے چالیس سال کی عمر میں اس سے شادی کی تھی جو مشہور ہوئی۔۔ میں شامت کی ماری انکے گھر اماں کے ساتھ کسی زنانہ مسلے میں گئی اور اسکی نظر پڑ گئی۔۔ میری اماں کونسی چنگی تھی دائیوں کا نرسوں کے کام میں جسم بہت چلتا۔۔ اسی نے میری سیل کھولی تھی ۔۔ بعد میں اس سے اور ایک اسکے کزن کے ساتھ میرا دوستانہ رہا ملکوں سے دوستی بھی اعزاز تھا۔۔ بعد میں میری شادی ہو گئی ۔۔ شادی کے بعد میں میں پھر لاہور آ گئی اور نرسنگ میں آ گئی۔۔ بعد میں بھی چند اک بندے میرے ساتھ دوستی کیے کچھ تو ینگ لڑکے تھے لاہور کے اسپتال کے مریضوں کے ساتھ ۔۔ دو ڈاکٹر بھی تھے
لیکن یہ شہری لونڈے بس مجھے گندہ ہی کیا سواد ای کوئی نہیں ۔۔پتہ یہ ملکوں بارے کیا مشہور ۔ انکے بارے مشہور کہ انکے مردوں میں دو بندوں کی طاقت اورعورتوں میں نو کی طاقت ہوتی ہے۔۔ یہ جو ملک ہے نا علاقے کی کوئی سوہنی رن نہیں چھوڑی تھی اس نے اور دیکھو قدرت کے کام جب اتنے انتظار کے بعد ویواہ ہو اورملکانی رفعت آئی سمجھو اسکے ساتھ بس دو سال چل سکا تب تک یہ جلد تھکنے لگا تھا ۔ایک بچہ بھی ہوا تھا جو ضائع ہوگیا۔۔ بس تب سے ملکانی اور اسکے تعلق میں کافی فاصلہ ۔۔ تمہیں کیسے پتہ چلا لو دائی تھی علاقے کی ہم سے کس کا کیاپردہ ۔۔ہممم مجھے اس کی بات میں صداقت نظر آئی واقعی ملکانی بہت سخت سیکس والی تھی اسکے جملے حملے اور میرے ساتھ گرمجوشیاں پہیلی کھل رہی تھی۔۔میں نے اسے کہا لیکن تم ملک کے علاج بارے کسی سے ذکر نہیں کرو گی مجھے پتہ نہیں تھا تم جانتی ہو گی اسے۔۔ فکرنا کرو بابو نرس مریضوں کے راز بتاتی ہوتی تو بڑے بڑوں کی عزت مٹی میں مل جاتی ۔۔ میں نے کہا گڈ ہو گیا اب فیس کیا لینی ۔۔ وہ ہنس کر بولی دے سکو گے فیس۔۔ میں نے کہا میں تو غریب بندہ ہوں ملکوں نے ہی دینی ۔۔۔لو مجھے تم لائے تمہارے بھروسے آئی فیس تم سے ہی لینی ۔۔ اچھا چلو بتاو کیا فیس لینی میں کوشش کروں گا ۔۔ وہ اٹھلا کر ہنسی اور بولی۔۔ میں تم سے کافی بڑی ہوں لیکن کیا کروں۔۔اچھی چیزپر سب کا دل للچا جاتا کیا مطلب میں نے سمجھ کر نا سمجھی سے کہا۔۔۔ بتایا نا مدت سے سواد نہیں لیا تمہاراہتھیار سوادی ہے ۔تھوڑا ہمیں بھی سواد چکھنے دو ۔۔ پرانا مال ہوں لیکن مزہ تمہیں بھی آئے گا۔۔۔اور اگر نہیں تو بھی ضد نہیں۔۔۔ اور یہ بات راز رکھوں گی ۔۔میں نے اسے دیکھا ۔۔ ابھی بھی اسکا بدن زور دار تھا۔۔ اسپتال کی سیڑھیاں چڑھتے وقت اسکی گانڈ کی اچھل کود مجھے یاد تھی۔۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ۔۔ وہ مسکرائی اور بولی۔۔اس رات جیسے رابعہ لطف سے سسک رہی تھی نا ویسے جم کر چودنا ۔۔مجھے پورا کر کے ہونا۔۔ میں ہنسا اور کہا فکر نا کرو۔۔اور اٹھ کر دروازے کو بند کر دیا
وہ میرےسامنے کھڑی تھی اس نے جو کہنا تھا کہہ دیا میں اسکی طرف بڑھا۔اور سلیقے سے اسے ساتھ لگا لیا تھوڑی جھپی کے بعد میں نے اس کے چہرے کو چوما آنکھوں کو چوما ۔۔ وہ مزے سے ساتھ لگی رہی ۔۔ اس نے بچوں جیسی بےتابی سے لن کو کھلونے کی طرح پکڑا اور سہلانے لگی لن جو انتظار میں تھا پھر سے کھڑا ہونے لگا۔
وہ باقاعدہ مٹھیاں بھر رہی تھی لن کو اور لن میں جیسے پھوک بھری جا رہی ہو جب لن فل ٹائٹ ہو گیا تو اس نے اپنی قمیض اتاری اور پھر شلوار اتار دی ۔۔ خلاف توقع اسکا جسم کافی کسا ہوا تھا برا میں قید بھاری مومے اور انڈروئیر میں پھنسے اسکے چوتڑ ۔۔جسم پھیلا نہیں کسا تھا لیکن تھوڑا موٹا تھا ۔۔میں نے جب بڑے بوبز دیکھے تو فورا بھوکے بلے کیطرح ان پر جھپٹا۔۔ وہ جیسے میری دیوانگی پہ کھلکھلائی میں نے برا کو ہٹایااور اسکےموٹے نپلز کو چوسنے لگا ۔۔اب میری باری تھی میں نے قمیض اتاری اور پھر شلوار کو اتار دیا ۔۔ لن فل سلامی دے رہاتھا میں ایسے ہی اسکےساتھ لگا اور اسے سکون سے جسم رگڑنے لگا۔۔ جب کرنا ہی تھا تو ایسے کرو کہ بندہ فدا ہو جاے یہ میرا طریقہ رہا تھا شروع سے۔۔میں اسے بیڈ پر لیتا گیا اور اسکے انڈر وئیر کو کھسکایا۔۔ ہلکے بڑھے بالوں کے ساتھ ایک تجربہ کار پھدی سامنے تھی ۔۔پھدی کے لپس باہر کو نکلے ہوے بتا رہے تھے کہ یہ راستہ کافی استعمال ہوا۔۔نسرین نے ہاتھ بڑھا کر لن کو پکڑا اور اپنے انگوٹھے سےٹوپے کو کھرچنے لگی افففف اسکی اس حرکت نے میرے جسم کو ایسا کرنٹ مارا کہ بس ۔۔۔ میں نےاسے کھینچااور اسکے اوپر لیٹا ۔۔ پورے جسم کو رگڑتے ہوے وہ میری بھر پور رگڑائی سے سسکی ہاااے ۔میں نےاسکےلپس کو لپس میں لیااور ہلکا ہلکا چبانے سا لگا ۔۔ وہ نیچے سےاچھلی۔اسکے ہاتھ میری کمر کوکھرچنےلگے۔۔ ہاااے اب تو کتنےسال ہوگئے سہی سے سواد نہیں لیا ۔۔ میں نےکہا ابھی دیکھنا کتنا سواد آتا۔۔ اور اسکی ایک ٹانگ کو نیچے دوسری کو اوپر رکھ کر درمیان میں ہوا۔۔ اسکے ہونٹوں کو چوستے ہوئے ٹوپے کو پھدی پر رگڑا اندر سے جیسے آگ نکل رہی تھی ۔۔ اس نے ہونٹ ہٹاے اور کہنے لگی تمہارے ٹوپے کا ہی مسلہ ہے لمبائی میں جھیل سکتی لیکن تم بس جم کر چودنا جسم توڑنے والا ۔وہ مست بول رہی تھی میں نے بولنے کی بجائے کرنے کا فیصلہ لیا ۔۔ ٹوپےکو ہلکا سا دبایا پھدی میں ٹوپہ گھسا کافی رواں پھدی تھی ابتک کی سب سے رواں ۔ باقی جس جس سے بھی تعلق رہا وہ میرے علاوہ بس کسی ایک تک محدود تھی لیکن یہ اپنے منہ سے دس بارہ مان چکی تھی مطلب بیس پچیس تو پکے سمجھو۔۔۔چدکڑ زنانی پر ترس کھانا مناسب نہیں ہوتا میں نے ٹوپے کو روک کر اسکی آنکھوں مین آنکھیں ڈال کر زور کا جھٹکا مارا۔۔ لن پھسلتا ہوا آدھے پہ رکا اس نے گہرا سانس بھرا میں نے وہیں سے اگلادھکا مارا لن سدھا اندر اسکے منہ سے ہااااے میرا اندرپاٹ گیا نکلا۔۔ میں نے اسبار پورا کھینچا اور اسکے شانوں کو پکڑا کر پورا دھکا مارا لن اسکی سنگل سڑک کو موٹر وے کرتا سیدھا اندر ۔اسبار اسکی اصلی پنجابی والی بانک نکل گئی ہااااے میری پھدی پاٹ گئی ۔۔ میں نے پھر کھینچا اور اس بار لن کو دانے پرسے جما کر رگڑتے ہوے پششش کیا لن کی دانےپہ رگڑ اور سٹ نے اسے سسکا دیا ہااااے اوئے ۔۔ میں تھوڑا اوپر ہوا اسکی ٹانگوں کو کمر کے گرد قینچی کرتے ہوے۔۔ جھک کر اسکے موٹے نپلز کو مسلا اور چہرے پر زبان پھیرتے ہوے دو چار جما کر دھکے مارے ۔۔ہااااے آااااہ اب اسکی سسکیوں میں مزہ آ چکا تھا میں باہرلاتا اور ہلکا کمر کو ہلا کر جھوم کر اندر کرتا ٹوپہ رائفل کی گولی کی طرح گھومتے اندر تک گھستا اسکی مدہوش سسکیاں ۔اسکی پھدی متواتر پانی چھوڑ رہی تھی میں نے باہر نکالا ۔۔ بیڈ شیٹ سےصاف کیا۔۔ اور دوبارہ جمایا۔ وہ اس صفائی سے انجان تھی۔ میں نے اسبار خشک لن کا دھکا اوپرسے مارا۔اففففف لن اسکی پھدی سے رگڑ کھاتا اندر گھسا اسکی مزے سے چیخ بلند ہوئی ہاااااااے مار دتا ای۔۔ میں نے پھرکھینچا اوردے مارا۔۔ ہااااے اففففف وہ اپنی گانڈ کو نیچے سے اوپر مارتے ہوے مزے سے سسک رہی تھی۔۔ کمرہ تھپ تھپ اور گرم سانسؤں سے گونج رہا تھا۔۔اسکی پھدی نے اکڑنا شروع کیا میں نے اگلا جھٹکا مارا اور جیسے ہی لن اندر گھسا میں نے اوپرکو رگڑا۔۔ وہ ہاااااے امی مزہ جےےےےےے ۔۔ایسسسےہی ماراففف۔۔کڈھ کے پا ۔۔ میں نے انکے حکم پر کڈھ یعنی نکال کر پھرڈالا۔۔اس دھکے نے انکی پھدی کا لگتا پریشر پمپ پھاڑ دیا۔۔میں نے دولگاتا دھکے مارے تو وہ تیز آہوں کے ساتھ چھوٹنے لگیں۔۔ وقت کم تھا ملک کو بھی دیکھنا تھا اتنی ہی فیس بنتی تھی میں نے لن باہر نکالا اور اسے الٹا کیا۔۔ کی کرن لگا ایں۔۔ کچھ نہیں تم ہو تو۔۔ جیسے ہی اسکے بھاری چوتڑ میرے سامنے آئے میں نے نرم ہاتھ سے چانٹا مارا اففف اسکے چوتڑ جیسے تھرا اٹھے سییییی نا کر ظالما۔۔ میں نے چکنے لن کو تھوک سے تھوڑا اور چکنا کیا اور اسکے چوتڑوں کو کھول کرلن گانڈ پر جمایا وہ جیسے کانپ اٹھی اور بولی ہاااے مارنا ہے پچھے نا کر۔۔ کیوں پہلے نہیں کروایا۔۔ کروایا ہے لیکن پرانے زمانے میں۔۔تیرے ٹوپے کو پیچھے لینا مشکل۔۔ چلو خیر اے پرانا زمانہ ای سمجھ میں نے ہلکا لن کو دبایا چکنا ٹوپہ گانڈ میں دھنسا آہہ۔۔ آرام نال کرنا جے لازمی کرنا اس نے منت کی۔۔میں نے آرام آرام سے آدھا لن اتار دیا۔۔ ہاااے اورکتنا رہ گیا اففف وہ ہاتھ سے سسکیاں روک کر بولیں ۔۔بس تھوڑا سا۔۔ ہاااے تم وہ سارا اندر اچانک اتار دو افففف بس جلدی کرو بڑا درد ای۔۔۔ میں نے ایسا ہی کیا جیسے ہی اگلا آدھا لن اسکو گھسا اسکی چیخ کافی تیز تھی ۔۔اس نے گانڈ کو بھنچا لن پھنسا ۔۔ میں نے آدھے سے پھرپورا کیا۔۔ اسکی گانڈ واقعی کم چلی تھی گانڈ کی جکڑن اب لن کو تھکانے لگی تھی ۔۔اسکی کراہیں متواتر جاری تھیں ۔۔ وہ تجربہ کار تھی اس نے گانڈ کو بھنچنا شروع کیا وقتی تکلیف تو ہوئی لیکن لن جیسے بس زہر اگلنے والا ہو گیا۔۔ میرے دھکے تیز ہوتے گئے وہ اکسانے والی کراہوں کا ہلکا شور مچاتی گئی چار پانچ طوفانی دھکوں سے میں اسکی گانڈ میں چھوٹنے لگا اور مدہوش اس پر گر گیا۔۔ کچھ دیر بعد وہ میرے نیچے سے نکلی اور بیڈ شیٹ سے خود کو صاف کرنے لگی اور پھر میرے ساتھ لگ کر بولی واقعی مزے کے جوان ہو
اگلے دن دوپہر کےبعد ملک خاور کو کوئی فون آیا جسکے بعد وہ سب اس خاتون کے ہمراہ شام کو نکل گئے۔۔میں نےملک کی ہدایت کے عین مطابق ادھر سے سب کچھ صاف کروا دیا تھا۔۔یہ دو دن بعد کی بات ہے بہار اپنے جوبن پر تھی ہر طرف پھولوں کی مہکار تھی میں سٹڈی کر رہا تھا جب اچانک ناصر نائلہ اور عمبرین فیکٹری آئے میرے تو جیسے عجیب سی حالت ۔۔ عمبرین سرکار کی آمد ۔۔۔ میں انہیں سیدھا اوپر لیتا آیا۔۔ اوپر ابھی میرے علاوہ کوئی اور نہیں ہوتا تھا۔ سب میرا آفس اور سیٹ اپ دیکھ کر بہت خوش خوش ہوے ۔۔ عمبرین کی نظر جب کھلی کتاب نوٹسز پر پڑی اسکا چہرہ کھل اٹھا وہ مسکرا کر بولی مجھے بہت اچھا لگا تم پڑھائی سے توجہ نہیں ہٹائی یاد رکھنا مجھ سے وعدہ ہے تمہارا۔۔ نائلہ ادھر ادھر تاکا جھانکی میں مصروف تھی اور بولی ادھر رہتے ہو یا گلبرگ۔۔ میں نے کہا کبھی ادھر کبھی ادھر ۔۔ وہ جیسے کچھ بتانا چاہتی تھی لیکن جھجھک بھی رہی تھی۔میں نے اس سے پوچھا سناو میاں چلا گیا۔۔ وہ بولی ہاں جی کب کہا۔میں عمبرین کو کہا آئیں آپکو ریسٹ روم دکھاتا ہوں ۔۔ میں انہیں ریسٹ روم لے آیا۔ نائلہ طریقےسے ناصر کو لیکر کھسکی اور ادھر ادھر دیکھتے باتیں کرتی وہ پرے نکل گئے جیسے ہی تنہائی ملی میں فورا سرکار کاہاتھ تھام کر بوسہ دیا۔۔ وہ دھیمے سے مسکرا دیں اور بولیں دیکھو ہم آ گئے۔۔ میں انہیں گلے لگانے لگا تو کہنے لگیں نہیں شہزادے ملنا نہیں۔۔ ہاااے کیوں میں نے لاڈ سے روٹھتے ہوے کہا۔۔ بسسسس وہ ۔۔میں سمجھ گیا وہ اس رات کے بہکنے سے گریزاں تھیں۔۔میں نےضد نا کی اور انکا ہاتھ پکڑے صوفہ پر آ بیٹھا اور ہاتھ سہلاتے کہا سرکار آپ تو میری سرکار ہیں ہم آپکے مرید ہیں آپ کیوں ایسے گریز کرتی ۔۔ میری نظر میں آپکا مقام بہت بلند ہے آپ کچھ نا سوچا کریں ۔۔ آپ نے مجھے ہاتھ پکڑایا تھا نا سپرد کیا تھا تو بس اب مجھ پر چھوڑ دیں سب میں وعدہ بھی رکھوں گا اور آپکو بھی سنبھالوں گا۔۔ وہ میرے ساتھ آ لگیں ۔۔ انکا چہرہ میرے شانے پر تھامیں انکو آہستہ سے گلے لگایا۔۔اور انکے بالوں کی مہک کے نشے میں بولا سرکار۔۔۔دل کرتا جلد وہ دن آئے جب ہم ایک ہو جائیں وہ شرما کر اور ساتھ لگیں ۔۔ پتہ مجھے آپ سے روح دل کا عشق ہے لیکن مجھے آپکے لمس آپکی خوشبو سے بھی عشق ہے۔۔ میں آپکے نقش نقش کو چومنا چاہتا ہوں بسسسس جلدی سے وہ وقت آ جاے ۔۔ ہاااے شہزادے ایسی باتیں نا کرو انہوں نے میرے شانےسے لگے لگے گہری سانس بھر کر کہا۔۔ کیوں نا کروں میں نے انہیں تھوڑا سا کھینچا ۔۔ آااہ بسسس انہوں نے کسمسا کر کہا۔۔ایسےخواب نہیں بساتے ۔۔ کیوں نہیں بساتے یہ خواب نہیں رہےگا میں اس میں حقیقت کا رنگ بھروں گا میں نے وارفتگی سے انکے بالوں کو چوم کر کہا۔۔آپ تو میری سوہنی ملکہ ہیں۔۔ وہ ہنسیں اور بولیں میں بس عام سی ہوں یہ تمہاری نظر کا کمال ہے شہزادے۔۔ ناااا آپ بہت کمال ہو۔۔ اچھا جی تو کیا کمال ہوں انہوں نے اٹھلا کر کہا۔۔ آپ کا ظرف آپکا دل آپکا خلوص ۔۔ آپ بہت اچھی ہو اوور۔۔ اووور کیا انہوں نے پھر پوچھا۔۔ آپ بہہت دلکش بہہہت خوبصورت ہو۔ وہ ہنسیں اور کہا کیا خوبصورت لگتا۔۔سب کا سب ۔۔ آپکی آنکھیں ۔۔ آپکا چہرہ آپکا ماااااتھا اوووووور۔۔۔میں رکا اووور سب سے دلکشششش میں پھر رکا بتاو نا ۔۔۔آپکاااا وہ سرخ تل۔۔ اففف وہ شرما کرمیرے ساتھ چمٹ گئیں اور بولیں سچی تمہیں اتنا پیارا لگتا۔۔۔ بہہہت پیارا دل کرتا کہ ۔۔۔ کہ بتاو نا انکی آواز بھاری ہو رہی تھی۔۔دل کرتا اسے پیار سے چوسوں اسکی لالی کوچوسوں ۔۔ ہاااااے انکاجسم کانپا اور
چوم لوں میں نے سرگوشی کی ۔۔ننن نہیں شہزادے ۔ اچھا میں ان سے ضد نہیں کرسکتا تھا میں رکا وہ چہرہ اونچا کر کے بولیں ناراض ہوگئے ہو۔۔ نہیں میں آپ سے ناراض کیسے ہو سکتا بھلا۔۔وہ بولیں میرا بس چلے تو تم پہ خود کو وار دوں ۔۔ تو روکا کیوں وہ جھجھک کر بولیں ایسے بہت خطرناک کام ہوجاتا ہے۔۔ میں ان پر لاڈ سے جھکا اور کہا نہیں ہوتا نا۔۔ نائلہ آ سکتی نا رکیں میں انہیں سنبھلنے سے پہلے اٹھا اور باہر نکلا۔۔۔ نائلہ اور ناصر سامنے لان میں پھول دیکھ رہے تھے میں نے نائلہ کو اشارہ کیا کہ ادھر ہی رہنا اور واپسی جلدی سے کمرے میں گھسا دروازہ نیم کھلا ۔سرکار صوفے پر تھیں میں انکےسامنے کھڑا ہوا انکا ہاتھ پکڑا اور اوپر کھینچ کر سرگوشی کی وہ تو شائد کہیں نکل گئے ۔۔ وہ میرے ساتھ آ لگیں۔۔ہمارے جسم جڑ چکے تھے انکی مہک کا نشہ چھا رہا تھا۔۔ میں نے کہا سرکار چوم لوں اجازت دیں نا وہ دو لمحے چپ رہیں اور تھوڑا پیچھے ہٹیں دیوار کے ساتھ اور سر دیوار سے ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں اور ہاتھ سے چادر کھسکا دی ۔۔۔ہاااے انکا یہ عالم سپردگی ۔۔ چادر کاکھسکنا تھا کہ انکادلکش جسم سامنے آیا۔۔ ہلکا کلیویج اور وہ سرخ تل پوری شان سے چمک رہا تھا۔۔ میں بے تابی سے بڑھا اور انکے تل کو لبوں سے چھوا اور جیسے قطرہ چوستے ویسے چوسا۔۔ انکی گرم سسکاری نکلی اور بولیں تمہیں تل بہہت پسند ہے کیا۔۔۔ بہہہت زیادہ دل کرتا بس چوس ہی جاوووں۔۔ میں نے گہر بوسہ لیا اور لبوں کو سینے پر ہلکا سا رگڑا۔۔ افففف وہ سسک کر بولیں تم کتنے دیوانے ہو نا تل کے۔۔۔ بہہہہت زیادہ تل کا آپ کانقش نقش کا۔۔ وہ دو سیکنڈ چپ ہوکر بولیں تمہاری دیوانگی کو آگ لگاوں ۔۔ میں نے کہا کیسسسے ۔۔ ایسا ایک اور تل بھی ہے کہااااں کہاااں میں دیوانہ ہوا۔۔۔نا وہ۔نہیں بتانا نا دکھانا وہ بعد میں۔۔۔ اچھا نا دکھانا نہیں بتاو تو۔۔وہ شرما کر بولیں
کمر پر افففف میں نےتصور میں ہی سوچا تو جیسے نشہ چھا گیا ۔۔ اچانک مجھے لگا جیسے کوئی ہے۔سرکار کی آنکھیں بند تھیں میں نےترچھی نظر سے دیکھا۔۔ نیم کھلی دروازے سے نائلہ کا سایہ سا نظر آیا میں نے سرکار کی کمر میں ہاتھ ڈال کر ہلکا کھینچا انکا تل جیسے اوپر کو ابھر کر سامنے آیا۔۔ کلیویج تھوڑا واضح ہوا۔۔ میں نے زبان کی نوک سے پورے سینے پر دائرے بنانے شروع کیے۔۔ عمبرین جیسے مدہوش میرے سہارے۔۔انکا جسم ہلکا کانپ رہا تھا۔۔ انکی آنکھیں فل بند اور دھڑکن تیز انکے دلنشین ہلکے کھلے ہلکے بند تھے۔۔میں نے سرگوشی کی ایسے ہی نقش نقش کو چوسنا ۔۔ ہونٹوں سے ملکیت کے دستخط کرنے میں نے آپ کوپتہ میرے اندر بہت شدت۔۔ وہ سسک کر بولیں ۔۔مممیں جانتی ہوں ۔۔تم نہیں جانتےمیرےاندر کتنی شدت وہ میرے بالوں میں انگلیاں جمائیں اور پہلی بار اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں سےلگایا اور میری طرح چوسنے لگیں ۔۔ افففف انکا یہ انداز یہ پیار مجھے تڑپا گیا۔۔
fkniazi555.blogspot.com
وہ میرا نشہ چوس رہیں تھیں یا مجھے اپنا نشہ پلا رہیں تھی ۔۔ نشے میں نشہ مل رہا تھا ۔۔کچھ دیر بعد انہوں نے ہونٹ ہٹائے اور گہری لال آنکھوں سے مجھے دیکھ کر بولیں اب خوش۔۔ میں نے کہا جی جان سے خوش جاو دیکھو نائلہ کدھر گئی انہیں نے سانس سنبھالتے ہوے کہا ۔۔ جی سرکار میں باہر نکلا تو نائلہ تھوڑا ہٹ کرکھڑی تھی۔۔ہم دونوں کی آنکھیں ملیں۔۔ اور میں نے اسے اشارہ کیا وہ میرے پیچھے چلتی ہوئی پیچھے چوکیدار کے کوارٹر تک آئی کوارٹر ابھی بند تھا کیونکہ چوکیدار ڈیوٹی پر تھا۔۔ سامنے چھوٹا سا ایک بنچ پڑا ہوا تھا دونوں وہاں بیٹھ گئے۔۔میں نے کہا تم کسی دن مروا دینا آج پھر دیکھا تم وہ تنک کر بولی تو کیا ہے سالی سہیلی ہو۔۔اچھا تو سالی سہیلی جی اپنا بتاوپہلے کیسا رہا اس رات ائیر پورٹ سے ۔۔ کہتی اففف کچھ نا پوچھ یار۔۔ بڑا مزہ آیا۔۔ اور جو میں کہا تھا مجھے سوچنا تو سوچا۔۔ وہ چپ رہی مطلب سوچا میں نے کہا۔۔ کیسا لگا پھر۔۔ بہہہت کماااال تھرل ۔۔لیکن یار اسے بس ڈالنے کی جلدی ہوتی ہے۔۔ہمم آج پھر کیسا لگا ہمارا میں نے اسے آنکھ مار کر کہا۔۔ سووووپر سے بھی اوپر اس نے آنکھ مار کر کہا۔۔۔ افففف پتہ جب تم اسکے سینے پر زبان گھما رہے تھے نا اس وقت عمبرین مکمل مدہوش ہو چکی تھی۔۔ہاں آج وہ خود مجھے کس کیا۔۔ ہاں اور اسکی وجہ پتہ کیا۔۔ میں نے کہا کیا۔ وہ بولی عورت صفحہ صفحہ کھلتی ہے بہہت گہری ہے عورت ۔۔ عمبرین تو بہہت گہری کسی سمندر کی طرح۔۔ اوپر سے سکون اندر بھونچال ۔۔ جیسے جیسے اس میں اترتے جاو گے تمہیں پتہ چلے گا آگے کتنا شور اور بھونچال۔۔ ہاں یار مجھے اندازہ ہوا یہ عمبرین تو کافی رومانٹک بھی ہیں ۔۔ لو بہہت رومانٹک ہے لیکن اسکے اصول ہیں کچھ ۔۔تمہیں پتہ عمبرین بہہت کمال لڑکی ہے جب تمہاری اس سے شادی ہو گئی ناتو تمہیں پتہ چلے گا۔ تمہیں کیسے پتہ ۔لومیں سہیلی ہوں اسکی مجھ سے تو اس نے میری کہانی بھی سنی تھی سہاگ رات کی۔۔۔ ہاہاہاہا میں ہنسا اور کہا لیکن اب ہماری کہانی نا سنا دینا اسے میں نے اسے آنکھ ماری تو وہ سرخ ہوتے بولی ہماری کوئی کہانی نہیں ہم بس دوست ہیں ۔اور مجھے تم دونوں کے کپل سے پیار ہے یہ تو بس ویسسے تھوڑا سا سہیلی کے جانو پہ حق ۔۔میں نےکہا میں تو بہت ہاٹ ہو گیا یار ۔۔وہ ہنس کر بولی ہونا ای تھا ۔۔ویسے یار سچی بات ہے تمہارا پیار کرنے کا طریقہ بہت کمال۔۔ اگلے بندے کو ساتھ لیکر چلتےہو ۔۔ میں اسکی طرف جھک کر سرگوشی کی۔۔ میں تو پورے جسم پر ہاتھ پھیرنے میں ہی اگلی بندی کو ایزی کر دوں ۔ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے
میرا دل نا للچاو وہ ہنستی ہوئی اٹھی چلو عمبرین انتظار کر رہی ہو گی ہم دونوں چلتےہوئے تو واقعی عمبرین باہر ہمیں ہی دیکھ رہی تھی۔کچھ دیر ادھر کی باتوں کے بعد وہ نکلنے لگیں میں نے نائلہ کو آگے آگے چلنے کا کہا اور پیچھے ہم دونوں ۔میں نے کہا سرکار پھر کب آئیں گی ۔۔ بس اب آپکو پکے پکے لے آنا ۔۔وہ ہنسیں اور بولیں دیوانے ہوپکے میں نےکہا ہاں دو تلوں کا دیوانہ ہو وہ شرم سے لال ہوئیں اور بولیں تمہیں ایک بہہت راز کی بات بتاوں میں نے کہا ہممم بتائیں۔۔ ایسی بات جو میرے اور میری اماں کے علاوہ شائد کسی کو پتہ ہو۔۔ بتاو نا میں جیسے مچل اٹھا ۔۔ نا نا نا وہ مجھے تنگ کر رہی تھیں ۔۔ پلیز نا وہ میری طرف گھومیں اور سرگوشی سے کہا ۔۔ اس سے کچھ باریک تل اور بھی ہیں ۔۔ پورے تین تل ہیں ۔۔مجھے تو جیسے خمار آ گیا اور بولا وہ تیسرا کہاں ہے۔۔وہ شرما کر بولیں نا۔۔ وہ نہیں بتانا لاج آوے ہے وہ تیزی سے نائلہ کے ساتھ ہو گئیں۔۔اور میں دیوانگی میں انکے پیچھےپیچھے چلنے لگا۔۔ سرکار جیسے آج کھلی تھیں اور جیسے نائلہ نے بتایا تھا وہ بہت دلکش تھا۔۔میری شوخ سرکار آہستہ آہستہ اداسی سے نکل کر زندگی کو انجوائے کرنا سیکھ رہی تھیں
بقیہ سارا دن یادگار رہا ۔۔سر جب مجھے پڑھانےآئے وہ بھی میری خوشی کی وجہ پوچھے بنا نا رہ سکے۔۔جاتے وقت وہ بولے ہاں یاد آیا میڈم نے کہا تھا کہ وہ مجھ شام کو آئیں گی فیکٹری کی رپورٹ بنا رکھنا۔۔ میں کافی دیر سوچتا رہاکہ کیا رپورٹ دینی ہے اور آخر تنگ آ کر دوسرے کاموں میں مصروف ہو گیا ۔۔ شام کو ٹھیک پانچ بجے میڈم آئیں اس وقت فیکٹری میں دو بندے ہی رہ گئے تھے وہ بھی کولڈ سٹوریج میں کام لگے تھے ۔۔ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وہ بولیں ملک خاور کا کوئی جھگڑا ہوا ہے میں نے سنا ہے۔۔ پہلےملک نواز کو نہیں پتہ تھا۔۔ آج ہی پتہ چلا ہے اسے ملک نواز اپنے ساتھ اندرون سندھ لے گئےہیں۔۔ ادھر کوئی شکار کی دعوت ہے۔میں جو دوپہر سے بھڑکا ہوا تھا انکے آنے سے اور بھڑک چکا تھا۔۔ انہوں نے بدلتے موسم ک۔مناسبت سے ہلکا سوٹ پہن رکھا تھا جس پر بڑی چادر اوڑھے وہ بلکل لیڈی باس کی طرح لگ رہی تھیں ۔۔
کچھ دیر بعد وہ کہنے لگیں باقی عملہ چلا گیا کیا۔۔ میرے اثبات پر وہ کہنےلگیں میرا سر درد کر رہاتھا چائے پینے کو دل تھا۔چائے مل سکتی ہے لیکن ریسٹ ہاوس سے کچن میں بناتا میں۔۔ہمم چلو باقی ڈسکشن آرام سے کرتے تمہیں کہا تھا نا کبھی آرام سے بتاوں گی۔۔میں انہیں لیے ریسٹ ہاوس میں آگیا۔۔ شام کے سائے ڈھل چکے تھے میں نے فریج دیکھا توقع کے مطابق ملک خاور کے لائا کچھ سامان صاف پڑا تھا۔۔ چائے میں شروع سے ہی اچھی بنا لیتا تھا ساتھ کچھ کباب اور نمکو وغیرہ سے وہ کافی حیران ہوئیں کیسا لگا میڈم ملکانی وہ ہنسیں اور کہا اسوقت میں صر ملکانی ہوں۔۔تم تو بہت سگھڑ ہو گئے ہو چائے پیتے وہ بتانے لگیں کہ یہ جگہ انکے پاس کافی دیر سے ہے وہ پہلے بھی ایکبار اس کمرے میں ملک نواز کے ساتھ رک چکیں ہیں۔۔اس کام کو شروع کرنے کا ارادہ تھا۔کہنے لگیں تم پہ ملکانی کا اعتبار ہو گیاہے یہ اعتبار نا توڑنا میں نے انکی طرف دیکھا اور کہا ۔۔پہلے بھی بتایا تھا اب بھی بتا رہا ہوں راز رکھنا اور وفا نبھانا جانتا ہوں آپ مجھ پر ہر طرح سے اعتماد کر سکتیں ہیں۔۔وہ کہنے لگیں آو تمہیں ملکانی کا تعارف کرواوں نعیم یہ زمینداروں کے چکر بہت عجیب ہوتے ہیں انکے لیے زمین ہی سب کچھ ہوتی ہے عورت بھی انکے لیے بس زمین ہی ہوتی ہے ۔۔ اور جس زمین سے پھل نا ملے اسے بونا چھوڑ دیتے ہیں۔میری ملک نواز سے جب شادی ہوئی تب وہ کافی بڑےتھے مجھے سے ہماری سوچ بھی نہیں ملتی تھی پھر اولاد کا معاملہ بھی ختم ہو گیا میں سب چھوڑ کر بس کالج کی دنیا میں گم تھی ۔۔ لیکن اسبار میرے اندر کی پرانی ملکانی جاگ گئی ہے ۔۔اور اس میں تمہارا بھی بڑا ہاتھ ہے۔بہت مدت کے بعد میں پہلی بار کسی پر بھروسہ کر رہی ہوں تم اس سائٹ کے کلی انچارج ہوگے ۔خاور شائد اب اتنی جلدی واپس نا آئے۔اگر تم چاہو تو یہاں پکی رہائش رکھ سکتے ہو تمہارا ادھر کا سارا خرچہ فیکٹری کرے گی ۔۔ کل تمہیں کچھ ایڈوانس مل جاے گا اماں ابا کے لیے اور اپنے لیے کپڑے لے لینا موسم بدلنے والا پوری تفصیل کے بعد بولیں اور کچھ۔۔ میں نے کہا مجھے یہ نہیں بس ملکانی چاہیے انکا اعتبار انکا یقین وہ فخر سے مسکرائیں اور بولیں ملکوں کے مزاج نرالے ہوتے ہیں پھر تمام مزاجوں کو سمجھنا ہوگا۔۔ میں نے اسی ٹون میں کہا آپ بس اشارہ کرنا ہم رنگ بھر دیں گے۔۔ وہ کھکھلا کر ہنسیں اور بولیں ویسے تم بہت ظالم ہو ۔بہت بری طرح کمر رگڑی گئی میری اففف ابھی تک کھنچاو ہوتا انہوں نے کندھے دباے اور کہا تو ملکوں کا ایک مزاج یہ بھی ہے یہ بار بار خود جھکنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں وہ اٹھیں اور بولیں جا رہی ہوں کبھی کبھی پھل خود سے اتارنا پڑتا ہے لازمی نہیں ہر بار طوفان ہو اور پھل خود ٹہنی سے ٹوٹ کر جھولی میں آ گرے۔۔ آرام سے چلتے چلتے وہ دروازے تک پہنچی تھی کہ میں حیرت سے نکلا اور انکی بات کو سمجھتے ہوے لپکا اور انکے پیچھے پہچا اور سرگوشی کی میرا پتہ کیا دل کرتا ملکانی ۔۔ وہ رک کر بولیں کیا۔۔ میرا دل کرتا ایسی تیز آندھی چلاوں کہ پورے درخت کو ہلا کر رکھ دوں۔۔میں جو کب کا بھڑکا ہوا تھا فل بھڑک کر بولا۔اور اپنے ہاتھ کو بڑھا کر ملکانی کے شانے پر رکھا اور کھینچا پورے زور سے۔۔ ملکانی پیچھے کو میرے ساتھ لگیں میرے ہاتھ انکے سینے پر اور پورا جسم پیچھے سے انہیں ٹچ ہوا۔۔ میں نے ہاتھوں کو طوفانی انداز میں پھیرا اور انکی بڑی چادر کو ہٹا دیا۔۔ انکی تیز سسکی بلند ہوئی میں نے ہاتھ انکے سینے پر فل رگڑے اور پیچھے سے ادھ کھڑے لن کو انکی گانڈ سے رگڑا ۔۔ اففففف انکی کراہ نکلی اور بولیں تمممم بہہت طوفانی ہو کہتے میری طرف پلٹیں ۔چادر اترنے سے ہلکی باریک قمیض میں بلیک براکا عکس اور جھلکتے کلیویج کا نظارا مجھے آوارگی کی آخری حد تک لے گیا ملکانی خود بتا بھی چکی تھی اور اسکے ساتھ اس رات تجربہ بھی ہو چکا تھا مزید رشیداں کے مطابق ان میں نو عورتوں کی شدت تھی۔۔انکا سینہ دہک رہا تھامیرے ہاتھ بہکے اور انکے بوبز کو دبایا وہ سسکیں انکے تنے بوبز اور پھولے میں انہیں کمر میں ہاتھ ڈال کر بیڈ تک لایا اور انکے اوپر جھکتا گیا انکے ساتھ لیٹا اور بہت شدت سے انکے پیاسے چہرے پر جھکا ہاتھوں سے انکی کمر کو دبایا اور چہرے کو چومتے ہوے کہا ۔۔ کہاں ہے کھنچاو ۔۔کمر کی رگڑ ہمیں بھی دکھائیے نا۔۔ وہ ناز سے لیٹے لیٹے بولیں خود ہی دیکھ لو۔۔ میں کہنی پر ہوا اور انہیں پلٹا
انکا ہلکا سانولا بنگالن ساحرہ جیسا جسم جلوہ مارنے لگا میں شرٹ کو کندھوں تک ہٹایا انکی نازک کمر پر واقعی ہلکی سی رگڑ کے نشان ابتک تھے۔۔ میں نے وہاں سے چومنا شروع کیا وہ ایسے تڑپیں جیسے جلتے توے پر قطرہ پڑے ۔میں قطرہ قطرہ برستا گیا
میرےہونٹ برس رہے تھےاور وہ تڑپ رہیں تھیں۔۔میں انہیں سیدھا کیا اور شرٹ کو اتارتا گیا۔۔ انکی گردن سے پیٹ تک زبان سے لائن کھینچی انکا پورا جسم اچھلا اور ایک بلند آاااااہ نکلی انہوں نے اپنی ٹانگوں میں مجھے سمیٹا ۔۔ کسی ناگن جیسی جکڑن۔۔میں نے اپنی قمیض اتاری ۔۔ انکا جسم میرے سینے میں چھپتا گیا۔۔ وہ بولیں آااااہ یسسسس۔۔ تمہیں پتہ ہے اسی کمرے میں ملک نے مجھے بہت مزے سے فک کیا تھا افففف تم تو اس سے تھوڑا ینگ ہو وہ میرے ساتھ جسم رگڑتے ہوے اچھل رہیں تھیں۔۔ انکی بلند سسکیاں گھوڑے کو اور اکڑا رہیں تھیں۔۔ میں انکی ٹانگوں سے نکلا اور انکی شلوارکواتارتا گیا۔۔ اس رات اندھیرا تھا۔۔ لیکن آج کمرے کی روشنی میں انکا ساحرہ سا جسم میرےسامنے بکھرا پڑا تھا۔۔جیسے کپڑے کاتھان کھلا ہو اور اس تھان کو لن کے گز سے ناپنا تھا۔۔انکا جسم بلکل کسا ہواتھا ۔۔ ٹانگیں بلکل صاف اور سیکسی میرے ہاتھ ٹانگوں پر چلے اور دوسرے ہاتھ سے میں نے اپنا نالہ کھولا۔۔ لن جھوم کر باہر نکلا۔۔ جیسے ہی انکی نظر میرے لن پر پڑی جو روشنی میں انہوں نے بھی پہلی بار دیکھا تھا انہوں نے زبان ہونٹوں پر پھیری۔۔ لن کا ٹوپہ ملکانی کو سات سلام کہہ رہا تھا جھوم رہاتھا۔۔ ملکانی نے لن کو پکڑا اور دبایا اور بولی تب ہی میں کہوں اتنے عرصےکی پیاس کیسےمٹی ۔۔ بہت زبردست ہتھیار ہے تمہارا انہوں نے پورے ہاتھ سے لن کو سہلایا اورمجھے لٹاتے اوپر آ گئیں۔انکا سینہ میرے چہرے کے اوپر تھا میں نے نیچےسے انگور کےدانوں جیسے نپلز کو لپس میں لیا اور چوسا
افففف انکے نپلز کا نشہ اور ذائقہ میرے انگ انگ میں نشہ پھیلنے لگا۔۔وہ میری ٹانگوں پراوپرنیچے ہو رہی تھیں اور میری ٹانگوں کی رگڑ انکی پھدی کو اور گرم و گیلا کر رہی تھی۔۔انکا جسم جیسے جل بھن رہا تھا۔۔انکی گرم سسسکیاں کمرے کو مزید نشیلا کر رہی ہیں میں نے سرگوشی کی اور کہا جھولا لینا ہے 😉 وہ بولیں کیسے ۔۔ میں اٹھا اور بیڈ سے ٹیک لگا کر گوٹھ ماری انکو اپنی طرف منہ کر کے لن پر بٹھایا۔۔ وہ افففف کرتیں ٹوپے پر ایڈجسٹ ہوئیں ۔۔ میں نے لپسنگ سٹارٹ کی اور انکے شانوں کو ہلکے سے دبایا۔۔ ٹوپہ جیسے کسی کلے کی طرح انکی پھدی میں دھنستا گیا
جیسے جیسے ٹوپہ اندر گھس رہا تھا ایسے لگ رہا تھا جسے اندر آگ کا بنا ہوا۔۔وہ جیسے ہلکا ہلکا جمپ کے اندازمیں دھنسی جا رہیں تھیں۔۔ انہوں نے وحشت سے میری شانےپر بائٹ کیا میں نے جوابا انکے بیک پر ہاتھ مارا۔۔ آااااااااہ انکی بلند چیخ نکلی۔۔ لن جڑ تک اندر گھس چکا تھا۔۔اور میں انہیں ہلکا ہلکا اوپر اچھال رہا تھا ایسے ٹوپہ اندر جا کر سہی لگتا اور وہ ہر چوٹ پر مزید بھڑک کر مجھے ناخن مارتیں بائٹ کرتی۔۔اسبار جب وہ فل بیٹھ کر اچھلنے لگیں تو میں نے انہیں روکا اور اپنی گوٹھ کو ہلکا ڈھیلاکیا ۔فل بازووں میں لیکر ہولے ہولے بچوں کی طرح انہیں جھولا دینے لگا۔۔انکی دیوانی چیخیں جیسے فل مزے کی ہو گئیں آااا یسسسسس ایسےسسے ہی اففف آاااا انکی بے ترتیب باتیں۔۔انکی پھدی ہانپنا شروع ہو گئی تھی بچہ انہیں ہو نہیں سکتا تھا میں نے انہیں بازووں سے پکڑ کر لن پر گھمایا آہستہ آہستہ گھماتا گیا ۔۔ٹوپہ کسی ڈرل کی طرح پھدی کو رگڑنے لگا انکا جسم جیسے اکڑ چکا تھا ملکانی کے ہونٹوں سے بے ساختہ گالی نکلی۔۔وحشی انسان ملکانی کو کھول کر رکھ دے سہی سٹاں مار نا ۔۔میں انہیں تیزی سے گھمایا انکی پھدی نے سے پانی ابلنا شروع ہو گیا آہستہ آہستہ انکا منہ دوسری طرف اور کمر میری طرف ہو گئ۔۔ میں تھوڑا سا انہیں اوپر کیا اور ایک ہاتھ سے نپلز کو رگڑ کر انکی کمر کو چاٹ کر زور سے سٹ ماری۔۔لن نیچے سے اوپر کو کسی گولے کی طرح گیا۔۔ انکی تیز آاااہ نکلی اور وہ چلائیں ہااااائے مار دتا ای۔۔میں انہیں آگے کو جھکایا۔۔ انکے بازو بیڈ پر گھٹنے لگائے ملکانی کو ڈوگی سٹائل کیا اور انکے لہراتے بالوں کو ہاتھ پر لپیٹا انکی تیز سسسسی نکلی اور بولی ہااااے ظالما آرام نال کر نا ۔۔ملکانی ہو۔۔ نہیں ہو تم ملکانی میں نے نفسیاتی وار کیا۔۔ توووو کیاہوں وہ سسک کر بولیں۔۔ میں نے لن کا زور دار جھٹکا مارا وہ کراہیں میں بولا تم میری مریدنی ہو تمہیں لن کا مرید کرنا۔۔ ہاااے وہ تنک کر بولیں نا میں ملکانی ہو۔۔ میں نے دو چار جھٹکے مارے انکی پھدی نے سکڑ کر پھوار ماری وہ بس ہونے کو تھیں۔۔ میں رکا اور کہا بول ملکانی اپنے یارکی مریدنی بول میں نے زور سے انکے بوبز کو مسلا اور کہا بول نا اور جو جھٹکا مارا وہ آگے کو گریں انکی پھدی نے ڈسچارج ہونا شروع کر دیا تھا۔۔ بول ورنہ پھر نہیں چودوں گا تجھے ترسے گی اس لن کو۔۔ میں ملکانی کو اپنے تھلے لا کر کچھ کام نکلوانا چاہتا تھا۔۔ جیسے ہی انکا جسم اکڑن شروع ہوا وہ مزے سے بےحال ہوکر بولیں ہااااں ہوں تیری مریدنی افففف ملکانی ہار گئی ہاااے میں نے انہیں سیدھا کیا اور انکی ٹانگوں کوپھیلا کر شانوں پر رکھا کمر کو کمان کر کے اوپر سے جھٹکا مارا ۔انکی بلند چیخ سے کمرہ گونج اٹھا ہاااااے ہور مار۔۔ میں نے چار پانچ متواتر جھٹکے مارے وہ جیسے اٹھ اٹھ کر سسکیں میرا بھی ہونے والا تھا۔۔ میں نے کہاملکانی تم بہت مزے کی ہو بس تمہارے ساتھ سیکس ویران جگہ ہو سکتا گھر میں تو سارا گھر جمع ہو جانا۔۔ وہ ہنسیں اور جھٹکے کھاتی بولیں جی ملکانی کے راجہ کمرے میں جب کیا میں سسکیاں دبا لوں گی اففف ہاااے۔۔ میرے جھٹکے تیز ہوے انکی آہیں بلند ہوئیں وہ بولیں تیز کر میں پھر سے ہونے والی۔۔ انکی پھدی دوسری بار نڈھال ہونے کو تھی۔۔ مجھے جیسے جن پڑ گئے پورا بیڈ چوں چوں کر ہلنے لگا انکی چیخیں جیسے آسمانوں پر تھیں اووور ایک تیز نشیلی لہر کے ساتھ میں نے ملکانی کی پھدی کو بھرنا شروع کر دیا ۔۔گرم پھواروں نے پھدی کو اور گرمایا اور جوابی اسکی تیز پھواروں نے لن کا ویلکم کیا۔۔ کچھ دیر ہم ایسے ہی پڑے رہے۔بلکل ساتھ ۔۔۔آہستہ سے میں انکے اوپر سے ہٹا انکے ہاتھ اپنی کمر پر تھے وہ نڈھال ہو چکیں تھیں ۔میں شلوار پہنتا باہر نکلا رات چھا چکی تھی۔۔میرا ارادہ تھا کہ آج دوسری شفٹ میں ملکانی کوپکا مرید کروں اور ان سے کچھ مدد لوں
جاری ہے
fkniazi555.blogspot.com
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں