جمعہ، 10 ستمبر، 2021

Meri Kahani Meri Zubani Episode 39


   Meri Kahani Meri Zubani

Episode 39

دو بڑے ہالوں والی یہ فیکٹری جسکا مزید کام جاری تھا پیچھے ایک ریسٹ ہاوس بنا ہوا تھا ۔۔ ہال کے اوپر طرف تین چار کیبن تھے ریسپشن ایریا۔۔ آغاز میں مزدور لوڈر اجناس وغیرہ سے متعلقہ بندے رکھے گئے زیادہ تر لوگ ملکانی کے گاوں سے ہی تھے کچھ میکے سے کچھ سسرال سے۔۔ جنکی پشتیں ملکوں کی نوکری کر رہیں تھیں۔۔ وہاں سب کے سامنے ملک خاور نے میرا بتایا کہ جو یہ کہے جیسے یہ کہے وہ کرنا ہے باقی کرنا کیسے ہے آپ سب لوگ جانتے ہیں۔۔ یاد رکھنا نعیم کی بات کامطلب یہی ہے کہ اسکے ذریعہ سے میں یا ملکانی چاچی یا وڈے ملک کہہ رہے ہیں۔۔۔ مجھے ایک کیبن دیا گیا جو میرا آفس تھا۔۔ کچھ دیر بعد ملکانی واپس چلی گئیں اور میں اور خاور رہ گئے۔۔۔ اب آگے میں نے پوچھا۔۔ آگے یہ کہ کچھ دنوں بعد باقاعدہ کام شروع ہے ۔ابتدائی طور دوبئی اور سعودیہ بھجوائے گے وہاں کچھ واقف لوگ ہیں ۔۔ باقی مزدور سارے کام جانتے انکو ادھر ادھر سے باقاعدہ چن کر لایا ہوں یعنی سارا کورم پورا۔۔نہیں بس ایک کمی ہے ابھی ملک خاور نے ریوالونگ چئیر پر انگڑائی لیتے ہوئے کہا۔۔۔ وہ کونسی ۔۔

fkniazi555.blogspot.com

 وہ بولا یار باہر سے بندے آیا کریں گے تو ریسپشنسٹ ضروری تھوڑی رونق میلہ سمجھا کر یار ۔۔ دل لگا رہتا ہے رونق رہتی مزدور بھاگ بھاگ کر کام کرتے ہیں بے وجہ چھٹی نہیں کرتے یہ بزنس ٹرک ہے جانی میں ہنسا اور کہا واقعی ہے تو ۔۔۔لیکن یہ بات ملکانی چچی کو نہیں بتانی ۔۔ کیا مطلب وہ تو آئیں گی نا فیکٹری وزٹ کو تو کیسے چھپا سکتے ریکارڈ ہونا سب۔۔ وہ بولا استاد بس تم نا بتانا باقی مجھ پر چھوڑ دو تم ۔۔ مجھے تو خود ملکانی نے کہا تھا اسے چیک کرنا میں نے فوری وعدہ کیا ۔۔ اسکا اعتماد جیتنا ضروری تھا۔۔لیکن کرو گے کیا ۔۔ وہ ہنسا اور بولا میں جانتا ہوں ملکانی چچی کو بھری فیکٹری میں تو وہ کبھی بھی منہ اٹھائے نہیں آئینگی آجکل تو حالات ویسے بھی کشیدہ تو انکو باقاعدہ لانا پڑنا اور اگر آئی بھی تو سیکنڈ ٹائم آئیں گی مجھے اندازہ انکا ۔آہستہ آہستہ وہ کھلتا گیا۔۔ شام پھیل رہی تھی اور ملک خاور موج میں تھا۔۔ وہ بولا تم کبھی ڈرنک کیا۔۔ نہیں کبھی نہیں ۔۔ وہ اٹھا اور اوپر کہیں سے بئیر کا ٹن نکال لایا اور چسکیاں لیتے ہوے بولا بھیا بات یہ کہ ہم ہیں یار باش بندے تم بہادر بندے لگے پھر چچی تو میرےلیے بہت اہم۔۔ سمجھو میری سیکنڈ مدر ہیں

تم پر سمجھو دل آگیا ہمارا وہ واقعی ملک مزاج تھا ۔۔ ایک دو جاننےوالیاں ہیں میری ان سے پتہ کرتا کوئی اچھی لڑکی مل جاے تو چلو گپ شپ بھی رہے گی بیٹھا کریں گے ۔۔ یہ پیچھے ریسٹ ہاوس ہے باقاعدہ دکھاوں گا تمہیں ۔میں نے مسکرا کر کہا آپ ملک ہیں وڈے دل کے مالک محبت ہےآپکی وقت ثابت کرے گا میں آپکو کبھی دھوکا نہیں دونگا۔

اگلے دن خاور نے جانا ایکبار گاوں واپس جانا تھا۔میڈم نے مجھے آفس بلایا اور کہا کہ کچھ ضروری امور طے کرنے ہیں۔۔ میں نے کہا جی بولیں۔۔ وہ کہنے لگیں ابھی نہیں میں تمہیں بتاوں گی کب فیکٹری جا کر بات کریں گے سکون سے ۔۔دوسرا انہوں نے بتایا کہ انہوں نے سر اکمل سے بات کی ہے بنا پوچھے وہ تمہیں الگ سے پڑھا دیا کریں گے انکے وقت کا تم ملکر طئے کر لینا ۔اور انشا ء اللہ تم پڑھائی میں اچھے نمبروں سے کامیاب ہو گے۔۔زندگی کی ایک نئی ترتیب بن چلی تھی۔۔ صبح دس بجے تک فیکٹری ۔۔ جو ابھی تعمیری مراحل میں تھی۔مشینری و سامان فٹ ہو رہا تھا۔۔ دو بجے سے پانچ بجے تک سر اکمل سے ٹیوشن اور پھر گھر۔۔۔ ویک اینڈ پر مجھے شاہدرے جانا تھا۔۔انکل کا بھی پتہ کرنا تھا اور کومل نے بھی جانا تھا۔۔میں پہلے انکل کو ملنے گیا آنٹی کو دیکھ کر مجھے کافی شاک لگا بس دو ماہ میں وہ بہت کمزور اور بوڑھی سی ہو گئی میں نے پوچھا تو کہنے لگیں عمر پہلے بھی کونسا کم تھی ۔لیکن اب تیرے انکل کی پریشانی نےمیرا یہ حال کر دیا۔۔ پھر میں عمبرین کو لیکر برآمدے میں بیٹھ گیا اور ان کو رپورٹ دینے لگا وہ نوکری سے زیادہ میری ٹیوشن پر خوش ہوئیں تھیں۔۔پھر کہنے لگیں ہمیں کونسا تم نے افتتاح پر بلوایا۔۔ میں نے کہا سرکار میں لکھ واری بلاتا لیکن مجھے گوارا نہیں آپکو کوئی اور دیکھے۔۔آپ جب چاہو آ سکتی ہو۔دیکھ لینا انہوں نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا تمہیں لگتا ہے میں نہیں آ سکتی عورت اگر چاہے تو کچے گھڑے پر تیر کر آ جاے ٹھوکر نیاز بیگ تو لاہور میں ہی ۔۔میں نے کہا آ جائیے ہم منتظر رہیں گے اب۔۔وہاں سےمیں ناصرکے گھرگیا وہاں جیسے میلا سا لگا ہوا تھا۔۔ کومل تو جیسے خوشی سے پاگل تھی نائلہ کے شوہرصاحب بھی ویک اینڈ پر آئے ہوئے تھے۔کافی ڈیسنٹ بندہ تھا وہ سادہ سا ملنسار۔ آج ہی آیا تھا وہ شام کو اور پرسوں جانا تھا اس نے ۔۔کچھ دیر بعد مجھے ناصر نے بہانے سے بلایا اور کہا آپی نائلہ بلارہیں آپکو میں اسکے شوہرسے کنی کتراتا نائلہ کے متھے جا لگا وہ بولی یار ایک کام کر۔۔ کسی طریقے ہماری جان چھڑوا دے یار اماں کہتیں کومل کو ائیر پورٹ تک چھوڑ کر آئیں۔۔ اورتم چاہتی کے فورا میاں کو لیکر کھسکو۔۔ وہ کھسیا کر بولی تو اور کیا ۔۔ تم سے کیا چھپانا پتہ تو ہے تمہیں میں ہنس پڑا اور کہا چلو کرتا کچھ۔۔نہیں نہیں سمجھو کومل کویہاں سے جلدی نکالو اسکی پیکنگ ہی نہیں ختم ہو رہی۔۔میں اسکے ساتھ کومل کے کمرے میں گھسا وہ لش پش لشکارے مار رہی تھی ہماری نظریں ملیں وہ شرما کر مسکرا دی۔۔ میں نے اسے بورڈنگ کا ڈراوا دیکر وہاں سے نکالنے میں بمشکل کامیاب ہوا۔۔ائیرپورٹ پر پہنچ کر کومل سب سے مل رہی تھی اور ہدایات لے رہی تھی جب نائلہ کو میں نے سرگوشی میں پوچھا آج تو پھر کنفرم چدائی ہے وہ جیسے شرمندہ ہو کر بولی چپ کر بدتمیز پتہ تو ہے تمہیں۔۔میں نے کہا تمہیں ایک تھرل بتاوں۔۔میرے اندر شیطان جاگ گیا تھا شیطانی دماغ نے پلان بنایا ۔۔ کیسا تھرل بتا دو بنا کچھ سوچے۔۔۔ تم کہتی تھی نا تمہارا شوہر پیارکم کرتا بس فورا کام کرتا۔ ہااں تو۔۔ جب وہ کرنے لگے نا تو میرے پیارکو سوچ کر انجواے کرنا۔اففف اس نے مجھے دیکھا اور کہا یہ غلط ہوگا نا۔۔ میں نے کہا تھرل ہی تو ہے آزما کے دیکھ لو


دو دن ہو گئے تھے بیلا سے ملاقات نہیں ہوئی تھی اگلی شام میں فیکٹری سے سیدھا بیلا کے گھر گیا انکل آنٹی سے ملاقات ہوئی آنٹی کافی خوش تھیں کہ آگے تجربہ کےبعد مزید بہتر مستقبل ہوگا میرا۔۔بیلا مجھے کالج کے نوٹسز کی کاپیاں دیں اور ساتھ دھمکی دی کہ وہ ماہانہ ٹسٹ لیا کرے گی ۔۔ میں اسکے دھونس بھرے لہجےپر ہنس دیا۔۔


ہنسو مت میں سیریس ہوں اسکو جس بات کا غصہ تھا مجھے اچھی طرح اندازہ تھا۔۔تم اسلیے غصے ہو نا کہ میں اب کالج نہیں آتا۔۔ نہیں اب تم باتیں چھپانےلگ گئےہو اس نے شکوہ کیا ۔کیا چھپایا میں نے بولو۔۔ یہی جاب کا ایسا اچانک کیا ہوگیا جو تم جاب کرنے لگ پڑے۔ راتوں رات ایسےکیا ہوگیا کہ میڈم تم پر اتنا اعتماد کرنے لگ پڑیں تھوڑا فلمی ہےنا۔۔ میں اندر سے گڑبڑایا لیکن اسے ہینڈل کرنا مجھے آتا تھا میں نےاسےحیلے بہانوں سے مطمئن کیا کہ وہاں ذکر چھڑا تھا تومیں نےازخود ریکویسٹ کی کہ مجھے کہیں فٹ لیں شکر وہ کچھ مطمئن ہوئی ۔۔ پھر بولی اور وہ آوٹنگ بھولی نہیں میں یاد ہے نا وعدہ ہے تمہارا ۔۔ ہاں ہاں یار یاد ہے میں نےکہا کل ہی میڈم سے بات کرتا ہوں۔وہ کچھ دیر چپ ہوئی اور بولی میڈم کا جانا ضروری تھوڑی میں اسکی بات پر حیران سا ہوا اور کہا تم ہی کہاتھا یار۔۔ ہاں وہ تب کہاتھا اب وہ تمہاری باس بھی اسلیے نہیں ۔ شائد کہیں اندر سے وہ الرٹ ہو گئی تھی یہ اسکی پرانی عادت تھی لیکن اسبار میں نے اس پر غور کیا ۔۔ بیلا کالج سمیت جہاں کوئی لڑکی مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتی وہ بیچ میں فورا گھس جاتی تھی۔۔میں نے کہاتو پھر کیسےجائیں گے تم اور میں اکیلے میں نےہچکچا کر کہاتواس میں کیاحرج ہے تم کھاتھوڑی جاو گے مجھے میں ہنسا اور دل میں کہا تمہیں میرا کیاپتہ اور تھوڑا ٹون بدل کر کہا پورا نا بھی کھایا تو کیاپتہ کچھ کچھ کھا لوں اسکے چہرے پر رنگ گزرا اور بولی نہیں کھاتے تم تو مجھے دیکھتے بھی نہیں اسکا لہجہ عجیب سا تھا۔۔ لو دیکھ تو رہا میں نے اسے ٹوکا۔۔ اوہو بدھو تم نہیں سمجھو گے ۔۔ میں کھانسا اور کہا میں سمجھتاہوں ایکبار بھولےسےدیکھاتھا یاد کرو خود ہی روکا تھا۔۔ اسکا چہرہ بلش ہوا اور بولی تم بہت بد تمیز ہو میں ہنسا اور کہا اب موڈ فریش کرو اور بتاو کیا کرنا چاہتی۔ وہ بولی بس دو چار کلاس فیلوز کےساتھ پرائیوئٹ ٹور کرتے نا ایک ویک اینڈ کا ۔۔ چلو بناو پروگرام پھر بتانا اور یاد رکھنا میں کھا بھی سکتا ہوں میں اسے ستا رہا تھا وہ تنک کر بولی تمہاری جرات ۔۔میں نا چاہوں تو مجھےکوئی ہاتھ نا لگا سکے ۔۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا اور اسکے بازو کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا وہ بلکل میرے پاس آ گئی گھبرا کر بولی بدتمیز کیا کر رہے ہو اسکی ساری شوخی ہوا ہو چکی تھی۔۔ میں نے اسکی طرف جھک کر کہا بولو روکو۔۔ اسکی پلکیں لرزیں اور بولی پلیز نا ماما بابا دیکھا تو کیا سوچیں گے۔۔ تم مجھے اکیلے میں کوشش کرنا تو تمہیں بتاتی کیا حشر کرنا تمہارا ۔۔ وہ جلدی سے بازو چھڑا کر الگ صوفےپر بیٹھ گئی۔ اتنی سی حرکت اور اتنے سے قرب نے اسکے رخسار دہک اٹھےتھے میں نےاٹھتے ہوئے کہا چلو دیکھیں گے کیاکرنا۔وہ بولی دیکھنا کیا ہے میں ہفتے دس دن تک سب پلان بنا لیتی تم یاد رکھنا نو بہانہ

اگلے کچھ دن بہت بزی روٹین رہی ملک خاور اتا جاتا رہتا ۔ آخر دس دن بعد دو کام ہوئے ایک تو آفس کی سیٹنگ مکمل ہو گئی نیا فرنیچر آ گیا۔۔ ابتدائی طور پردوبئی اور شارجہ مارکیٹ میں کچھ سیمپل بھجوا دیے گئے اور امید تھی کہ اسبار چاولوں کی فصل باہر بھی جاے گی۔ ایک شام جب تقریبا مزدور جا چکے تھے بس کچھ لوگ کلوزنگ کے لیے رکے ہوے تھے ملک خاور کا فیکٹری فون آیا اسکا لہجہ قدرے پریشان تھا مجھ سے فیکٹری کے عملہ کاہوچھنے لگا جب میں نے بتایا کہ کچھ لوگ ابھی ہیں تو وہ بولا انہیں فورا چھٹی دے دو چوکیدار کو بھی بھیج دو اور فیکٹری کی غیر ضروری لائٹس آف کر دو۔۔ میں نےکہا سب خیر تو ہے نا۔۔ہاں یار سب خیر ہے ایک لفڑا ہو گیا ہے اسکی آواز میں ہلکی تکلیف تھی میں آ کر بتاتا تمہیں۔۔ میں نے فورا سب کو چھٹی دی اور بہانہ بنایا کہ مجھے ضروری کام سے جانا۔۔ سب کے جانےکے بعد میں نے زیادہ تر لائٹس آف کر دیں اب گھنے اندھیرے میں فیکٹری کی عمارت کافی ہولناک لگ رہی تھی۔۔ آس پاس دور تک کوئی رہائشی ایریا نا تھا۔۔ فیکٹری مین روڈ سے ہٹ کر کچے راستے پر کوئی دو کلومیٹر پیچھے بنی ہوئی تھی۔۔آدھ گھنٹہ گزرا ہوگا جب گیٹ پر دو گاڑیاں رکیں میں دروازے سے جھانکا اؤر خاور کی آواز سن کر دروازہ کھولا ۔۔ خاور کی ڈبل ڈور کے پیچھے ایک اور پراڈو تیزی سے اندر آئیں ۔۔ خاور والی ڈبل ڈور پورچ میں رکنے کی بجاے فیکٹری کے پیچھے سے گھوم کر کولڈ سٹوریج کی طرف گئی ۔ اگلی سیٹ سے ملک خاور نے شیشہ اتارا ۔۔ اسکی حالت دیکھ کر میں چونک گیا اسکے کپڑے خونم خون تھے۔کیا ہوا خاور صاحب میں نے تشویش سے پوچھا تو وہ کراہتےہوے بولابتاتا ہوں یار۔۔ پچھلی پراڈو سے دو بندے اترے ایک نے پراڈو کی پچھلی سیٹ سے کوئی بوری اٹھائی اور اسے کاندھےپر اٹھا کر کلڈ سٹوریج کے بڑے دروازے کو کھولتا اندر گھسا۔۔ ملک بھی مجھےساتھ لیتا ادھر کو چلتا گیا۔۔ کولڈ سٹوریج میں کافی بوریاں جڑی ہوئی تھیں۔۔ ہر کولڈ سٹوریج ک طرح یہ بھی کسی حد تک ساونڈ پروف تھا اندر اجناس کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔۔ اس بندے نے بوری لاپرواہی سے زمین پر پھینکی ۔۔ جیسے ہی بوری زمین پر گری ایک سریلی چیخ بلند ہوئی ۔۔ملک کے اشارے پر اس بندے نے بوری کا منہ کھولا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں

پٹھانوں جیسے کھلے چوغے میں ملبوس وہ کوئی عورت تھی جسکی آنکھوں پر سیاہ ڈبل پٹی بندھی ہوئی تھی میں نے پلٹ کر ملک خاور کیطرف دیکھا وہ غصے میں بولا وہ پکھی واس یاد جنہوں نے حملہ کیا تھا میں بھلاوہ طوفانی شام کیسے بھول سکتا تھا۔۔ جی یاد میں نے دو لفظی جواب دیا۔۔ یہ انکے سردار کی بیگم ہے ۔۔ سوچا ہم بھی تھوڑا سبق چکھا لیں انکو ۔۔۔اور مجھےلیتا باہر کو نکلا۔۔ اور یہ آپکو کیا ہوا۔۔ کچھ نہیں یار کارتوس کے دو چھرے لگ گئے بازو پر ۔ ڈاکٹر سے مل کر نکلوا آیا چھرے اس نے کراہتےہوے جواب دیا۔۔ اسکا کیا کرنا ہے میں نے پوچھا ۔۔ میں نے کچھ نہیں کرنا اسکو بگا ماچھی دیکھےگا۔۔ وہ کون ہے اب ۔۔ وہی جس نے بوری اٹھائی ہوئی تھی ۔تم دیکھنا وہ اکیلا اسکی ناس مار دے گا۔۔وہ مجھے لیتا پچھلے ریسٹ ہاوس کو چلتا گیا۔۔ اندر جاکر وہ بسترپر لیٹا۔۔میں نے ضد کر کے اسکا بازو دیکھا۔۔ اور بولا لیکن اسے دکھانا پڑےگا نا پٹی بدلوانا پڑے گی۔آپ کہیں ایڈمٹ ہو جاتے۔۔ ارےنہیں یار اسپتال کارسک مشکل ہو جاتا سو سوال ہوتے ۔۔ دکھا لیں گے کسی نا کسی کو۔۔ تم جاو جا کر انہیں دیکھو ۔۔میں وہاں سے کھسکا اور نا چاہتے ہوے بھی کولڈ سٹوریج کو گیا۔۔ مجھے ملک کا ایسے عورت اٹھانا بھایا نہیں تھا۔میں کولڈ سٹوریج واپس گیا تو وہاں صرف بگا ماچھی اور وہ عورت تھی۔۔ عورت بلند آواز میں گالیاں بک رہیں تھی۔۔ بگا آگے بڑھا اور اس نے کچھ بولے بنا عورت کےچوغے میں ہاتھ ڈال کر چوغے کو کھینچا ۔۔ چوغہ چرررر کی آواز سے پھٹتا چلا گیا

جیسے ہی چوغا پھٹا خاتون نے پھر چیخ ماری۔۔۔ خاتون کی عمر کچھ پینتیس سال کے آس پاس ہوگی پھٹے چوغے سے اسکا جسم چھلک رہا تھا۔۔ بگے نے پورے کچیچ سے اسکے بوبز کو مسلااور پوری وحشت سے اسکو جگہ جگہ چٹکیاں کاٹنے لگا۔۔ عورت کی سسکیاں اور کراہیں جاری تھیں۔۔ ہاں تو تیرےبندے نے ملکانی پر نظر ڈالی ۔۔ اب تیرے پھدے میں ایسا لن گھسیڑوں گا کہ اگلا پچھلا سوراخ مل جاے گا وہ اونچی آواز میں ہنستے ہوے بولا۔۔ میں تھرا کررہ گیا۔ بےشک میں نے بہت عورتوں سے جسمانی تعلق رکھا لیکن ایسے زبردستی مجھے اچھانہیں لگ رہا تھا۔بگا نے دست درازی کرتے ہوئے اسکے سارے کپڑے اتار دیے ۔۔ کافی زبردست عورت تھی ۔۔ بگے نے اپنا چہرہ اسکے جسم پر رگڑنا شروع کیا۔عورت کی مزاحمت جاری تھی وہ ٹانگیں چلاتی لیکن بندھی آنکھوں اور ہاتھوں سے کیا کر سکتی تھی۔۔ بگا بولا بس کر رشیداں ۔۔ تمہاری آنکھیں اور ہاتھ کھلے ہوتے تب بھی تم بھاگ نہیں سکتی تھی ۔۔ یہ سب تو ایویں ای بس۔۔شیدا اسکے بوبز کو چوستا اسکے ہونٹوں کو کاٹتا پورے بدن پر جگہ جگہ کاٹتا پورا وحشی بنا ہوا تھا۔۔اسے چوس چوس کر اس نے بے حال کر دیا تھا ۔۔شائد رشیداں کا بھی چیخ چیخ کر گلا بیٹھ گیا تھا یا فطرتی وہ چھیڑ چھاڑ سے گرم ہو گئی تھی جو بھی وجہ تھی اب اسکی مزاحنت کافی کم ہو گئی تھی بگے نے اسکی دونوں ٹانگوں کو پھیلایا اور اسکی پھدی کو انگلیوں سے مسلا جیسے لیموں نچوڑتے ایسے رشیداں بلند کراہی ۔۔ بگا مجھ سے لاپرواہ اپنے کام لگا رہا کچھ دیر بعد اس نے اپنی قمیض اتاری ۔۔ اسکا بالوں بھرا جسم سامنے آیا کسی ریچھ کا بچہ تھا شائد وہ۔۔اسکے بعد اسے نے اپنی شلوار بھی اتار دی ۔۔ جیسے ہی اس نے شلوار اتاری میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں بگا ریچھ کا نہیں کسی کھوتے کا بچہ تھا۔۔ اسکا موٹا لن سائز تو میرے برابر ہی تھا لیکن پورا لن موٹا زیادہ تھا جیسے گول مول لمبا لن۔۔ واقعی اسکا لن اسکےدونوں سوراخ ملا سکتا تھا۔۔ آرام سے تو چلو وہ لے لیتی لیکن مجھےپتہ تھا اس نے اسے نفرت سے چودنا تھا۔۔ اس نے لن کو پھدی پر رکھا اور اسکی کمر کوجکڑ کر پوری شدت کا جھٹکا مارا۔۔رشیداں کی چیخ نے میرا دل ہی دہلا دیا۔۔ اسکا لن آدھے سے کم اندر گیاتھا لیکن میں دیکھ سکتا تھا پھدی کے اندر وہ ایسے دھنسا تھا جیسے نیزہ ۔۔میں وہاں سے باہر نکل آیا ۔۔ اس سے آگے دیکھنا مشکل تھا ۔۔ میں واپس ملک پاس آیا وہ بولا ہاں دیکھ آئے ۔۔ ہاں جی ۔ وہ بولا یہ بگا جیسی عورت ہو اسکی چیخیں نکلوا دیتا ہے ۔۔ اسی لیے اسکو یہ کام دیا ۔۔پتہ ہے اسکی بیوی نے طلاق لے لی تھی تب سے لنڈورا۔۔

رات کے دس بج چکے تھے میں نے کھانا بھی وہیں سے کھایا۔۔ ملک خاور کو بخار سا ہورہا تھا ساتھ اسکی پٹی بھی پرابلم کر رہی تھی وہ مجھ سے بولا تمہارا کوئی جاننے والا ڈاکٹر یا نرس ہے جو دو دن مجھے چیک کر لے رازداری سے۔۔ میری موجودگی کی خبر باہر کسی کو نا ہو۔۔ یاد رکھنا میں دوبئی ہوں۔۔میں نے کہا نا ملک جی میں تو خود یہاں پردیسی۔۔ وہ ہنسا اور بولا اچھا میں کرتا ہوں کسی اور سے بات۔۔ کسی اسپتال سے شائد نرس مل جاے ۔۔ جیسے ہی اس نے نرس کہا میرے ذہن میں جھماکا ہوا۔۔ میں نے کہا نرس میل ہو یا فی میل۔۔ وہ بولا فی میل ہو تو بہتر ہے وہ پریشر میں رہے گی اور پیسے لیکر منہ نہیں کھولے گی اسے جان کے ساتھ عزت کا بھی خطرہ ہو گا۔۔میل نرس کا کوئی پتہ نہیں کہاں بک دے۔۔ میں نے کہا ایک نرس ہے تو سہی دیکھتا ہوں اسے اگر آ سکی تو۔۔ہاں کر لو بات۔۔ پیسوں کا مسلہ نہیں بس بندہ رازدار ہو۔۔ میں نے کہا پھر کسی کو میرے ساتھ بھیجیں ذرا دور جانا ہے۔۔ ملک بولا لو میں کیوں بولوں ۔۔ سب کو پتہ ہے تم یہاں کے انچارج جاو جسکو لیجانا لے جاو۔۔ میں باہر نکلا اور ڈبل ڈور والے ڈرائیور کو ساتھ چلنے کا کہا۔۔ وہ بنا کچھ سوال میرے ساتھ چل دیا۔۔ کچھ دیر بعد ڈبل ڈور تیزی سے نرس رابعہ کے اسپتال کی طرف جا رہی تھی

جب میں اسپتال پہنچا کافی وقت ہو چکا تھا۔۔سامنے کاونٹر پر نسرین براجمان تھیں وہی نسرین جو رابعہ کی آپا بنی ہوئی تھی۔۔وہ مجھے دیکھ کر کافی حیران ہوئی اور قدرے شریر انداز میں بولیں رابعہ تو گجرات گئی ہوئی پرسوں آنا اس نے۔۔میں کافی مایوس ہوا اور بولا میرا بہت ارجنٹ کام تھا ان سے وہ ہنس کر بولی جی پتہ ہے مجھے ضروری کام ہی ہوگا۔۔مجھے ایک نرس چاہیے جو مریض کو گھر جا کر سنبھال سکے ۔۔ مکمل گارنٹی میری ۔۔ فیس جو مرضی لے لیں وہ کچھ دیر سوچتی رہیں اور کہا جانا کہاں ہے ۔۔ میں نے کہا لاہور میں ہی ۔۔ وہ بولیں فیس کیادیں گے۔۔ میں نے کہا جو نرس نے کہا۔۔وہ بولیں اس وقت کوئی نرس نہیں ہاں زیادہ ایمرجنسی تو میں خود جا کر دیکھ آتی ہوں اسپتال والوں سے میں کوئی بہانہ بنا دوں گی۔۔۔تھوڑی دیر بعد وہ جب باہر آئیں تو ڈبل ڈور کے لشکاروں سے کافی متاثر ہو کر بولیں میں سمجھی تھی رکشے پر جانا ہے تم تو بڑے آدمی ہو بھئی۔۔انکے لہجے میں رشک تھا ۔۔۔ فیکٹری پہنچ کر وہ حیران ہوئیں اور بولیں یہ تم کدھر لے آئے ہو مجھے۔۔ میں نے انہیں تسلی دی اور ملک خاور تک لے گیا۔۔ انہوں نے پٹی چینج کی خاور کی بد احتیاطیوں سے خون دوبارہ رس رہا تھا۔۔ نسرین واقعی تجربہ کار نرس تھی اس نے بہت اچھے سے کور کیا سب۔۔ پھر خاور کو دوائی کھلا کر سکون سے بیٹھ گئی۔۔ کچھ دیر بعد خاور سکون سے سو گیا ۔میں نے بولنا چاہا تو اس نے چپ کا اشارہ کیا اور مجھے ساتھ لیتی باہر آ گئی اور بولی یہ تو ملک خاور ہے نا۔۔ جیسے ہی اس نے یہ کہا مجھے جیسے کسی نے لٹھ ماری میں بھول چکاتھا کہ اسکا تعلق بھی چکوال سے تھا۔۔ہاں میں اب کیا بولتا۔۔ دوست ہے میرا بس ۔۔میں نے اسے کہانی سنائی۔۔کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وہ بولی تم سے اک ضروری بات کرنی تھی اگر تم اجازت دو تو۔۔ جی بولیں اجازت کیسی۔۔ پہلے یہ بتاو کچھ کھاو گی آپ اور اسکے بتانے پر کچھ دیر میں ہی گیسٹ روم کچن سے ملازم چائے اور سنیکس لے آیا۔۔وہ میرے رکھ رکھاو سے کافی متاثر لگ رہی تھی ۔وہ جھجک کر بولی تم اور رابعہ۔میں چکر ہے مجھے پتہ ہے اور تم بھی یہ بات جانتے ہو۔۔ جی مجھے بتایا تھا اس نے۔۔تم نے رابعہ سے شادی کرنی ہے کیا انکا سوال عجیب تر تھا۔۔ میں نے کہا بلکل نہیں میں کبھی ایسا نہیں کہا بس ہمارا دوستانہ ہے سمجھو ۔۔نہیں مجھے اس نے کچھ نہیں کہا اسےتو پتہ بھی نہیں۔۔ اس نے تمہیں بتایا ہوگا شائد کہ کچھ دنوں پہلے ایک کمپاونڈر اسکے چکر میں تھا اب بھی ہے اس کو سمجھاو کہ شادی کر لے اس سے۔۔ وہ بھی بلکل چھڑا ہے ۔۔ اسکے ساتھ بھی رہ سکتا اور اسکی ساس سسر کو ساتھ بھی رکھ سکتا۔۔ وہ بہت گرم ہے تم جانتے ہی ہو ۔۔اوپر سے تم نے اسے پھر سے لت لگا دی ہے ۔۔اسے سمجھو کچھ ۔۔ انکی بات جائز تھی میں نے وعدہ کر لیا۔۔ پھر مجھ سے پوچھا رابعہ کیسے ملی۔۔میں نے انہیں صاف بتایا کہ ایسے ملی اور اسکی گرمجوشی مجھے اچھی لگی تو دوستی کر لی۔۔ وہ ہنس کر بولیں اور تم نے دوستی کا ذرا لحاظ نہیں کیا اور اسے چیر کر رکھ دیا۔۔وہ پکی کھلی ڈلی نرس تھی اوپر سے عمر بھی چالیس سے اوپر تھی۔۔ میں نے کہا میں جان کر نہیں کیا اسکی تھی ہی تنگ تو کھلنا تو تھا نا۔۔ وہ ہنس پڑیں اور بولیں ویسے سوادی ہے نا رابعہ ۔۔میں نے کہا بہت سوادی وہ بولیں تمہیں پتہ ہے جب تم اسپتال ملے میں اوپر آئی تھی۔۔ اسوقت جو اندر سے اسکی سسکیاں نکل رہیں تھیں نا وہ کمال لطف کی تھیں ایسی سسکیاں تب نکلیتیں جب وہ فل مزے میں ہو ۔۔۔ انکی باتیں میرے لن کو کھڑا کرنے لگ گئیں میں انہیں چلاتا چلاتا گیسٹ ہاوس کے پچھلے کمرے میں لے آیا۔۔اندر ایک سنگل بیڈ اور صوفہ دھرا تھا۔۔وہ کہنے لگیں میری عمر بیالس سال ہے ۔۔ نرس ہوں میں بیس سال سے۔۔ سارے رنگ دیکھے میں نے ایا مزہ کم کم لوگوں سے ملتا ہے ۔۔سنا ہے تمہارا ہتھیار بہت مؤٹا ہے جیسے اسکی پھدی کا حال تھا اس سے یقین بھی ہوتا۔۔ میرا لن انکی باتوں سے فل کھڑا ہو چکا تھا۔۔

جاری ہے

fkniazi555.blogspot.com

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں