Baazigar
Episode 1
بڑی مشکل سے میں نے اپنا زخمی پاوں گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔۔ گرمی کی شدت اور جلتا صحرا۔
دور دور تک بیابان۔۔ زخموں سے رستا خون اور چکراتا سر۔۔۔ہونٹ جیسے پیاس سے پھٹنے کو تھے۔۔۔اور ان سب سے بڑھ کر بھری دنیا میں اکیلے رہ جانے کا غم ۔
ابھی کچھ دن پہلے میری زندگی خوشیوں سے گلزار تھی۔۔ اور اب میں اس حالت میں تھا کہ مجھے خود اپنے بچنے کی امید نظر نہیں آ رہی تھی۔سامنے اونچے نیچے مٹی کے ٹیلے میری آخری امید تھے کہ شائد ان ٹیلوں کے پیچھے آبادی ہو اور میں دو گھونٹ پانی پی سکوں۔
اپنی تمام ہمتیں جمع کر کے بڑی مشکل سے میں ٹیلے پر چڑھ اوردوسری طرف ویسا ہی اجاڑ بیابان دیکھ کر میں بے ساختہ نیچے بیٹھتا چلاگیا۔
میرا سر بری طرح چکرا رہا تھا میں لڑکھڑایا اور وہیں ٹیلے پر گرتا چلا گیا۔
جانے کتنا وقت گزر گیا جب کچھ آوازیں میرے کانوں میں پڑیں جیسے کوئی کسی کو بلا رہا ہو میں نے ہمت کر کے آنکھیں کھولیں تو یہ کوئی کچی جھونپڑی تھی جسکی چھت بانسوں کے سہارے کھڑی تھیمیں نے بےساختگی سے اٹھنے کی کوشش کی تاکہ میں جائزہ لے سکوں میں کہاں ہوں مجھے ڈر تھا کہیں میں اپنے دشمنوں کے ہاتھ نا آ گیا ہوں۔
اس کوشش میں میرےجسم سے جیسے ٹیس اٹھی ہو اور بے ساختہ میرے لبوں سے کراہ نکلی ۔۔۔چند لمحوں بعد جھونڑی کا دروازہ کھلا اور ایک پچاس ساٹھ سالہ بابا جس نے صرف لنگی باندھی ہوئی تھی اندر داخل ہوا اور مجھے جاگتے دیکھ کر تیزی سے میری طرف لپکا۔۔ اور میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔ میں کہاں ہو میرے ہونٹوں سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نکلے۔۔۔ تم محفوظ ہو پریشان نا ہو ۔
بوڑھے نے مسکرا کر کہا۔اتنا بولنےسے ہی میری سانس پھول سی گئی اور میں دوبارہ اندھیروں میں گرتا گیاجانےکتنےوقت کے بعد میری آنکھ دوبارہ کھلی میں اسی کمرے میں تھا لیکن اب میرے جسم پر سوتی کھیس پڑا ہوا تھا۔۔۔ میں نے لیٹے لیٹے نظریں گھما کر جھونپڑی کا جائزہ لیا۔اور ایک کونے میں لکڑی کی کارنس پر دھری مورتی دیکھ کر چونک گیا یعنی میں کسی ہندو کے گھر تھا۔
کچھ دیر انتظار کےبعد میں ہمت کر کے چارپائی سے اترا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا باہر کو نکلا خلاف توقع میں کافی حد تک چست تھا ۔۔ یہ ایک صحرائی جھونپڑی ٹائپ کچا گھر تھا۔۔ بڑا سا صحن جو مٹی سے لیپ ہوا تھا دو کمرے اور دور تک بیابانی۔۔ خلاف توقع باہر کوئی انسان نظر نا آیا میں چلتا ہوا ایک طرف بنے مویشیوں کے باڑے ٹائپ احاطے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ مجھے کتوں کے غرانے کی آواز آئی جیسے ہی میں نے پلٹ کر دیکھا تو میری جان جیسے حلق میں اٹک گئی وہ دو جسیم کتے تھے جنکی باہر لٹکتی زبانیں اور سرخ آنکھیں مجھ پر ہی جمیں تھیں ۔
اس سے پہلے کہ میں بھاگتا ایک نسوانی آواز آئی رے چھورے بھاگنا نہیں ۔
میں نے پلٹ کر دیکھا تو گھاگھرے میں ملبوس ایک تیس پینتس سالہ خاتون نظر آئیں۔
اسکےبعد اس خاتون نے کتوں کی طرف دیکھا اور نامانوس سے کچھ الفاظ بولے ۔۔۔ کتے وہیں سکون سے زمین پر بیٹھ گئے لیکن انکی نظریں ابھی تک مجھ پر جمیں تھیں۔
چلو آو جانے کس وقت وہ میرے پاس آئی اور مجھے آنے کا کہا میں کسی معمول کی طرح اسکے پیچھے چلتا کمرے کی جانب بڑھا۔۔ وہ مجھے لیے لیے ایک طرف بنے کچن میں لے آئی کچن کیا تھا گویا مٹی کا چولہا ۔۔ خشک لکڑیاں کچھ مٹی کے پیالے اور ایک گدا ٹائپ دری۔
بھوک لگی ہے کیا تیرے کو ۔۔ جیسے ہی اس نے پوچھا مجھے احساس ہوا مجھے بھوک تو ہے لیکن اتنی نہیں جتنی ہونی چاہیے ۔
میں نے سر ہلایا تو اس نے ایک پیالے میں مجھے کھیر ٹائپ کوئی چیز دی ۔۔میں نے ڈرتے ڈرتے چمچ بھراتو وہ کوئی دیسی دلیہ ٹائپ چیز تھیذائقہ کافی اچھا تھا۔
چائے پیو گے اسی خاتون نے مجھ سے دوبارہ پوچھا ۔۔ ہمممم میں نے ہنکارہ بھرا۔
اسکے چہرے پر ایک مسکان سی آئی ۔۔۔وہیں اس نے لکڑیاں چولہے میں رکھیں اور آگ جلا چائے بنانے لگی۔
میں نے اسکا جائزہ لیا اس نے بازووں میں رنگ برنگی چوڑیاں چڑھا رکھیں تھیں گلے میں کچھ تسبیح ٹائپ ہار اور ہاتھوں میں دیسی نگوں والی انگوٹھی۔
وہ چائے بنا کر میرے پاس آ کر بیٹھی اور بولی تمہارا نام کیا ہے ۔ممیرا نام بلال ہے میں نے اٹکتے ہوئے کہا۔
مجھے کاجل کہتے ہیں ۔۔
میں ادھر کیسے آیا میں نے کچھ دیر کی چپ کے بعد پوچھا۔
تم بابا کو زخمی حالت میں ٹیلوں کے پاس ملے تھے۔۔ وہ تو شکر ہے بابا سانپوں کی تلاش میں آج ادھر کو گیا تھا ورنہ اسطرف تو کوئی آتا جاتا نہیں۔۔۔اس سے مجھے پتہ چلا میں اندرون سندھ کے کچے میں ہوں ۔
اس جھونپڑی میں کاجل اسکا سسر رام لال ہی رہتے تھے۔۔۔ وہ ہندو تھے اور شکاری کتے سانپ اور باز پالتے تھے۔۔باہر سے آئے مہمانوں کے شکار کے لیے رام لال بطور گائیڈ کام کرتا تھا مزید اسکے پالے شکاری جانور شکار میں مدد کرتے تھے۔
سانپوں کو پالنا اسکی خاندانی نشانی تھی۔۔ وہ انکا زہر نکال کر بھی بیچتا تھا۔۔ اسی میں انکی گزر بسر ہوتی تھی۔
ابھی کہاں گیا تمہارا بابا۔
وہ تو گیا کچھ مہمانوں کےساتھ۔۔ جانےکب آئے۔۔۔۔ اور تم یہاں اکیلی ڈر نہیں لگتا۔
میری اس بات پر وہ ہنسی اور کہا کیسا ڈر بابو۔۔ چار ٹانگوں والے جناور تو ہمارے کتوں کے ڈر سے آتے نہیں اور دو ٹانگوں والوں کے لیے میں سمجھو ناگن ہوں ۔
اس نے عجیب سے لہجے میں کہا۔۔۔ اسکی آنکھیں گہری سبز تھیں بہت پراسرار سی آنکھیں۔
میں جیسے مسمرائز سا ہو گیا ۔۔ تمہاری عمرکیا ہے پڑھتے ہواس نے نام پوچھنے کے بعد دوسرا سوال کیا۔
خلاف توقع اس نے میری حالت کے برعکس غیر متوقع سوال کیا۔
میری عمر سولہ سال ہے اور میں میٹرک کے پیپرز کے بعد فری ہوں۔
اس نے گہری نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا مجھے پتہ تھا تم ضرور آو گے ۔
کک کیا مطلب میں نے حیرت سے کہا۔۔ تم نہیں سمجھو گے ابھی لیکن سمجھ جاو گے ۔
اسکی پرسرار نظریں گویا مجھے اور الجھا رہیں تھیں۔
جانے یہ اسکی مسمرائز کرتی آنکھوں کا اثر تھا یا میرے اندر کی گھٹن میں از خود اسے بتاتا گیا۔
میرا نام بلال ہے۔۔۔ ہم حیدر آباد میں رہتے ہیں۔۔۔میرے ماما بابا کی ڈیتھ کے بعد مجھے میرے بڑے بھائی جلال نے پالا ۔
جلال بھائی کارگو کا کام کرتے تھے اور اندرون و بیرون ممالک سامان بھجواتے تھے ۔
یہ کام بابا نے شروع کیاتھا۔۔۔ جلال بھائی میرے لیے ماں باپ بہن دوست بھائی سب کچھ تھے۔
وہ مجھ سے پورے چودہ سال بڑے تھے۔۔۔۔انہوں نے نا صرف بابا کا کام سنبھالا بلکہ میرا بھی ہر قدم پر خیال رکھا۔
سب ہنسی خوشی چل رہا تھا کہ ایڈک آ گیا۔۔۔ ایڈک کا تعلق روس سے تھا ۔۔۔۔ وہ روس اور اسکے گرد ریاستوں میں مارکیٹنگ کرتا تھا۔۔ اسی سلسلے میں جلال بھائی اور ایڈک کی ملاقات ہوئی اور پھر گہرا دوستانہ۔
ایڈک نے جلال بھائی کو جیسے بدل سا دیا تھا ۔۔ یہ نہیں تھا کہ وہ مجھ پرتوجہ نہیں دیتے تھے لیکن وہ اندر سے بدل سے گئے تھے۔۔ ڈرنک بھی کرنے لگ گئے تھے اس بات کا اندازہ مجھے اس دن ہوا جب میں اچانک آفس گیا۔
دفتر کے باہر بابا لڈن بیٹھے ہوئے تھے میں نے بھائی کا پوچھا تو انہوں نے عجیب سے لہجے میں کہا اندر ہی ہیں صاحب میں جیسے ہی اندر داخل ہوا آفس میں کوئی نا تھا میں تھوڑا آگے بڑھا تو میٹنگ ہال سے بھائی کے بلند قہقہے کی آواز سنائی دی ۔
میں نے طریقے سے ہال میں جھانکا تو جلال بھائی اپنی کرسی پر بیٹھے سرمئی سیال سے بھرے گلاس کو چڑھا رہے تھے ۔۔ انکے سامنے دھرے صوفے پر ایڈک بھی چسکیاں لے رہا تھا میں ابھی اسی حیرت میں تھا کہ میں نے دیکھا میٹنگ ہال کے واش روم کا دروازہ کھلا ۔۔۔ اور اندر سے میڈم نگہت نکلیں۔
میڈم نگہت ہماری ریسپشنسٹ تھیں انکی عمر کچھ چھبیس ستائیس کے آس پاس ہوگی۔۔ وہ مطلقہ یا شائد بیوہ تھیں اور انکا ایک ہی بیٹا تھا۔۔میڈم نگہت کے بال کھلے ہوئے تھے اور انکے شانوں پر دوپٹہ بھی نہیں تھا۔
وہ تو بہت سادہ سی خاتون تھیں۔۔ انہوں نے انتہائی چست کپڑے پہن رکھے تھےمیں انکا حلیہ اور اندر کا حال دیکھ کر حیران رہ گیا۔
میڈم چلتے چلتے بھائی کی کرسی کے پاس آئیں اور میز پر بیٹھتے ہوئے بھائی سے کہنے لگیں ۔
اففف جلال ڈارلنگ کب تک سوکھی شراب پیو گے شباب کب چھکنا۔۔ انہوں نے بھائی کی طرف جھکتے ہوئے اپنے ٹائٹ اور کھلے سے جھلکتے بوبز کو ہلاتے ہوے کہا۔
یہ سب میرے لیے حیرت انگیز تھا۔۔۔میرے لیے جلال بھائی کا یہ روپ ششدر کر دینے والا تھا۔
وہ تو نہت اچھے کردار کے مالک تھے۔۔ ابتک انہوں نے شادی نہیں کی تھی اگر انہیں عورت کی اتنی ہی ضرورت تھی تو شادی کر لیتے۔۔میں وہاں سے پریشان حالت میں چلتا ہوا واپس آیا۔
بابا کے دفترمیں کل چار ملازم تھے ۔۔۔ جن میں دو خواتین تھیں ۔
میڈم نگہت اور میڈم رخشی۔۔۔ میڈم رخشی بابا کے پرانے ورکر کی بیٹی تھیں اور ابھی بیس سال کی ہی تھیں انکی ساری فیملی ہمارے لیے مخلص تھی۔۔ انکے علاوہ ایک باہر کے کام کرنےوالا لڑکا ماجد اور لڈن بابا تھے۔
لڈن بابا کی عمر پچاس کے پیٹے میں ہوگی اور وہ شروع سے بابا کے ساتھ تھے۔۔۔ میرا ذہن بار بار میڈم نگہت کے ایسے بدلے روپ کو سوچے جا رہا تھا۔۔۔واپس گھر آ کر بھی میں انہی سوچوں میں گم رہا۔۔ میرےدسویں کے پیپرز ہونے والے تھے ۔
سولہواں سال شروع ہو چکا تھا۔زندگی پورے رنگوں کے ساتھ کھلتی جا رہی تھی۔۔ اوائل جوانی کے ولولے۔۔لیکن میں زیادہ سوشل نہیں تھا سکول میں بس میرا ایک ہی دوست تھا راحیل ۔۔۔سکول نے ہمیں فری کر دیا تھا۔
رات گئے کہیں بلال بھائی واپس آئے منحوس ایڈک انکے ساتھ ہی تھا۔۔ میں نے سوچ لیا کہ اس معاملے کو مزید سرچ کروں گا۔
اگلے دن میں پہلی فرصت میں راحیل کے گھر گیا۔۔۔راحیل اس وقت سویا ہوا تھا دروازہ نادیہ بھابھی نے کھولا ۔۔ یہ راحیل کی چچا زاد اور بڑے بھائی کی بیگم تھیں۔
سلام دعا کے بعد میں اندر گیا اور راحیل کو اٹھا کر جلدی سے باہر آنے کا کہتا واپس صحن میں جہاں نادیہ بھابھی صحن میں جھاڑو لگا رہیں تھیںمیرا ذہن ابھی تک کل والی بات میں ہی اٹکا ہوا تھا جیسے کوئی سلو موشن مووی چلتی نظر آئے۔
بھائی کا ڈرنک کرنا میڈم نگہت کا سیکسی انداز میں چلتے آنا اور اپنے بوبز کو چھلکانا۔۔۔ بھائی کا اسکے سینے پر منہ مارنا۔اس وقت میں شاک کے عالم میں تھا لیکن اب مجھےتھوڑی مستی سی محسوس ہوئی۔
میرا سولہواں سال تھا ۔۔ مرد و زن کے درمیان رنگینیوں کا آہستہ آہستہ علم اور احساس ہو رہا تھا۔۔ میں نگہت میڈم اور بھائی کا انکے بوبز کو چومنا سوچ رہا تھا جب اچانک میری نظر نادیہ بھابھی پر پڑی وہ جھک کر جھاڑو لگا رہیں تھیں اور انکے قدرے کھلے گلے سے انکا شباب دور تک نظر آ رہا تھا ۔
مجھے جیسے جھٹکا لگا میں نے نظریں ہٹائیں اور ادھر ادھر دیکھنے لگا لیکن میری زندگی کا پہلا زنانہ نظارہ مجھے دوبارہ انہیں چوری چوری دیکھنے پر مجبور کر گیا میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ دوبارہ دیکھا ۔
اب وہ کوڑا اکھٹا کر کے اسے شاپر میں ڈال رہیں تھیں۔وہ گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی اور انکے بوبز گھٹنے کے دباو سے باہرکو ابلے ہوئے تھے۔
میں اسی نظارے میں کھویا ہوا تھا جب اچانک میری نظر نادیہ بھابھی کی نظروں سے ملی وہ میری طرف ہی دیکھ رہیں تھیں اورانکے چہرے پر شوخی والی مسکراہٹ تھی کیا دیکھ رہے ہو انہوں نے مجھ سے اچانک پوچھا۔
کک کچھ نہیں میں نے گھبرا کر کہا میں ذرا راحیل کو دیکھ لوں اٹھا کہ نہیں کہتا وہاں سے بھاگامیرے برعکس راحیل کافی گھومنے پھرنے والا لڑکا تھا۔
اسے کافی سارے دوست اور واقفیت تھی۔۔اکثر اوقات وہ فارغ وقت میں کیرم بورڈ کھیلتا تھا اور گلی کی نکڑہوٹل میں اکثر کیرم کھیلتے پایا جاتا تھا سمجھیں چلتا پرزہ تھا۔۔ہم دونوں گھر سے نکل کر اسی ہوٹل کی چھت پر آ بیٹھے۔
ایک دو لوگ کیرم کھیل رہے تھے ہم دونوں ان سے الگ ایکطرف بیٹھ گئے۔۔ میں نے راحیل سے اپنا مسلہ شئیر کیا جسے سنتے ہی راحیل کھلکھلا کر ہنسا اور کہا یہ بات بس ۔
ارے یار کیاہوا جو بلال بھائی تھوڑا مستی کر رہےتھے۔۔ اور سب آفسز میں سیکرٹری کا مالک سے تقریبا ٹانکاہوتا ہے تم چھوڑو ان سب کو ۔۔اور مجھے بتاو تم نے میڈم نگہت کو ننگے دیکھا تھا کیا۔
میں غصے سے تپ کر بولا بہت فضول ہو تم شرم کرو لیکن وہ ہنستا گیا۔۔ آخر میری رونی صورت دیکھ کر اس نے وعدہ کیا کہ وہ اس معاملے میں سنجیدگی سے میری مدد کرے گاراحیل سے الگ ہوکر جب میں گھر پہنچا تو جلال بھائی سٹنگ لاونج میں بیٹھے ہوئے بہت خوش خوش کسی سے فون پر بات کر رہے تھے۔۔۔ خوشی جیسے انکے چہرے پر کھل رہی تھی۔
مجھے دیکھ کر انہوں نے اشارے سے پاس بلایا اور ساتھ بٹھا لیا۔۔۔ کچھ دیر بعد فون رکھا اور مجھے کہنے لگے بلال آج میں بہت خوش ہوں کافی وقت سے میری خواہش تھی کہ اپنے کام کو بڑھاوں اب مجھے زبردست کام ملا ہے۔ایڈک کی کمپنی کا سارا کام میری کارگو کمپنی کرے گی۔۔ نجانے کیوں مجھے کام میں ترقی کی خبر سنکر خوشی سے زیادہ عجیب سی گھبراہٹ ہوئی۔
وہ اپنی دھن میں بول رہے تھے۔۔ میں کچھ دنوں کے لیے بیرون ملک بزنس ٹور پر جانا ہے ایک برانچ بھی باہر بنانے کا ارادہ ہے۔۔۔میں ظاہرا انکی خوشی میں خوش ہوا لیکن میرا دل کہیں اندر عجیب اضطراب میں تھا۔
کچھ دنوں بعد جلال بھائی کی فلائٹ تھی ۔۔یہ بھائی کے جانے کے کچھ دن بعد کی بات تھی۔۔یہ اتوار کا دن تھا اور بھائی نے مجھے فون کیا۔۔ سلام دعا کےبعد کہنے لگے چھٹی کی وجہ سے انہوں نے ملازمین کو تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور مجھے دفتر سے کچھ ڈاکومنٹس لیکر انہیں سکین کرکے بھائی کو بھیجنے کا کہا۔
میں گھر سے نکلا اور راحیل کو ساتھ لیتا ہوا بھائی کے دفترپہنچا۔۔۔ جب ہم دونوں دفتر پہنچے تو سہ پہر ہونے والی تھی۔۔جب ہم دفترپہنچے تو مجھے ایسے لگا جیسے دفتر میں کوئی ہے اندر کون ہو سکتا تھا۔۔ میں تو سیدھا اندر گھسنے لگا تھا لیکن راحیل نے مجھے اشارے سے روکا اور عمارت کی پچھلی سائیڈ پر لے آیا۔
پچھلی طرف تنگ سی گلی تھی اور کاٹھ کباڑ پڑا ہوا تھا۔۔ بڑی احتیاط سے ہم دونوں پچھلی دیوار سے چڑھ کر فرسٹ فلور پر آئے اور اپنے آفس کی پچھلی جانب سے گھوم کر دیکھنے لگے اندر جانے کے لیے شائد کوئی کھڑکی کھلی مل جاے ۔
میرا دل گھبرا رہا تھا لیکن راحیل کی سنگت کی وجہ سے میں مضبوط دل سے آگے بڑھتا گیا۔۔خوش قسمتی سے پچھلی طرف والی ایک کھڑکی کھلی مل گئی ہم دونوں دبے پاوں اندر گھسے۔ گیسٹ روم کی لائٹ جل رہی تھی ۔
میں نے کی ہول سے اندر جھانکا تو مجھے حیرت کا جھٹکا لگااندر ماجد اور میڈم نگہت تھے انکے سامنے میز پر سفید نمک جیسی چھوٹی چھوٹی تھیلیاں پڑی ہوئیں تھیں اور دوسری طرف کافی نوٹوں کی گڈیاں۔
دونوں بلکل ساتھ جڑ کر بیٹھے آپسی باتیں کر رہے تھے۔۔۔ اچانک ماجد اٹھا اور باہر کو آنے لگا میں نے جلدی سے راحیل کا ہاتھ پکڑا اور پیچھے بنے سٹور روم میں گھس گیا۔
ماجد شائد کچن سے کچھ لینے آیا تھا ۔۔۔کچھ دیر بعد جب باہر سکون ماحول ہوا تو میں اور راحیل دبے پاوں باہر نکلے اب خوش قسمتی سے گیسٹ روم کا دروازہ تھوڑا سا کھلا تھا۔۔ اندر سے آوازیں واضح آ رہیں تھیں میں نے محتاط انداز میں جھانکا ماجد کی میری طرف کمر تھی اور وہ سگریٹ پی رہا تھا جبکہ میٍڈم اسکے سامنے بیڈ پر بیٹھی تھیں۔اندر سے میڈم کی آواز آئی میں ابھی تک اندر سے سہمی ہوئی ہوں ماجد ۔
اگر ہم پکڑے گئے تو ساری عمر جیل کی ہوا کھانی۔۔ اسکی بات سن کر ماجد ہنسااور نوٹوں کی ایک گڈی کو سونگھتے ہوئے بولا ۔۔۔ میری جان پریشان کیوں ہوتی دیکھو اتنے پیسے ۔۔بس چند ماہ اور کر لیں گے تو دونوں چپکے سے نکل جائیں گے دور جہاں کوئی ہمیں جانتا نا ہو ۔۔۔ پھر بھی ماجد دیکھو تمہارے لیے میں کتنا خطرہ لیا۔
جلال سر کو اپنے جسم کا لالچ دیا ۔۔ آفس کے سارے پیپرز کو کاپی کیا اور تو اور آفس کارگو میں ہیروئن بھیجی ۔۔۔ تمہیں ایڈک پر اعتماد تو ہے نا۔۔۔ ارے میری بلبل کیوں پریشان ہوتی ہو ماجد نے نگہت کو اپنی طرف کھینچا۔
ایڈک صاحب جوہر شناس بندے ہیں ان سے ملکر دنوں میں کروڑ پتی ہونگے ہم۔۔۔ بس تم جلال صاحب کو کچھ دن اور جلوے دکھاو۔۔ماجد کی کریہہ آواز ہم دونوں سن رہے تھے۔۔۔ اور ہاں صرف جلوہ دکھانا ہے ۔
بہت پاس نہیں آنے دینا سمجھی نا۔ ورنہ ۔۔۔ یہ سن کر نگہت کھلکھلا کر ہنسی اور کہا بے فکر رہو جانو انہیں میں ایک حد تک رکھتی ہوں ۔۔میرےجسم پر بس تمہارا ہی لمس لگے گا۔
یہ سنتے ہی ماجد نے سگریٹ بجھایا اور نگہت کو بیڈ پر گراتا اس کے اوپر لیٹ گیا۔۔۔ہم دونوں ساکت انکی حرکات دیکھ رہےتھے۔۔ ماجد نگہت کےاوپر لیٹا ہوا اسکے ہونٹ چوس رہا تھا۔ ماجد کے بہکتے ہاتھوں نے ہمارے دیکھتے دیکھتے نگہت کو کپڑوں سے آزاد کر دیا۔میڈم کا چمکتا بدن اب بیڈ پر بچھا تھا۔
انکی گوری بانہیں اور سڈول ٹانگیں۔۔۔میرا دماغ پھٹنے کو تھا ۔۔ میں وہاں سے ہٹا اور راحیل کو آنے کا اشارہ کرتے ہوئے واپسی مڑا۔۔۔کچھ دس منٹ بعد راحیل بھی لوٹ آیا۔ میں نے اسے گھرکا اور کہا اتنی دیر کہاں رہ گئےتھے ارےیار اس آفت کو دیکھ رہا تھا اس نے لوفرانہ انداز میں کہا۔۔۔ میں نےاسے گھرکا ۔
واپسی جاتے ہوئے میری ذہنی حالت دیکھتےہوے وہ مجھے اپنے گھر لے گیا۔۔۔اور ہم دونوں رات تک اسی موضوع پر بات کرتے رہے۔۔۔حالات کی سنگینی نے مجھے بھلا دیا تھا کہ مجھے بھائی نے کام کہا تھا۔جب مجھے یاد آیا تب بھائی سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
وہ رات میں راحیل کے گھر رہا۔اگلے دن میں نے جیسے ہی بھائی کے دیے نمبر پر رابطہ کیا آگے سے بتایا گیا کہ مسٹر جلال ہوٹل چھوڑ کر جا چکے ہیں۔مجھےتسلی ہوئی کہ بھائی واپس آ رہے ہیں چلو آمنے سامنے بات ہوگی۔۔لیکن اگلے دو دن گزر گئے جلال بھائی کا کسی قسم کا رابطہ نا ہوا۔پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔
خدا خدا کر کے انتظار ختم ہوا اور ایک رات گئے جلال بھائی تھکے ہارے واپس آئے۔۔۔ جب میں ان سے ملا تو مجھے لگا جیسے وہ ذہنی طور پر بہت الجھے ہوئےہوں میں نے انہیں اور الجھانا مناسب نا سمجھا اور اپنا علم کل ظاہر کرنےکا فیصلہ کیا۔۔ کاش کاش میں اس رات انہیں سب بتا دیتا۔
اگلی صبح جب میری آنکھ کھلی تو بھائی آفس جا چکے تھے میں ان کے آنے کا انتظار نہیں کر سکتا تھا میں بھی دفتر کو روانہ ہوا۔۔۔ گرمیوں کی دوپہر ہر طرف سناٹا جب میں دفتر پہنچا خلاف توقع باہر لڈن انکل نہیں تھے۔میں اندر داخل ہوا تو میٹنگ ہال سے بلند آوازیں باہر تک آ رہیں تھیں۔
ایسے لگ رہا تھا بھائی جیسے کسی پر چلا رہے ہوں۔۔ میں نے عقلمندی کی اور میٹنگ ہال جانے کی بجاے بھائی کے آفس گیا اور ادھر سے میٹنگ ہال کی طرف جانےوالے اندرونی دروازے سے ہال میں جھانکا۔۔۔ سامنے ماجد ایڈک اور نگہت تھے ۔
جلال بھائی اونچی آواز میں چلا رہے تھے ۔۔ انکی آواز آئی میں ابھی پولیس کو کال کرتا ہوں تم لوگ قومی مجرم ہو ۔۔ بھائی جیسے ہی فون کی طرف لپکے اچانک ایڈک نے میز پر پڑا ہوا پیپر ویٹ اٹھا کر بھائی کو مارا۔۔ وزنی پتھر سے بنا پیپر ویٹ بھائی کی کنپٹی سے لگا ۔
جلال بھائی چکرائے اور سنبھلے تھے کہ ایڈک کی آواز بلند ہوئی ماجڈ kill him۔۔۔میں جیسے سکتے میں تھا۔۔ ماجد نے ایڈک کی بات سنتے ہی پیچھے سے بھائی کو جکڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے فروٹ باسکٹ سے چھری اٹھائی اور بھائی کے سینے میں گھونپ دی۔۔۔ خون کا فوارہ نکلا اور اسکے ساتھ دو چیخیں بلند ہوئیں۔
پہلی چیخ میڈم نگہت کی تھی جبکہ دوسری چیخ میری نکلی۔۔ جیسے ہی میری چیخ بلند ہوئی ایڈک اور ماجد چونکے ادھر دیکھو کون ہے ایڈک نے انگریزی میں چلا کر ماجد سے کہا ۔۔میں وہاں سے بھاگا ۔
لیکن بدقسمتی سے میں چوہے دان میں پھنس چکا تھا۔۔بند آفس میں تھوڑی دیر بعد میں لمبے تڑنگے ایڈک کے سامنے پڑا تھا۔میرے دونوں ہاتھ بندھے پڑے تھے ۔
میرا جسم ایڈک کی بیلٹ سے پڑنے والی مارسے ٹیسیں مار رہا تھا۔۔۔ میرےمنہ میں کپڑے کا گولہ تھا تاکہ میں چیخ نا سکوں۔۔۔اور ایڈک جانے فون پر کس زبان میں کس سے بات کر رہاتھا۔
کچھ دیر فون کرنےکے بعد ایڈک نے میرے غوغاں سے چڑ کر مجھے پورے زور سے ٹھڈا مارا۔ تھوڑی دیر بعد ماجد بھی اندر آیا اور میری طرف دیکھ کر بولا۔
سر جی اس کا کیا کرنا ہے۔۔ ایڈک کچھ دیرسوچتا رہا اور کہا کرنا کیا ہے۔۔۔ تم انسپکٹر ٹوکے کو بلایا ہے وہی اسکا حل نکالے گا۔۔۔ ٹوکے کانام سنتے ہی میں مصیبتوں کا مارا جیسے لرز سا گیا۔
انسپکڑ ٹوکا اپنی رشوت خوری جعلی مقابلوں کی وجہ سے پورے شہر میں مشہور تھا۔۔ جانےکتنا وقت گزر گیا۔۔ میں بےحس پڑا تھا ایسے لگتا تھا جیسے باہر مکمل رات چھا چکی تھی۔
میری آنکھیں رو رو کر سوج چکیں تھیں۔۔ میراسب کچھ میرا بڑا بھائی میرے سامنے قتل ہوچکا تھا۔۔جانے رات کا کونسا پہر تھا جب باہر قدموں کی آواز آئی ماجد اور اسکے ساتھ ایک خوفناک صورت والا بندہ ۔
ان دونوں نے مجھے اپنے ڈنڈا ڈولی کیا اور دفتر کی سیڑھیوں کے ساتھ لگی ایک پولیس وین میں اس زور سے پھینکا کہ مجھے لگا جیسے میری کوئی ہڈی ضرور ٹوٹ گئی ہے۔
وین کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔گاڑی جانے کن راستوں پر رواں دواں تھی ۔۔۔ میں ننگے فرش پر کبھی ادھر لڑھکتا کبھی ادھر۔۔۔ کوئی گھنٹہ بھر کے بعد گاڑی رکی۔
اور کسی نے دروازہ کھولا۔۔ اور کسی مویشی کی طرح مجھے گھسیٹ کر باہر کھینچا۔
باہر ویرانے کا منظر تھا۔۔۔ پولیس وین کے پیچھے ایک پوٹھوہارجیپ کھڑی تھی۔ جیپ سے ایک بھاری بھرکم پٹھان نکلا اور مجھے لانےوالےسے پرجوش انداز میں گلے ملا۔
مجھےلانے والا پٹھان سے کہنے لگا یہ لو خان صاحب اصلی پلاہوا شہری لونڈا۔۔۔اسے پارکرنے کا حکم تھا ٹوکا صاحب کا۔۔۔ لیکن مجھے آپکا خیال آ گیا۔
اسے لیجاو دو چار دن عیش کرو بڑا چکنا لؤنڈا ہے جب دل بھر جائے تو پار کر دینا یاد سے۔۔۔ اسکی بات سن کر آنے والا پٹھان اونچی آواز میں ہنسا اور جیپ سے ایک بوتل ولایتی شراب پولیس والےکو دی اور کہا بے فکر رہو تمہیں اس عیاشی کا جلد ہی انعام ملےگا۔
پولیس والے نے بوتل پکڑی اور ہنستا ہوا گاڑی چلا یہ جا وہ جا۔
جاری ہے
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں