بدھ، 9 مارچ، 2022

Baazigar Episode 4

 بازگشت


قسط نمبر 4



میں شائد اپنی زندگی کی خطرناک بازی لگا رہا تھا ایسی بازی جس نے میری زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ اب ایسے کیا دیکھ رہے اٹھو تھوڑا سیریس ہو اور مجھے کپڑے دھونے دو یکدم وہ سیریس ہوئی۔۔ وہ کپڑے دھونے لگی تو میں اسے دیکھنے لگا ۔۔ اسکے آگے کو آتے گھنگریالے بال۔۔ سب چیزوں سے ہٹ کر پہلی بار میں کسی عورت کے بارے ایسا سوچ رہا تھا۔۔ اسکی چوڑیوں کی جھنکار۔۔ اسکا ڈولتا بدن اور وہ سب چیزوں سے بے نیاز کسی گہری سوچ میں گم تھی۔ راحیل کی سنگت کےاثرمیں انڈین موویز کے بولڈ سیز دیکھ چکا تھا ڈھکا چھپا سا جسمانی تعلق سے میں آشنا تھا۔۔ کمر کے پیچ و خم سینے کی اٹھان کا ادھورا سا تعارف تھامیرا۔۔ عین سولہواں سال اور جسم کے اندر اٹھتی میٹھی لہریں میں بیخودی میں کاجل کو دیکھے جا رہا تھا اچانک وہ چونکی اور میری طرف دیکھ کر بولی تم سدھر جاو اجے ۔۔۔میں سٹپٹا کر بولا لو میں نے کیاکر دیا۔۔تم کرنےکاسوچ رہے تھے تمہارے جسم سے ابھی جنسی مہک آئی تھی مت بھولو کہ میں کون ہوں۔۔۔ میں اپنے قبیلے کی مقدس کنواری کنیہا ہوں جس کو ناگ دیوتا کا جھوٹا پینے کو ملتا ہے۔۔میری حسیں بہت تیز ہیں۔۔۔میں نے منع کیا تھا تمہیں۔۔ تم سمجھو دارو ہو میرا۔تمہیں پتہ ہے تم میں تقریبا ساری نشانیاں موجود ہیں پرانی کتابوں میں لکھی ساری نشانیاں ۔۔۔ وہ کیا میں نے چونک کر پوچھا۔۔ تمہارے سینے پر گہرا گول تل ہے وہ کب دیکھا تم میں نے چونک کر کہا۔۔۔ جب تمہیں بابا لائےتھےتو تمہاری قمیض اتاری تھی زخم صاف کرنے کے لیے۔۔۔ ایسا کنوارا جسکے سینے پر گول سرخ تل ہو وہ بہترین تریاق ہے۔۔وہ مجھے اپنے بارے میں بتاتی گئی کہ وہ خاندانی رموز کی ماہرہے۔۔لوکل ہندو برادری میں انکا اہم مقام تھا میں اس دوران کاجل کی ہدایت کے مطابق اسکو تاڑنے سے محتاط رہا۔۔باتوں میں جانے کتنا وقت گزر گیا جب ہم کھوہ سے نکلے تو شام کے سائےڈھلنے کو تھے۔۔۔اس رات کو کھانے کے بعد ہم کافی دیرباتیں کرتے رہے ۔۔اسکی باتوں سے پتہ چلا کہ اسکی عمر بتیس سال ہےاور اس عمر تک اس زہریلے لہو کے ساتھ وہ شدید پیاسی ہو چکی تھی کسی پیاسی تڑخی زمین کی طرح۔اسےیہ ڈر تھا کہ کہیں اسکا زہر اور اسکی نسوانی پیاس مجھے چوس نا لے۔ اسے یہ خدشہ تھا کہ کہیں بادل زمین کی جڑوں تک پہنچنے سے پہلے ہی بر س جائیں اور اندر تک سیرابی ناہوئی تو۔۔کبھی میں اسکے اپنے ماضی کے قصے سناتا۔۔ اسے الف تا یے تک سب نصف شب ہونے والی تھی جب اس نے مجھے کہا تو تم سب سن کر بھی میرے ساتھ تعلق بناو گے ؟ ہاں اور مجھے یقین ہے میرے ساتھ کچھ نہیں ہوگا۔شائد میں تم سے ٹکرایا ہی اسلیے ہوں کہ تمہارا علاج ہو سکے تب وہ اٹھی اور بولی آو پھر لیکن بولنا نہیں جب تک میں نا کہا بس چپ رہنا اور مجھے لیے لیے ایک طرف بنے چھوٹے سے کمرے کی طرف لے گئی دروازے کے پاس اس نے جوتی اتاری اور اندر جا کر شمع روشن کی۔۔میں بھی اسکی دیکھا دیکھی جوتا اتار کر اندر چلا گیا۔۔۔اندر ایک آتشدان سا پڑا ہوا تھا۔۔ اس نے چند لکڑیاں آتشدان میں رکھیں اور اور ان کو آگ لگا دی۔۔ پھر ایکطرف سے کوئی پرانی کتاب اٹھائی اور کسی صفحے کو تلاش کرنے لگی۔۔۔کچھ دیر بعد کسی صفحے کو رک کر پڑھنے لگی اور میرے سامنے آکر بولی میں نے کتاب دوبارہ پڑھی ہے تمہارے نا صرف سینے پر تل ہے بلکہ ایک چیز اور بھی ہے جسکی مجھے سمجھ نہیں آتی تھی ۔وہ کیا ۔۔ لو پڑھ لو خود ہی۔۔ میں نے کتاب پر توجہ کی اور وہ میرے بلمقابل بیٹھ گئی لکھا تھا اس کنوارے کے سینے پر گول سرخ تل ہوگا اور اسک نفس پردے سے باہر ہوگا۔۔ میں سمجھا نہیں میں نے اس سے پوچھا۔۔۔ وہ تھوڑا شرمائی سی اور بولی تم مسلمان لوگ اپنے نچلے حصےکا ختنہ کرتے ہو نا۔۔ہم نہیں کرتے۔۔۔اس دن جب تم نہا رہے تھے میری نظروں نے بھیگی شلوار میں تمہارا نفس دیکھا تھا۔اسکا پردہ ہٹا ہوا تھا۔۔اوہ میں اب سمجھا ۔آگ بھڑک چکی تھی اس نے آگ کے اوپر کچھ پڑھ کر پھونکا اور آگے کے اوپر فاصلے پر ہاتھ رکھ کر کچھ دعا سی کی اور بولی میں نے اگنی کا آشیرواد لے لیا ہے۔۔۔میرے علاج کے دو مراحل ہیں ۔۔کچھ دن میں تمہیں جو خوراک دوں تم نے ساری کھانی ہے چاہے ذائقہ کسیلا ہو یا پھیکا۔۔ اسکے علاوہ میں تمہیں کچھ لیپ دونگی جو تم اپنے جسم پر کرو گے۔۔ دوسرا سٹیپ میں تمہیں تب بتاوں گی جب پہلا مرحلہ ایمانداری سے کر لیااور تم یہ سب بابا کو نہیں بتاو گے جب تک میں نا چاہا۔۔ تب وہ اٹھی اور سامنے پڑی الماری کے آگے سے پردہ ہٹایا ۔پردے کے پیچھے ایک ناگ کا مجسمہ تھا جسکے منہ میں ایک سفید موتی سا پڑا ہوا تھا کاجل بت کے پاس جا کر کھڑی ہوئی کچھ پڑھا اور مجسمے کے منہ سے موتی لیکر میرے پاس آئی۔۔۔ یہ ناگ منکا ہے۔۔یہ زہر توڑ ہے۔۔۔اسے تم نے چار دن دس منٹ چوسنا ہے تم شائد نا مانو اگر یہ راس آ جاے تو انسان کو انمول کر دیتا ہے۔۔کہا تھا نا اگرتم سب کر گزرے تو انمول خزانہ پاو گے۔میں نے ہاتھ آگے بڑھایا اور اس موتی کو منہ میں ڈالکر چوسنے لگا۔۔ عجیب سخت نمک جیسا موتی تھا جسکی سطح کھردری تھی بڑی مشکل سے چوسا جا رہا تھا حتی کہ دس منٹ ہونےتک میرا منہ درد کرنے لگ گیا جیسے جیسے میں چوستا جا رہا تھا ایک عجیب غنودگی سی چھا رہی تھی۔ایک نشیلی دھند سی۔۔ اگلے کچھ دن میں مخصوص اوقات میں ایک مخصوص بوٹی کا بد ذائقہ عرق۔۔ کسی سفوف والاکسیلا سا دودھ ۔۔کورگندل کی گوند سے بنا چپکنے والا لیپ لگاتا رہا۔۔۔ میرے اوپری جسم پر وہ برش سے لیپ کرتے اور نیچے میں خودبمشکل کر ہی لیتا تھا وہ لیپ جیسے عذاب تھا اسکی اکڑاہٹ چپچاہٹ پورے جسم کو کلف لگا دیتی۔

اور تھوڑا سا آئل تھا جو مجھے اپنے لن پر مساج کرنا تھا اور ایسے مساج کرنا تھا کہ میں فارغ نا ہو جاوں مساج کے مزے میں۔۔یہ سب سے مشکل مرحلہ تھا۔۔ میری عمر میں لن کے ساتھ ایسا کھیل بہت خطرناک تھا۔۔ سرور مجھے مجبور کرتا کہ سب مزے چکھ لوں وعدہ یاد دلاتا صبر کر۔۔۔تیل خشک ہوتا جان چھوٹتی۔۔۔ سات دن کے اس عمل نے میری واٹ لگا کر رکھ دی لیکن حیرت انگیز طورپر میرا جسم بدل رہا تھا میری گوری رنگت ہلکی سنولاہٹ میں ڈھل چکی تھی ۔۔ میرا جسم ہلکے بخار کی حالت میں رہنے لگا تھا اور میرا لن تو جیسے پھٹے چک پروگرام میں تھا۔۔۔قد اور صحت تو میری اچھی تھی ہی اور اسی حساب سے عمر کے مطابق میرا سامان فٹ تھا لیکن اس آئل نے لن کی جلد کو ہلکا کھردرا سا کر دیا تھا جیسے نرم کھردرا سا لمس میرے لن کا سائز پہلے سے کافی بہتراور تھوڑا موٹا سا ہوگیا تھا۔۔لن کی کیپ چکنی اور چمکیلی ہو گئی تھی۔۔۔ سات دن کے بعد میرا مساج اور لیپ تو ختم ہو گیا لیکن منکا روز چوسنا پڑتا۔۔ آہستہ آہستہ مجھے منکے کی چس آنے لگ گئی اسکا نشہ مزہ دینے لگا جیسے پکے سگریٹ کے بعد گڑکو چوسنا ۔نویں دن بابا واپس آ گیا۔وہی جیپ والا اسے چھوڑنے آیا تھا۔۔ بابے کے پاس اک بڑا بیگ اور ایک بڑا پنجرہ تھا جس پر چادر پڑی ہوئی تھی۔۔۔تھوڑی دیر آرام کے بعد بابا نے مجھے میرا منگوایا سامان دیا اور باقی چیزیں کاجل کو دے دیں۔۔بابا پچھلے پندرہ دن کے اخبار بھی لایا تھا۔۔۔میرے لیے ضروری تھا کہ پچھلے حالات کا جائزہ لوں۔۔ ان دنوں کے مختلف اخبارات کو چاٹ کر مجھے پتہ چلا میں بہت برا پھنس چکا ہوں۔۔۔پیسوں کے تنازعے پر بھائی کے قتل کا مجھ پر الزام لگ چکا تھااور مزید مجھے پولیس کسٹڈی سے فرار کرا کے اشتہاری بھی قرار دیا گیا تھا۔۔ اخبار سے علم ہوا کہ مقتول جلال نے اپنا کاروبار مسٹر ایڈک کو بیچا تھا جس کی رقم دفتر میں موجود تھی اس رقم کے تنازعے پر میں نے انہیں قتل کر دیا۔۔ ایڈک نے کچھ دن پہلے جعلی خریداری کے پیپرز دکھا کر دفتر کا قبضہ لے لیا تھا اور یہاں مسٹر ماجد کو اپنا مینجر مقرر کیا تھا۔ یعنی میرے گرد ایسا گھیرا تنگ کیا گیا تھا کہ میں واپس جاوں تو سیدھا جیل جاوں ہم کافی دیر اس بات کو ڈسکس کرتے رہے اور یہی سب سے بہتر تھا کہ تب تک میں یہاں انکے پاس رہوں۔۔پھر بابا اٹھا اور اس نے پنجرے سے کپڑا اٹھایا۔۔ دیکھ کاجل ایسا باز کہاں ملتا۔۔۔ پنجرے کے اندر ایک جسیم باز تھا جسکی چمکدار آنکھیں اسکے کندھوں کا پھیلاو اور چونچ غیر معمولی تھی۔میں بس کل شام تک آیا ہوں۔۔۔ بڑے بڑے لوگ آ رہے ہیں رحیم یار خان۔۔دیکھنا یہ باز دیکھ کر عرب پاگل ہو جائیں گے۔۔ کیا پتہ باہر کا پروگرام بن جائے ۔۔ چھ ماہ بعد وڈا مقابلہ ہو رہا شکار کا۔۔۔اس رات بابا سے چھپ کر منکا چوسا گیا۔ میں اور کاجل اس دوران دوستانہ باتیں کرتے گہرے دوست سے بن گئے تھے اسکی حسیں واقعی کمال تھیں وہ لمحوں میں میرے جذبات سمجھ جاتی۔۔۔ اسے فاصلے سے آہٹ کی آواز آ جاتی تھی اسکو خوشبو کی حس سب سے تیز تھی۔بابا کے جانے کے دو دن بعد میری تربیت مکمل ہوئی۔۔۔ اب کیا کرنا ہے ایک شام ہم نے لنچ پلس ڈنر جلدی کیا اور باہر بیٹھے باتیں کر رہے تھے جب میں نے اس سے پوچھا۔۔۔ میری بات سنکر اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا اب بس کسی طوفانی رات کا انتظارکرنا ہے جب شدید بارش ہو۔اور میرا اندازہ کہتا ہے وہ آج ہو جاے گی لیکن بارش کیوں۔۔ کیونکہ بارش میں ناگن مست بھیگے گی نا پہلے پھر جوبن پر آئے گی۔۔ کچھ بارش سے بھیگیں گے کچھ اندر کی بارش سے اسکی آواز میں شدیدتشنگی تھی۔۔میرا دل دھڑکا جسم میں سرور سا پھیلا۔۔ حیرت انگیز طور سرور کافی زیادہ تھا۔۔ اور میرا لن ہلکا سا انگڑائی لی۔۔کہاں یہ وقت تھا کہ لن کبھی کبھی جاگتا تھا کہاں روز رات کو اکڑ جاتا تھا۔۔ اسکی اکڑاہٹ اور سائز پہلے سے جدا تھی غیر معمولی لمبا نا سہی لیکن آئیڈیل کی لسٹ والا لن۔۔ اچانک کاجل اٹھی اور کمرے کو چلی گئی اور اندر سے کنڈی لگالی۔۔ میں کچھ دیر بیٹھا رہا۔اسکے بعد منکا اٹھا چوسنا شروع کر دیا۔۔اور پھرآکر کمرے میں لیٹ گیا۔۔۔بابا سے منگوائے ٹائم پیس کے مطابق رات نو بجے کا وقت ہوگا لیکن ایسا لگتا تھا جیسے آدھی رات جب باہر زور سے بادل گرجے۔کچھ دیر میں موسلا دھار بارش اور بجلی کی چمک میں اٹھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ کمرے کا دروازہ زور سے کھلا ۔۔بجلی کی چمک شمع کی روشنی میں دروازے کے پاس کاجل کھڑی تھی اس نے اس رات کی طرح سرخ چادر ساڑھی کی طرح اوڑھی ہوئی تھی اسکے بال کھلے تھے اور آنکھوں میں گہرا کاجل چمک رہا تھا۔۔ہونٹوں پہ دیسی دنداسے کا رنگ وہ چلتے چلتے میرے سامنے آئی اور کہا آو اجے بارش میں بھیگیں آو آج سب بھیگ جایں میں اسکے کھلے گھگریالے بالوں سرخ باریک چادر میں چھپے جھلکتے جسم اور اسکی آنکھوں کے سحر کے جادو میں تھااسکی آواز میں پیاس تھی۔۔آو نا اس نےمیرا ہاتھ پکڑا ۔۔۔ ہااے اسکا لمس ۔۔۔میرا جسم بھی چونکہ گرم رہتا تھا مزید شاٰد دوائیوں کا اثر تھا اسکا لمس پہلے سے کافی کم کرنٹ والا تھا لیکن اب بھی صرف ہاتھ کے لمس نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے تھے وہ مجھے لیے صحن میں آ گئی ۔۔ برستی بارش میں اسکی طرف بےساختہ لپکا۔۔ اس نے کسی شاخ کی طرح لچک دکھائی اور آگے کو بھاگی۔۔ہم دونوں ایکدوسرے کو جھکائیاں دے رہے تھے۔۔ سرخ چادربھیگ چکی تھی اور چپکی چادر کے نیچے اسکا جھلکتا جسم ۔۔ظالم نے برابھی نہیں پہنا تھا چپکی چادر کے نیچے اسکی بھاری اٹھان۔۔ وہ دو چوٹیاں اور انکے تنے نپلز مجھےبھڑکا رہے تھے۔۔ہر پردہ گرانے کو اکسا رہے تھے۔۔میں اچانک جھکا اور اسکے پیچھے آکر اسے عقب سے پکڑلیا۔۔جیسے بارش میں بجلی کی چمک۔۔ بھیگے کنوارے پیاسے جسموں کا ٹکراو ۔۔ میرےپورے جسم میں ایک نشیلی لہردوڑی میں جھکا اور ساڑھی سے نکلے عریاں کندھے پر ہونٹ رکھے اور بارش کےقطروں کو جیسے چوس لیا۔۔کاجل پوری شدت سے تڑپی اسکے ہونٹوں سے بلند سسکی بلند ہوئی اور اسے نے تڑپ کر جسم میرے ساتھ رگڑا۔۔ جیسے ہی اسکی کمر اور بیگ میرے سینے اور لن سے ٹکرائی لن نے کروٹ لی اوراکڑاہٹ سے اٹھنا شروع کیا۔


ایک نشیلی دھند مجھے گھیر رہی تھی ایک بہاو تھا جو مجھے کاجل پر ٹوٹ پڑنےکو مجبور کر رہا تھا۔برستی بارش میں ہم ایک دوسرے سے لپٹ رہے تھےبارش کی بوندیں جیسے جلتےتوے پر گر رہیں تھیں۔میرے بہکتے ہونٹ کاجل کے شانے سے گردن اور رخساروں تک پھرے وہ کسی مخمور ناگن کی طرح میری گرفت میں مچل رہی تھی اسکے جسم کی خوشبو ۔میں گھومتے گھومتے اسکے سامنے آیا۔۔میرے ہونٹ اسکے چہرے پر پھرے ہونٹوں سے میں نے اسکے رخساروں کو چوساوہ مجھے تھامے جیسے ساتھ نڈھال لگی تھی۔میں نے زبان نکالی اور اسکے سنہری ہونٹوں کو چاٹا۔۔۔ مجھے لگا جیسے میں نے تیکھی شراب کو چکھا ہے میرے جسم کے اندر جیسے چنگاریاں تھیں۔اسکی چادر بہکتے ہاتھوں سے ہٹ چکی تھی اسکی سرگوشی بلند ۔۔ اسکے پنجوں سے میری شرٹ پھٹ چکی تھی۔۔ لن فل جوبن پر اسکی ٹانگوں میں دھنسا ہوا تھا اور لن کے اوپر اسکی پھدی سے کسی تندور کی طرح بھاپ نکل رہی تھی۔۔وہ پیاسی تھی وہ بھی سالوں کی اسکی پیاس نے زور ماراوہ مجھے کھینچتی اندر کمرے میں لائی دروازہ بند کیا اور مجھے کھاٹ پر سیدھا لٹا کر میرے اوپر لیٹتی گئی۔ میرا جسم پھنک رہا تھا۔۔جیسے کئی بوتلوں کا نشہ جسم سن سا ہو رہا تھا اس کے ہاتھ میرے جسم کو جلا رہے تھے وہ میرےاوپر چھا رہی تھی اسکےکھلے بال میرے اوپرسایہ بنا رہے تھے اور اسکے بھاری لٹکتے بوبز۔میں نے چہرہ اوپر کیا اور اسکے نپلز کو سافٹ سا چوسا۔اس نے زور سے اپنی ٹانگوں کو بھنچا لن گویا اسکی رانوں میں جکڑا ہوا تھا۔میں بوبز کو دبا دبا کر چوس رہا تھا اور اسکی سکیاں بلند سے بلند ہو رہیں تھیں۔ہر طرف بس نشہ تھا اسکے جسم سے نکلتا کرنٹ مجھے جھجھنا سا رہا جیسے بجلی کی تار کی پکڑ دونوں لپٹے اوپر نیچے مچل رہےتھے۔دونوں کی سانسیں اکھڑنے کو تھیں تب اس نے ایک جھٹکے سے میرا نالا کھینچا وہ اس وقت جیسےمدہوش ناگن تھی نالاکھلا شلوار اتری وہ تو وہ میں خود لن کی اٹھان کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھایا اور ہاے رام کہتی لن کو ہاتھ میں پکڑا اسکی گرفت میں لن بمشکل پھنس کر آیا تھا اس نے اوپر سے جڑ تک ہاتھ چلایا کھردری جلد پر اسکا وہ نرم گرم ہاتھ میں تڑپا اکڑے لن کی کھردری منفرد جلد اور اسکے ہاتھ کا جادوئی لمس۔۔ وہ سرگوشی سے بولی ٹیکا تو بہت ظالم اور کھردرا کر لیا ہے۔۔ میں نے کب کیا جو کیا تم کیا ۔میں نے اسے کھینچا اور کھاٹ پر نیچے لایا۔۔ اسکی ہدایت کے مطابق میں اسکے ہونٹوں کے علاوہ سارے جسم کو چوس رہا تھا میرے ہونٹ اس کے ماتھے سے رخسار سے شانے تک پھرتے بوبز تک آئے ۔۔ اس نے مجھے کھینچ کر نیچے گرایا اور کہا اجے ٹیکا بہہ نا جاے پہلے ٹیکا ٹھوک دو اندر تک۔۔ہاااے تمہارا ٹیکا بہت ظالم ہے اففف کتنا مساج کرتے رہے ہو تم زیادہ تیل لگاتے رہے ہوگے ۔۔۔ نا پریشان ہو کاجل میں آہستہ سے تھوڑا تھوڑا کرکے کرونگا نا۔۔۔ نہیں بدھو تم اندر کی گرمی سہہ نہیں پاو گے مجھے ڈر کہ تم پورا اندر کرتے ہی نا چھوٹ جاو۔۔۔ یہ دیکھو نا۔۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی پھدی پر رکھا افففف اسکی پھدی سے جسے آگ نکل رہی تھی ۔۔چکناہٹ اس قدر کے ہاتھ پھسل رہا تھا گرم چشمہ ابل رہا تھا جیسے ہی میرا ہاتھ اسکی پھدی پر پھرا کاجل نے بلند سسکی لی اور تڑپ کر میرے ساتھ لگی۔۔ تم اوپر آو ۔۔ اور اوپررکھ کر فل جھٹکا مار دینا رکنا نہیں ۔۔۔ جتنی گیلاہٹ ہے میں جھیل جاونگی اسکی آواز جیسے دور سے آ رہی تھی۔۔ میں اٹھا اسکی ٹانگوں کے درمیان ۔۔ اسکی چمکتی سانولی ٹانگوں کے درمیان بند سیپی جیسی پھدی جسکے لپس کھل اور بند ہوتے پھسلن بڑھا رہے تھے۔۔ میں نے لن کو اس کی پھدی پر رکھا اور تھوڑا سا گھمایا۔میرا لن جیسے دہک اٹھا ۔۔پھدی کے ہونٹوں نے کھل بند کر اسے جکڑے کی کوشش کی۔۔ میں نے ہلکا سا دباو بڑھایا۔۔پھدی کے ہونٹ کھلے اور لن کی پھولتی ٹوپی اندر گھسی۔۔ اندر سے پھدی کی دیواروں نے لن کو سختی سے جکڑا ۔ پھدی سے نکلتی گرم چکناہٹ زہریلا رس۔۔ میرا دوران خون تیز ہوا۔ ایک نشیلی دھند۔۔ لن کے اندر جیسے کرنٹ سا دوڑا مزے کی تیزلہر۔۔ مجھے لگا جیسے میں پگھلنےلگا۔۔ جب وہ چیخی اجے تمہاری سمیل بدل رہی۔۔تم ہونےلگے ہو میرا بھی دم نکلنے لگا ہوجیسے دونوں نے پہلا رس اکھٹے نکالنا جلدی کرو اندر کرو اس نے وحشیانہ انداز میں مجھے اپنی طرف کھینچا۔۔اسکی تیز آواز نے مجھے ہوش کرایا اور میں نے مزے کی انتہا پر پورے زور کا دھکا مارا۔۔ راڈکی طرح تنا کھردرا لن اندر تک گھستا گیا۔۔ ایک تیز چیخ کاجل کے ہونٹوں سے نکلی ۔۔ اب میں مزے کے نشے میں تھے۔۔ تیز خون جیسے ٹانگوں سے لن تک آ رہا تھا میں رکا اور اگلا دھکا مارا۔۔ لن پھدی کو کھولتا فل اندر گھس چکا تھا۔۔۔ اسکی پھدی کی دیواریں جیسے لن کو مسلنے لگیں تھیں لن فل پھنس چکا تھا۔۔ کاجل کی آنکھیں جیسے اوپر کو چڑھ گئیں اسکے کھلے ہونٹوں سے سسکاریاں میں بس سیکنڈوں کی مار تھا میں نے آدھا لن کھینچا اور پورے مزے کے ساتھ دوبارہ اندر دھکا مارا۔۔ اس بار لن اور اسکا۔منفرد کھردرا پن پھدی کی دیواروں کو چھیلتا جڑ تک اندر گھسا اور تیز مزے کا ریلا میرے لن تک آیا اور تیز نشیلی مستانی دھاروں کے ساتھ نکلتا گیا جیسے جیسے لن سے منی نکل رہی تھی میرا جسم جھٹکے کھا رہا تھا زندگی کا پہلا ڈسچارج۔۔ادھر میرے جھٹکے لگے ادھر دوسری بار گھسنے سے کاجل نے پورے زور سے ہاتھوں سے میرے بازوں کو ایسے پکڑا کہ اسکے ناخن کھب سے گئے۔۔اسکا جسم جھٹکے کھانےلگا اسکی پھدی کے اندر سے جیسے طوفان پھوٹا اسکی کھلتی بند ہوتی پھدی میرے لن کو نچوڑ رہی تھی ۔۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے لن کو کوئی اندر تک چوس رہا ہو۔۔دونوں پہلا ڈسچارج کر رہے تھے دونوں کے کنوارپن کا اختتام ہو رہا تھا اورپہلا ڈسچارج فورا ہوجاتا ہے اور ایسی زہریلی کا ڈسچارج جو سالوں سے سلگ رہی تھی۔۔مزے کی انتہا میں گم میں اسکے اوپر گرتا چلا گیا جیسے جیسے انزال ختم ہوتا جا رہا تھا ویسے ویسے جیسے میرے اندر سے جان نکل رہی تھی جیسے خالی پن سا میں بے دم اس پر گرتا گیا وہ مدہوش بکھری پڑی تھی اور میں بے جان ہوتے وجود کے ساتھ اس پر گرا جیسے گہرے کنویں میں گر رہا تھا۔۔ مجھے لگا جیسے میں بے جان

جانے کتنا وقت گزر گیا مجھے ایسے لگا جیسے کہیں دور سے کاجل کی آواز گونج رہی جیسے جھجنھوڑ رہا ہوں کوئی مجھے۔۔ میری پلکوں پر گویا منوں وزن تھا میں آنکھیں کھول نہیں پا رہا تھا۔۔ غنودگی کی ایسی کیفیت جیسے بے وزنی سی کیفیت۔۔پھر یوں لگا کاجل نے اپنے ہاتھوں سے میری آنکھوں کو کھولا ہے وہ مجھ پر جھکی چلا رہی تھی اجے اجے اٹھو بالی سونا نہیں ۔۔ جاگو اٹھو وہ مجھے زور سے جھنجھوڑ رہی تھی اچانک جیسے اسے کچھ یاد آیا وہ باہر کو بھاگی ۔۔مجھے وہ دور نظر آ رہی تھی تھوڑی دیر بعد وہ بھاگتی واپس آئی اسکے ہاتھ میں وہی منکا تھا اور دوسرے ہاتھ میں مٹی کا پیالہاس نے انگلیوں کے زور سے میرا منہ کھولا اور ادھ کھلے ہونٹوں میں منکا پھنسایا اور کوئی شہد کی طرح گاڑھا سیال اس منکے پر گرایا اور سسکتے ہوئے روتے ہوے چیخ کر بولی ۔۔ بالی اس کوچوس جا میری جان چوس جا۔۔میں نے کوشش کی لیکن جیسے میرا جسم بے جان ہو رہا تھا۔۔ اس نے میرے بھنچے ہوے جبڑے کو بمشکل کھولا اوردو انگلیوں کو ادھ کھلے منہ میں ڈال کربڑی دقت سے منکے سے گرتا سیال میرے حلق میں انڈیل دیا۔۔جیسے جیسے وہ سیال میرے حلق سے گزرا ایسے لگا جیسے تیز نشے کے اوپر کھٹے آم کا رس۔۔میری کیفیت بدلنے لگی ایک کڑوا ذائقہ جیسے جسم میں پھیلتا گیا۔۔میراسن ہوتا جسم جیسے جاگنےسا لگا میرےاندر جیسے عجیب سا غبار بھرنے لگا غبار ایسے بھر رہا تھا کہ مجھے لگا جیسےکوئی میرےاندر کا سب کچھ باہر آنےکو ہے۔۔ اچانک میرے جسم کو چند جھٹکے لگے اور ایک شدید قے سی آنے لگی اسے شائد اندازہ ہوگیا تھا اس نے مجھے بمشکل الٹا کیا اب میراسر چارپائی سے آگے زمین کی طرف جھکاتھا۔۔اور وہ میری پشت پر سوار تھی۔۔جیسے جگر باہر آ رہا ہو اور میں بےحال قے کرنے لگا۔۔جانے دو بار میں نے الٹی کی تھی یا تین بار ۔۔ الٹی تھمنے کے کچھ دیر بعد تک میں ویسے ہی الٹا بےحال پڑا رہا۔۔اندر کا سناٹا چھٹ رہا تھا اب ویسے کمزوری اور چکر سے آ رہے تھے۔کاجل نے بمشکل مجھے سیدھا کیا اور مجھے الٹی سیدھی کلی کروا کر ٹھنڈے پانی کے کچھ گھونٹ پلاے اور مجھے سیدھا لٹا دیا اور خود جیسے تھک کر میرے ساتھ گر سی گئی

رات کا پچھلا پہر تھا جب مجھے ہوش آئی۔۔ ہلکی سی نقاہت تھی لیکن ویسے میرا جسم بلکل ایکٹو سا تھا۔۔ میں نے نظریں گھما کر دیکھا کاجل میرے ساتھ ہی مدہوش بکھری ہوئی تھی۔۔وہی سرخ اوڑھنی اسے نے ہلکی اوپر لی ہوئی تھی جس سے جھلکتا اسکا سانولا چمکیلا بدن لشکارے مار رہا تھا۔۔مجھے لگ رہا تھا جیسے میں صدیوں پہلے کے زمانے میں چلا گیا ہوں ہر طرف صحرائی سناٹا ۔۔ جھونپری سا مکان اور کمرے کے اندر مشعل نما شمع اور کاجل کا پراسرار بدن اسکے عریاں بازو جو روویں کی طرح چمکتی لشکارے مار رہی تھی۔۔اسکے سیاہ گھنگھریالے بال اسکی بند آنکھیں سانس لیتے ہوئے اوپر نیچے ہوتا سینہ اور اسکے بھاری بوبز کی اٹھان اسکی نرم رانیں اور بھاری بیک وہ مجموعی طور پر خالص دہقانی عورت تھی اچانک میری نظر نیچے بچھے بستر پر پڑی بستر خون آلود تھا میں نے اسکے جسم کے اوپر آڑھی ترچھی پڑی اوڑھنی سرکائی ۔۔اسنے ٹانگیں سمیٹ کر پیٹ سے لگائی ہوئیں تھیں اور اسکی رانوں پر بھی ہلکا خون لگا ہوا تھا مجھے امید بندھ چلی تھی کہ سب ٹھیک ہوا ہے ایسے خون کے داغ اسکی سیل کھلنے کی نشانی تھی۔جہاں تک مجھے یاد تھا میرا لن اسکے فل اندر تھا جب میں ڈسچارج ہوا تھا مطلب میری جوانی کا پہلا رس اسکی جڑوں میں گرا تھا۔میں نے اب اپنی ٹانگوں پر نظر دوڑائی اور جیسے تڑپ کر سیدھا ہوا ۔۔ ایسالگ رہا تھا جیسے لن کی جلد جھلسی ہوئی تھی لن پر بھی خون کے نشان اور لن کی ٹوپی جیسے ہلکی جھلسی سی جلد ہلکی اتری ہوئی سی۔۔میں اٹھا اور شلوار پہن کر واش روم گیا۔۔ تھوڑا لوٹے سے پانی گرایا تو کچھ دیر بعد مجھے بہت زور کا پیشاب آیا عجیب بات یہ تھی کہ پیشاب کے ساتھ مجھے ہلکا سرور سا محسوس ہو رہا تھا وہیں ٹین ے کنسترمیں نلکے سے پانی بھرا اور مگ سے اپنے لن اور ٹانگوں کو دھونے لگا اچھی طرح دھو کر شلوار پہن کر جب میں واپس آیا تو اور دروازہ اندر سے بند کر دیا۔۔میں مشعل کے بلکل پاس آیا اور شلوار اتار کر اچھی طرح لن کا جائزہ لیا ۔۔ لن میرے ہاتھ کے لمس سے جاگا اور نیم اکڑ سا گیا ۔۔ لن تو جیسے پہلی ڈبکی لگانے کے بعد اور مست ہوگیا تھا اسکی جلد قدرے سخت کھردری سی جیسے ہلکے ہلکے ابھار سے اور اسکا مست سائز مطمئن ہو کر میں مڑا تو کاجل ادھ کھلی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی

ہماری نظریں ملیں اسکے رخساروں پر لالی سی چھائی وہ جلدی سے اوڑھنی سنبھالے اٹھی اور کمرے سے نکل گئی کچھ دیر بعد وہ ایک جگ اور دو گلاس لیے واپس آئی اب اس نے پورے کپڑے پہن رکھے تھے۔ جگ میں کاڑھا گلابی دودھ تھا اس نے مجھے بھی گلاس دیا اور خود بھی پیتے ہوے کہا شکر ہے تمہیں ہوش آیامیری تو جان نکلنے والی ہو گئی تھی۔میں ٹھیک ہون بس ہلکی نقاہت اور ہلکا بخار سا ہے وہ مسکرائی اور کہا تم جانتے ہو تم موت کے منہ سے واپس آئے ہو۔۔ کیا مطلب ۔۔میرے اندر کی گرمی اور میرے پہلے رس کا زہر چڑھ گیا تھا تمہیں۔۔تمہارا جسم نیلا ہونے لگ گیا تھا تم گہری نیند میں جا رہے تھے مجھے بھی ہلکا ہلکا یاد آ رہا تھا نیند گہری نیند نے مجھے گھیرا تھا۔۔اگر تم سو جاتے تو پکا سو جاتے ۔ بڑی مشکل سے میں نے تمہیں جگائے رکھا اور امرت رس منکے کے ساتھ چٹایا۔۔ بہت ہمت والے ہو تم تمہاری مدافعت کافی اچھی ہے۔۔ شکر ہے تم نے الٹی کی دیکھو ذرا ۔۔ میں نے فرشپر دیکھا تو کچا فرش سبز مائل گندگی سےاٹا تھا گو سب خشک ہو چکا تھا۔۔ قے کا رنگ گہرا سبز تھا۔۔تمہاری مدافعت اوربروقت منکے اور امرت رس نےتمہارازہر کھینچ نکالاتھا۔۔۔۔وہ بتاتی گئی میں سنتاگیا۔۔مجھے اب بھی بخار سا تھا لیکن بقول اس میں خطرہ نہیں تھا۔۔ میں نے اسکا ہاتھ پکڑا۔۔خلاف توقع اس سے نکلتا کرنٹ بہت حد تک نارمل تھا اب اس جھنجھناہٹ میں نشہ سا تھا غنودگی نا تھی۔میں نے قدرے شوخی سےکہا س چھوڑو یہ بتاو کیسا لگا پہلا ملن۔۔ وہ جیسے لاج سے دہری ہوگئی اور بولی چپ بدتمیز بے شرم۔۔۔ لو بےشرمی کیسی بتاو۔۔۔ نا ایسے مجھے شرم آتی اس نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپایا۔۔میں اسکی بدلتی جون سے ہنسا اور اٹھ کر شمع گل کر دی۔۔ کمرے میں ہلکا اندھیرا چھا گیا۔میں اسکے پاس گیا ۔۔ ہم دونوں سایوں کی طرح نظر آ رہے تھے لو اندھیرا کر دیا اب بتا دو۔میں اسے ساتھ لٹاتا بولا۔۔ اسکے ہونٹ میرے کانوں کے پاس تھے۔۔وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر بولی بس خاموشی سے سنتے جانا زیادہ سوال نہیں نا اور بولی۔۔۔ بہہہہت مزہ آیا بہت تکلیف بھی ہوئی۔۔۔ہااائے تکلیف کیوں میں نے شرارت سے کہا۔۔وہ شرماکر بولی اتنا بڑا ہوگیا ہے تمہارا اور کتنا کھردرا سا بھی۔۔ اندر تک رگڑ دیا اس نے جب سیل کھولی تو بہت درد ہوا لیکن رسک نہیں لیا جا سکتا تمہارا رس اندر تک لینا تھا۔۔ پتہ ہے جب تمہاری پہلی دھار میرے اندر گری ایسے لگا جیسے گرم زمین پر پہلی بارش۔میری وہ جگہ ایسے سکڑ رہی تھی جب میرا رس نکلا تمہیں جیسے چوس ہی لے اور جب میں ڈسچارج ہوئی تو ایسا نشہ چھایا کہ میں مدہوش ہو گئ۔۔ میرے اندر جیسے آہستہ آہستہ سیرابی کانشہ چھا گیا تھا۔۔بھگوان کا شکر میری حس کام آگئی تم بہت مدہم سانس لے رہے تھے اور سانسیں اکھڑنے کو تھیں اور تمہیں کیسا لگا۔۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ میری زندگی میں آنے والی پہلی عورت ہے اور اسکاجسم اسکا لمس اسکی وحشت نے مجھے پگھلا دیا تھا۔ وہ میری باتیں میری تعریف سن کر شرما رہی تھی میرے ساتھ لگ رہی تھی۔تمہارا بھاری سینہ مجھے بہت اچھا لگتا ۔۔ چپ بےشرم اس نے جھٹ ہاتھ میرے ہونٹوں پر رکھا میں نے ہونٹوں کو گول کیا اور ہتھیلی کو لپس سے بائٹ کی۔۔ آاااہ اس نے سسک کر میرے ہونٹوں کو ہتھیلی سے رگڑ ہی دیا ۔۔میں نے اسے اپنے ساتھ کھینچا اور کہا تمہارا برا سائز کیا وہ جیسے میرے ساتھ چمٹی اسکا نشیلالمس مجھے پگھلانےلگا تھا ہمارے رخسار آپس میں رگڑ کھا رہے تھے امممم چپ اس نے سرگوشی کی ۔۔ نہیں نا بتاو مجھے۔۔میں نے ہاتھ بڑھایا اور اسکے نپل کو ہلکا سا مسلا بتاو نا۔۔وہ کسمسا کر بوجھل آواز سے بولی اڑتیس نمبرہے میرا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ اور بولتا باہر کسی پکھیرو کی چہکارگونجی ۔۔ وہ تڑپ کر اٹھی اور دروازہ کھولا۔۔میرا آخری کام رہتا ہے جس سے پتہ چلے گا علاج ہوا یا نہیں۔۔ پراتھناکرنا میں آتی ہوں تم نے آنا ہے تو آ جانا لیکن چپ دیکھتے رہنا بولنا نہیں پوچھنا نہیں اس نےقدرے سختی سے کہا۔۔ اسکے جانے کے بعد میں تجسس سے اٹھا۔۔ میں نے دیکھا صحن میں ایک طرف برتن میں گیلی مٹی اور چولہے کی راکھ پڑی تھی ۔۔ رات کی بارش نے ادے فل گیلا کر دیا تھا جیسے کیچڑ ٹائپ راکھ اور مٹی اس نے وہ برتن اٹھایا اور ایکطرف جانےلگی۔۔ایک طرف دیسی مٹی کے تندور تھا جسکا منہ ڈھکا ہوا تھا۔۔۔اس نے تندور کا منہ کھولا اور اندر سے ایک جنگلی کبوتر نکالا اور میرے دیکھتے دیکھتے تندور کے پاس دھری چھری سے اسے ایسے ذبح کیاکہ اسکا خون اس کیچڑ سے باہرنا گرا اور پھر پھڑکتے کبوتر کو پھینک کر جلدی سے اس کیچڑ اور خون کو مکس کیا اور اپنی شلوار کو گھٹنوں تک اتار کر اس کیچڑ کے اوپر ایسے بیٹھی کہ اسکی پھدی اور آس پاس کا حصہ کیچڑ سے لگ جاے اور آنکھیں بند کر کے کچھ پڑھتی پھدی کو کیچڑ کے اندر گھمانے لگی۔کچھ وقت کے بعد وہ اٹھی اور ہاتھ سے کیچڑکالیپ پھدی پر کرنےلگی۔۔۔میں اسکی عجیب حرکتیں سمجھ نہیں رہا تھا دماغ تھکانے کی بجائے میں اسے چھوڑ کمرے میں گھسا اور بستر پر جا گرا

دن کافی چڑھ چکا تھا جب میری آنکھ کھلی۔باہر نکلا تو کاجل وہیں اسی تھال ٹائپ برتن میں کیچڑ پر بیٹھی تندور سے ٹیک لگاے سوئی پڑی تھی۔۔میں نے اسے آواز دی وہ ہڑبڑا کر اٹھی اور جلدی سے تھال میں دیکھا سارا کیچڑ خشک ہو چکا تھا وہ اٹھی اور چپ چاپ غسلخانے میں چلی گئی۔۔۔ اگلے کچھ گھنٹے اس کے نہانے ناشتہ بنانے اور دیگر کاموں میں گزرا اور پھر وہ میرے پاس آ کر بولی تمہیں بہت سسپنس ہوگا نا تو سنو۔۔ تھال میں بارش کا خالص پانی۔۔ چکنی مٹی اور صندل کی لکڑی کی راکھ تھی جس پر جنگلی کبوتر کا خون بہایا گیا اور کیچڑ پر اپنی نچلی جگہ اس وقت تک ایسے دبا کر رکھی جب تک وہ سوکھ نا جاے ۔اسکی تاثیر پہلے سیکس اور جوان کنوارے مرد کا رس۔اب اگر مجھے بارہ گھنٹوں میں مینسز ہو گئے تو سمجھو میں ستر فیصد ٹھیک ہو گئی اور اگر ایسا ہو گیا تو یاد رکھنا جیسے تم نے موت کے منہ میں جا کر مجھے صحیح کیا ہے میں کجلا دیوی تمہیں ایسے نوازوں گی کہ تم راج کرو گے ۔۔مجھے کچھ نہیں چاہیے میں نے اسکی بات کاٹی۔۔ نہیں چاہیے ہوگا لیکن میں تمہیں دونگی اپنی مرضی سے تم جانتے نہیں ابھی بھی مجھے میں مندروں کی مقدس کنیہا تھی اور یہ سب میرا علاج تھا ۔۔ میں اپنا سب کچھ تمہیں سونپ دونگی ۔۔۔اور ایسے سونپوں گی کہ تم اپنے سب بدلے پورے کر سکو گے۔۔۔وقت گزرتا گیا شام کے سائے ڈھلتے گئے۔۔رات نو کے آس پاس وقت ہوگا۔۔ کاجل نے سفید شلواراور سیاہ قمیض پین رکھی تھی۔۔ کاجل کا دھیان بٹانے کے لیے میں اسے شہر کی باتیں سنا رہا تھا ج اچانک میری نظر اسکے سفید پاجامےپر پڑی۔۔ وہ گھٹنوں پر سر رکھے کچھ سوچے مجھے سن رہی تھی۔۔ میں نے دیکھا کہ اسکے سفید پاجامے پر اسکی پھدی والی جگہ کے پاس سے چھوٹا سا سرخ نقطہ نمودار ہوا۔۔ اور میرے دیکھتے ہی پھیلتا گیا میں خوشی سے چیخا۔۔ کاجل مینسز ہو رہے ۔۔ کاجل جیسے تڑپی اس نے جھٹ نیچے دیکھا اور بھاگ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ اندر سے بند کر لیا۔۔میں اسکے پیچھے بھاگا۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے آواز آئی ہاں بالی مینسز ہوگئے وہ اندر خوشی سے چلا رہی تھی۔۔ دروازہ کھولو کاجل ۔۔ ننن نہیں اب میں ناپاک ہوں مجھے اب ناپاکی میں کسی دوسرے انسان کو نہیں دیکھنا ۔۔ یہ کیا ہے یار ۔۔تم نہیں سمجھو گے ہمارے ہاں ایسے ہی ہوتا ہے ورنہ ناپاکی کی چھینٹیں بدروحیں پھیل جاتی ہیں۔۔ رسوئی میں سب چیزیں ہیں بس یہ سات دن بمشکل نکال لو۔۔اگلے سات دن میرے لیے گویا عذاب تھے۔۔ کاجل کمرے میں بند رہتی تھی اور میں باہر دروازے کے ساتھ لگ کر اس سے باتیں کرتا رہتا۔۔کھانے کے نام پر اس نے ڈھیر ساری کھیر اور چاول بنا رکھے تھے ساتھ جنگلی پھل۔۔بڑی مشکل سے یہ دن کٹے۔آخری دن رات کو جب ہر طرف اندھیرا چھا گیا کمرے سے کاجل کی آواز آئی تمہارا وعدہ پورا ہوا بالی۔۔تم اب کمرے میں جاو میں کچھ دیر تک آتی ہوں۔۔میں چپ چاپ اپنے کمرے میں کھاٹ پر جا لیٹا۔۔ کچھ گھنٹے بھر بعد اچانک دروازہ کھلا اور کاجل اس حلیے میں اندر آئی کہ میں چونک گیا۔۔ اس نے گیروے رنگ کی سوتی ساڑھی باندھ رکھی تھی اسکے ہاتھ میں ترشول تھا اور گلے میں ایک سانپ جھول رہا تھا سانپ اسکےگلے میں ہار کی طرح لپٹا ہوا تھا۔۔اور اسکی آنکھیں جیس مزید نشیلی سبز۔۔میں اسے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا تھا جب اس کی پرسرار آواز گونجی آو بالک۔۔۔ تمہیں آج کاجل نہیں کجلا دیوی نوازنے آئی ہے اسکے انداز پراسرار تھے


جاری ہے

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں