منحوس سے مہان تک
Episode 2
آمت صبح کی کصرت کر کے اور آکھاڑھے میں پسینہ بہانے کے بعد گھر واپس آ رہا تھا راستے میں اسے راجو مل گیا پور
گاؤں میں راجو ہی آمت کا دوست تھا یا یوں کہیں کہ اکلوتا۔
راجو: جنم دن بہت بہت مبارک ہو میرے یار بھگوان کرے تجھے میری بھی عمر لگ جائے۔
آمت: شکریہ میرے یار، سالے تجھے معلوم تھا کہ آج میرا جنم دن ہے؟
راجو: کیسی بات کرتا ہے سالے مجھے نہیں پتہ ہو گا تو کسے ہو گا، وہ چھوڑ یہ بتا پارٹی کہاں اور کیسے دے گا۔
آمت: ابے تو جو بولے گا جیسے بولے گا ویسے پارٹی کریں گے مگر کل تجھے تو پتہ ہے آج گھر پہ نانا نانی کی برسی ہوتی ہے ان کا شوک مناتے ہیں سب، ایسے میں میرا جنم دن منانا اچھا نہیں لگتا۔
راجو: ٹھیک ہے ٹھیک ہے مگر کل کوئی بہانا نہیں چلے گا
آمت: ہاں ہاں کل پارٹی پکا ویسے بھی ابھی تو چھٹیاں ہیں بول کہاں پارٹی کرنی ہے؟
راجو: گاؤں میں تو کوئی ڈھنگ کی جگہ ہی نہیں ہے میں سوچ رہا تھا کہ کل سینما دیکھنے چلیں شہر میں ادھر ہی کھا پی کہ واپس آ جائیں گے شام تک۔
آمت: ابے سالے مروائے گا کیا تجھے تو پتہ ہے ماں مجھے کہیں نہیں جانے دیتی اور تو شہر جانے کی بات کرتا ہے
راجو: دیکھ بھائی اب تو پلٹی مت مار سال ایک ہی تو دن آتا ہے اس پہ بھی تجھے بہانے سوجتے ہیں میں کچھ نہیں جانتا کل شہر چل رہے تو چل رہے ہیں۔
آمت: یار تو سمجھتا نہیں، ماں سے کیا کہوں گا کیوں جانا ہے شہر
راجو: وہ تو سوچ مجھے کچھ نہیں پتہ
آمت: چل کوئی راستہ نکالتا ہوں مگر اگر ماں نہیں مانی تو پھر کچھ نہیں ہو سکتا پہلے ہی بول دیتا ہوں
راجو: مجھے کچھ نہیں سننا اگر تو مجھے دوست مانتا ہے تو کل توں شہر چلے گا ورنہ میں سمجھوں گا میری قیمت ہی نہیں تیری نظر میں
آمت: ایک جھاپڑ دونگا مونہہ پہ کچھ بھی بکواس کرتا ہے چل میں کچھ کرتا ہوں
راجو: ہی ہی ہی،،،،،، قسم سے یار تو جب غصہ کرتا ہے تو بڑا مزہ آتا ہے
آمت: دوں کیا ایک کان کے نیچے فل مزہ آئے گا
راجو: ابے نی نی پہلوان مجھے ابھی اپنے لئے لڑکی پٹانی ہے توں تو بھرم چاری مریگا مگر مجھے تو شادی کرنی ہے توں میرا اتنا خیال رکھا کر
آمت: چل چل ڈرامے بند کر مجھے ابھی گھر بھی جانا ہے ماں راستہ دیکھ رہی ہوں گی
راجو: چل ٹھیک ہے
پھر دونوں گھر کی طرف چل پڑتے ہیں دونوں کہ پاس میں ہی ہیں۔ تھوڑی دیر میں آمت گھر پہنچ جاتا ہے گھر میں سب تیار بیٹھے تھے اور پنڈت جی کا انتظار کر رہے تھے تینوں بھائی سفید کرتے پاجامے میں تھے آج کہ پنڈت جی سے ہون کرواتے ہیں اپنے ماتا پتا کی آتما کی شانتی کے لیے۔
آمت چپ چاپ گھر میں گھستا ہے اور جلدی سے برآمدے سے سائڈ میں نکل کر سیڑیاں چڑھ کر اپنے روم میں جاتا ہے تیار ہونے، ابھی آکھاڑے کی مٹی اور پسینہ کی بدبو جسم سے آ رہی تھی۔ جلدی سے روم میں جا کر اپنے کپڑے اتار کر باتھ روم میں گھس جاتا ہے اور نہانے کے لیے۔ نہانے کے بعد تولیہ باند کر باہر روم میں آتا ہے سامنے بیڈ پر سفید کرتا اور پاجامہ دیکھ کر سمجھ جاتا ہے کہ یہ ماں نے رکھا ہے آج کے لئے اور کپڑے پہنتا ہے روم سے نکل کر سیدھا ماں کے روم میں جاتا ہے
گوری: آ گیا میرا لال (کہہ کر آمت کو گلے لگا لیتی ہے اور اپنی مامتا کی بارش اس پر کرتی ہے اس کا ماتھا چومتی ہے)
گوری: جگ جگ جیئو میرے لال ہمیشہ خوش رہو تجھے میری بھی عمر لگ جائے جنم دن مبارک ہو۔
آمت: نہیں ماں مجھے آپ کی عمر نہیں چاہیئے مجھے تو آپ کے پاس ساری عمر رہنا چاہتا ہوں
گوری: خوش رہو بیٹا، آج اتنی دیر کہاں لگا دی میں تیری کب سے راہ دیکھ رہی ہوں تجھے تو پتہ ہے آج گھر میں ہون پوجا بھی ہے آج تجھے کیا چاہئیے جنم دن پر
آمت: ارے ماں مجھے سب یاد ہے وہ راستے میں راجو مل گیا تھا تو تبھی تھوڑا لیٹ ہو گیا۔ اور مجھے کچھ نہیں چاہیے سب تو ہے میرے پاس اور کیا چاہیے مجھے
گوری: بیٹا توں آج پورے 18 سال کا ہو گیا ہے کچھ تو تیرے دل میں آتا ہو گا کوئی تو خواہش ہو گی بتا تجھے کیا چاہیے
آمت: نہیں ماں مجھے کچھ نہیں چاہیے بس صرف اور صرف تیرا پیار چاہیے ہمیشہ ہمیشہ
گوری اتنا سن کر پھر سے گلے لگا لیتی ہے آمت کو اور اس کی آنکھیں نم ہو جاتیں ہیں اور دل میں سوچتی کہ بھگوان نے شاہد اسی لیے اسے ماں ماں نہیں بنایا کیونکہ آمت کو میرے لیے ہی تو بھیجا ہے بھگوان نے
گوری: چل جلدی پنڈت جی آنے والے ہیں اپنے بابا اور باقی سب سے مل لے اور سب کا آشیوارد لے لے
آمت: جی ماں میں ابھی جا رہا ہوں
پھر آمت اپنے بابا یعنی وجے شنکر کے پاس جاتا ہے
آمت: بابا پائوں لاگے، آشیوارد دیجیے کہ آپ کا نام روشن کروں
وجے: آ گیا میرا شیر جگ جگ جیو خوب ترقی کرو، تجھے دیکھتا ہوں تو سینہ چوڑا ہو جاتا ہے گرو سے، اس گاؤں میں تو کیا آس پاس کے گاؤں میں میں بھی تمہارے جیسا ہونہار اور سنسکاری لڑکا نہیں
آمت: بابا یہ سب آپ کا اور ماں کا آشیوارد ہے میں جو بھی ہوں یہ سب آپ کی تپسیہ اور آشیوارد ہے
وجے: جیتے رہو بیٹا، بتا کیا چاہیے میرے شیر کو جنم دن پر
آمت: ارے نہیں بابا سب تو ہے میرے پاس اور کیا مانگوں، مجھے کچھ نہیں چاہیے بس آپ میرے سر پر ہاتھ رکھو اور کچھ بھی نہیں چاہیے
وجے: مجھے پتہ ہے تو یہی کہتا رہے گا مگر میں نے جو سوچا ہے وہ ضرور دوں گا
آمت: بابا آپ یوں ہی سوچ رہے ہیں مجھے کچھ نہیں چاہیے
وجے: وہ چھوڑ اور جلدی جا پہلے سب سے مل لے پھر پنڈت جی آنے والے ہیں اور تجھے ہون میں ہمارے ساتھ بیٹھنا ہے
آمت: جی بابا میں ابھی جاتا ہوں
پھر آمت اپنے منجھلے ماما کے پاس جاتا ہے جو ہون کی ویوستا کر رہے تھے
آمت: پائوں لاگے ماما جی
اجے: ارے آ گیا میرا شیر بیٹا جیتے رہو خوش رہو بتا تجھے کیا چاہیے جنم دن پر
آمت: ارے ماما جی بس آپ کا آشیوارد ہی کافی ہے اور کچھ نہیں چاہیے
اجے: ایسے کیسے نہیں چاہیے
اتنا کہہ کر اپنی جیب سے کچھ پیسے نکال کر آمت کی جیب میں ڈال دیتا ہے آمت نہیں کہتا ہے مگر اجے زبردستی پیسے دے دیتا ہے۔ پھر آمت اپنے چھوٹے ماما کملیش کے پاس جاتا ہے جو ابھی اپنے روم میں تھا
آمت: پائوں لاگے ماما جی
کملیش: آ گیا میرا شیر جنم دن مبارک ہو بول آج کیا تحفہ چاہیے تجھے
آمت: ارے ماما جی کیا پہلے کوئی کمی رکھی ہے جو اور کچھ مانگوں
کملیش: ارے اب تو جوان ہو گیا ہے پورے 18 سال کا ہو گیا ہے کیا چاہیے کچھ بھی مانگ لے
آمت: ارے ماما جی کتنا بھی بڑا ہو جاؤں رہوں گا تو آپ کا بچہ ہی
تبھی کملیش کی بیوی یعنی دیپکا مامی آ جاتی ہے اور ہنستے ہوئے کہتی ہے
چھوٹی مامی: آج گاؤں کی ساری لڑکیاں مر ہی جائیں گی ہمارے ہیرو کو دیکھ کر۔ خیر نہیں ہے کسی کی، میں تو کہتی ہوں آج آمت کو گھر سے باہر جانے ہی نہ دینا کیا پتہ کوئی لڑکی اسے دیکھ کر بیہوش ہی ہو نہ جائے، آج تو آپ کو ہی سب گاؤں والے ہی کہیں گے بھانجے کو سنبھال کر رکھو
چھوٹی مامی: ہیپی برتھڈے آمت مینی مینی ہیپی ریٹرنز آف دی ڈے اور تو اپنے ماما کی جیب ڈھیلی کروا دی کھول کر تجھ سے خرچ نہیں ہونگے تو میں کروا دوں گی ہی ہی ہی ہی
آمت: شکریہ مامی جی مگر آپ میری ایسے ہی ٹانگ کھینچتی رہتی ہو لڑکیوں کی بات کر کہ، مجھے نہیں دیکھنا کسی کو۔ اور پیسے میرے پاس پہلے ہی ہیں آپ سب دیتے رہتے ہیں میں خرچ کروں بھی تو کہاں ایسے ہی پڑے رہتے ہیں
چھوٹی مامی: (ہیرانی سے) کیا! تو پیسے خرچ نہیں کرتا اور بدھو ہم تمہیں دیتے ہیں خرچ کرنے کے لیے اور تو ایسے رکھی رہتا ہے۔ چل بچو اب میں تجھے بتاتی ہوں پیسے کیسے خرچ کرتے ہیں، اگلے ہفتے تجھے شہر لے جا کر شاپنگ کرواتی ہوں
کملیش: لے جانا لے جانا اور تجھے جتنے پیسے چاہیے ہوں لے جانا مگر ابھی باتیں چھوڑو پنڈت جی آنے والے ہوں گے جلدی چلو
پھر تینوں روم سے نکل کر برآمدے میں آنے لگتے ہیں تو آمت کامنی مامی سے ملنے کا بول کر انکے روم کی طرف نکل جاتا ہے
روم کا دروازہ کھلا تھا آمت جیسے ہی روم میں گھسنے لگتا ہے اچانک وہ کامنی سے ٹکرا جاتا ہے جس سے کامنی گر جاتی ہے، کامنی کے ہاتھ میں برتن تھے جو اس کے اوپر ہی گر جاتے ہیں اور اس کی ساڑھی گندی ہو جاتی ہے، کامنی اس سب سے غصے میں آ جاتی ہے اور کہتی ہے
کامنی: اندھا ہے کیا دیکھ کر نہیں چل سکتا میرے کپڑے خراب کر دیے کتنی بار کہا ہے صبح صبح اپنی منحوس شکل نہ دیکھایا کر جب بھی سامنے آتا ہے کوئی نہ کوئی نقصان ہو جاتا ہے۔ پتہ نہیں کب پیچھا چھوٹے گا اس منحوس سے
آمت یہ سن کر دکھی ہو جاتا ہے وہ تو آشیوارد لینے آیا تھا اور یہ کیا ہو گیا اسکی اپنی غلطی ہے کیوں اتنی جلدی میں آیا دیکھ آرام سے چلنا چاہیے تھا۔
آمت: مامی جی غلطی ہو گئی معاف کر دیجیے میں تو آشیوارد لینے آیا تھا آج جنم دن ہے میرا۔
کامنی: (غصے سے) غلطی ہو گئی،،،، ارے غلطی تو ہم سے ہوئی ہے جو تجھے گھر لے آئے، زندگی نرک بنا دی ہے توں نے میری، اور کونسا جنم دن کونسا آشیوارد اپنے جنم دن پر ہی اپنے نانا نانی کو اور اپنے ماں باپ کو کھا گیا اور مجھ سے آشیوارد مانگ رہا ہے منحوس کہیں کا
یہ سن کر مانو آمت کا کلیجہ چھلنی ہو گیا جیسے اس کے کانوں میں جلتا ہوا تیل ڈال دیا ہو، اسکی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگتے ہیں موں سے ایک شب نہیں نکلتا، اسکی ٹانگیں مانو اس کا اپنا وزن ہی اٹھانے میں ناکامیاب ہو رہی ہوں اسکا دل کیا کہ ابھی درتھی پھٹے اور وہ اس میں غرق ہو جائے سب باتیں آمت کے الاوہ کسی اور نے بھی سن لیں تھیں جو آمت کے پیچھے ہی آ رہا تھا، وہ تھی آمت کی چھوٹی مامی دیپکا جو کامنی کو لینے آ رہی تھی دراصل اسے پتہ تھا کہ اسے صبح صبح آمت کا چہرہ دیکھنا پسند نہیں آج آمت کا جنم دن ہے وہ اسے کہیں الٹا سیدھا نہ بول دے اور وہی ہوا جو وہ نہیں چاہتی تھی۔ دیپکا بھاگ کر کامنی کو شانت کرواتی ہے
دیپکا: دیدی شانت ہو جائیے پلیز گھر میں ہون ہے پنڈت جی آ گئے ہیں، کسی نے سن لیا تو خوامخواہ گھر کا ماحول بگڑ جائے گا آپ پلیز شانت ہو جائیے۔ آمت تو چل میرے ساتھ اور بھابھی آپ جلدی آئیے باہر
دیپکا جانتی تھی کہ کامنی کی باتیں سن کر آمت کے دل پر کیا بیت رہی ہو گی بیچارہ بنا کسی قصور کے کامنی سے ایسے جلی کٹی سنتا رہتا ہے، مگر فلحال ابھی اسے سنبھالنا ہو گا۔ آمت کو لے کر اپنے روم میں جاتی ہے
دیپکا: آمت چپ ہو جا اب تو چھوٹا بچہ نہیں اب تو جوان ہو گیا ہے۔ کیا اچھا لگتا ہے تیرے جیسے ہٹے کٹے پہلوان کی آنکھوں میں آنسوں ہوں چپ ہو جا
آمت تو بس آنکھوں سے آنسوں بہائے جا رہا تھا موں سے ایک شب نہیں نکل رہا تھا اس کے کانوں میں کامنی کے شب گونج رہے تھے
دیپکا: دیکھ آج تیرا جنم دن ہے اور اس دن بھی کوئی روتا ہے کیا جلدی سے چپ جا اور اپنا حلیہ ٹھیک کر دیدی نے دیکھ لیا تو پتہ نہیں کیا ہو گا پلیز چپ ہو جا
مگر آمت تو جیسے ابھی بھی انہیں شبدوں کے جال میں پھنسا ہوا تھا، اسے چھوٹی مامی کی کوئی بات سنائی ہی نہیں دے رہی تھی پھر دیپکا آمت کو پانی کا گلاس پلاتی ہے
چھوٹی مامی: آمت پلیز کنٹرول یور سیلف اگر دیدی نے دیکھ لیا تو ان کے دل پر کیا بیتے گی، میری نہیں تو کم از کم دیدی کی تو پرواہ کر لے تھوڑی سی۔ کیا بیتے گی ان کے دل پر آپ کو روتا دیکھ کر تجھے دیدی کی قسم چپ ہو جا
اتنا سنتے ہی آمت جیسے نیند سے جاگتا ہے اور اپنے آنسوں پونچھتے ہوئے کہتا ہے
آمت: نہیں مامی جی میں بالکل نہیں روئوں گا ماں کو میں دکھی نہیں دیکھ سکتا وہی تو میرا سب کچھ ہیں
چھوٹی مامی: (تھوڑا ہنستے ہوئے) اچھا،،،،، مطلب میں کچھ نہیں، واہ بھئی واہ ہم تو یوں ہی سمجھ رہے تھے کہ ہم بھی ان کے اپنے ہیں اور وہ ہمیں اجنبی کر گئے
اتنا سنتے ہی آمت کے چہرے پر سمائل آ جاتی ہے وہ جانتا تھا کہ مامی ایسے ہی ہنسی مذاق کرتی ہے سب سے، اس لئے آمت مسکرا کر کہتا ہے
آمت: ایسا مت کہو مامی جی آپ تو میری سب سے خاص ہیں بالکل ایک دوست کی طرح ماں کے بعد آپ ہی تو ہیں جو میرا اتنا خیال رکھتی ہیں
چھوٹی مامی: بس بس مکھن مت جلدی حلیہ ٹھیک کر پنڈت جی آ گئے ہیں جلدی چل ورنہ تیرے ساتھ مجھے بھی ڈانٹ پڑے گی چل جلدی
پھر حلیہ ٹھیک کر آمت اور دیپکا پنڈت جی کے پاس آ جاتے ہیں جو سب سے پہلے ہی بیٹھے تھے کامنی کو چھوڑ کر
گوری: ارے چھوٹی کامنی کہاں رہ گئی ہے اسے جلدی بلا تو پوجا شروع ہونے والی ہے
اتنے میں کامنی بھی آ جاتی ہے پنڈت جی ہون کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اس کے ساتھ ہی آمت سر درد کا بہانا بنا کر اپنے روم میں چلا جاتا ہے سونے
جاری ہے،،،،،،،
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں