Meri Kahani Meri Zubani
Episode 38
میں ششدر انہیں دیکھے گیا۔۔ایکبار تو مجھے سمجھ ہی نا لگی پھر جیسے جیسےسمجھ لگی میرے اندر کی آوارگی کو جیسے انعام ملا ۔۔ملکانی یاملکہ جب نوازے تو اتنا سوچتے نہیں یہ توہین ہوتی ہے انکے کا ملکانی لہجہ جیسے پوری شان سے بولا۔۔وہ مجھ سے بس دو انچ دور تھیں میں کھڑے لن کے ساتھ کھڑا ہوا اور کہا ملکہ یاملکانی جب نوازتی ہے تو گویا اپنا آپ نچھاور کر دیتی ہے۔وہ بولیں پھر یہ بھی سنا ہوگا ملکہ یا ملکانی کے انعام کی قدر یہ ہے کہ اسے کسی جارح کی طرح فتح کیا جائے ۔۔وہ مجھے اکسا رہی تھیں۔۔ میں نے انکی کمر میں ہاتھ ڈالا وہ اور اپنی طر ف کھینچا وہ بلکل میرے ساتھ چمٹیں ۔۔ کھڑےلن نے قلعے کی دیواروں پر دستک دی ۔۔انہوں نے میری کمر کو جکڑا میں نےپورےجسم انکے جسم سے رگڑا۔۔ لن انکی رانوں میں پھسلا اور قلعے کے صدر دروازے کو رگڑتا رانوں میں جا پھنسا۔۔انکی تیز سسکاری نکلی اور انہوں نے رانوں کو جکڑا ۔میں جھکا تپتے ہونٹ انکے شانےپر لگائے اور گردن تک پھیرتے ہوئے کان کی لو تک لے گیا اور سرگوشی کی۔کیسا لگا حملہ آوار کا حملہ آاااہ وہ جیسے کڑک کر بولیں ۔۔ آخری دم تک لڑتی ہوئی ملکانی میں نے جسم کو پھر رگڑا۔
fkniazi555.blogspot.com
۔ انکی بلند سسکی غار میں گونجی باہر بادلوں کی گھرج میں نے انکا ہاتھ پکڑا اور اسے ہتھیار کے پاس جا کر رکھا اور بولا کیسا لگا ہتھیار ۔۔ لن فل اکڑ کر راڈ تھا انکی رانوں میں پھنسا ہوا۔۔انکاہاتھ لن پر لگنا تھا کہ لن نے جھٹکا لیا انکا ہاتھ کانپا ۔۔میں نے تھوڑا پیچھے ہوا اور ہاتھ دوبارہ پکڑ کر لن پر رکھا اور کہا کیسا لگا ہتھیار ملکانی کو ۔۔ ملکانی کا ہاتھ لن پر جما میں نےہاتھ کو جڑ سے ٹوپے تک رگڑا۔۔۔ انکے منہ سے تیز سسکاری نکلی اور بولیں ۔بلکل کسی پرانے زمانے کے حملہ آور کی طرح سخت بہت سخت جو ملکانی کے انعام کا حق ادا کر سکے جوملکانی کو نڈھال کر دے اسے تھکا مارے ۔۔ انکے لہجے میں صدیوں کی پیاس تھی جیسے ۔۔ باہر تیز بارش ہو رہی تھی اور اندر طوفان مچنے کو تھا۔۔ میں نے ہاتھ بڑھایا اور انکے بوبز پر رکھا اور کہا کہا یہ چوٹیاں فتح کرنی کیا اونچائی انکی ۔۔ میں نے ہاتھ انکے سینےپررکھے ۔۔ انکا جسم کانپا اور بولیں اڑتیس تو کر لو نافتح روند ڈالو نا۔۔۔وہ مجھے اکسا رہیں تھیں اور وہ نہیں جانتی تھیں کہ کسے اکسا رہی تھیں ۔یا شائد میں نہیں جانتا تھا اس بار کس سے لن لڑا بیٹھا تھا
میں نے ہتھیلی انکے سینے پر رگڑی اور بوبز کو دبایا اففف انکی اکڑ اور نرمی میرے ایسے دبانے سے انکی گرم سانس میرے چہرے سے ٹکرائی میں نے وحشیوں کی طرح ہاتھ اوپر سے اندر کیا ہاتھ انکے دائیں مومے کو رگڑتا نپلز تک گیا میں نے دو انگلیوں کی قینچی میں نپل کو لیا اور اسے شدت سے مسلا اففف یہ جیسےانہیں بھڑکا گیاانکا ہاتھ میرے ہتھیار پر مضبوط ہوا اتنی ہی شدت سے۔۔میرا ہاتھ دائیں مومے سے بائیں تک آیا ۔۔ برا کی قید کے اندر تنے بوبز میری انگلیاں بہک رہیں تھیں ۔۔میں نے انکی شرٹ کو پکڑا اور ہتھیار سے انکے ہاتھ اٹھا کر شرٹ کو اتارا وہ جیسے میری اس گستاخی سے تڑپیں اور اسی شدت سے میری شرٹ کے بٹنوں کو کھینچ کر کھولا اب جیسے یہ ملکانی کے بدن اور وحشی کے بدن کا مقابلہ تھا کون تھکا مارتا۔۔ایک تجربہ کار بارعب ساحرہ اور ایک جوان کھلاڑی کا ۔۔میرے بٹن کچھ ٹوٹے کچھ کھلے انہوں نے کھینچ میری شرٹ اتار پھینکی انکی سانسیں تیز تھیں ۔۔ چودائی کا اکھاڑہ سج چکا تھا میں نے انہیں کھینچا ننگے بدنوں کا ٹکرا ہوا۔۔ پیٹ سے پیٹ شانوں سے شانے اور سینے سے سینے ۔۔ پورے زور سےساتھ بھنچا آااااہ انکی سسکی نکلی میں نے ہونٹ بےتابی سے انکے شانے پر پھر پھیرے اور ہاتھ ننگی کمر پر انہوں نے میرے کلاوے میں زور مارا۔۔۔ انکا جسم جیسے تڑپا انکے جسم کی رگڑ جیسے تباہی ۔میں نے ہاتھ انکے بریزئیر میں ڈالا بیک سٹریپ کو کھینچا اور ہلکا سا چھوڑا ۔۔ سٹریپ انکی کمر سےٹکرایا یہ تشدد آمیز سلوک انہیں جیسے جنونی کر گیا انہوں نے میرے شانے پر بائٹ کیا اور سینے کو جیسے کھرونچا مارا آاااخ دوور تک سناٹے میں انکی یہ آااہ گونجی ۔۔
میں نے برا کو کھینچ اتارا۔انہوں نے ہتھیار کے گرد رانوں کو سخت کیا جیسے ہتھیار کو توڑ دینا ہو میں نے انہیں اچانک بازووں میں پیچھے کیا انکا چہرہ ہلکا پیچھے سینہ ابھر کر سامنے میں نے ننگے بوبز پر ہونٹ جماے اور ہونٹوں میں بھر کر زوور سے چوسا ۔۔۔ آاااااا انکی تیز چیخ نکلی۔۔ میں نے دو چار بار جگہ بدل بدل کر چوسا ۔۔۔ وہ میرے بازووں میں پھڑکیں انہوں نے اوپر ہو کر مجھےدھکا مارا۔۔ میں پیچھے تھڑے کے قالین پر گرا۔۔وہ اوپر سے حملہ آور ہوئیں اور بے تابی سے گرم ہونٹوں کو میرے سینے پر پھیرنے لگیں انکی گرم آہیں سسکیاں گونج رہیں تھیں جیسے دو جنگجو لڑتے ہوے چیختے۔ میں نے ہاتھ انکی ہپ پر رکھا مٹھی بھر کر دبایا ۔۔۔ افففف انکی گانڈ کا لمس ۔۔ وہ تڑپ کر جھکیں اور میرے ہونٹوں پر ہونٹ جمائے ۔۔ میں انہیں اوپر سے نیچے لایا اور جوابی اوپر ہوا۔۔ ہونٹوں میں ہونٹ ایک دوسرے سے گھتم گھتا میں نے انکے نچلے لب کو لبوں میں جکڑا اور ٹافی کی طرح چوسنے لگا۔۔وہ مچل رہیں تھیں انکے بوبز میرے سینے سے رگڑ کھا رہے تھے۔۔ وہ مجھے لیتی واپس اوپر آئیں ہماری زبانیں آپس میں ٹکرا رہیں تھیں گھومتے گھماتے ہم تھڑے کے اینڈ پر جا چکے تھے دیوار کے ساتھ ۔۔ وہ میرے اوپر تھیں جب میں نے کمر سے ہاتھ سیدھا انکی شلوار میں ڈالا۔۔میرے ہاتھ کا لمس انکی ہپ سے نیچے تک گیا ۔یہ گستاخی تھی ملکانی بپھری اور اوپر سے میرے ساتھ نیچے آئی ۔۔میرا ہاتھ وہیں اندر سے انکی ہپ سے سامنے آیا ۔۔ بلکل قلعہ کے دروازے پر۔۔
میرا ہاتھ پھدی پر جما اور میں نے اسے دبایا ۔۔ آااااہ سسسسا ففففففف انکی بلند سرگوشیاں۔۔ انکا ردعمل سب سےجدا تھا۔۔انہوں نے لیٹے لیٹے میرےٹراوزر کو کھینچا ۔۔ اور کھسکایا ۔۔ لن تڑپ کر باہر آیا۔۔ انہوں نے ہاتھ سے پکڑا اور دبا کر پورے ہتھیار کوچیک کیا افففف بہہت تگڑا ہے یہ تو انہوں نے سسک کر کہا۔۔ میرےہاتھ نے پھدی کو رگڑا صدر درازہ بھیگ چکا تھا میرے ہاتھ کی رگڑ نے انہیں اور دہکایا ۔۔ میں نے درمیاں والی انگلی کو قلعے کو جاتے راستےپر رگڑااااااف راستہ آگ اگل رہا تھا۔۔ جیسے جو ادھرآیا جلا دے گا اسے۔۔میں تڑپ کر اٹھا انکے اوپراور اپنی شلوار کو مکمل اتاردیا۔۔ انکے بےتابانہ ہاتھ میرےجسم کو ٹٹول رہے تھے انکی پھنکاریں سسکیاں مجھے اکسا رہیں تھیں میں نے شدت سے انکی شلوار کو کھینچا اور اسے اتارتا رگڑتا واپس تھڑے کےآغاز تک لایا
ہتھیار جھوم رہا تھا۔۔میں انکی ٹانگوں کو کھولا وہ تڑپیں۔۔ جھکا اور انکے نپلز کو چاٹا اور ٹوپے کو پھدی کے دروازے پر جمایا۔۔ افففف جیسے ہی ننگا ٹوپہ انکی پھدی سے لگا انکی آااااہہہہہ نکلی میں نے سختی سے دبایا اور رگڑا۔۔ وہ جیسے بے حال ہوئیں پھدی نے جوابی لن کے ٹوپے کو جکڑنا چاہا میں نے دھکا مارا۔۔ٹوپہ پھدی کی دیواروں کو کھولتا چیرتا اندر گھسا اور جا پھنسا۔۔ چکنی پھدی کی مزاحمت کمال تھی وہ پوری شدت سے لن کو دبا رہی تھی جیسے آگے جانے سے روک رہی جیسے اسے وہیں نڈھال کرنے کا ارادہ ہو۔۔میں ذرا سا رکا ۔۔تھوڑا سا گھوما ٹوپہ اندر گھوما اور میں نے زور کا دھکا مارا۔۔۔ میں زور سے انکی طرف جھکا انکا بدن ایک تیز آااااہ کےساتھ قالین پر کھسکا۔۔ لن آدھا اندر گھس چکا تھا۔۔ انکا بدن اوپر نیچے کو تڑپا۔۔ انکی پھدی کافی ٹائیٹ تھی آدھا لن پھنس چکا تھا ۔۔میں نے ٹانگوں سے پکڑ کر انہیں اپنی طرف کھینچا۔۔۔ لن فل جڑ تک اندر گھسا اور انکا جسم جیسے تڑپا انہوں نے زور سے ہاتھ میری گانڈ پر مارا اور ناخنوں سے کھرچ لیا۔۔ یہ ملکانی ہی تھی جو یہ دھکا سہہ گئی تھی۔انکی ایک وحشی چیخ نکلی۔۔میں ایک لمحہ رکا اور فل باہر نکال کر فل اندر مارا جڑ تک۔۔۔ ٹوپہ اپنی موٹائی اور لن فل لمبائی سے اندر جا لگا۔۔وہ آااااسسسسس سسکیں۔۔ میں انکے اوپر جا گرا۔۔ ہونٹوں کو چوسا۔۔ ہتھیار اندر جا چکا تھا میں نے سرمچو چلانا شروع کیا ۔۔ ہلکا ہلکا گھماو۔۔ ٹوپہ اندر دیواروں کو رگڑ رہا تھا۔۔ اور وہ چلا رہی تھیں۔۔ آاااہ یسسسس اووووووووہ ہر جھٹکے پر انکی بلند سسکیاں غار میں گونج رہیں تھیں۔۔ میرے جھٹکوں سے انکا بدن اٹھتا تڑپتا اور انکی آاااااہ یسسسسسسس کی آوازیں مجھے اور وحشی کررہی تھیں
ملکانی کا انگ انگ چوس رہا تھا انکی سسکیاں انکی آوازیں وہ جھٹکا ماریں اور میرے اوپر آئیں۔۔ اوپر سے ٹوپے پر بیٹھیں اور بلند آااااہ کے ساتھ ملکانی نے جوابی زور مارا جیسے ہتھیار کو پھنسا کر توڑنا ہو۔۔ پورے زور سے وہ جڑ تک آئیں ۔۔ اففففف انکا یہ انداز جیسے مجھے دہکا گیا۔۔ پھدی لن کو گرفت میں لیکر تیزی سے نیچے آتی اور پھر اوپر جا کر وہ پھر ایک بلند آاااااااہ کے ساتھ جڑ تک آتیں۔پورا لن اندر تک جاتا اور تیزی سے باہر آتا اور پھر جاتا۔۔ وہ جیسے لن کو سزا دے رہیں تھیں اسکی اکڑ کو توڑ کر جیتنا چاہتی تھیں انکی طوفانی اٹھک بیٹھک اور بند سسکیاں۔۔انکی پھدی کی لرزش اور ٹوٹ ٹوٹ کر نکلتی ہوئی آہیں بتا رہیں تھیں کہ بس وہ گرنے کو میں انہیں لیتا پھر نیچے لایا اور اسبار انکی ٹانگوں نے میری کمر کے گرد قینچی مااار لی۔ آااااہ سسسسسس۔۔ یسسسس افففففففف آاااہ انکی سسکیاں تھیں اور انہوں نے قینچی سخت کی۔۔ میرے دوسرے طوفانی جھٹکے سے جیسے انکا بدن لرز اٹھا پھدی نے جھٹکے لینےشروع کیے اور تیز مست سسکیوں کے ساتھ وہ ڈسچارج ہونے لگیں افففف انکی پھدی سے جیسے آتش فشان پھوٹا ۔۔ جانے کب کا رکا ہوا۔۔انکا گرم پانی لن سے ٹکرا رہا تھا میں بھی بس گرنے کوتھا ۔۔ میں نے تھوڑا اوپر ہو کر اوپر سے سیدھے دو چار دھکے مارے اور انکے اوپر گرتا ہوا جیسے نڈھال ہوا۔۔ لن سے پچکاریاں انکی پھدی کو بھر رہی تھیں ۔۔ ایک مدہوشی کا عالم تھا
کچھ دیر ایسے پڑے رہے پھر ملکانی تڑپ کر اٹھی اور میرے اوپر گر کر مجھے بے تحاشا چومنے لگیں کاندھے سینہ چہرہ ماتھا۔۔ افففف شششکریہ وحشی ۔۔ ملکانی کو پورا کر دیاتم نے انکی آواز میں لوچ تھا۔۔وہ بےتاب چوم چوم کر بولنے لگیں تم واقعی قدر دان ہو۔۔ تم نے ملکانی کو فتح کر لیا پسپا کر دیا۔ انکی سرگوشیاں میں نے انہیں نرمگیں سے ساتھ لگا لیا۔۔کافی دیرایسے مدہوش پڑے رہے۔۔ باہر بارش رک چکی تھی۔۔اندر بھی طوفان تھم چکا تھا۔۔ میں مدہوش لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور باہر کا جائزہ لیا آدھی رات کےآس پاس وقت تھا ہر طرف سکون تھا۔۔ میں اندر آیا ملکانی نے خمار آلود میں ویسے ہی لیٹے پوچھا طوفان تھما۔۔ ہمممم وہ بولیں اب اسے تھمنا ہی تھا ۔یہ طوفان آیا ہی اسلیے تھا۔۔ آپکو اب شرمندگی ہو رہی میں نے جھجک کر پوچھا۔۔ نہیں ملکانی یا ملکہ نواز کر شرمندہ نہیں ہوتی۔۔ملکانی تم پہ بہت خوش بہت خوش وہ میرے ساتھ لگ کر بولیں۔کچھ دیر بعد وہ اٹھیں کپڑے پہنے اور کہا چلو ابھی نکلتے ہیں۔۔ میں انکو ساتھ لگائے سہارا دیا۔۔ انکا پاوں آرام سے یا گرمی سے کافی بہتر ہوچکا تھا۔۔ ادھر ادھر بھٹکتے کے بعد ہم آخر پکی سڑک تک پہنچے۔حویلی جاکر کیا بتانا انہوں نے مجھے پوچھا۔۔ ملکانی بتاے میں تو چپ رہنا بس۔۔گڈ شہزادہ وہ مسکرائیں اور مجھے سمجھانے لگیں کیا بولنا۔۔جب گاوں کی حد شروع ہونے والی ہوئی تو وہ پھر بولیں۔۔یہ راز خود سے بھی چھپانا ورنہ خود میرا بھتیجا اور وڈے ملک صاحب ہم دونوں کو زندہ گاڑ دیں گے
میں نے کہا جانتا ہوں آپ بےفکر رہو۔۔ اب تو آپ میری میڈم کے ساتھ ساتھ ملکانی بھی ہو ہیں نا۔۔ ہاں تمہاری ملکانی ہوں لیکن سب کے سامنے وہاں نہیں ۔۔ تو وہاں بس میڈم بننا ۔۔ ملکانی بس ایک رات ہی نوازنا۔۔۔ وہ چپ رہیں اور کہا بتا دونگی ۔۔
جب ہم حویلی پہنچے حویلی صرف بابا خادم اور کچھ نوکرانیاں تھیں۔۔۔پتہ چلا کہ ملک نواز اور خاور سے کچھ دیر پہلے ہو سکا وہ واپس آ ہے ہیں۔۔ دکھ بھری خبر یہ تھی کہ وہ ڈرائیور جو میرے ساتھ گاڑی چلا رہا تھا شدید زخمی حالت میں چکوال ایڈمٹ ہے۔۔باقی لوگ ڈیرے اور اسکے آگے پکھی واسوں کے تعاقب میں ہیں ۔۔ملکانی سیدھے اندر چلی گئیں اور میں اسی کمرے میں پلنگ پر جا گرا۔۔ ملکانی کا غار والا روپ میرے لیے انوکھا تھا۔۔میں نے بہت عورتوں کو مخصوص حالات میں بہکتے دیکھا تھا۔۔ وہ صرف میرے دبانے سے بہکتیں تو اور بات تھی ۔۔۔۔ لیکن انکا ملکانی بن کر نوازنا اوور پھر انکا وہ وحشی انداز ۔۔ انکا میرے برابر کا مقابلہ کرنا ۔۔سب حیرت انگیز تھا۔۔ انکی بلند سسکیاں اگر ویرانہ نا ہوتا تو یقینا دو کمروں تک تو لازمی جاتیں۔۔ میں ہلکی اونگھ میں تھا جب باہر گاڑیوں کے رکنے شور مچنے کی آوازیں گونجیں ۔۔ میں نے کھڑکی سے جھانکا ملک نواز اور خاور بپھرے واپس لوٹ چکے تھے۔۔کچھ دیر بعد میں انکے سامنے تھا۔۔۔ ملک نواز کافی دیر مجھے گہری نظروں سے دیکھتا رہا میرے چہرے پر فل معصومیت طاری تھی پھر وہ مسکرایا اٹھا اور میرے قریب آ کر مجھے تھپکی دی ۔۔اور بولے تمہارا شکریہ لڑکے تم نے ملکانی کی مدد کی تمہارا احسان ہے ہم پر ۔۔ پھر سرگوشی سےبولا ملکانی کے اتنی دیر گم رہنے کا بابا خادم اور چند ایک کے علاوہ کسی کو نہیں پتہ ۔۔ تم کو بھی نہیں پتہ سمجھے نا ۔۔ ملکانی اپنے گھر تھی جب ڈیرے پر حملہ ہوا۔۔میں نے انہیں مکمل تسلی دی ۔۔وہ میرا کاندھا تھپکتے باہر کو نکل گئے ۔۔ خاور دوستانہ انداز میں آگے آیا اور باقاعدہ میرا شانہ چوم کر بولا تایا جی کا مزاج ایسا ہی ہے تم دل پر نا لینا ۔۔۔ ہم تمہارے مقروض ہیں۔۔میں نے جوابا اسے ڈائیلاگ مارے کہ یہ میرا حق تھا وغیرہ وغیرہ۔۔۔اگلے دن میری ملاقات ملکانی سے ہوئی۔۔مجھے باقاعدہ بلاوا آیا تھا۔۔ ملک نواز اور ملک خاور ڈیرے کا جائزہ لینے گئے تھے حویلی میں آج تناو کا عالم تھا پہرہ سخت تھا جب بابا خادم میرے پاس آیا اور مجھے بولا ملکانی جی نے آپکو یاد کیا میں اسکے ساتھ چلتا ہوا حویلی پہنچا ۔۔ ملکانی سامنے لاونج میں بڑی شال اوڑھے بلکل سنجیدہ بیٹھیں تھیں ۔۔ بلکل عام سے انداز میں انہوں نے حال احوال کے بعد کہا کہ وہ ابھی کچھ دن یہاں رکیں گی تم جیسا کہو گے ویسے تمہیں بھجوا دیا جاے گا۔۔مجھے انکی مجبوری کا علم تھا میں بھی سنجیدہ انداز میں کہا پھر میں کچھ دیر تک نکل جاتا ہوں شام تک پہنچ جاوں گا آرام سے۔۔۔ ملکانی نے بابا خادم کو پاس بلایا اور اسے ہلکی آواز میں کچھ ہدایت دی۔۔بابا خادم سر ہلاتے چلا گیا ۔۔ اب وہاں ہم دو تھے۔۔ کیسی ہیں پاوں کیسا میں نے موقع دیکھ کر سرگوشی کی۔۔ انہوں نے منہ دھیان عام لہجے میں خاص بات کی پاوں تو ٹھیک ہے لیکن۔۔ کیا لیکن میں نے پوچھا۔ لیکن ساری کمر چھل سی گئی میری ۔۔ بہت بری طرح رگڑا قالین پہ تم انکی سرگوشی نے مجھے کمینی خوشی دی۔۔تو مساج کروا لیں۔۔نہیں وہ فورا بولیں تم سے تفصیلی بات ہو گی کبھی اب تم جاو ۔۔بابا خادم تمہیں لاہور والی گاڑی تک بحفاظت پہنچا دے گا۔۔اور یوں میں لاہور کو واپسی نکل آیا۔۔ سارے راستے میں سوچتا رہا کہ اب میڈم کا کیسا رویہ ہو گا واپس کالج آ کر
شام کے آس پاس میں شاہدرے پہنچا آنٹی کے گھر پہنچا انکل کی طبیعت کافی بہتر تھی ۔۔ دلاور واپس آ چکا تھا لیکن آپسی تناو موجود تھا۔۔ عمبرین مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئی ۔۔ سب کے سامنے سرکار کی بس زیارت ہی ہو سکی ۔۔وہاں سے اٹھ کر میں ناصر کے گھر گیا۔۔ ناصر مجھے دیکھ کر بہت خوش ہو گیا ۔۔ کومل واپس آ چکی تھی اور بہت کھلی کھلی نظر آ رہی تھی ۔۔ پتہ چلا ارجنٹ پاسپورٹ بن کر آ چکا ہے اور ویزے کا انتظارہے بس کچھ دیر بعدانکل اور آنٹی کھسکے تو کومل بولی ناصر نے مجھ بتایا تھا تمہاری کوششوں کا تمہارا میں کس منہ سے شکریہ ادا کروں۔۔میں نے کہا اسی منہ سے ناصر تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا ۔۔میں نے کومل کو آنکھ ماری اور کہا میرا مطلب ہے اتنا خوبصورت چہرہ آپکا تو کریں پھر شکریہ ادا پھر کہاں آپ نے ہاتھ آنا۔۔ میرا جملہ ذومعنی تھا کومل کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور وہ بولیں ہاں شکریہ تو لازمی ادا کرنا انہوں نے اسی ٹون میں جواب دیا
خالی شکریہ نہیں چلے گا ناصر نے نعرہ مارا ٹریٹ دیں ہمیں کیوں نعیم بھائی اس نے مجھ سے تائید چاہی۔بلکل ایک زور دار بارہ مصالحوں والی ٹریٹ بنتی ہے ہم ذومعنی بات کر رہے تھے۔۔وہ مجھے گھور کر بولیں ٹریٹ تو ایسی ملے گی کہ کیا یاد کرو گے۔۔ ڈن ہوا نائلہ کو بتاتا میں۔۔پھر کرتے کچھ ملکر اگلے ہفتے کےاندر اس نے جانا تھا ناصر نے وہیں پی ٹی سی ایل کھڑکایا اور کچھ دیر بعد چہکتا ہوا بولا ڈن ہو گیا۔۔ نائلہ نے کہا بتاتی ہوں کچھ دیر تک
وہاں سے ناصر مجھے گلبرگ چھوڑ آیا۔۔کافی دنوں کے بعد سکون سے گھر آ کرجو لیٹا تو صبح آنکھ کھلی۔۔اگلی صبح میری آنکھ ڈور بیل بجنےسے کھلی ۔۔ میں نے وقت دیکھا ساڑھے سات ہونے والے تھےمیں آنکھیں ملتا اٹھا اور دروازہ کھولا یہ بیلا تھی شکر ہے آ گئے میں تو بوریت سے مر رہی تھی اس نے اپنے شانے کو میرے بازو سے ٹکراتے ہوے کہا۔ چلو جلدی سے تیار ہو جاو مجھےپتہ تھا سوئے پڑے ہوگئے اسلیے جلدی آ گئی جب میں فریش ہو کر چینج کر کے واپس آیا تو جیسے معجزہ ہو چکا تھا اپنے بیگ میں ساتھ لائے ٹوسٹ آملیٹ کےساتھ چائے بنا کر ناشتہ تیار کر چکی تھی۔۔ یاخدا یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں بیلا اور گھر کے کام۔۔اسے نے مسکرا کر کہا تو حیرت کیسی لڑکی ہو تو کب تک نا سیکھتی ۔۔اس میں بہت تیزی کے ساتھ چینج آ رہا تھا۔۔اس نے میڈم کا پوچھا تو میں بہانہ کر دیا کہ وہ کچھ دن بعد آئیں گی ۔۔ اگلے دو تین دن بہت ٹف گزرے۔۔ گیمز کے بعد اب میں پڑھائی میں بیلا کے زیرعتاب تھا تین چار گھنٹے سنجیدہ پڑھائی۔۔چوتھے دن میڈم واپس لوٹیں ہم دونوں انہیں دفتر ملنے گئے میڈم بیلا سے تو کافی کھل کر ملیں لیکن مجھ سے ذرا سنجیدہ ہی رہیں اور بتانے لگیں کہ خاور آیا ہے انہیں چھوڑنے وہ سوچ رہا یہاں کوئی بزنس سٹارٹ کرے تمہارا پوچھ رہا تھا بلکہ اگر ہوسکے تو تم شام کا پروگرام بنا لو کچھ ۔۔ شام کو میڈم میں ملک خاور اکھٹے تھے
ملک خاور لاہور میں کنو پروسینسگ یونٹ لگانا چاہتا تھا ۔۔ باتوں باتوں میں ملک خاور نےمجھ سے نیکسٹ ارادے پوچھے میں نےکہا کچھ خاص نہیں کالج کےبع نوکری اور کیا۔۔خاور کچھ دیر سوچتا رہا اور بولا ایک سپر آفر ہے اگر تم غور کرو تو۔۔ میرے پاس گاوں کے بھی ہزار کام ہیں اور یونٹ بھی لگانا۔۔ تم میرے ساتھ آ جاو نوکری تو کرنی ہی ہے نا ۔اسکی آفر حیران کن تھی ۔۔ لیکن میں کیوں مجھے تو کچھ پتہ بھی نہیں اور پڑھ بھی رہا۔۔ میڈم چپ ہماری باتیں سن رہیں تھیں۔۔۔ ملک خاور بولا اسکی دو وجہ ہیں نمبر ایک تم واقف ہو چاچی ملکانی کے دوسرا تمہارا ہم پر احسان ہے تم قابل بھروسہ ہو ۔۔ تیسری بات پڑھائی کرو یونٹ لگتے وقت لگنا اور کام تمہیں سکھا دیں گے تم نےکونسا خود کرنا کچھ مینجمنٹ بھی کرنی اور آخری بات ویسے بھی یہ فیکٹری چاچی ملکانی کی ہے انکے سرگودھے والے باغوں کےکینو ۔۔ میں نے میڈم کو دیکھا تو وہ سنجیدہ لہجے میں بولیں خاور سہی کہہ رہا ہے سمجھو تمہیں دوران تعلیم جاب کی آفر ہے ۔۔ بولو کرو گے میری کمپنی میں جاب وہ ظاہرا پوچھ رہیں تھیں لیکن انکا انداز کہہ رہا تھا کہ خبردار جو نا کی ملکانی جاب دے رہی نواز رہی ۔۔میں کچھ دیر چپ رہا۔۔ میرا اپنا مطلب بھی تھا میں خود کچھ ایسا کرنا چاہتا تھا کہ کما سکوں تاکہ عمبرین کو اپنا سکوں۔۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں تیار ہوں ۔۔ ملک خاور خوش ہو کر بولا بس گڈ ہوگیا اب۔۔ بنی بنائی فیکٹری خریدی رہےہیں کل وزٹ کرتے ہیں۔ واپسی پر میں بہت خوش تھا جب تک سب ڈن نا ہوتا بیلا کو تب بتانےکا فیصلہ کیا
اگلے دن شام کو ملک خاور مجھے لاہور سے باہر ٹھوکر نیاز بیگ سے آگے فیکڑی سائٹ پر لے گیا۔۔ وہاں اس نے مجھے ہلکاپھلکا سمجھایا ان لوگوں کا ارادہ سرگودھا کے کینو کو باہر بھیجنے کا ہے کینو کے سیزن کے بعد گندم چاول و دیگر اجناس وہ لوگ ایک برانڈ بنا کر باہر کی مارکیٹ میں نام بنانا چاہتے تھے یہ ملکانی کا آئیڈیا تھا جسکےپیچھے اصل مقصد خاور کو بزی کرنا اور گاوں سے نکالنا تھا۔۔میرے ذمہ آغاز میں بس آفس مینجمنٹ تھی وہاں سے واپس آکر خاور کو نکلنا تھا وہ مجھے ٹھوکر اتارتا موٹر وے چڑھ گیا اور میں رکشہ پکڑ کر واپسی کو ۔۔ گھر پہنچے ابھی کچھ دیرگزری تھی جب ناصر نمودار ہوا۔۔اسکا چہرہ خوشی سے کھلا جا رہا تھا۔۔پوچھنے پرپتہ چلا کہ تین دن بعد کومل کی روانگی ہے ٹکٹ ویزہ ہو چکا ۔اور کل اسکی طرف سے ٹریٹ ہے ۔۔ناصر کے ابا اور اماں کومل کی موجودگی میں کسی کام سے فیصل آباد جا رہے تھے ۔پارٹی کا مقام انکا گھر ہی طئےپایا تھا۔۔اگلے دن کالج میں وقفے کے دوران میں نے بیلا سے جاب کا ذکر کیا ۔ پہلے تو وہ بہت حیران ہوئی پھر غصہ کیا اسکے بقول مجھے ابھی بس پڑھنا چاہیے تھا لیکن لمبی بحث کے بعد اور اس وعدے کے ساتھ میں پڑھائی کا حرج نہیں ہونے دوںگا مجھے اس نے اجازت دے ہی دی اب میں ڈبل بلکہ ٹرپل خوش تھا۔۔جاب وہ بھی ملکانی کی فیکٹری میں۔۔عمبرین سے ممکنہ ملاقات اور اس سے اگلا پلان اور رات کی پارٹی
شام کو میں سیدھا ناصر کے گھر پہنچا ۔۔ انکل آنٹی جا چکےتھے۔کومل کچن میں سپیشل کڑک بریانی بنا رہی تھی ناصر بازار سے کچھ لینے گیا ہوا تھا نائلہ اپنے کمرے میں کسی کام میں مصروف تھی ۔۔ کومل مجھے دیکھ کر کھل اٹھی اور بولی دیکھو بنا رہی ہوں مصالحے دار بریانی۔میں انکے قریب کھسکا اور کہا لیکن مجھے تو اس جوانی کے مصالحے چکھنے تھے پھر کہاں ہاتھ آنا آپ نے وہ شرما کر بولیں وہ تو ٹھیک ہے لیکن نائلہ اور ناصر۔۔میں نے کہا تو آپ دونوں کیا ایک کمرےسونا میں چپکے سے آ جاوں گا نا پلیز میں انکے ساتھ لگا ۔۔ وہ بولیں اچھا شہزادے مذاق کر رہی تھی میں تو خود تمہیں بہت پیار سے ملنا تھا شکریے والا۔۔وہاں سے میں نائلہ کو دیکھ لوں کہتا کھسکا اور نائلہ کو آواز دیتا اسکے کمرے میں جا گھسا۔۔ وہ الماری کھولے سیٹنگ میں مصروف تھی اس رات سے ہمارے درمیان دوستانہ بہت بڑھ چکا تھا۔۔میری نظر اسکی نکلی ہوئی گانڈ اورپتلی کمر پر پڑی ۔۔اسکا لمس یاد آیا تو لن نے انگڑائی لی لیکن چونکہ اس سے وعدہ تھا کہ تنگ نہیں کرنا تو مستی سے رک گیا ۔۔ حال احوال کے بعد میں بولا اگر آپ چاہو تو کومل کا لائیو سین دیکھ سکتی ہو وہ ہنسیں اور بولیں مجھے اندازہ ہو رہا تھا۔۔لیکن ایک مسلہ ہے اسے میں۔۔وہ کیا ۔۔ وہ تھوڑا شرماتے ہوے بولی ایسے میرا دل بھی کر جاتا ہے نا۔۔میں ہنسا تو بولا تو پھر نا دیکھیں۔۔وہ چپ خاموش رہیں اورکہا چلو سوچیں گے نا۔
کومل واقعی اچھی کک تھی اسکی بنائی بریانی نے پسینے چھروا دیے بعد میں آئس کریم بھی تھی۔۔ کھانے کےبعدناصر فورا چائے چائے کے نعرے مارنےلگا ۔ میری اور کومل کی نظریں ملیں اور وہ اٹھ کر چائے بنانے چلی گئی ۔۔تب نائلہ میری طرف جھک کر بولی ٹھیک ہے تم اپنا پلان کرو میرا موڈ ہوا تو میں سوچوں گی۔چائے کے بعد کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں جب حسب توقع ناصر نے بھاری جماہی لی اور کہا یہ کھانے کا نہیں چائے 😜 کا اثر تھا۔۔میں بھی اٹھا اور کہا چلو یار مجھے بھی نیند آ رہی ۔۔ہم دونوں کمرے میں آ گئے ۔۔کچھ دیر تک ناصر منہ کھولے گہری نیند میں تھا۔۔شائد گھنٹہ گزر چکا تھا جب دروازے ہلکا سا چرچرایا اور دبے قدموں کومل اندر آئی اور مجھے اشارہ کیا ۔۔کچھ دیر کے وقفے کے بعد میں اٹھا اسکے پیچھے چلتا ہوا اسکے کمرے میں۔۔ اس نے فورا دروازہ اندر سے لاک کیا اور میرے گلےلگ گئی۔۔۔ افففف جیسے ہی اسکا جسم میرے ساتھ لگا گویا دوتاروں کا آپسی کنیکشن ۔۔ کرنٹ دوڑنے لگا ۔ انکا دل تیز دھڑک رہا تھا ۔۔ کیا ہوا اتنی دھڑکن کیوں تیز میں نے سرگوشی کی ۔۔ ویسے ہی ناصر سو گیا ہممم میں نے اسے چوم کر کہا اور نائلہ وہ تو سر باندھے کب کی سو چکی اس نے ہلکا سا ہنس کر کہا۔۔ تو اتنی دیر کیوں لگائی پھر وہ میرے ساتھ لگ کر بولی بریانی مصالحوں اور دھنیے کی خوشبو سے بچانے کے لیے بالوں کے بنا گرم پانی سے ہلکا جسم صاف کیا میں نے۔۔ انکے پاس سے واقعی پیاری خوشبو آ رہی تھی۔۔وہ میرے ساتھ بیڈ پر بیٹھیں اور بولیں واقعی نعیم تم نے بہت بڑا کام کیا ہے ۔۔میں تمہیں بہت یاد کرونگی میں نے انہیں ساتھ لگایا اور کہا میں بھی آپکو یاد رکھوں گا آپ سے دوستی میرے لیے بہت یادگاری ہے۔۔ وہ میرے ساتھ لگیں اور بولیں بس تمہارے ساتھ ایکبار کرنا ہے مزے والا۔۔ میں انہیں ساتھ لٹایا اور ان پر جھکتا چلا گیا ۔۔ انکے ہونٹوں کو چھوتا انکے گالوں کو چومتا انکے بالوں کو سہلاتا۔۔ وہ گرم سانسیں لیتے ہوے بولیں تم بہت مزے کے ہو جو بھی تمہاری بیوی بنے گی وہ بہہت خوش رہے گی ۔۔میں انکے اوپر لیٹ کر جسم کو رگڑنے لگا وہ نہیں جانتی تھیں لیکن میں جانتا تھا کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے تو اچھی پرفارمنس ضروری تھی۔۔
میرے بہکے ہاتھ انہیں مست کر رہے تھے وہ ادھر ادھر ہاتھ پاوں مار رہی تھیں۔۔میں انکے بوبز پر ٹوٹ پڑا یہ بوبز ہی تھے جن کو سب سے پہلے دیکھا تھا اور ہمارے درمیان فرینکنس بڑھی تھی۔۔ اففف یہ آپکا فگر دل کرتا چوس چوس جاوں وہ میری دیوانگی پر ہنسیں سینہ ابھار کر بولیں تو ٹوٹ پڑو نا۔۔میں نے انکی شرٹ کے دامن کو پکڑا انہوں نے ناز سے بازو بلند کیے اندر سے بلیک برا میں گورے بوبز چمکے ۔۔ میں کسی دیوانے کے طرح بوبز پر ٹوٹ پڑا اور انہیں بری طرح چوسنے اور کھیلنے لگا انکی بھاری کلیویج میرے چوسنے سے لال لال ہو چکی تھی اور انکی مست آہیں بلند ہو رہی تھیں
کسی سانپ کی طرح میری باہر کو نکلی ہوئی زبان کی نوک انہیں جگہ جگہ سے چھو رہی تھی اور انہیں جیسے ڈنک لگتا ہو وہ اچھلتی تڑپتیں میں نے برا کو ہٹا کر دونوں بوبز کو ہاتھوں سے ایسے ملایا کہ دونوں نپلز بہت قریب آگئے میں نے انہیں ڈنک مارنا شروع کیا انکی آنکھیں بند اور مدہوشی والی حالت تھی ۔۔میرا لن راڈ ہو چکا تھا میں نے ٹراوزر کو اتارا اور ہتھیار پر پاتھ رکھ کر اسکا جائزہ لیا ۔۔ میرا لن مکمل سیدھا ٹوپہ اپنی شان سے جگمگا رہا تھا اگر اسوقت نائلہ دیکھ رہی ہے تو یقینا وہ پہلی بار کھل کر دیدار کر رہی تھی میں دو چار قدم چل کرپوری کیٹ واک کی جیسے اور واپس پلٹ کر انکے بوبز میں لن کو پھنسا کر تھوڑا رگڑا وہ گرم سانسوں سے بس سسکاریاں بھرے جا رہیں تھیں میری حرکتیں انہیں اور دہکا رہیں تھیں وہ تڑپ کر بولیں ہن پااا وی چھڈ (اب ڈال بھی دو) میں نے دیکھا انکی شلوار پھدی کی جگہ سے فل گیلی ہو چکی تھی ۔۔میں نے انکی شلوار کوکھسکایا ۔۔۔ سفید صحتمند رانیں کھل کر بکھریں ۔پھدی جیسے ابل رہی تھی۔۔میں نےٹوپے کو پھدی پر رکھ کر ہلکا سا گھمایا جیسے دانے کو پیسا افففف انکی تیز سسکی بلند ہوئی میں نے انکی ٹانگیں فولڈ کیں اور مڑی ہوئی ٹانگوں کو ہاتھوں سے پیچھےکر کے انکے سینے تک کیں اب پھدی بلکل کھل کر میرے سامنےآ گئی تھی ۔۔وہ پہلے بھی مجھ سے چدوا چکیں تھیں اور ہر بار میں نے انکی بینڈ بجائی تھی اور آج تو سپیشل چدائی تھی لائیو چدائی جو نائلہ دیکھ رہی تھی میں نے ٹوپہ سیٹ کیا اور ہلکا سا دبایا پچک کی آواز کے ساتھ ٹوپہ اندر گھسا افففف انکی سسکی نکلی میں نے زور بڑھایا لن اندر کو گھستا گیا آدھے پر جا کر میں رکا۔۔ انکی پوزیشن بہت خطرناک تھی ایسے لن سیدھا اندر بچے دانی تک جاتا ہے میں نے آدھے کو دو بار آدھے تک ہی اندر باہر کیا انکی لذت بھریں سسکیاں کمرے میں گونج رہیں تھیں اگلی بار میں نے آدھے پرسیکنڈ کو رک کر سیدھا مارا لن جڑ تک اندر گھسا۔۔ انکی آااااہ ہاااااے آرام نال انکی آواز آئی میں نے باہر نکالا اور پھر آدھے کو رک کر سیدھا۔۔ کچھ دیر بعد اب میں انہیں پورے تک لے آیا تھا لن فل باہر نکالتا اور سیدھا جڑ تک انکی ہاے واے اور مدہوشیاں اس آخری چدائی نے انہیں ہلا کر رکھ دیا مجھے یاد ہے آخری جھٹکوں میں میرا لن سیدھا انکی بچے دانی میں گھستا تھا انکے چھوٹنے کے کچھ دیر بعد میں انکے اندر پوری شدت سے چھوٹا وہ جیسے مدہوش گر چکی تھیں انکی پھدی پھڑک پھڑک کر ٹھنڈی ہو گئی ۔۔ کافی دیر بعد جب لن بلکل ایزی ہوا تو میں نے لن کو باہر نکالا ۔۔ کچھ دیر بعد وہ میرے ساتھ لگ کر بولیں پھر اندر چھوٹ گئے نا تم۔۔ چل خیر ہے اب اگر کچھ ہو بھی گیا تو کور ہو جاے گا۔۔مجھےنائلہ کی خبر لینی تھی سو میں انہیں نائلہ جاگ نا جاے بتا کر اٹھنے لگا وہ مست ننگی اٹھیں اور مرے ساتھ چلتی دروازے تک آئیں میرےساتھ گلے ملا اور کہا یہ چدائی یاد رہے گی ۔۔ اب میں دروازہ لاک کر کے ایسے ہی مست سو جانا ۔۔ میں باہر نکلا اور بہانے سے واش روم کو بڑھا ۔۔واش روم نائلہ کےکمرے سے تھوڑا آگے تھا
اب نائلہ کا پتہ کیسے چلے اگر تو اس نے دیکھا ہے تو وہ یقینا سخت بری حالت میں ہونگی ۔۔ میں واش روم گیا ۔۔ واپسی پر نائلہ کےدروازے پر رکا اور کچھ سو کر ہلکا سا دروازے کا ہینڈل گھما کر چھوڑا جیسے سگنل دیا ہو۔۔دو سیکنڈ خاموشی رہی پھر اندرسے کسی نے ہینڈل کو ہلکا گھمایا شائد لاک کھولا ۔۔ میں نے سرگوشی کی سو گئی یا جاگ رہی ۔۔واپسی سرگوشی آئی سو گئی ہوں ۔۔ میں نے جوابی سرگوشی کی دیکھا۔۔ وہ کچھ دیر چپ رہی اور بولی ہممم دیکھا۔۔ کیسا لگا پھر میں نے سوال کیا کچھ دیر خاموشی رہی اور پھر جواب آیا کچھ نا پوچھو بہہت سپر ۔۔میں نےکہا اففف بہت مزہ آیا سچی۔میں نے کہا تم ہاٹ نہیں ہوئی ۔۔ کچھ دیر جیسے خاموشی رہی پھر وہ بولی کومل سو گئی تم اس پاس نہیں جانا۔۔ میں نے کہا نہیں اس کی ہمت بس ہوگئی سو گئی وہ۔۔بتاو نا تم ہاٹ نہیں ہوئی وہ جوابا کچھ دیر پھر چپ رہی میں پھر پوچھنے ہی لگا تھا کہ دروازہ ہلکا سا کھلا اور اس نے کہا اندر آ جاو میں بتاتی ہوں ۔۔یہ مارا ایک ہی رات میں دو الگ الگ کمروں میں نند بھابھی کے ساتھ الگ الگ سیکس سین کا چانس ہی بڑا لشششش تھا ۔۔میں اندر داخل ہوا اندر گھپ اندھیرا تھا۔۔۔شششش بولو نہیں میرےدائیں طرف سے آواز آئی ہاتھ آگے کرو اس نے کہا اور ہاتھ بڑھانے پر وہ ہاتھ پکڑ کر مجھے چلاتی بیڈ تک لائی اب مجھے بھی کچھ کچھ نظر آ رہا تھا۔۔ میں نے کہا بتاو نا یارا سہیلی نہیں ہو میری وہ آہستہ آواز میں بولی بہہہت ہاٹ ہوں یارا ۔۔ بہت مزہ آیا ۔۔ یہ جو تم زبان سے کیا نا بھابھی کو اسکا بہت مزہ آتا نا ۔۔ میں نے کہا ہممم تمہیں اچھا لگتا ہے ۔۔بہہت لیکن میرے انکو بس ڈالنے کی جلدی ہوتی ۔۔افففف تم تو اسکو انکے بوبز میں بھی رگڑا تھا نا اور تمہارا سٹائل بہت سوپر تھا ۔۔ہاں یار۔۔ ایسی باتوں سے میرا لن دوبارہ کھڑا ہونا شروع ہو گیا۔۔میں نےکہامیرا ہتھیار دیکھا کیسا لگا ۔۔ وہ کچھ نا بولی دوبارہ پوچھنے پر بولیں بہہت اچھا۔۔۔ میرے شوہر کا بھی کافی اچھا ہے لیکن تمہارا اس سے تھوڑا موٹا ہے ۔۔باقی تمہارا طریقہ بہت کمال کا۔۔میں نے کہا پھر کیا کرو گی اب تم ہاٹ جو ہو گئی ۔۔ وہ بولی کیاکرنا ہے صبر اور کیا۔۔ عورت خود نہیں بولتی اس سے بلوانا پڑتا ہے۔۔میں مدد کروں اس رات کی طرح اسی وعدے کے ساتھ میں نے آخر ڈائریکٹ پوچھ لیا۔۔ وہ سر جھا دیں بولا کچھ نہیں۔۔ میں نے کہا پریشان نا ہو نہیں دل تو نا سہی میں تو تمہارے لیے کہا تمہاری مدد کے لیے آخر سالی سہیلی ہو۔۔ بتاو نا یارا ۔۔ وہ ہلکی آواز میں بولی کر دو مدد لیکن ۔۔۔ کیا لیکن بولو کھل کر بولو یار۔۔۔لیکن تم مجھے ویسے پیار کرو گے جیسے بھابھی کو کیا ایسے میں بہت مست ہو کر فارغ ہوتی۔۔۔اسکے لیے تو سب اتارنا پڑے گا میں نے اسے بہکایا کچھ دیر بعد بولی پھروہ وعدہ یاد رکھنا اندر نہیں کرنا اس رات کی طرح باہر باہر مزہ کرنا باقی جو مرضی جہاں مرضی پیار کر لو۔۔اففففف میرے اندر شدید آوارگی بھڑکی ۔۔نائلہ مزید اعتماد کر رہی تھی اور مجھے یہ قائم رکھنا تھا مکمل امید تھی کہ جلد ہی نائلہ خود پکڑ کر اندر ڈالے گی۔۔میں نے کہا یار بےفکر رہو میں اندر نہیں کرونگا یہ ہمارا عہد دوستی ہے۔۔وہ مطمئن ہوئی اور جھجھک کر بولیں پھر تم بھی سب اتار دو۔۔میں اسے چھونا ۔۔ میں نے اسکا بازو پکڑا اور کہا تم بس انجوائےکرنا بنا کسی فکر کسی ڈر کے میں اندر نہیں کروں گا وہ تڑپ کر میرے ساتھ لگی اور بولی ہمممم
میں نے کہا تم بھی سب اتار دو نا ۔۔ وہ ہلکا سا کسمسائی اور ایک طرف ہو کر کپڑے اتارنے لگی فل گہرے اندھیرے میں بس ہیولے کی طرح نظر آ رہے تھے ایک دوسرے کو ۔۔۔سب اتار کر وہ سمٹی میرے سامنے کھڑی ہوئی میں نے اسے کھینچا ۔۔افففففف پہلی بار اسکا فل ننگا جسم میرے جسم سے ٹکرایا ۔ عجیب سا کرنٹ دوڑا ۔ میرے ہاتھ اسکی کمر پر پھرے نائلہ سسکی میں نے جسم کو رگڑا اور اسے اٹھاے بیڈ پر لایا اسی طرح اور اسکے پورے جسم پر زبان کی نوک پھیری وہ مچل رہی تھی میرے انگوٹھے ایک ترتیب سے اسکے نپلز کو رگڑ رہے تھے اس نے بےتابی سے ہاتھ بڑھاے اور لن کو چھوا ۔۔افففف لن جیسے کمال جوبن پر تھا افففففف اسکی کیپ کتنی موٹی نا افففف۔۔ روشنی میں دیکھ لو میں نے اکسایا۔۔ نووو لائٹ نہیں جلانی ننگا نہیں دیکھنا مجھے شرم آئے گی بعد میں بسسس اب جلدی کرو کب سے ہاٹ ۔۔میں اسکے ساتھ لیٹا۔ آیک ٹانگ سیدھی رکھی دوسری کو تھوڑا اوپر کر کے گھٹنے سے لن کو اوپر دبایا ۔۔ لن سیدھا اسکی پھدی کے نیچے میں نے ہلکا ہلکا ہلنا شروع کیا ۔۔ اففففف جیسے ہی اسکی پھدی کے لبوں میں لن جم کر رگڑائی کی اسکی سسکیاں مجھے اور مست کرنے لگیں کچھ دیر بعد میں انہیں اپنے اوپر لایا ۔۔ہونٹوں پہ ہونٹ لن رانوں میں۔۔ اور انکی رانوں کو پکڑ کر دبا کر اوپر نیچے کرنے لگا۔۔ انکی سسکیاں بلند ہو رہیں تھیں۔۔وہ بے تابی سے اپنے بوبز میرے جسم سے رگڑ رہیں تھیں۔۔میں انہیں الٹا کیا اور انکے اوپر لیٹا ٹوپہ دیواروں کو رگڑ کر بیڈ سے جا لگا۔۔ ایک بازو انکے بوبز کے نیچے سے رگڑا۔۔ ان جھٹکوں نے انکی جان نکال دی وہ میرے نیچے تڑپیں لیکن میں نے مشین چلا دی انکی رانوں کی قینچی سخت ہونے لگی مجھے اور مزہ آنے لگا پھدی رگڑائی سے چشمہ پھوٹنے لگا انکا جسم مچلتا رہا چشمہ ابلتا رہا۔۔وہ مست پڑی رہیں اور کچھ دیر بعد میں انکی رانوں میں ہی فارغ ہوتا گیا
اگلے دن میں ناصر کی مدد سے پتہ چلایا کہ دلاور کہاں۔۔ خدا کا شکر کہ دلاور صبح کا ہی کسی کام سے نکل چکا تھا۔۔ میں آنٹی کے گھر گیا۔۔انکل کی حالت بہتر تھی لیکن صحت کافی کمزور ہو چکی تھی۔۔کچھ دیر بعد موقع ملا اور میں عمبرین کو کچھ کتابیں دینے کے بہانے برآمدے میں الگ لے بیٹھا۔۔میں نے انہیں بتایا کہ میرا کیا ارادہ ۔۔ انہیں بھی میری ایسے پڑھائی کے ساتھ کام کرنا خاص پسند نہیں آیا۔۔ وہ مجھے بہلانے لگیں شہزادے کیا جلدی اتنی لیکن میری شدتوں نے انہیں پگھلا ڈالا۔۔میں نے انکا ہاتھ تھاما اور کہا بس ایک سال ایک سال کے اندر میں نے سیٹنگ کرنی ہے ۔۔ اتنا کمانے کی ترتیب کرنی ہے کہ میں گھر چلا سکوں۔۔وہ شوق سے میرے ارادے سننے لگیں اور بولیں اگر کسی نے مجھے نا جانے دیا تو۔۔ میں نے انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا میں آپکو اٹھا کر لیجاوں گا۔۔وہ بولیں دیکھ لینا۔۔ میں نے کہا آپ ابھی کہو تو بھی لیجا سکتا وہ گھبرا کر بولیں بدھو ابھی نہیں۔۔۔
یہ اپریل دو ہزار آٹھ تھا جب ملکانی گڈز کا افتتاح تھا
ملکانی اور ملک خاور مینجنگ ڈائریکٹر تھے جبکہ انکے بعد کلی انچارج میں تھا جسے انکے مشورے اور رہنمائی سے کام چلانا تھا
جاری ہے
fkniazi555.blogspot.com
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں